جانوروں کے تحفظ کے نام پر کام کرنے والی اکثر این جی اوز رجسٹر ہی نہیں

لاہورمیں جانوروں کے لیے کام کرنے والی صرف 3 این جی اوز ہی رجسٹرڈ ہیں


آصف محمود July 05, 2021
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے افراد کےخلاف کارروائی کریں فوٹو: فائل

پاکستان میں جہاں انسانوں کی فلاح کے نام پر سیکڑوں این جی اوز کام کررہی ہیں وہیں اب پالتو اور جنگلی جانوروں، پرندوں کے حقوق کے لیے بھی کئی تنظمیں اورافراد کام کررہی ہیں، یہ این جی اوز اورافرادپالتوجانوروں خاص طورپر کتے، بلیوں، گدھوں اورگھوڑوں کوریسکیوکرنے اورانہیں شیلٹرمہیاکرنے کے لئے ملکی اورغیرملکی سطح پر ڈونیشن جمع کرتی ہیں تاہم تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جانوروں کی ویلفیئرکے نام پرکام کرنے والی زیادہ تراین جی او حکومت سے رجسٹرڈہی نہیں ہیں۔

سوشل میڈیا پران دنوں درجنوں ایسے پیج اورویب سائٹس نظرآتی ہیں جو پالتوجانوروں خاص طورپر زخمی کتوں، بلیوں، گدھوں اورگھوڑوں کوریسکیوکرنے اوران کے علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے کے دعوے کررہی ہیں اوراس کے لئے ملکی اور غیرملکی سطح پرفنڈز جمع کرتی ہیں،سوشل میڈیاپرموجود زیادہ تراین جی اوز نے دفاترکی جگہ اپنے گھروں کا ایڈریس اور فنڈز جمع کرنے کے لئے اپنے ذاتی اکاؤنٹ نمبر شیئر کر رکھے ہیں۔

لاہور میں زخمی پالتوجانوروں کوریسکیواورشیلٹر فراہم کرنے والی این جی او جے ایف کے کی سربراہ ضوفشاں نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہورمیں صرف تین این جی اوز رجسٹرڈ ہیں۔ انہوں نے اپنے پالتو کتے کی ڈاگ کلنگ اسکواڈ کے ہاتھوں موت کے بعد یہ این جی او بنائی تھی ۔ وہ اپنی فیملی اوردوستوں کی معاونت سے یہ شیلٹرہوم اورریسکیو کا کام کررہی ہیں ،لاہور میں یہ واحد این جی او ہے جس کے پاس زخمی جانوروں کو ریسکیو کرنے کے لئے ایمبولینس بھی موجود ہے۔ ان کے تمام اکاؤنٹس ڈونرزکے لئے اوپن ہیں اوروہ ان کا باقاعدہ آڈٹ کرواتی ہیں۔

اسی طرح اسی طرح ٹی ڈبلیو ایس اور گیویث لائف اینمیل ویلفیئر کے نام سے این جی اوز رجسٹر ہیں۔ گیوایٹ لائف اینیمل ویلفیئر کی مینجنگ ڈائریکٹرعنیزہ خان اوران کی بہن عافیہ خان نے اپنے گھر کو ہی گلیوں میں گھومنے والے کتوں اوربلیوں کے شیلٹرہوم میں تبدیل کررکھا ہے، ان کے گھر کے صحن اورچھت پر کتوں اوربلیوں کے آرام کے لئے جگہیں بنائی گئی ہیں اور وہ دن رات ان کی دیکھ بھال اورعلاج میں مصروف رہتی ہیں۔ عنیزہ خان نے بتایا کہ وہ کوشش کررہی ہیں کہ شہری آبادی سے باہرکوئی شیلٹرہوم بنایاجاسکے تاہم اس کے لئے کافی فنڈز درکارہیں ابھی تو وہ اہل خانہ اور دوستوں کے تعاون سے ہی یہ کام کررہی ہیں۔

مقامی این جی اوز کے علاوہ لاہورمیں چند بین الاقوامی این جی اوز کے دفاتر بھی ہیں جن میں ڈبلیوڈبلیوایف اور بروک ہسپتال فاراینمل شامل ہے جبکہ سرکاری سطح پرایس پی سی اے (سوسائٹی برائے انسدادبے رحمی حیوانات) کام کررہی ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیاپرایسے درجنوں پیج اورویب سائٹس موجود ہے جہاں زخمی جانوروں اورپرندوں کی تصاویرشیئرکرکے مقامی اورغیرملکی سطح پرڈونیشن لی جاتی ہیں ۔ یہ لوگ چند ایک جانوروں اورپرندوں کے ساتھ تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر شیئرکرتے ہیں اورپھرڈونیشن مانگتے ہیں۔

اینیمل ویلفیئراورریسکیوکے حوالے سے کام کرنیوالی عنیزہ خان کہتی ہیں جس طرح ہیومن ویلفیئرکے نام پربعض افرادجعلی اورڈمی این جی اوز بناکر فنڈزجمع کرتے ہیں اسی طرح کی شکایات اینیمل ویلفیئرکے حوالے سے بھی آرہی ہیں، یہ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے افراد کےخلاف کارروائی کریں ۔

دوسری طرف فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے ) کے ذرائع بے بتایا کہ سوشل میڈیا پر جعلی این جی او بناکراگرکوئی فرد ملکی اورغیرملکی سطح پر عطیات جمع کرتا ہے تو ایسے افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاسکتی ہے جس طرح انسانی فلاح کے لئے کام کرنے والی این جی او کے ملنے والے فنڈز کی متعلقہ محکمے جانچ کرتے ہیں اسی طرح جانوروں اور پرندوں کے حقوق کے لئے کام کرنیوالی این جی اوز کوبھی چیک کیاجاتا ہے لیکن اگرکوئی شخص اپنے ذاتی اکاونٹ میں عطیات منگواتا ہے توپھر ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔

ذرائع کے مطابق ابھی تک جانوروں اورپرندوں کی ویلفیئر اوران کے علاج کے نام پر عطیات ذاتی اکاونٹس میں منگوانے والے کسی فرد کے خلاف کوئی ایسا کیس یاشکایت سامنے نہیں آئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔