بے چارہ خریدار۔۔۔جائے تو جائے کہاں۔۔۔
جس ملک کے حکمران بیرونی دوروں پہ کروڑوں خرچ کرنا پیدائشی اور قانونی حق سمجھتے ہوں وہاں عام آدمی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مملکت خداداد پاکستان جس کا وجود 27 رمضان کو وجود میں آیا تھا۔ اس کی تمام خیر و برکت صرف جاگیرداروں اور سیاست دانوں کے لیے تھی۔ ویسے بھی یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ بھارت میں جاگیرداری اور زمینداری ختم ہوگئی لیکن خیر سے ہمارے وطن میں اب تک اس کی نشوونما جاری ہے۔ سرمایہ داری، صنعت کاری اور نفرتوں کی آبیاری بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ کسی بھی تجارت میں جب سرمایہ دار کو گھاٹے کا امکان نظر آتا ہے تو وہ ملازمین کی چھانٹی شروع کردیتا ہے کیونکہ اس کا اولین مقصد منافع کمانا ہوتا ہے۔ صنعتیں بند ہوں یا مصنوعات کی قیمتوں میں من مانا اضافہ ہو، اس کا انحصار مالکان کی مرضی و منشا پر ہوتا ہے۔ وہ جب چاہیں کسی بھی پروڈکٹ کی قیمت من مانے طور پر بڑھانے کے لیے آزاد ہوتے ہیں کیونکہ انھیں نہ کوئی چیک کرسکتا ہے، نہ ہی روک سکتا ہے۔
یہ بھی اپنے شجرہ نسب کے لحاظ سے حکمرانوں اور سیاست دانوں سے قریب ہوتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ یہی وہ بااثر لوگ ہیں جن کی دولت کے بل بوتے پر الیکشن میں کروڑوں روپے کے بینرز اور قد آدم تصاویر شاہراہوں پہ آویزاں کیے جاتے ہیں۔ حکومتیں بننے کے بعد یہ کاروباری حضرات اپنا منافع دس گنا زیادہ وصول کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔۔۔۔ پس ثابت ہوا کہ ہم سب بنیوں میں پھنس گئے ہیں۔۔۔۔یعنی فائدہ دکاندار کا اور نقصان صرف اور صرف خریدار کا۔۔۔۔اس ملک میں صارف کے حقوق کا خیال کبھی نہیں رکھا گیا، پنج وقتہ نمازی دکاندار دھڑلے سے ایکسپائری ڈیٹ کی دوائیں اور کھانے پینے کی اشیا خریدار کو تھما دیتا ہے۔ حقیقت سے واقفیت پر جب ایک شہری شکایت لے کر دکاندار کے پاس واپس آتا ہے تو مالک یا سیلز مین اس کی توجہ اس بورڈ کی طرف دلاتا ہے۔ جس پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے۔۔۔۔ ''خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا''۔۔۔۔یہ اس قوم کا حال ہے۔ جس کے لیے رسول خداؐ نے فرمایا ہے کہ ''بیچنے سے پہلے اپنے مال کا نقص خریدار کو بتا دو۔''
چلیے! آج ہم صارفین کے حقوق اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر بات کرتے ہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنے دیجیے کہ جو بے ایمانیاں اور بے انصافیاں صارفین کے ساتھ تواتر کے ساتھ ہو رہی ہیں ۔ سرمایہ دار ان کا تحفظ کرتا ہے، نہ کہ صارف کا۔۔۔۔گویا ہم واقعی۔۔۔۔''دکانداروں کی قوم ہیں''۔۔۔۔کسی دکاندار سے خیر کی توقع عبث ہے۔ ایک بہت اہم مثال پیش خدمت ہے ،شروع شروع میں SMS فری تھا، آہستہ آہستہ اس پر رقم کاٹی جانے لگی۔ اسی طرح ابتدا میں 100 روپے کے پری پیڈ کارڈ پر پانچ روپے ٹیکس کاٹا جاتا تھا جو اب 25 روپے تک جا پہنچا ہے۔۔۔۔ ایک اور بات، آپ فون کریں یا نہ کریں لیکن ٹیکس کی مد میں ایک مخصوص رقم ضرور کاٹی جائے گی۔۔۔۔اور تو اور اب ''مس کال'' پہ بھی رقم کاٹی جا رہی ہے۔
دو تین مثالیں ان قریبی لوگوں کے تلخ تجربات کی جو پچھلے دنوں انھیں بھگتنے پڑے۔
ایک فیملی نے کراچی کی پرانی ڈینسو ہال مارکیٹ سے ایک گیس روم ہیٹر خریدا، دکاندار جس کو گٹکا منہ میں لے کر بولنے کی عادت تھی، نہایت چرب زبانی سے وہ روم ہیٹر یہ کہہ کر فروخت کیا کہ گجرانوالہ کا بنا ہوا ہے، کسی بھی قسم کی خرابی کی ذمے داری کمپنی پر ہے۔ کسی بھی بڑی خرابی کی صورت میں دکاندار صارف کو پوری رقم واپس کرنے کا ذمے دار ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔گھر آکر خاتون خانہ نے پلمبر کو بلوا کر جب گیس ہیٹر لگوایا تو اس کا صرف PILOT جل رہا تھا۔ باقی سب خاموشی تھی۔ صاحب خانہ نے دکاندار کو فون کرکے صورت حال سے آگاہ کیا تو اس نے کہا کہ۔۔۔۔کل کسی وقت دکان پہ واپس لے آئیں۔ جب اس سے ''فری ہوم سروس'' کے بارے میں پوچھا گیا تو ڈھٹائی سے بولا کہ۔۔۔۔اگر مال کراچی کا بنا ہوتا تو یہ ممکن تھا۔۔۔۔بہرحال دوسرے دن صاحب خانہ گلستان جوہر سے مزید 300 روپے خرچ کرکے ہیٹر واپس کرنے گئے تو انھیں یہ کہہ کر واپس کردیا گیا کہ۔۔۔۔رقم تو واپس نہیں ہوگی، البتہ تین چار دن بعد اسے ٹھیک کروا کے دے دیا جائے گا۔۔۔۔لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔
آنے جانے کے 600 روپے الگ غارت ہوئے۔ چار دن بعد بمشکل رقم حاصل کی گئی۔ (جس کی تفصیل بہت تکلیف دہ ہے)۔۔۔۔پھر یہی فیملی کسی کے مشورے پر سپر ہائی وے (واٹرپمپ) مارکیٹ سے ایک برانڈڈ کمپنی کا بنا ہوا گیس ہیٹر، ایک سال فری ہوم سروس اور وارنٹی کے ساتھ گھر لائی۔۔۔۔لیکن ہائے ری قسمت کہ وہ بھی جل کے نہ دیا۔ اس کی گیس لائن ہی سرے سے بند تھی۔۔۔۔!!۔۔۔۔دکاندار کا کہنا تھا کہ کراچی میں پہلی بار سردی پڑی ہے۔ اس لیے کمپنی نے کوالٹی چیک کیے بغیر گیس ہیٹر مارکیٹ میں پھینک دیے۔ جس کی سزا خریدار کو بھگتنا تھی۔ مزے کی بات یہ کہ دکان میں رکھے بقیہ گیس ہیٹر بھی ٹھیک نہ تھے۔ گویا اب کوالٹی کنٹرول آفیسر کا کوئی وجود کمپنیوں میں نہیں ہے۔ سارا خسارہ صرف خریدار کے حصے میں آتا ہے۔
جس ملک کے حکمران بیرونی دوروں پہ کروڑوں خرچ کرنا اپنا پیدائشی اور قانونی حق سمجھتے ہوں وہاں عام آدمی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اس کی کسے پرواہ۔۔۔؟۔۔۔۔رہائشی منصوبوں کی اسکیموں کو دیکھ لیجیے۔ تین سال میں فلیٹ یا دکان کا قبضہ دینے کی قانونی پابندی، لیکن دس دس سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی آثار نہیں، متوسط طبقے کا ملازم پیشہ آدمی کس طرح اپنا پیٹ کاٹ کر فلیٹ یا دکان بک کراتا ہے۔ لیکن قبضہ ملنے کے کوئی آثار نہ پاکر جب وہ اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے تو اسے ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ۔۔۔۔ٹھیک ہے 20 پرسنٹ کاٹ کر قسطوں میں رقم واپس کی جاسکتی ہے۔۔۔۔!!۔۔۔۔کوئی ہے اس صورت حال پہ مالکان کا گریبان پکڑنے والا۔۔۔۔کہ اگر خریدار کبھی قسط کے پیسے جمع کروانے میں تھوڑی سی بھی تاخیر کردے تو بلڈر جرمانہ عائد کردیتا ہے۔۔۔۔لیکن یہی بلڈر اپنے ہی لکھے ہوئے معاہدے سے انحراف کرتا ہے تو کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں۔
کسی حد تک پنجاب میں انجمن صارفین کام کر رہی ہے اور صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایسی عدالتیں بھی ہیں جو خریدار کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا فوری نوٹس لیتی ہے۔ مجھے خود دو بار اس کا تجربہ ہوا۔ ایک بار لاہور میں اور دوسری بار راولپنڈی میں۔۔۔۔لیکن افسوس کہ کراچی کے رہائشی ہر قسم کی سہولت سے محروم ہیں۔ گلی سڑی سبزی، باسی گوشت، ایکسپائری ڈیٹ کے کوکنگ آئل اور ڈٹرجنٹ پاؤڈر سے لے کر الیکٹرانک مصنوعات تک کہیں بھی صارف کے حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ہر سطح پر صرف سرمایہ داروں اور تاجروں کا تحفظ ہی کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہاں اصلی لیڈر کے بجائے سرمایہ دار اور صنعت کاروں کی حکومت ہے اور رہے گی۔ ایسے میں صارف کے حقوق کے بارے میں سوچنا بھی حماقت ہے۔