تحریک انصاف اور حکومت پر موسمی پرندوں کا غلبہ ہے
تحریک انصاف کا نظریاتی کارکن اور رہنما اس وقت اپنوں کی بے رخی کا شکار ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں اس کے سیاسی مخالفین ہمیشہ یہ تنقید کرتے ہیں کہ اس میں نظریاتی کارکن اور رہنما کو نظر انداز کر کے ایسے افراد کو صف اول میں لا کھڑا کیا گیا ہے جو موسموں کی مانند پارٹیاں بدلتے ہیں اور ان کی تحریک انصاف سے کوئی نظریاتی یا دلی وابستگی نہیں ہے۔
پاکستانی سیاست میں پارٹی بدلنا عام روایت بن چکی ہے بالخصوص ایسے سیاستدان جو اپنے حلقہ انتخاب میں مذہب، برادری،زرعی یا کاروباری بنیادوں پر غیر معمولی مقبول ہوتے ہیں اور ان کا ایک بڑا ووٹ بنک موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے انہیں الیکشن جیتنے کیلئے کسی پارٹی کے ٹکٹ کی بیساکھی کی ضرورت نہیں پڑتی، حکومت بنانے کیلئے کوشاں سیاسی جماعت جب ان سیاستدانوں سے براہ راست یا پھر''بادشاہ گروں'' کے ذریعے رابطہ کرتی ہے تو یہ لوگ وزارتیں بھی لیتے ہیں بڑے عہدے بھی انہی کو دیئے جاتے ہیں اور اقتدار کا تمام عرصہ یہ لوگ مزے لوٹتے ہیں اور حقیقی رہنما اور کارکن اقتدار کے ایوانوں کی دیواروں میں چن دیئے جاتے ہیں، جوں ہی اقتدار ختم ہونے لگتا ہے تو یہ الیکٹ ایبلز کسی نئی منزل کی جانب پرواز کر جاتے ہیں۔
تحریک انصاف کا نظریاتی کارکن اور رہنما اس وقت اپنوں کی بے رخی کا شکار ہے،الیکشن سے قبل عمران خان اور دیگر پارٹی رہنما اپنی تقریروں میں یہ وعدے کیا کرتے تھے کہ اقتدار ملے گا تو تحریک انصاف کا کارکن حکومتی معاملات میں سب سے اہم تصور ہوگا، ٹکٹ ہولڈرز اور تنظیمی عہدیداروں کو اپنے انتخابی حلقوں میں عوامی خدمت کیلئے مکمل سپورٹ دی جائے گی لیکن آج یہ عالم ہے کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر ٹکٹ ہولڈرز اپنے حلقوں میں عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنے ووٹرز کے معمولی مسائل بھی حل نہیں کروا سکتے، وزراء اپنی ''سرگرمیوں'' میں اتنا مصروف ہیں کہ انہیں نہ تو اپنی وزارت کے عوامی معاملات میں دلچسپی ہے اور نہ ہی ان کے پاس اپنی پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر، تنظیمی رہنما اور کارکن کی بات سننے اور ان کی مدد کرنے کا وقت ہے۔
بلدیاتی الیکشن میں تاخیر کی ایک اہم وجہ بھی یہ ہے کہ گلی محلے کی سطح پر تحریک انصاف نہایت کمزور اور غیر فعال ہے،اس کے مقامی رہنما اپنی حکومت کی معاشی پالیسیوں، شدید مہنگائی، بجلی اور پٹرولیم کی قیمتوں میں مسلسل اضافے بارے عوامی مشتعل جذبات اور سوالات کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
تحریک انصاف کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کبھی بھی ایک متحد اور منظم جماعت نہیں رہی ہمیشہ سے اس میں گروپنگ موجود تھی لیکن اس وقت جو تشویشناک اور پیچیدہ صورتحال بنی ہوئی ہے ایسا ماضی میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ تحریک انصاف میں ایک نظریاتی گروپ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے قیام سے عمران خان کے ساتھ ہیں اور انہیں بعد میں آنے والوں پر فوقیت حاصل ہونی چاہئے، اس وقت اس گروپ کے چند ایک ارکان ہی کابینہ کا حصہ ہیں لیکن موجودہ تنظیمی ڈھانچے میں اہم عہدوں پر ان کی اکثریت ہے اور وہ معاملات کو ''پسند و ناپسند'' کی بنیاد پر لیکر آگے بڑھ رہے ہیں۔
مینار پاکستان جلسہ کے بعد شامل ہونے والوں نے ''یونیٹی گروپ'' کے نام سے ایک مضبوط دھڑا بنایا تھا جس کی قیادت جہانگیر ترین کے ہاتھ میں تھی اور اس گروپ میں علیم خان، پرویز خٹک، چوہدری سرور، چوہدری غلام سرور، فواد چوہدری جیسے نام شامل تھے، جہانگیر ترین اور علیم خان کی عمران خان کے ساتھ نہایت قربت اور پارٹی معاملات پر مضبوط گرفت کے سبب تحریک انصاف کے زیادہ تر رہنما اور کارکن اسی گروپ میں شامل تھے۔
نظریاتی اور یونیٹی گروپ کے درمیان شدید کشیدگی قائم رہی جس نے نہ صرف پارٹی کو بلکہ عمران خان کو بھی نقصان پہنچایا۔ 2018ء کا الیکشن جیتنے کے بعد جب جہانگیر ترین کے عمران خان اور علیم خان سے اختلافات پیدا ہونا شروع ہوئے، علیم خان نے خود کو جہانگیر ترین سے الگ کر لیا جبکہ جہانگیر ترین بھی محدود ہو گئے تو عملی طور پر یونیٹی گروپ ختم ہو گیا تھا، جو رہنما اور ٹکٹ ہولڈر اس گروپ میں کسی حیثیت سے شامل رہے آج انہیں راندہ درگاہ قرار دیا جا چکا ہے۔
نظریاتی گروپ والوں سے تو پہلے ہی ان کی نہیں بنتی تھی اوراب گروپ کا کوئی والی وارث نہ ہونے کی وجہ سے وہ تنظیمی تنہائی، حکومتی بے رخی اور اپنے ووٹرز کے طعنوں کا شکار ہیں۔ تحریک انصاف کا تیسرا گروپ غیر منتخب افراد اور الیکٹ ایبلز پر مشتمل ہے اور درحقیقت اس وقت یہی گروپ حکومت کو ''انجوائے'' کر رہا ہے۔ غیر منتخب افراد نے تو طاقتور نظر آنے والے کئی وزراء کو بھی دیوار سے لگا رکھا ہے، الیکٹ ایبلز موجودہ سیاسی صورتحال میں عمران خان کیلئے بچاو کا واحد ذریعہ ہیں اور کپتان کی اس مجبوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا جارہا ہے ۔
اب اگر اس تمام صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو بظاہر خود کو ناقابل تسخیر ظاہر کرنے والی حکومت کے تخت کے چاروں پائے لرز رہے ہیں اور تحریک انصاف کی تنظیمی حالت موم کے اس پہاڑ جیسی ہے جو کسی بھی تپش سے پگھل جاتا ہے۔ جہانگیر ترین کے پس منظر میں جانے سے کئی پارٹی رہنماوں کی لاٹری نکل آئی ہے اور اس وقت وہ اہم عہدوں پر موجود ہیں جیسا کہ تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی ایک طویل عرصہ کیلئے پس منظر میں چلے گئے تھے لیکن جہانگیر ترین اور عمران خان کے اختلافات شروع ہوتے ہی وہ منظر عام پر واپس آئے اور دوبارہ سے پارٹی کے چیف آرگنائزر بن گئے۔
انہوں نے تنظیم سازی سے متعلقہ اہم فیصلے کئے اور اب وہ سینیٹ کی نشست لینے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں۔ علیم خان اور ترین کے ہوتے ہوئے اعجاز چوہدری زیادہ با اثر نہیں بن سکے تھے لیکن اس وقت وہ تحریک انصاف سنٹرل پنجاب کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ سینیٹر بھی بن چکے ہیں ۔
عامر کیانی حکومت بنتے ہی وفاقی وزیر صحت بنائے گئے لیکن ادویات سکینڈل سامنے آیا تو انہیں کابینہ سے برخاست کر دیا گیا تھا ۔''مفاہمت'' کی ڈور تھامتے ہی عامر کیانی کو تحریک انصاف کا مرکزی سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی کو تحریک انصاف کی تنظیمی صورتحال پر غیر جانبدارانہ اور حقیقی معلومات حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے، اس وقت تو کچھ لوگ انگلی کٹا کر خود کو شہید ثابت کر رہے ہیں اور یہی لوگ نہ صرف حکومتی اور پارلیمانی عہدوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں بلکہ تنظیمی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے بھی اپنے ارد گرد ''سپانسرز'' کا گھیرا بنائے ہوئے ہیں۔کچھ لوگوں نے تو خود کو''کسٹمر سروس سنٹر'' بنایا ہوا ہے۔
تحریک انصاف کے حقیقی کارکن اپنے قائد عمران خان سے والہانہ عشق کرتے ہیں پہلے بھی یہی لوگ بالخصوص نوجوان عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کیلئے سالہا سال تک جدوجہد کرتے رہے اور آئندہ بھی یہی وہ لوگ ہوں گے جو اقتدار ختم ہونے کے بعد بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اس لئے تحریک انصاف کے اندر پس رہی اصل تحریک انصاف کو اوپر لانے کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف عمران خان ہی کر سکتا ہے اگر اس کے پاس اس کیلئے وقت ہو اور وہ ایسا کرنا اہم بھی سمجھتا ہو ورنہ تبدیلی سرکاری کے دور میں سب کچھ تبدیل ہی ہو رہا ہے تو پھر تحریک انصاف بھی سہی۔
پاکستانی سیاست میں پارٹی بدلنا عام روایت بن چکی ہے بالخصوص ایسے سیاستدان جو اپنے حلقہ انتخاب میں مذہب، برادری،زرعی یا کاروباری بنیادوں پر غیر معمولی مقبول ہوتے ہیں اور ان کا ایک بڑا ووٹ بنک موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے انہیں الیکشن جیتنے کیلئے کسی پارٹی کے ٹکٹ کی بیساکھی کی ضرورت نہیں پڑتی، حکومت بنانے کیلئے کوشاں سیاسی جماعت جب ان سیاستدانوں سے براہ راست یا پھر''بادشاہ گروں'' کے ذریعے رابطہ کرتی ہے تو یہ لوگ وزارتیں بھی لیتے ہیں بڑے عہدے بھی انہی کو دیئے جاتے ہیں اور اقتدار کا تمام عرصہ یہ لوگ مزے لوٹتے ہیں اور حقیقی رہنما اور کارکن اقتدار کے ایوانوں کی دیواروں میں چن دیئے جاتے ہیں، جوں ہی اقتدار ختم ہونے لگتا ہے تو یہ الیکٹ ایبلز کسی نئی منزل کی جانب پرواز کر جاتے ہیں۔
تحریک انصاف کا نظریاتی کارکن اور رہنما اس وقت اپنوں کی بے رخی کا شکار ہے،الیکشن سے قبل عمران خان اور دیگر پارٹی رہنما اپنی تقریروں میں یہ وعدے کیا کرتے تھے کہ اقتدار ملے گا تو تحریک انصاف کا کارکن حکومتی معاملات میں سب سے اہم تصور ہوگا، ٹکٹ ہولڈرز اور تنظیمی عہدیداروں کو اپنے انتخابی حلقوں میں عوامی خدمت کیلئے مکمل سپورٹ دی جائے گی لیکن آج یہ عالم ہے کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر ٹکٹ ہولڈرز اپنے حلقوں میں عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنے ووٹرز کے معمولی مسائل بھی حل نہیں کروا سکتے، وزراء اپنی ''سرگرمیوں'' میں اتنا مصروف ہیں کہ انہیں نہ تو اپنی وزارت کے عوامی معاملات میں دلچسپی ہے اور نہ ہی ان کے پاس اپنی پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر، تنظیمی رہنما اور کارکن کی بات سننے اور ان کی مدد کرنے کا وقت ہے۔
بلدیاتی الیکشن میں تاخیر کی ایک اہم وجہ بھی یہ ہے کہ گلی محلے کی سطح پر تحریک انصاف نہایت کمزور اور غیر فعال ہے،اس کے مقامی رہنما اپنی حکومت کی معاشی پالیسیوں، شدید مہنگائی، بجلی اور پٹرولیم کی قیمتوں میں مسلسل اضافے بارے عوامی مشتعل جذبات اور سوالات کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
تحریک انصاف کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کبھی بھی ایک متحد اور منظم جماعت نہیں رہی ہمیشہ سے اس میں گروپنگ موجود تھی لیکن اس وقت جو تشویشناک اور پیچیدہ صورتحال بنی ہوئی ہے ایسا ماضی میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ تحریک انصاف میں ایک نظریاتی گروپ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے قیام سے عمران خان کے ساتھ ہیں اور انہیں بعد میں آنے والوں پر فوقیت حاصل ہونی چاہئے، اس وقت اس گروپ کے چند ایک ارکان ہی کابینہ کا حصہ ہیں لیکن موجودہ تنظیمی ڈھانچے میں اہم عہدوں پر ان کی اکثریت ہے اور وہ معاملات کو ''پسند و ناپسند'' کی بنیاد پر لیکر آگے بڑھ رہے ہیں۔
مینار پاکستان جلسہ کے بعد شامل ہونے والوں نے ''یونیٹی گروپ'' کے نام سے ایک مضبوط دھڑا بنایا تھا جس کی قیادت جہانگیر ترین کے ہاتھ میں تھی اور اس گروپ میں علیم خان، پرویز خٹک، چوہدری سرور، چوہدری غلام سرور، فواد چوہدری جیسے نام شامل تھے، جہانگیر ترین اور علیم خان کی عمران خان کے ساتھ نہایت قربت اور پارٹی معاملات پر مضبوط گرفت کے سبب تحریک انصاف کے زیادہ تر رہنما اور کارکن اسی گروپ میں شامل تھے۔
نظریاتی اور یونیٹی گروپ کے درمیان شدید کشیدگی قائم رہی جس نے نہ صرف پارٹی کو بلکہ عمران خان کو بھی نقصان پہنچایا۔ 2018ء کا الیکشن جیتنے کے بعد جب جہانگیر ترین کے عمران خان اور علیم خان سے اختلافات پیدا ہونا شروع ہوئے، علیم خان نے خود کو جہانگیر ترین سے الگ کر لیا جبکہ جہانگیر ترین بھی محدود ہو گئے تو عملی طور پر یونیٹی گروپ ختم ہو گیا تھا، جو رہنما اور ٹکٹ ہولڈر اس گروپ میں کسی حیثیت سے شامل رہے آج انہیں راندہ درگاہ قرار دیا جا چکا ہے۔
نظریاتی گروپ والوں سے تو پہلے ہی ان کی نہیں بنتی تھی اوراب گروپ کا کوئی والی وارث نہ ہونے کی وجہ سے وہ تنظیمی تنہائی، حکومتی بے رخی اور اپنے ووٹرز کے طعنوں کا شکار ہیں۔ تحریک انصاف کا تیسرا گروپ غیر منتخب افراد اور الیکٹ ایبلز پر مشتمل ہے اور درحقیقت اس وقت یہی گروپ حکومت کو ''انجوائے'' کر رہا ہے۔ غیر منتخب افراد نے تو طاقتور نظر آنے والے کئی وزراء کو بھی دیوار سے لگا رکھا ہے، الیکٹ ایبلز موجودہ سیاسی صورتحال میں عمران خان کیلئے بچاو کا واحد ذریعہ ہیں اور کپتان کی اس مجبوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا جارہا ہے ۔
اب اگر اس تمام صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو بظاہر خود کو ناقابل تسخیر ظاہر کرنے والی حکومت کے تخت کے چاروں پائے لرز رہے ہیں اور تحریک انصاف کی تنظیمی حالت موم کے اس پہاڑ جیسی ہے جو کسی بھی تپش سے پگھل جاتا ہے۔ جہانگیر ترین کے پس منظر میں جانے سے کئی پارٹی رہنماوں کی لاٹری نکل آئی ہے اور اس وقت وہ اہم عہدوں پر موجود ہیں جیسا کہ تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی ایک طویل عرصہ کیلئے پس منظر میں چلے گئے تھے لیکن جہانگیر ترین اور عمران خان کے اختلافات شروع ہوتے ہی وہ منظر عام پر واپس آئے اور دوبارہ سے پارٹی کے چیف آرگنائزر بن گئے۔
انہوں نے تنظیم سازی سے متعلقہ اہم فیصلے کئے اور اب وہ سینیٹ کی نشست لینے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں۔ علیم خان اور ترین کے ہوتے ہوئے اعجاز چوہدری زیادہ با اثر نہیں بن سکے تھے لیکن اس وقت وہ تحریک انصاف سنٹرل پنجاب کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ سینیٹر بھی بن چکے ہیں ۔
عامر کیانی حکومت بنتے ہی وفاقی وزیر صحت بنائے گئے لیکن ادویات سکینڈل سامنے آیا تو انہیں کابینہ سے برخاست کر دیا گیا تھا ۔''مفاہمت'' کی ڈور تھامتے ہی عامر کیانی کو تحریک انصاف کا مرکزی سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی کو تحریک انصاف کی تنظیمی صورتحال پر غیر جانبدارانہ اور حقیقی معلومات حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے، اس وقت تو کچھ لوگ انگلی کٹا کر خود کو شہید ثابت کر رہے ہیں اور یہی لوگ نہ صرف حکومتی اور پارلیمانی عہدوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں بلکہ تنظیمی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے بھی اپنے ارد گرد ''سپانسرز'' کا گھیرا بنائے ہوئے ہیں۔کچھ لوگوں نے تو خود کو''کسٹمر سروس سنٹر'' بنایا ہوا ہے۔
تحریک انصاف کے حقیقی کارکن اپنے قائد عمران خان سے والہانہ عشق کرتے ہیں پہلے بھی یہی لوگ بالخصوص نوجوان عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کیلئے سالہا سال تک جدوجہد کرتے رہے اور آئندہ بھی یہی وہ لوگ ہوں گے جو اقتدار ختم ہونے کے بعد بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اس لئے تحریک انصاف کے اندر پس رہی اصل تحریک انصاف کو اوپر لانے کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف عمران خان ہی کر سکتا ہے اگر اس کے پاس اس کیلئے وقت ہو اور وہ ایسا کرنا اہم بھی سمجھتا ہو ورنہ تبدیلی سرکاری کے دور میں سب کچھ تبدیل ہی ہو رہا ہے تو پھر تحریک انصاف بھی سہی۔