پاکستان میں پہلی بار اسپائن انجری گھوڑے کاکامیاب علاج
تھارو بریڈ نسل کے اس قیمتی گھوڑے کواس مالک نے گولی مارنے کا فیصلہ کرلیا تھا
پاکستان میں پہلی بار پولوکے دوران زخمی ہونے والے انتہائی قیمتی اوراعلی نسل کے گھوڑے کاکامیاب علاج کیا گیا ہے۔
لاہور کے ویٹرنری ڈاکٹر نے پاکستان میں پہلی بار پولوکے دوران گرنے سے اسپائن انجری کاشکارہونیوالے انتہائی قیمتی اوراعلی نسل کے گھوڑے کاکامیاب علاج کیاہے،مالک نے زخمی گھوڑے کوگولی مارنے کافیصلہ کیاتھا تاہم محکمہ انسدادبے رحمی حیوانات لاہورکے ویٹرنری آفیسرڈاکٹرطلحہ سجاد نے گھوڑے کاعلاج کرکے اسے تندرست کرنے کا کارنامہ سرانجام دیاہے۔
ڈاکٹر طلحہ سجاد کے مطابق پولو کھیلتے ہوئے گھوڑا پھسل گیا اور گرنے سے اس کا پچھلا دھڑ مفلوج ہوگیا تھا۔ اس گھوڑے کی مالیت 15 لاکھ روپے سے زائد ہے۔ تھارو بریڈ اعلی نسل کے اس قیمتی گھوڑے کواس مالک نے گولی مارنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن انہوں نے اس گھوڑے کے علاج کی یقین دہانی کروائی جس پر اسے گھوڑے کے علاج کی اجازت مل گئی۔ دوماہ کے علاج سے گھوڑا تندرست ہوگیا اوراس نے پہلے کی طرح دوڑنا شروع کردیا تھا۔ ان کے مطابق گھوڑے کے علاج کے لئے انہوں نے سوسال پرانی پلی استعمال کی ہے جو برطانوی دورمیں بنائی گئی تھی اور کئی دہائیوں سے محکمہ انسدادبے رحمی حیوانات کے سٹور روم میں پڑی تھی۔ پلی سے مراد لوہے کا بنا ہوا ایک ایسا فریم ہے جس میں گھوڑے کو بیلٹوں کی مدد سے باندھ کر کھڑا کیا جاتا ہے اور اس کاوزن ٹانگوں پر نہیں پڑتا۔
ڈاکٹرطلحہ سجاد کہتے ہیں یہ ان کے لئے ایک منفرد تجربہ تھا،انہوں نے رائل کالج آف ویٹرنری یوکے سے تعلیم حاصل کی تھی اور وہاں انہیں یہ طریقہ بتایا گیا تھا۔ اس گھوڑے پرانہوں نے یہی طریقہ استعمال کیا ۔پہلے چندروز تک اس کی پچھلی ٹانگوں کی ہاتھوں سے مدد سے ورزش کی جاتی رہی اور پٹھوں کا مساج کیاجاتا تھا،اس کے ساتھ ساتھ پٹی کی جاتی اور کچھ ادویات دی گئیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ انہیں اس میں کامیابی ملی اور مفلوج گھوڑا اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔ رائل کالج آف ویٹرنری یوکے نے بھی ان کی کامیابی کو سراہاہے۔
ڈاکٹرطلحہ سجاد نے بتایا انہوں نے ناصرف پاکستان میں پہلی بارمفلوج گھوڑے کاکامیاب علاج کیا ہے بلکہ ایک گدھے کے ٹوٹے ہوئے گھٹنے کابھی پہلی بارکامیاب آپریشن کیاگیاہے۔ گدھے کے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ کرباہرنکلی ہوئی تھی جسے بغیرکسی سٹیل راڈ کے دوبارہ جوڑا گیا اور گدھا ٹھیک ہوگیا۔
ڈاکٹرطلحہ سجاد جہاں اپنی اس کامیابی پرخوش ہیں وہیں انہیں اس بات کا افسوس بھی ہے کہ جس گھوڑے کا دوماہ کی محنت سے کامیاب علاج کیاگیا تھا وہ دوبارہ دوڑنا تو شروع ہوگیا لیکن اچانک ہارٹ اٹیک سے اس کی موت ہوگئی ،یہ ان کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے تاہم زخمی گدھا جس کاعلاج کیا گیا تھا وہ ایک این جی او کے پاس ہے اورتندرست حالت میں ہے۔
پاکستانی ویٹرنری ڈاکٹردنیابھرمیں اپنی مہارت اورکامیابیوں کے جھنڈے گاڑرہے ہیں لیکن پاکستان میں ان کی صلاحتیوں سے فائدہ نہیں اٹھایاجاتا ہے۔ محکمہ انسدادبے رحمی حیوانات میں لائے جانے والے زخمی اوربیمارجانوروں کا علاج توہوتا ہے لیکن ان کے پاس ادویات کے لئے ایک روپیہ نہیں ہے۔ گھوڑے کوہارٹ اٹیک ہونے کی ایک وجہ بھی یہ تھی کہ اسے علاج کے بعد وہ ادویات نہیں دی جاسکیں جن سے اس کی قوت مدفعلت بڑھائی جاسکتی تھی۔یہاں لوگ زخمی جانوروں کولیکرآتے ہیں لیکن ہمارے پاس ادویات ہی نہیں ہیں، جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنیوالی مختلف این جی اوز اگریہاں کوئی زخمی اوربیمارجانوربھیجتی ہیں تو وہ اس کے علاج کے ادویات بھی دیتی ہیں جبکہ عام شہریوں کو ادویات کے اخراجات خود برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
لاہور کے ویٹرنری ڈاکٹر نے پاکستان میں پہلی بار پولوکے دوران گرنے سے اسپائن انجری کاشکارہونیوالے انتہائی قیمتی اوراعلی نسل کے گھوڑے کاکامیاب علاج کیاہے،مالک نے زخمی گھوڑے کوگولی مارنے کافیصلہ کیاتھا تاہم محکمہ انسدادبے رحمی حیوانات لاہورکے ویٹرنری آفیسرڈاکٹرطلحہ سجاد نے گھوڑے کاعلاج کرکے اسے تندرست کرنے کا کارنامہ سرانجام دیاہے۔
ڈاکٹر طلحہ سجاد کے مطابق پولو کھیلتے ہوئے گھوڑا پھسل گیا اور گرنے سے اس کا پچھلا دھڑ مفلوج ہوگیا تھا۔ اس گھوڑے کی مالیت 15 لاکھ روپے سے زائد ہے۔ تھارو بریڈ اعلی نسل کے اس قیمتی گھوڑے کواس مالک نے گولی مارنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن انہوں نے اس گھوڑے کے علاج کی یقین دہانی کروائی جس پر اسے گھوڑے کے علاج کی اجازت مل گئی۔ دوماہ کے علاج سے گھوڑا تندرست ہوگیا اوراس نے پہلے کی طرح دوڑنا شروع کردیا تھا۔ ان کے مطابق گھوڑے کے علاج کے لئے انہوں نے سوسال پرانی پلی استعمال کی ہے جو برطانوی دورمیں بنائی گئی تھی اور کئی دہائیوں سے محکمہ انسدادبے رحمی حیوانات کے سٹور روم میں پڑی تھی۔ پلی سے مراد لوہے کا بنا ہوا ایک ایسا فریم ہے جس میں گھوڑے کو بیلٹوں کی مدد سے باندھ کر کھڑا کیا جاتا ہے اور اس کاوزن ٹانگوں پر نہیں پڑتا۔
ڈاکٹرطلحہ سجاد کہتے ہیں یہ ان کے لئے ایک منفرد تجربہ تھا،انہوں نے رائل کالج آف ویٹرنری یوکے سے تعلیم حاصل کی تھی اور وہاں انہیں یہ طریقہ بتایا گیا تھا۔ اس گھوڑے پرانہوں نے یہی طریقہ استعمال کیا ۔پہلے چندروز تک اس کی پچھلی ٹانگوں کی ہاتھوں سے مدد سے ورزش کی جاتی رہی اور پٹھوں کا مساج کیاجاتا تھا،اس کے ساتھ ساتھ پٹی کی جاتی اور کچھ ادویات دی گئیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ انہیں اس میں کامیابی ملی اور مفلوج گھوڑا اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔ رائل کالج آف ویٹرنری یوکے نے بھی ان کی کامیابی کو سراہاہے۔
ڈاکٹرطلحہ سجاد نے بتایا انہوں نے ناصرف پاکستان میں پہلی بارمفلوج گھوڑے کاکامیاب علاج کیا ہے بلکہ ایک گدھے کے ٹوٹے ہوئے گھٹنے کابھی پہلی بارکامیاب آپریشن کیاگیاہے۔ گدھے کے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ کرباہرنکلی ہوئی تھی جسے بغیرکسی سٹیل راڈ کے دوبارہ جوڑا گیا اور گدھا ٹھیک ہوگیا۔
ڈاکٹرطلحہ سجاد جہاں اپنی اس کامیابی پرخوش ہیں وہیں انہیں اس بات کا افسوس بھی ہے کہ جس گھوڑے کا دوماہ کی محنت سے کامیاب علاج کیاگیا تھا وہ دوبارہ دوڑنا تو شروع ہوگیا لیکن اچانک ہارٹ اٹیک سے اس کی موت ہوگئی ،یہ ان کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے تاہم زخمی گدھا جس کاعلاج کیا گیا تھا وہ ایک این جی او کے پاس ہے اورتندرست حالت میں ہے۔
پاکستانی ویٹرنری ڈاکٹردنیابھرمیں اپنی مہارت اورکامیابیوں کے جھنڈے گاڑرہے ہیں لیکن پاکستان میں ان کی صلاحتیوں سے فائدہ نہیں اٹھایاجاتا ہے۔ محکمہ انسدادبے رحمی حیوانات میں لائے جانے والے زخمی اوربیمارجانوروں کا علاج توہوتا ہے لیکن ان کے پاس ادویات کے لئے ایک روپیہ نہیں ہے۔ گھوڑے کوہارٹ اٹیک ہونے کی ایک وجہ بھی یہ تھی کہ اسے علاج کے بعد وہ ادویات نہیں دی جاسکیں جن سے اس کی قوت مدفعلت بڑھائی جاسکتی تھی۔یہاں لوگ زخمی جانوروں کولیکرآتے ہیں لیکن ہمارے پاس ادویات ہی نہیں ہیں، جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنیوالی مختلف این جی اوز اگریہاں کوئی زخمی اوربیمارجانوربھیجتی ہیں تو وہ اس کے علاج کے ادویات بھی دیتی ہیں جبکہ عام شہریوں کو ادویات کے اخراجات خود برداشت کرنا پڑتے ہیں۔