الفاظ کی دنیا سے
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہاتھ سے لکھنے میں جو مزہ ہے وہ کمپوزنگ میں کہاں؟
آج کے زمانے میں ہر شخص کو کمپیوٹر ضرور سیکھنا چاہیے وہ نیٹ سے استفادہ کرے نہ کرے کمپوزنگ میں ضرور مہارت حاصل کر لے یہ اس کے لیے نہایت فائدہ مند ثابت ہو گا، ہم نے اس اہم ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے آخر کار کمپوزنگ کرنا سیکھ ہی لی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ تنگی وقت اتنی مہلت ہی نہیں دیتا ہے کہ باقاعدگی کے ساتھ کمپوزنگ کی جائے تا کہ روانی بڑھے۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہاتھ سے لکھنے میں جو مزہ ہے وہ کمپوزنگ میں کہاں؟ لیکن جو اس شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں وہ چٹکی بجاتے ہی کئی صفحات منٹوں میں کمپوزنگ کے ذریعے نمٹا دیتے ہیں، کمپوزنگ کرنے میں بھی بڑی بڑی غلطیاں ہو جاتی ہیں اگر پروف پڑھنے والا ذرا توجہ دے تو غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں، آج کل قلمکار زیادہ تر کمپیوٹر کا ہی سہارا لیتے ہیں وہ خود ہی پروف ریڈر کی ذمے داری احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی صاحب کی کتاب بعنوان ''پورب سے یورپ'' تک شایع ہوئی تھی اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب کا ایک مضمون (احوال واقعی) ''جو ہمارے گھر میں ہے ان کے عجائب گھر میں شامل ہے'' مذکورہ مضمون میں کمپوزنگ کی غلطیوں کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ''ڈائجسٹ'' میں ہمارے مسودے کا جو حشر نشر ہوتا، اس پر ہم ہر بار تحریری احتجاج کرتے اور سبنگ (Subbing) تراجم کی فاش غلطیوں کی نشاندہی کرتے لیکن معاملہ یہ رہا ''واں اک خموشی تری سب کے جواب میں۔''
جو صاحب وہاں اس کا پوسٹ مارٹم کرنے پر مامور تھے وہ ''حسن کثافت'' سے اتنے معمور اور حسن لطافت سے اتنے محروم تھے کہ چھانٹ چھانٹ کر اس میں سے مزاحیہ اور کاٹ دار جملے، مزاح کی نو تراشیدہ اصطلاحات و تراکیب حتیٰ کہ مزاحیہ واقعات اور مکالمات بھی کاٹ پھینکتے، سفر نامے کے ایک باب ''ذکر ایک کمرہ امتحاں کا'' کا دوسرا حصہ جو ان کے یہاں بہت نرم کر کے بھیجا گیا تھا، ان کی طبع طہارت مآب پر اتنا گراں گزرا کہ انھوں نے اسے یکسر منسوخ و مسترد کر دیا۔ ''ہم چیک پوسٹ'' لکھتے اور چھپ کر ''پڑتالی چوکی'' آتا ''بم پروف عمارت'' اس رسالے کے دفتر میں جا کر ''گولہ روک'' عمارت بن جاتی تھی حد یہ کہ لندن کی پولیس کو ''لندنی پولیس'' لکھا گیا اور یہ ساری حماقتیں ہمارے کھاتے میں جا رہی تھیں اس لیے کہ مطبوعہ مواد پر نام تو ہمارا ہی چھپتا تھا، کبھی کبھی تو پورا پورا پیراگراف اپنی تصحیح شدہ حالت میں ''یرقان زدہ'' ہو جاتا، مضامین کے عنوانات، تصاویر کے کیپشنز اور اشعار کے اوزان کے ساتھ ''غیر شرعی'' چھیڑ چھاڑ تو ان لوگوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔''
اس بات میں شک کی قطعی گنجائش نہیں ہے کہ کمپوزنگ کی غیر دانستہ غلطیاں تحریر کے حسن و جمال کو دو دھاری تلوار سے کاٹ ڈالتی ہیں اور بے چارہ مصنف مارے شرم کے پانی پانی ہو جاتا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ لیکن جناب خاطر جمع رکھیے کہ ان کالموں میں اس طرح تو ہوتا ہی ہے، میرا مطلب غلط نہ سمجھیں، میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اس قسم کے تجربات سے تخلیق کار اور قلمکار آئے دن گزرتے ہیں ایسی ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کئی بار سوچا کہ اس خون کی ایک بوتل بھر کر رکھی جائے۔ رائٹر کی تمام محنت و مشقت پر پانی پھیر دیا جاتا ہے لیکن سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کوتاہی کس کی طرف سے ہوئی ہے۔ حال ہی میں ہماری تحریر ایک رسالے میں شایع ہوئی ہے اس میں لفظ ''میتیں'' مشینیں بن گیا ہے۔ ایسا ہوتا رہتا ہے فکر کی کوئی بات نہیں۔
کچھ لوگ عرصہ دراز سے یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ ادب روبہ زوال ہے جب کہ ہمارا جواب اس کے برعکس ہے، بے شمار کتب و رسائل شایع ہو رہے ہیں ان کتابوں و جرائد کو لوگ بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے بھی ہیں اور یہی تحریریں موضوع بحث بن جاتی ہیں۔ اگر تواتر سے شایع ہونے والے رسائل کے نام گنوا دیے جائیں تو کالم کے محدود صفحات ختم ہو جائیں گے اور رسائل کے نام اور مختصراً تعارف باقی رہ جائے گا۔ ایسا ہی حال اشاعت کتب کا بھی ہے دو چار کتابوں اور رسالوں کا لگے ہاتھوں ذکر کرتی چلوں۔
جرمنی سے جو کتابیں موصول ہوئی ہیں ان کتابوں میں ایک اہم کتاب ''کھٹی میٹھی یادیں'' بھی شامل ہے اس کتاب کے مصنف حیدر قریشی ہیں۔ جناب حیدر قریشی کا آبائی علاقہ رحیم یارخان، خان پور (سابق ریاست بھاولپور) ہے، وہ بہت اچھے شاعر، افسانہ نگار، خاکہ و سفر نامہ نگار ہیں، تحقیق و تنقید کے حوالے سے بھی مضامین لکھے ہیں، افسانوں کا ہندی ترجمہ بھی کیا ہے۔ اردو میں ماھیا نگاری اور اردو ماھیے کی تحریک کے حوالے سے مضامین لکھے ہیں اور جو کتابی شکل میں شایع ہوئے۔
جناب حیدر قریشی کے تخلیقی و تعمیری کاموں کا اعتراف بھی کیا گیا ہے اور ان کے فکر و فن پر روشنی ڈالی گئی اس کتاب کے مصنف محمد وسیم انجم ہیں۔ ادبی سلسلہ ''عکاس'' کے ایڈیٹر نے حیدر قریشی نمبر مرتب کیا، اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور سے ایم اے اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا گیا، یہ سارے کام جناب حیدر قریشی کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں، ایک قلمکار اور تخلیق کار، عزت و مرتبے کا ہی خواہش مند ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو ان کی زندگی میں ہی سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے جب کہ اکثر حضرات محروم ہی رہتے ہیں اس کی وجہ علم و ہنر کے قدرداں بے حد کم ہیں اور جو ہیں تو وہ گروہ بندی کے شکار اور تعصب و اقربا پروری کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
جناب حیدر قریشی کا اوڑھنا بچھونا شعر و ادب ہے۔ ''عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں'' والا معاملہ درکار ہے۔ 2013ء میں بھی دہلی سے ایک کتاب چھپی ہے، عنوان ہے حیدر قریشی کی شاعری، مرتب کرنے والے بردئے بھانو پرتاب ہیں۔ حیدر قریشی دنیائے ادب میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں اور ان کا شمار کثیر الجہت لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔
ایک بے حد خوبصورت اور معیاری رسالہ ''الحنیف'' کے نام سے موصول ہوا ہے، یہ دو ماہی ہے، اس جریدے میں مذہبی، فکری اور طنز و مزاح کے حوالے سے مضامین شامل ہیں رسالے کے مدیر اعلیٰ سید عرفان طارق ہیں اور منتظم اعلیٰ محترم سلیم عمر ہیں شمارہ 5 اور 6 میرے مطالعے میں رہے ہیں، اس طرح کے رسائل کی اشاعت وقت کی ضرورت ہے، بصیرت افروز مضامین اور احادیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرصع ہے اس کی ہر تحریر قابل توجہ ہے، ایک بے حد موثر مضمون ''در یتیم'' جو کہ قسط وار شایع ہو رہا ہے، اچھوتے انداز میں لکھا گیا اس کے مصنف جناب مولانا ماہر القادری ہیں، ''یادیں باقی رہ جاتی ہیں'' اس عنوان سے جناب ابونثر کی تحریر شامل اشاعت ہے، ماضی کے حوالے سے یہ ایک بے حد دلچسپ مضمون اور بہت سی پرانی یادوں کے در وا کرتا ہے۔ ''حج ایک جامع و اکمل عبادت'' اس مضمون کے ذریعے جناب سید عرفان طارق نے قرآن و حدیث کے ذریعے معلومات فراہم کی ہے۔ ''اولیات فاروقی'' ڈاکٹر ساجد خاکوانی، ''برما کے مسلمانوں کی داستان الم'' سلمان احمد شیخ کی تحریر، اسی قسم کے مدلل جامع مضامین رسالے کی زینت ہیں ملکی و غیر ملکی حالات و واقعات سے یہ رسالہ آراستہ ہے۔