تاریخ کا سفر
جب ہم عمر کوٹ کے قلعے میں داخل ہوئے تو میرے ذہن میں قلعے کا وہی تصور تھا، جو چند سال پہلے دیکھا تھا
سفر، کتاب اور گفتگو ایسے ذرایع ہیں، جن سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ لیکن سفر وہ واحد ذریعہ ہے، جو سوچ کو گہرائی اور وسعت عطا کرتا ہے۔ سفر کے دوران آپ مستقل تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ ایک بار پھر ہمارا قافلہ تھر کے خوبصورت شہر عمر کوٹ کی طرف رواں دواں ہے۔ ہر موسم میں تھر کا مختلف روپ دکھائی دیتا ہے۔ صحرائے تھر کے مشرق کی طرف جودھ پور، باڑمیر اور شمال کی طرف عمر کوٹ کا قلعہ، سانگھڑ کا تعلقہ کھپرو واقع ہے۔ تھر میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جن میں سندھی، ڈھاٹکی اور پارکری شامل ہے۔ مارواڑی، راجستھانی زبان ہے جو مارواڑہ سے آئے ہوئے میگھواڑ، مالھی، چارن اور بھیل بولتے ہیں۔ ان تمام زبانوں کا لہجہ بڑا میٹھا اور سادگی سے مزین ہے۔
عمر کوٹ کی حدود میں داخل ہوتے ہی یہ مشہور کہاوت یاد آ گئی کہ عمر کوٹ کی چار چیزیں مشہور تھیں، اس علاقے کے مرد عقلمند تھے۔ عورتیں بے حد خوبصورت تھیں، قلعے کا طلسم لوگوں کو بے اختیار اپنی طرف کھینچتا اور لامبی تالاب کے کناروں پر برگد کے درخت ہمجولیوں کی طرح ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے رہتے ہیں۔ خود رو پودوں کی مسحور کن مہک تازہ ہوا کے ساتھ فضا میں تیر رہی تھی۔ سورج کی کرنوں میں سبزے کا رنگ کھلا لگ رہا تھا۔ پتوں کی سرسراہٹ کی موسیقی کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ منظر اجلا اور خالص تھا۔ سب سے پہلے اکبر بادشاہ کی جائے پیدائش دیکھنے پہنچے، جب ہمایوں سندھ کے شہر پاٹ میں اپنے سوتیلے بھائی ہندال سے ملنے گیا تو اس نے وہاں پر ہندال کے استاد میر بابا کے دوست کی بیٹی حمیدہ دیکھی اور اس کی خوبصورتی پر فریفتہ ہو گیا۔ ہمایوں کے رشتے پر مرزا ہندال بہت برہم ہوا مگر ہمایوں کی سوتیلی ماں دلدار بیگم نے معاملہ سنبھال لیا۔
یوں جمادی الاول 949 ہجری (1541ء ستمبر) میں ہمایوں کی شادی حمیدہ بانو سے پاٹ شہر میں ہوئی۔ عمرکوٹ میں ہمایوں کی آمد کا تذکرہ کرتے ہوئے گلبدن بیگم لکھتی ہیں ''عمرکوٹ بہت عمدہ جگہ ہے۔ یہاں کئی تالاب ہیں۔ چیزیں سستی ہیں۔ ایک روپے میں چار بکریاں مل جاتی ہیں۔ عمر کوٹ کے بادشاہ نے اعلیٰ حضرت کی شاندار پذیرائی کی کہ زبان اس کی مدح کرنے سے قاصر ہے۔'' اکبر بادشاہ کی پیدائش کے حوالے سے ترخان نامے میں درج ہے کہ ''جب ہمایوں بادشاہ راجپوتانہ سے مایوس ہو کر لوٹا تو عمر کوٹ پہنچا تھا، اسی 949 ہجری 1542ھ (ہجری) میں اکبر پیدا ہوا۔ اکبر کی جائے پیدائش پر جہاں ہم کھڑے تھے ایک چھتری یادگار کے طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ کچھ وقت پہلے وہ خستہ حال تھی۔ مگر اس مرتبہ اس محرابی چھتری کو نئے انداز میں دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔
جب ہم عمر کوٹ کے قلعے میں داخل ہوئے تو میرے ذہن میں قلعے کا وہی تصور تھا، جو چند سال پہلے دیکھا تھا۔ قلعے کے چہرے پر وقت کی جھریاں نمودار ہو چکی ہیں۔ قدیم عمارتیں جو ماضی کا ورثہ سنبھال کے کھڑی ہوئی ہیں، ان کی خاموشی گہری اور بامعنی محسوس ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کا المیہ ہے کہ ہر دور گزر جاتا ہے اور پیچھے فقط نشانیاں رہ جاتی ہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھ کر حال کو بہتر بنا لیتے ہیں۔ قلعے پر نہ جانے کتنے حملے ہوئے ہوں گے۔ یہ علاقہ گھوڑوں کی ٹاپوں، ہنہنانے، توپوں کی گرج اور زرہ بکتر سے ٹکراتی ہوئی تلواروں کی جھنکار میں عجیب سا سماں پیش کرتا ہو گا۔ سندھ کی زمین صدیوں سے باہر سے آئے ہوئے حملہ آوروں کے شکنجے میں رہی ہے، سندھ کے وسائل جنھیں دور سے کھینچ لاتے تھے۔ سندھ کے دریاؤں کی روانی، رنگارنگ تہذیب، خلوص و مہمان نوازی کے جوہر و خوشحالی کی وجہ سے سندھ کو ایک طویل عرصے تک غیر ملکی تسلط کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے مقامی لوگ خود رحمی کا شکار ہو کر رہ گئے۔ پانچ ہزار سالوں کی تہذیب کے وارث یہی وجہ ہے کہ قدیم ورثے کی طاقت کو اپنے اندر محسوس نہ کر سکے۔ سندھ کی سماجی نفسیات میں ماضی و حال کی بے یقینی کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔ قلعے کے دروازے پر سورج مکھی کا پھول کنندہ ہے۔
سورج مکھی کا پھول قدیم زمانے سے یقین، روحانیت اور خوشی کی تمثیل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن بعض مورخ یہ کہتے ہیں کہ ایسا نشان عمر سومرو کی انگوٹھی پر بھی کنندہ تھا۔ اوپر قلعے کی برج پر پہنچ کر دیکھا تو عمرکوٹ شہر کا خوبصورت منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اوپر توپیں ایستادہ تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ سومرا دور کے سترہویں حاکم عمر سومری نے 1355 ع سے 1390ع تک عمر کوٹ پر حکومت کی تھی جب کہ قدیم زمانے میں یہ شہر امر کوٹ کہلاتا تھا۔ میری نظریں وہ جگہ ڈھونڈنے لگیں جہاں رتن سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی۔ تھر میں 1846 ع میں رتن سنگھ کی انگریزوں کے خلاف بغاوت کا چرچا تھا۔ رتن سنگھ کو انگریز سرکار نے 1866ء میں عمر کوٹ کے قلعے میں پھانسی دے دی تھی۔ ہر جگہ کا اپنا الگ تاثر ہوتا ہے۔ جیسے قلعے کی دیواروں سے وحشت زدہ لہریں اٹھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ ڈاکٹر پیٹرک میک مناوے کے مطابق جب کسی جگہ بہت زیادہ ذہنی و جذباتی دباؤ پایا جائے یا انسانی جانوں کا زیاں ہو تو اس زمین پر منفی اثرات پائے جاتے ہیں۔ جس کی مثال جنگ کے میدان ہیں۔''
عمر ماروی کی لازوال داستان بھی اس خطے سے منسوب ہے۔ جس زمانے میں عمر کوٹ پر عمر سومرو کی حکمرانی تھی یہ اسی زمانے کا قصہ ہے۔ ماروی کا تعلق ملیر سے تھا۔ بھالوا میں واقع وہ کنواں بھی موجود ہے، جہاں سے عمر نے ماروی کو اغوا کر کے اپنے محل میں لا کر قید کر دیا تھا۔ ماروی تھر کی محبت کی اسیر تھی۔ اسے کھلی فضاؤں سے محبت تھی، لہٰذا اس نے محل کے عیش و عشرت، قیمتی کپڑے اور لذیذ کھانے ٹھکرا دیے۔ دن رات وہ اداس رہتی۔ بالآخر عمر سومرو نے اس کی تھر سے محبت دیکھتے ہوئے ماروی کو آزاد کر دیا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالے کے سروں میں ایک لازوال سر عمر ماروی کا بھی ہے، جو حب الوطنی، حریت پسندی اور اعلیٰ ظرفی کا مظہر ہے۔
عمر کوٹ کے قلعے کا میوزیم گھومتے ہوئے ذہن ایک بار پھر ماضی میں بھٹکنے لگا۔ تاریخ کا یہ سفر صدیوں کا فاصلہ طے کر کے میوزیم میں قید تھا۔ اس میوزیم میں تھر کی ثقافت کے ساتھ مغلیہ دور کی نوادرات بھی سجائی گئی ہیں۔ مغلوں کے دور کے قلمی نسخے، سکے، تصاویر، ہتھیار اور خطاطی کے نمونے محفوظ ہیں۔ میوزیم میں پرانے دور کی زرہ بکتر، ڈھالیں اور تلواریں آویزاں تھیں جو شاندار ماضی کی حشمت، جاہ و جلال کی عکاسی کر رہی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں بارودی اسلحہ اکبر کے دادا بابر نے متعارف کروایا تھا۔
قلعے کے اندر انگریزوں کے دور حکومت میں عمر کوٹ میں تعینات ڈپٹی کمشنر مسٹر ہربرٹ ایڈورڈ واٹسن کی قبر بھی موجود ہے۔
قلعے سے باہر نکلے تو شام ہونے کو تھی۔ ڈوبتے سورج کی نارنجی شعاعوں میں عمر کوٹ کا قلعہ پرفسوں دکھائی دیا۔ صدیوں کی کہانیوں کی گواہ ہوا قلعے کی اونچی فصیلوں کے قریب بھولا بسرا گیت گنگنا رہی تھی۔