سنگاپور میں دوسری بار
ایک مشہور پرانے فلمی گانے کے مطابق جیون میں کم از کم ایک بار سنگا پور آنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔۔۔
ایک مشہور پرانے فلمی گانے کے مطابق جیون میں کم از کم ایک بار سنگا پور آنے کا مشورہ دیا گیا ہے جس پر عمل کرتے ہوئے تقریباً 20سال قبل میں نے اپنے شاعر دوست فیصل عجمی کی دعوت پر اس شہر نما ملک کی زیارت کی تھی سو اب جو شہاب مدنی صاحب نے قند مکرر کی صورت پیدا کی تو تصور میں اس سفر کی یادیں یک دم روشن اور تازہ ہو گئیں، معلوم ہوا کہ وہاں کے احباب پہلی بار ایک بین الاقوامی مشاعرے کا اہتمام کر رہے ہیں جس میں پاکستان اور بھارت سے تین تین اور امریکا اور سنگا پور سے دو دو شاعر مدعو کیے جا رہے ہیں جن کے اسمائے گرامی بالترتیب کچھ اس طرح سے ہیں انور مسعود، ڈاکٹر پیر زادہ قاسم' امجد اسلام امجد (پاکستان) پاپولر میرٹھی' منظر بھوپالی' خوش بیر سنگھ شاد (بھارت) عرفان مرتضیٰ، صدف فاروقی (امریکا) بدر جعفری' مسز حورا یبل (سنگا پور) مجھے اور انور مسعود کو اسلام آباد سے براستہ بنکاک جانا تھا اور پیر زادہ قاسم کراچی سے سری لنکا ایئر لائن پر سفر کر رہے تھے۔
میں عام طور پر ان مشاعراتی دوروں کا احوال اپنے کالموں میں درج کرتا رہتا ہوں کہ ان کی وساطت سے مختلف ملکوں اور معاشروں میں بسنے والے اپنے ہم وطنوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ وہاں کی تہذیب' تاریخ' مقامات اور نمایاں خصوصیات پر بھی بات ہو جاتی ہے عام طور پر مجھے ان کالموں کی بہت حوصلہ افزا فیڈ بیک ملتی ہے کہ ان کی وساطت سے قارئین گھر بیٹھے بیٹھے اس سیر اور سفر میں شریک ہو جاتے ہیں، شعر و ادب کی فضا میں کچھ دیر سانس لے پاتے ہیں اور بعض اوقات اپنے کچھ مانوس ناموں کے ذکر سے ایک حیرت آمیز مسرت کا لطف بھی اٹھاتے ہیں، متعلقہ ملک اور شہر کے بارے میں معلومات سے بہرہ وری اپنی جگہ ہے لیکن یہ بھی ہے کہ ہر بار ایسے کسی کالم کی اشاعت پر دو تین مخصوص لوگ ای میل پر اس طرح کے پیغامات بھیجنا نہیں بھولتے کہ ہمیں آپ کے مشاہدات، تجربات' شاعری اور میزبانوں کے ذکر اذکار سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے اس لیے آپ اس طرح کے کالم لکھ کر اپنا اور ہمارا وقت ضایع نہ کیا کریں سو اس سے قبل کہ میں ان مہربانوں کا وقت ضایع کرنا شروع کروں مشہور اور عظیم ڈرامہ نگار جارج برنارڈشا کے حوالے سے ایک واقعے کا ذکر شاید دلچسپ بھی ہو اور بر موقع بھی۔
کہتے ہیں کہ ایک بار جارج برنارڈشا کے کسی ڈرامے کا افتتاحی شو ہو رہا تھا کھیل کے آخر میں جب برنارڈشا کو خطاب کے لیے کہا گیا تو ہال میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ اپنی سیٹوں سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور داد کے انداز میں پر زور تالیاں بجانے لگے خاصی دیر کے بعد جب تالیوں کا شور تھما اور برنارڈشا ڈائس پر پہنچا تو ہال کے وسط سے ایک شخص اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا ''برنارڈشا یہ سب لوگ تمہیں بے وقوف بنا رہے ہیں یہ بہت گھٹیا اور فضول ڈرامہ تھا اور اس میں تعریف کی کوئی بات نہیں بلکہ الٹا تم نے میرا وقت ضایع کیا'' پورے ہال میں کچھ دیر کے لیے سناٹا سا چھا گیا لیکن اس سے پہلے کہ لوگ اس شخص کو پکڑ کر بٹھا دیتے۔ شاء نے انھیں منع کرتے اور مسکراتے ہوئے براہ راست اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا''یقین جانو میرے عزیز! میں تمہاری بات سے سو فی صد متفق ہوں مگر اس اتنے بڑے مجمعے میں ہم دو آدمیوں کی بات کون سنتا ہے''
اب میں ان دو تین حضرات سے معذرت کے ساتھ اس سفر کا کچھ مختصر احوال بیان کرتا ہوں کیونکہ تقریباً آدھا کالم تو اس تمہید ہی میں صرف ہو گیا ہمارا یہ تین روزہ سفرایک غیر ملکی ایئر لائن پر اسلام آباد ایئر پورٹ سے پندرہ اور سولہ جنوری کی درمیانی شب کو شروع ہو کر 18 جنوری رات ساڑھے دس بجے اسی ایئر پورٹ پر ختم ہوا۔ پرواز براستہ بنکاک تھی جہاں ہمیں تقریباً دو گھنٹے رکنا تھا لیکن ہوا یہ کہ کم و بیش یہ سارا وقت ہی اگلی پرواز کے لیے مقرر کردہ گیٹ تک پہنچنے میں نکل گیا کیونکہ بنکاک کا نیا ہوائی اڈہ کچھ اس قدر طویل و عریض ہے کہ اس کے سامنے اٹلانٹا' فرینک فرٹ' پیرس' لندن' نیو یارک' کوالالمپور' شکاگو اور وہ تمام بڑے بڑے ایئر پورٹ جو میں نے اب تک دیکھے ہیں چھوٹے محسوس ہونے لگے۔
اس سے قبل اس غیر ملکی ایئر سے ہمارے سفر کا تجربہ بلکہ تجربات زیادہ اچھے نہیں تھے کہ ان کے جہازوں کی سیٹیں نہ صرف تنگ ہوا کرتی تھیں بلکہ ایئر کرافٹ بھی زیادہ تر ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچے ہوئے تھے ایک بار تو اس کی وجہ سے ہم لاہور سے لندن آٹھ گھنٹے کی تاخیر سے پہنچے تھے اور ہمیں اوسلو ناروے کی متعلقہ اور مطلوبہ فلائٹ کو مس کرنے کے باعث بائیس گھنٹے انتظار کرنا پڑا تھا لیکن اب گویا اس کی کایا کلپ ہو چکی تھی کہ نہ صرف جہاز جدید ترین اور کشادہ سیٹوں والے تھے بلکہ پابندی وقت کے اعتبار سے بھی اس ایئر لائن کا شمار اب پہلی صف میں ہوتا ہے۔ سنگاپور ایئر پورٹ والوں نے اپنی روایتی برق رفتاری سے ہمیں پندرہ منٹ کے اندر امیگریشن اور سامان کی وصولی تک کے تمام مراحل سے گزار دیا اور یوں ہم اپنے میزبانوں کی آمد سے بھی چند منٹ قبل باہر پہنچ چکے تھے۔ شہاب مدنی کے ساتھ جہانگیر بھائی کو دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ فی زمانہ چاچائے کرکٹ کی طرح واحد شخص ہیں جنہوں نے بطور سامع اپنی انفرادیت قائم کی ہے اور اپنے داد دینے کے مخصوص اسٹائل کے باعث جہانگیر دادیے کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔کراچی کا کوئی اہم اور قابل ذکر مشاعرہ ان کی ''داد'' کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور اسی سلسلے میں ایک بار انھیں دبئی کے ایک مشاعرے میں بھی بطور ''دادیا'' مدعو کیا گیا تھا، معلوم ہوا کہ یہاں ان کی موجودگی کی ایک اضافی وجہ ان کی بیگم کی بیگم شہاب مدنی سے رشتے داری بھی ہے۔ ہمارا قیام gold kist Beach Resort میں تھا جو مشرقی حصے میں سمندر کے عین کنارے پر واقع تھا اور ہمارے کمروں کے دروازے اور کھڑکیاں دونوں اس کے رخ پر کچھ اس طرح سے کھلتے تھے کہ سمندر کے پانی اور ہمارے دروازے کے بیچ ساٹھ ستر گز سے زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔
شام کو ایک استقبالیہ تھا جس میں مہمانوں کی ملاقات شہر کے ادب نواز احباب سے کرائی گئی معلوم ہوا کہ یہاں بھی بھارتیوں کی تعداد پاکستانیوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن سب مل جل کر پیار محبت سے رہتے ہیں اور اس تقریب میں بھی دونوں کی موجودگی تقریباً برابر برابر تھی، پاکستانی سفارت خانے کی نمایندگی فرسٹ سیکریٹری اور ان کی اہلیہ کر رہے تھے جب کہ مشاعرے میں دونوں ملکوں کے ہائی کمشنرز کی آمد متوقع تھی، تصاویر کے لمبے چوڑے سیشن کے بعد طے پایا کہ مہمانوں کو سنگا پور فلائیر کی سیر کرائی جائے ایسا ایک فضائی جھولا لندن میں بھی موجود ہے یہ ایک بہت بڑے گولے میں نصب کمرہ نما چیئر لفٹس کا مجموعہ ہے جو آہستہ آہستہ گھومتے ہوئے آپ کو پورے مناظر دکھاتا ہے مگر سنگا پور کا یہ فلائیر اپنی وسعت' ندرت' تعمیر اور خوب صورتی کے باعث اپنی مثال آپ ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ ایک کیبن میں 28 لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی اوراس طرح کے کم و بیش 20 کیبن دن رات ایک ساتھ گردش میں رہتے ہیں۔ سنگا پور کی ترقی کی داستان حیرت انگیز اور شاندار بھی ہے اور ایک رول ماڈل بھی کہ کس طرح اس کے سابق وزیراعظم اور قومی رہنما لی کوان نے اس تقریباً 35 میل لمبے اور 20 میل چوڑے (یہ اعدادوشمار وہاں کے دوستوں کے فراہم کردہ ہیں)چھوٹے سے ملک کو فی کس آمدنی اور ترقی کے اعتبار سے دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل کر دیا بتایا گیا کہ اب گزشتہ سترہ برس سے ان کا بیٹا وزیراعظم ہے اور اگرچہ وہاں کی جمہوریت اپنی اصل میں ایک ہی پارٹی کی حکومت یعنی نیم آمریت ہے مگر امن و امان' ترقی کے مواقع' مضبوط معیشت اور قانون کی بلا تفریق حکمرانی کے سبب لوگ مطمئن بھی ہیں اور خوش حال بھی۔
شہاب مدنی اور ان کے احباب (جو تعداد میں شاید اس لیے بہت کم تھے کہ اس سے پہلے وہاں کبھی اس قسم کا کوئی پروگرام ہوا ہی نہیں تھا اور بیشتر لوگ اس کی کامیابی کے بارے میں متذبذب تھے) نے تمام انتظامات بہت سلیقے سے کر رکھے تھے مشاعرے سے پہلے شعرا سے سامعین کی ملاقات کے لیے چائے کے ساتھ ایک گھنٹہ مخصوص کیا گیا تھا لیکن ٹریفک کے غیر معمولی دباؤ کی وجہ سے سامعین کی آمدن کی رفتار خاصی سست رہی بھارتی سفارت خانے کے نمایندے نے بتایا کہ انھوں نے پندرہ منٹ کا راستہ ایک گھنٹہ میں طے کیا ہے سو ہوا یوں کہ باوجود کوشش کے مشاعرہ سات کے بجائے آٹھ بجے شروع ہو سکا جب کہ ہال کی بکنگ قواعد کے مطابق گیارہ بجے تک کی تھی۔ ہال کے منتظمین اضافی رقم کی پیش کش کے باوجود وقت بڑھانے پر آمادہ نہ ہوئے قانون کی یہی پاسداری اس معاشرے کی پہچان بن چکی ہے ۔
میں عام طور پر ان مشاعراتی دوروں کا احوال اپنے کالموں میں درج کرتا رہتا ہوں کہ ان کی وساطت سے مختلف ملکوں اور معاشروں میں بسنے والے اپنے ہم وطنوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ وہاں کی تہذیب' تاریخ' مقامات اور نمایاں خصوصیات پر بھی بات ہو جاتی ہے عام طور پر مجھے ان کالموں کی بہت حوصلہ افزا فیڈ بیک ملتی ہے کہ ان کی وساطت سے قارئین گھر بیٹھے بیٹھے اس سیر اور سفر میں شریک ہو جاتے ہیں، شعر و ادب کی فضا میں کچھ دیر سانس لے پاتے ہیں اور بعض اوقات اپنے کچھ مانوس ناموں کے ذکر سے ایک حیرت آمیز مسرت کا لطف بھی اٹھاتے ہیں، متعلقہ ملک اور شہر کے بارے میں معلومات سے بہرہ وری اپنی جگہ ہے لیکن یہ بھی ہے کہ ہر بار ایسے کسی کالم کی اشاعت پر دو تین مخصوص لوگ ای میل پر اس طرح کے پیغامات بھیجنا نہیں بھولتے کہ ہمیں آپ کے مشاہدات، تجربات' شاعری اور میزبانوں کے ذکر اذکار سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے اس لیے آپ اس طرح کے کالم لکھ کر اپنا اور ہمارا وقت ضایع نہ کیا کریں سو اس سے قبل کہ میں ان مہربانوں کا وقت ضایع کرنا شروع کروں مشہور اور عظیم ڈرامہ نگار جارج برنارڈشا کے حوالے سے ایک واقعے کا ذکر شاید دلچسپ بھی ہو اور بر موقع بھی۔
کہتے ہیں کہ ایک بار جارج برنارڈشا کے کسی ڈرامے کا افتتاحی شو ہو رہا تھا کھیل کے آخر میں جب برنارڈشا کو خطاب کے لیے کہا گیا تو ہال میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ اپنی سیٹوں سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور داد کے انداز میں پر زور تالیاں بجانے لگے خاصی دیر کے بعد جب تالیوں کا شور تھما اور برنارڈشا ڈائس پر پہنچا تو ہال کے وسط سے ایک شخص اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا ''برنارڈشا یہ سب لوگ تمہیں بے وقوف بنا رہے ہیں یہ بہت گھٹیا اور فضول ڈرامہ تھا اور اس میں تعریف کی کوئی بات نہیں بلکہ الٹا تم نے میرا وقت ضایع کیا'' پورے ہال میں کچھ دیر کے لیے سناٹا سا چھا گیا لیکن اس سے پہلے کہ لوگ اس شخص کو پکڑ کر بٹھا دیتے۔ شاء نے انھیں منع کرتے اور مسکراتے ہوئے براہ راست اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا''یقین جانو میرے عزیز! میں تمہاری بات سے سو فی صد متفق ہوں مگر اس اتنے بڑے مجمعے میں ہم دو آدمیوں کی بات کون سنتا ہے''
اب میں ان دو تین حضرات سے معذرت کے ساتھ اس سفر کا کچھ مختصر احوال بیان کرتا ہوں کیونکہ تقریباً آدھا کالم تو اس تمہید ہی میں صرف ہو گیا ہمارا یہ تین روزہ سفرایک غیر ملکی ایئر لائن پر اسلام آباد ایئر پورٹ سے پندرہ اور سولہ جنوری کی درمیانی شب کو شروع ہو کر 18 جنوری رات ساڑھے دس بجے اسی ایئر پورٹ پر ختم ہوا۔ پرواز براستہ بنکاک تھی جہاں ہمیں تقریباً دو گھنٹے رکنا تھا لیکن ہوا یہ کہ کم و بیش یہ سارا وقت ہی اگلی پرواز کے لیے مقرر کردہ گیٹ تک پہنچنے میں نکل گیا کیونکہ بنکاک کا نیا ہوائی اڈہ کچھ اس قدر طویل و عریض ہے کہ اس کے سامنے اٹلانٹا' فرینک فرٹ' پیرس' لندن' نیو یارک' کوالالمپور' شکاگو اور وہ تمام بڑے بڑے ایئر پورٹ جو میں نے اب تک دیکھے ہیں چھوٹے محسوس ہونے لگے۔
اس سے قبل اس غیر ملکی ایئر سے ہمارے سفر کا تجربہ بلکہ تجربات زیادہ اچھے نہیں تھے کہ ان کے جہازوں کی سیٹیں نہ صرف تنگ ہوا کرتی تھیں بلکہ ایئر کرافٹ بھی زیادہ تر ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچے ہوئے تھے ایک بار تو اس کی وجہ سے ہم لاہور سے لندن آٹھ گھنٹے کی تاخیر سے پہنچے تھے اور ہمیں اوسلو ناروے کی متعلقہ اور مطلوبہ فلائٹ کو مس کرنے کے باعث بائیس گھنٹے انتظار کرنا پڑا تھا لیکن اب گویا اس کی کایا کلپ ہو چکی تھی کہ نہ صرف جہاز جدید ترین اور کشادہ سیٹوں والے تھے بلکہ پابندی وقت کے اعتبار سے بھی اس ایئر لائن کا شمار اب پہلی صف میں ہوتا ہے۔ سنگاپور ایئر پورٹ والوں نے اپنی روایتی برق رفتاری سے ہمیں پندرہ منٹ کے اندر امیگریشن اور سامان کی وصولی تک کے تمام مراحل سے گزار دیا اور یوں ہم اپنے میزبانوں کی آمد سے بھی چند منٹ قبل باہر پہنچ چکے تھے۔ شہاب مدنی کے ساتھ جہانگیر بھائی کو دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ فی زمانہ چاچائے کرکٹ کی طرح واحد شخص ہیں جنہوں نے بطور سامع اپنی انفرادیت قائم کی ہے اور اپنے داد دینے کے مخصوص اسٹائل کے باعث جہانگیر دادیے کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔کراچی کا کوئی اہم اور قابل ذکر مشاعرہ ان کی ''داد'' کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور اسی سلسلے میں ایک بار انھیں دبئی کے ایک مشاعرے میں بھی بطور ''دادیا'' مدعو کیا گیا تھا، معلوم ہوا کہ یہاں ان کی موجودگی کی ایک اضافی وجہ ان کی بیگم کی بیگم شہاب مدنی سے رشتے داری بھی ہے۔ ہمارا قیام gold kist Beach Resort میں تھا جو مشرقی حصے میں سمندر کے عین کنارے پر واقع تھا اور ہمارے کمروں کے دروازے اور کھڑکیاں دونوں اس کے رخ پر کچھ اس طرح سے کھلتے تھے کہ سمندر کے پانی اور ہمارے دروازے کے بیچ ساٹھ ستر گز سے زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔
شام کو ایک استقبالیہ تھا جس میں مہمانوں کی ملاقات شہر کے ادب نواز احباب سے کرائی گئی معلوم ہوا کہ یہاں بھی بھارتیوں کی تعداد پاکستانیوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن سب مل جل کر پیار محبت سے رہتے ہیں اور اس تقریب میں بھی دونوں کی موجودگی تقریباً برابر برابر تھی، پاکستانی سفارت خانے کی نمایندگی فرسٹ سیکریٹری اور ان کی اہلیہ کر رہے تھے جب کہ مشاعرے میں دونوں ملکوں کے ہائی کمشنرز کی آمد متوقع تھی، تصاویر کے لمبے چوڑے سیشن کے بعد طے پایا کہ مہمانوں کو سنگا پور فلائیر کی سیر کرائی جائے ایسا ایک فضائی جھولا لندن میں بھی موجود ہے یہ ایک بہت بڑے گولے میں نصب کمرہ نما چیئر لفٹس کا مجموعہ ہے جو آہستہ آہستہ گھومتے ہوئے آپ کو پورے مناظر دکھاتا ہے مگر سنگا پور کا یہ فلائیر اپنی وسعت' ندرت' تعمیر اور خوب صورتی کے باعث اپنی مثال آپ ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ ایک کیبن میں 28 لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی اوراس طرح کے کم و بیش 20 کیبن دن رات ایک ساتھ گردش میں رہتے ہیں۔ سنگا پور کی ترقی کی داستان حیرت انگیز اور شاندار بھی ہے اور ایک رول ماڈل بھی کہ کس طرح اس کے سابق وزیراعظم اور قومی رہنما لی کوان نے اس تقریباً 35 میل لمبے اور 20 میل چوڑے (یہ اعدادوشمار وہاں کے دوستوں کے فراہم کردہ ہیں)چھوٹے سے ملک کو فی کس آمدنی اور ترقی کے اعتبار سے دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل کر دیا بتایا گیا کہ اب گزشتہ سترہ برس سے ان کا بیٹا وزیراعظم ہے اور اگرچہ وہاں کی جمہوریت اپنی اصل میں ایک ہی پارٹی کی حکومت یعنی نیم آمریت ہے مگر امن و امان' ترقی کے مواقع' مضبوط معیشت اور قانون کی بلا تفریق حکمرانی کے سبب لوگ مطمئن بھی ہیں اور خوش حال بھی۔
شہاب مدنی اور ان کے احباب (جو تعداد میں شاید اس لیے بہت کم تھے کہ اس سے پہلے وہاں کبھی اس قسم کا کوئی پروگرام ہوا ہی نہیں تھا اور بیشتر لوگ اس کی کامیابی کے بارے میں متذبذب تھے) نے تمام انتظامات بہت سلیقے سے کر رکھے تھے مشاعرے سے پہلے شعرا سے سامعین کی ملاقات کے لیے چائے کے ساتھ ایک گھنٹہ مخصوص کیا گیا تھا لیکن ٹریفک کے غیر معمولی دباؤ کی وجہ سے سامعین کی آمدن کی رفتار خاصی سست رہی بھارتی سفارت خانے کے نمایندے نے بتایا کہ انھوں نے پندرہ منٹ کا راستہ ایک گھنٹہ میں طے کیا ہے سو ہوا یوں کہ باوجود کوشش کے مشاعرہ سات کے بجائے آٹھ بجے شروع ہو سکا جب کہ ہال کی بکنگ قواعد کے مطابق گیارہ بجے تک کی تھی۔ ہال کے منتظمین اضافی رقم کی پیش کش کے باوجود وقت بڑھانے پر آمادہ نہ ہوئے قانون کی یہی پاسداری اس معاشرے کی پہچان بن چکی ہے ۔