خونچکاں منظر نامہ
اگر طالبان حکومت سے مخلص اور سنجیدگی کا تقاضے کرتے ہیں تو انھیں خود بھی اس معیار پر پورا اترنا چاہیے
NEW DELHI:
کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب پاکستان کے کسی شہر یا قصبے میں دہشت گردی کی واردات نہ ہوتی ہو' اتوار کو بنوں اور پیر کو راولپنڈی میں پاک فوج کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا' منگل کو چاروں صوبوں میں پولیو ٹیموں پر حملے ہوئے جس کے نتیجے میں پولیو مہم بند ہو گئی ہے' اسی روز لاہور میں ممتاز شاعر اور ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید کو گولیاں ماری گئیں' خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے لیکن زخمی ہو کر اسپتال میں پڑے ہیں' اسی روز بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایران سے کوئٹہ آنے والی زائرین کی بس پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں خواتین اور بچوں سمیت 28 افراد جاں بحق اور 32 زخمی ہو گئے.
خاصے دنوں کے وقفے کے بعد ایک بار پھر بلوچستان کی ہزارہ منگول کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد اور فرقہ پرست گروپوں کا نیٹ ورک پوری طرح قائم ہے اور وہ پوری تیاری کے ساتھ اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بدھ کو بھی دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں' خیبر پختونخوا میں چار سدہ کے سر ڈھیری بازار میں پولیس وین کے قریب دھماکا ہوا' جس میں چھ پولیس اہلکار اور ایک بچہ جاں بحق ہوا' یوں دہشت گردی کی اس واردات میں 7 افراد جاں بحق ہوئے' یہ پولیس اہلکار پولیو ٹیم کی سیکیورٹی کے لیے سرڈھیری جا رہے تھے۔ اسی روز مستونگ میں ہی دہشت گردوں نے لیویز اہلکاروں پر فائرنگ کی جس سے چھ لیویز اہلکار جاں بحق ہو گئے۔
یہ وہ خون آلود منظر نامہ ہے جو وطن عزیز کے شہریوں کے سامنے موجود ہے' اس میں دکھ اور المیے کی بات یہ ہے کہ حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آ رہی۔ حکمران دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد مذمتی بیان جاری کرتے اور جاں بحق ہونے والوں کے لیے امدادی رقم کا اعلان کرتے ہیں' اس کے بعد وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ اور صوبائی وزرائے اعلیٰ تک مختلف سیمیناروں' اجلاسوں اور پریس کانفرنسوں میں ملکی ترقی کے نعرے بلند کرتے نظر آتے ہیں یا پھر طالبان سے مذاکرات کی باتیں کر کے فارغ ہو جاتے ہیں۔ چاروں صوبوں کی حکومتیں بھی یہی طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں' سب ہتھیار بند گروہوں سے امن کی بھیک مانگنے میں مصروف ہیں۔
رہ گئیں اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں تو ان میں تحریک انصاف کے قائد عمران خان تو سوائے مذاکرات کے کوئی بات ہی نہیں کرتے' مولانا فضل الرحمن' سید منور حسن بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں' حتیٰ کہ اے این پی بھی مذاکرات کی ہی بات کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائد بلاول بھٹو زرداری اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین دہشت گردوں کے خلاف سخت ایکشن کی بات کر رہے ہیں لیکن وہ بھی محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہی کرتے نظر آتے ہیں دوسری جانب آل پارٹیز کانفرنس میں ان جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے تھی' اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے' حالات انتہائی سنگین ہو گئے ہیں۔ گزشتہ روز پاک فوج کو شمالی وزیرستان میں کارروائی پر مجبور ہونا پڑا۔ حکومت کو بھی اس کارروائی کی حمایت کرنی پڑ رہی ہے حالانکہ وہ تو ان حالات کے باوجود مذاکرات کے آپشن پر غور کرتی رہی ہے۔ سانحہ راولپنڈی کے بعد وفاقی کابینہ کا جو اجلاس ہوا اس میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا تھا۔
حکومت اور کالعدم تحریک طالبان دونوں تاریخی موقعے سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں' اب ایسا لگتا ہے کہ مذاکرات کی کہانی ختم ہونے والی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمے داری کس پر ہو گی؟ حکومت کے بارے میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ابہام کو ختم نہیں ہونے دیا' کسی گروہ سے اگر مذاکرات ہو بھی رہے تھے تو وہ درپردہ تھے' حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ مذاکرات کے عمل کو اوپن رکھتی' جن لوگوں نے حکیم اللہ محسود یا کالعدم تحریک طالبان کے کسی اور لیڈر سے رابطہ کیا' ان کے ناموں سے قوم کو آگاہ رکھا جانا چاہیے تھا لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا' اس طرح اگر کالعدم تحریک طالبان مذاکرات پر سنجیدہ تھی تو اسے بھی اپنے عمل سے سنجیدگی ثابت کرنی چاہیے.
اگر طالبان حکومت سے مخلص اور سنجیدگی کا تقاضے کرتے ہیں تو انھیں خود بھی اس معیار پر پورا اترنا چاہیے' یہ کہنا کہ حکومت ڈرون حملے بند کرائے یا یہ طعنہ دینا کہ حکومت آزاد نہیں ہے' بہانہ تراشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کالعدم تحریک طالبان نے اپنی کارروائیاں ترک نہیں کیں' حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے سے قبل ہی طالبان نے میجر جنرل ثناء اللہ نیازی پر حملے کی ذمے داری قبول کی تھی' اب بھی وہ مسلسل کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس منظر نامے سے حکومت اور سیاسی قیادت سے زیرکی' معاملہ فہمی' تدبر اور جرات کی جو توقع تھی' بدقسمتی سے وہ بھی پوری نہیں ہو سکی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سارا ملک لہولہان ہے' عام اور بے گناہ انسان مارے جا رہے ہیں جب کہ حکمران اپنے محفوظ گھروں میں بیٹھے بیانات جاری کر رہے ہیں۔ حکومت اور ملک کی وہ سیاسی قیادت جو طالبان سے مذاکرات کی حامی ہے' انھیں موجودہ حالات سے نکلنے کے کوئی راہ نکالنی چاہیے۔
کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب پاکستان کے کسی شہر یا قصبے میں دہشت گردی کی واردات نہ ہوتی ہو' اتوار کو بنوں اور پیر کو راولپنڈی میں پاک فوج کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا' منگل کو چاروں صوبوں میں پولیو ٹیموں پر حملے ہوئے جس کے نتیجے میں پولیو مہم بند ہو گئی ہے' اسی روز لاہور میں ممتاز شاعر اور ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید کو گولیاں ماری گئیں' خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے لیکن زخمی ہو کر اسپتال میں پڑے ہیں' اسی روز بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایران سے کوئٹہ آنے والی زائرین کی بس پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں خواتین اور بچوں سمیت 28 افراد جاں بحق اور 32 زخمی ہو گئے.
خاصے دنوں کے وقفے کے بعد ایک بار پھر بلوچستان کی ہزارہ منگول کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد اور فرقہ پرست گروپوں کا نیٹ ورک پوری طرح قائم ہے اور وہ پوری تیاری کے ساتھ اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بدھ کو بھی دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں' خیبر پختونخوا میں چار سدہ کے سر ڈھیری بازار میں پولیس وین کے قریب دھماکا ہوا' جس میں چھ پولیس اہلکار اور ایک بچہ جاں بحق ہوا' یوں دہشت گردی کی اس واردات میں 7 افراد جاں بحق ہوئے' یہ پولیس اہلکار پولیو ٹیم کی سیکیورٹی کے لیے سرڈھیری جا رہے تھے۔ اسی روز مستونگ میں ہی دہشت گردوں نے لیویز اہلکاروں پر فائرنگ کی جس سے چھ لیویز اہلکار جاں بحق ہو گئے۔
یہ وہ خون آلود منظر نامہ ہے جو وطن عزیز کے شہریوں کے سامنے موجود ہے' اس میں دکھ اور المیے کی بات یہ ہے کہ حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آ رہی۔ حکمران دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد مذمتی بیان جاری کرتے اور جاں بحق ہونے والوں کے لیے امدادی رقم کا اعلان کرتے ہیں' اس کے بعد وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ اور صوبائی وزرائے اعلیٰ تک مختلف سیمیناروں' اجلاسوں اور پریس کانفرنسوں میں ملکی ترقی کے نعرے بلند کرتے نظر آتے ہیں یا پھر طالبان سے مذاکرات کی باتیں کر کے فارغ ہو جاتے ہیں۔ چاروں صوبوں کی حکومتیں بھی یہی طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں' سب ہتھیار بند گروہوں سے امن کی بھیک مانگنے میں مصروف ہیں۔
رہ گئیں اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں تو ان میں تحریک انصاف کے قائد عمران خان تو سوائے مذاکرات کے کوئی بات ہی نہیں کرتے' مولانا فضل الرحمن' سید منور حسن بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں' حتیٰ کہ اے این پی بھی مذاکرات کی ہی بات کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائد بلاول بھٹو زرداری اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین دہشت گردوں کے خلاف سخت ایکشن کی بات کر رہے ہیں لیکن وہ بھی محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہی کرتے نظر آتے ہیں دوسری جانب آل پارٹیز کانفرنس میں ان جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے تھی' اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے' حالات انتہائی سنگین ہو گئے ہیں۔ گزشتہ روز پاک فوج کو شمالی وزیرستان میں کارروائی پر مجبور ہونا پڑا۔ حکومت کو بھی اس کارروائی کی حمایت کرنی پڑ رہی ہے حالانکہ وہ تو ان حالات کے باوجود مذاکرات کے آپشن پر غور کرتی رہی ہے۔ سانحہ راولپنڈی کے بعد وفاقی کابینہ کا جو اجلاس ہوا اس میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا تھا۔
حکومت اور کالعدم تحریک طالبان دونوں تاریخی موقعے سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں' اب ایسا لگتا ہے کہ مذاکرات کی کہانی ختم ہونے والی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمے داری کس پر ہو گی؟ حکومت کے بارے میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ابہام کو ختم نہیں ہونے دیا' کسی گروہ سے اگر مذاکرات ہو بھی رہے تھے تو وہ درپردہ تھے' حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ مذاکرات کے عمل کو اوپن رکھتی' جن لوگوں نے حکیم اللہ محسود یا کالعدم تحریک طالبان کے کسی اور لیڈر سے رابطہ کیا' ان کے ناموں سے قوم کو آگاہ رکھا جانا چاہیے تھا لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا' اس طرح اگر کالعدم تحریک طالبان مذاکرات پر سنجیدہ تھی تو اسے بھی اپنے عمل سے سنجیدگی ثابت کرنی چاہیے.
اگر طالبان حکومت سے مخلص اور سنجیدگی کا تقاضے کرتے ہیں تو انھیں خود بھی اس معیار پر پورا اترنا چاہیے' یہ کہنا کہ حکومت ڈرون حملے بند کرائے یا یہ طعنہ دینا کہ حکومت آزاد نہیں ہے' بہانہ تراشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کالعدم تحریک طالبان نے اپنی کارروائیاں ترک نہیں کیں' حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے سے قبل ہی طالبان نے میجر جنرل ثناء اللہ نیازی پر حملے کی ذمے داری قبول کی تھی' اب بھی وہ مسلسل کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس منظر نامے سے حکومت اور سیاسی قیادت سے زیرکی' معاملہ فہمی' تدبر اور جرات کی جو توقع تھی' بدقسمتی سے وہ بھی پوری نہیں ہو سکی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سارا ملک لہولہان ہے' عام اور بے گناہ انسان مارے جا رہے ہیں جب کہ حکمران اپنے محفوظ گھروں میں بیٹھے بیانات جاری کر رہے ہیں۔ حکومت اور ملک کی وہ سیاسی قیادت جو طالبان سے مذاکرات کی حامی ہے' انھیں موجودہ حالات سے نکلنے کے کوئی راہ نکالنی چاہیے۔