ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
پاکستان میں ہر روز بیسیوں اس زندگی سے گزر جاتے ہیں کوئی شام ایسی نہیں ہوتی جو ٹی وی کے ذریعہ چند اموات کا ذکر نہ کرے
ہمارے معصوم پیارے دوست اصغر ندیم سید انسانوں سے محبت کے علمبردار اور ان کی ہمیشہ یاد رہنے والی تحریریں ان کا ایک زندہ ثبوت ہیں وہ گولیوں کا نشانہ بن گئے گر بچ گئے مگر دو گولیاں کھا کر۔ قدرت کو ہمارے اس دوست کو ہمارے لیے سلامت رکھنا تھا ورنہ دو میں سے کوئی ایک گولی بھی کسی ایسی جگہ لگ سکتی تھی جس کا نتیجہ کچھ بھی نکلتا۔ یہ ڈرامہ نگار اور ادیب ہونے کے بنیادی وصف کے ساتھ ایک استاد بھی تھے اور اس وقت ایک کالج میں پڑھا کر آ رہے تھے کہ ایک کھلی سڑک پر دو موٹر سائیکل سواروں کا نشانہ بن گئے۔ یہ اکیلے تھے یعنی کسی حفاظتی دستے کے بغیر اور اس وقت ان کی گزر گاہوں پر ٹریفک بھی رواں تھی بند نہیں کی گئی تھی۔ کچھ با اقتدار لوگ یہ اہتمام حضرت عزرائیل کے راستے بند کرنے کے لیے کرتے ہیں اور ان کے خیال میں ان بند راستوں کی وجہ سے وہ ان تک نہیں پہنچ سکتے، ویسے وہ فضاؤں میں اڑنے والے جہازوں اور اسلحہ کی پناہ اور حفاظت میں سفر کرنے والوں تک بھی پہنچ جاتے ہیں اور تختہ دار پر بھی کیونکہ زندگی اور موت صرف اور صرف اللہ کے اختیار میں ہے لیکن یہ اس اختیار کو کچھ وقت کے لیے وہ حسب ضرورت اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں مگر پھر بھی جیسے عرض کیا ہے کہ حضرت عزرائیل اگر کسی کی ڈیوٹی پر ہوں تو کون روک سکتا ہے ہم تو صرف اس طرح شرک کے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں وہ گناہ جو کفر کے برابر ہے یعنی اللہ کے اختیار میں کسی کو شریک ٹھہرانا۔ یہ جو حکمران بظاہر فول پروف سیکیورٹی کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں ان کی اس حرکت پر اگر کوئی ہنستا ہے تو وہ موت کا فرشتہ ہے۔
ہماری قوم اور تاریخ کے تین سب سے زیادہ قیمتی انسان اپنے کسی مقررہ وقت پر ہم سے رخصت ہو گئے ہم ان کی مغفرت کی دعاؤں کی سعادت حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں اور ان کی زندگیوں کو خدا توفیق دے تو ایک نمونہ بنا کر سامنے رکھتے ہیں ان تین میں سے پہلے شہید حضرت عمرؓ بن خطاب ایک دن کہیں اکیلے جا رہے تھے یعنی کسی انسانی محافظ کے بغیر تو ایک صاحب امیر المومنین کو اس طرح تنہا دیکھ کربھاگے ہوئے آئے اورعرض کیا کہ آپ اپنے ساتھ کوئی محافظ کیوں نہیں رکھ لیتے تو انھوں نے جواب دیا کہ تم جن کو میرا محافظ بنانے کا مشورہ دے رہے ہو وہ میرے نہیں میں ان کا محافظ مقرر کیا گیا ہوں اب ان کو اپنی حفاظت پر کیسے لگا دوں۔ بات ہوئی ہے تو ضمناً عرض کر دوں کہ حضرت عمر نے ایک دن مسجد میں کسی کو نماز کی جماعت میں دیکھ کر کہا کہ یہ شخص جو ایرانی کاریگر ہے مجھے قتل کر دے گا کیونکہ میں نے اس کی مزدوری میں اس کی خواہش کے مطابق اضافہ نہیں کیا اور یہ اپنے ہنر کی قیمت اس سے زیادہ سمجھتا ہے اور میرے فیصلے کو نا انصافی۔ اس پر سننے والوں میں سے کسی نے کہا کہ اس کو ابھی گرفتار کر لیتے ہیں لیکن جواب ملا مگر اس نے ابھی تک کوئی جرم تو نہیں کیا گرفتار کیسے کریں۔
بعد میں اسی نے ان کو شہید کیا تھا۔ بات ہمارے خوفزدہ اور اپنے اللہ سے مایوس حکمرانوں کی ہو رہی تھی جو خواب میں بھی ڈرتے ہیں اور اللہ نے ان کا جاہ و منصب بھی ان کے لیے ایک عذاب بنا دیا ہے یہ لوگ گھروں میں بھی ایک قیدی کی طرح بند اور بچ کر رہتے ہیں اور جب باہر نکلتے ہیں تو خدا کی پناہ تیس چالیس تک محافظ گاڑیاں ان کی حفاظت کے لیے ان کی سواری کے آس پاس چلتی ہیں۔ سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں جس سے معروف شہروں کے لوگ سخت پریشان ہوتے ہیں۔ پرندوں کو بھی اس حکومتی راستوں پر مجبوراً پرواز کی اجازت دی جاتی ہے اور ان کے گرد و پیش پر ایک ہُو کا عالم طاری ہو جاتا ہے جس میں سے وہ ایسی برق رفتاری سے گزرتے ہیں کہ رفتار بھی غیر معمولی حد تک تیز رکھی جاتی ہے تاکہ کوئی نشانہ نہ بنا سکے اسی غیر معمولی حفاظت میں وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں لیکن اس قدر احتیاط اور اہتمام کے باوجود ان کے آخری گھر جانے اور وہاں ٹھکانہ کرنے سے انھیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ یہ سب ان کو معلوم ہے اور وہ اسے دن رات دیکھتے بھی چلے آ رہے ہیں لیکن انسان بہت احمق بھی ہے۔ میں خود اپنی سائیکل سواری سے موٹر سواری تک کی عمر میں ان راستوں پر اپنے رہنماؤں کے قافلوں کے گزر جانے کا انتظار کرتا رہا ہوں اور کتنے ہی بچے اور بچیاں ہیں جو ماؤں کے اسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی اس دنیا میں آ جاتی ہیں اور یوں قدرت ان کا اس زندگی سے پہلا تعارف کراتی ہے۔ ایک غلام زندگی۔
ایسے بچے تو ایک نئی زندگی میں آتے ہیں ماں کے پیٹ سے باہر لیکن اب تو پاکستان میں ہر روز ہی بیسیوں پاکستانی اس زندگی سے گزر جاتے ہیں کوئی شام ایسی نہیں ہوتی جو ٹی وی کے ذریعہ چند اموات کا ذکر نہ کرے اور صبح کا کوئی اخبار ایسا نہیں ہوتا جو ان اموات کی تفصیلات سے آگاہ نہ کرے۔ اخبار پڑھیں تو ایک پرانا مصرع یاد آتا ہے کہ ؎ ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے''۔ دن رات حفاظت میں زندگی بسر کرنے والے بظاہر اونچے لوگ اس کی قطعاً پروا نہیں کرتے کہ ان کی ذمے داری میں کتنے ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی نا اہلی یا غفلت کی صورت میں اس دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ عربوں میں مشہور ہے کہ اونٹ کا گھٹنا باندھ دو اور پھر اسے اللہ توکل پر چھوڑ دو مگر ہمارے یہ شتربان تو ہمارا گھٹنا بھی نہیں باندھتے اور ہمارے دہشت گردوں کے لیے کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ دہشت گرد ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک ہمیں اپنے دستر خوان پر سجا لیتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری اشرافیہ نے ہمارے ملک کی یہ حالت بنا دی ہے لیکن اب مہلت اس قدر کم ہے کہ ہم ماضی کا رونا نہیں رو سکتے اور فوری عمل لازم ہے ورنہ اب پاکستان کے لوگ نہیں خود پاکستان خطرے میں ہے کیونکہ پاکستان میں کچھ ایسی نعمتیں موجود ہیں جن کو سرمایہ دار دنیا للچائی نظروں سے دیکھ رہی ہے اب چونکہ حالات نے اس کے لیے آسانیاں پیدا کر دی ہیں اوران کی طاقت اس کے سوا ہے اس لیے وہ اپنی دیگر مصروفیات سے مہلت کی منتظر ہے۔ ہم کمزور لوگ ہیں صرف قلم کے دھنی ہم اپنی عقل و فہم کے مطابق صرف برے حالات کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ ہمیں بھی مستقبل کی کسی زندگی کے لیے بندوبست کرنا ہے اور ہم بھی پاکستان کی ہر بات پر سپر پاور کی طرح کچھ مہلت کے طلب گار ہیں۔ حیرت پھر حیرت ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے اس قدر بے چینی کہ راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔
بدلے حالات نے موضوع بھی بدل دیے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ نئے موضوعات کا احاطہ کر سکیں۔