’’2014ء پاکستانی فلم اور سینما انڈسٹری کا سال ہوگا‘‘

’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شوبز شخصیات کا اظہار خیال


Muhammad Javed Yousuf January 23, 2014
’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شوبز شخصیات کا اظہار خیال۔ فوٹو : فائل

زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ نئے سال کے آغاز پر ترقی کی نئی نئی راہوں پر چلنے کا عزم کرتے ہیں۔

اسی طرح شوبز کے مختلف شعبوں کے لوگوں نے بھی 2014ء میں بہترین کام کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ دیکھاجائے توگزشتہ 15 برس سے پاکستانی فلم اور سینما انڈسٹری شدید بحران کا شکار چلی آ رہی ہے۔ اس کی بڑی وجوہات ویسے توبہت زیادہ ہیں لیکن ان میں قابل ذکر ایک طرف توفارمولا فلموں کی نمائش کو کہا جاتا ہے اور دوسری خاص وجہ سینما گھروں کے ماحول کا بہتر نہ ہونا بھی رہا ہے۔ فارمولا فلموں کو فلم بینوں نے مستردکیا لیکن ہمارے فلم میکرز نے اس پر خاص توجہ نہ دی اورمعمول کے مطابق ایک ہی طرز کی فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری رہا جبکہ سینما گھروں کے منتظمین نے تیزی سے بدلتی سینما انڈسٹری کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا جس کے نتیجہ میں لوگوں نے سینما گھروں کا رخ کرنا پہلے کم کیا اورآہستہ آہستہ سینما گھر ویران ہونے لگے۔

شدید مالی بحران کے باعث ملک بھر میں سینما گھر ٹوٹنے لگے اوراسی طرح نگارخانوں میں بھی ویرانیوں کا ''راج'' ہوگیا۔ فلم اورسینما انڈسٹری کے '' سرپرست '' کبھی حکومت کی عدم توجہی کا بہانہ بناتے توکبھی بیان بازی کر کے وقت گزارتے، مگر عملی طور پر انہوں نے کچھ نہ کیا۔ ایسے میںجب امپورٹ قوانین کے تحت بالی وڈ سٹارزکی فلموں کی پاکستانی سینما گھروں میں نمائش کا سلسلہ شروع ہوا تواس رسپانس کودیکھتے ہوئے لاہور اورکراچی میں جدید طرز کے سینما گھر وجود میں آگئے۔ کچھ نئے بنے توکچھ میں جدید سازوسامان نصب کر دیا گیا۔

دوسری طرف کھانے پینے کی اشیاء، پارکنگ، ویٹنگ روم، سینما ہال کی کرسیاں، سکرین اورساؤنڈسسٹم کو بھی شاندار انداز سے اپ گریڈ کیا گیا جوفلم بینوںکی توجہ کا مرکز بنا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک کے بڑے شہروں میں بہت سے نئے سینما گھر بنے اورسینما کلچر فروغ پانے لگا۔ اس کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ بنائی جانے والی پاکستانی فلموں کو بھی بہت اچھا رسپانس ملا جس کے بعد نیا سال 2014ء بھی فلم اورسینما انڈسٹری کیلئے بہت خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔

نئے سال کے آغاز اوراس میں پاکستانی فلم اورسینما انڈسٹری کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا گیا جس میں فلم اورسینما انڈسٹری کی نمایاں شخصیات نے نئے سال کے حوالے سے اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے تجاویز بھی پیش کی ہیں۔

ضوریز لاشاری (چیئرمین سینما اونرز ایسوسی ایشن)

پاکستان میں 2014ء کے دوران 40 سے 50 سینما گھروں کی تعمیر متوقع ہے۔ ایک طرف تو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ سینما گھر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنیں گے اور دوسری جانب اس کی بدولت امپورٹڈ ہی نہیں، پاکستان کی معیاری فلموں کو بھی یہاں نمائش کے لئے پیش کیا جا سکے گا۔ جہاں تک بات فلم اور سینما انڈسٹری کے اختلاف کی ہے تو نظریاتی طور پر فلم اورسینما انڈسٹری کے اختلافات رہیں گے کیونکہ کچھ لوگ بھارتی فلموں کے خلاف ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے بیان بازی کا سلسلہ جاری رکھنا ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی پروڈیوسروں اورڈائریکٹرزکو یہ بات ماننی چاہیئے کہ امپورٹڈ فلموں کی وجہ سے یہاں سینما گھر بنے اور مزید بن رہے ہیں اورمستقبل میں اس کا فائدہ ہمارے فلم میکرز کو ہی ہوگا۔ جتنے زیادہ سینما گھر ہوں گے اتنا ہی زیادہ فلم کا بزنس ہوگا۔

پاکستان کی ایک فلم نے گزشتہ برس نمائش کے دوران مختصرعرصے میں 22 کروڑ کا ریکارڈ بزنس کیا۔ بھارتی فلموں کی مخالفت کرنیوالے ابھی بھی کچھ نہیں بنا رہے بلکہ ان کی اکثریت 20، 20 سال سے کوئی فلم ہی نہیں بنا رہی ۔ اگر سینما گھر نہ ہوتے تو یہ کسی طرح سے بھی ممکن نہ تھا۔ جہاں تک ہمارے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر'' بی''، '' سی '' کیٹگری کی فلمیں بنا رہے ہیں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔



فلم کے چلنے یا نہ چلنے کا فیصلہ تو عوام نے کرنا ہوتا ہے ۔ ہم فلم بینوں کو زبردستی سینما گھروں میں نہیں لاسکتے۔ اگر یہ ''مجاجن'' ، ''میں ہوں شاہد آفریدی '' اور''وار'' جیسی فلمیں بنائیں گے تو انہیں اچھا رسپانس ملے گا اورسینما بھی انہیں زیادہ سے زیادہ وقت دیں گے۔ اگر فلم ہی فلاپ ہو جائے تو اپنے گریبان میںجھانکنے کی بجائے سینما اور عوام کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔

ہمارے فلمسازوں اور ہدایتکاروں کوبین الاقوامی معیار کی فلمیں بنانا ہوں گی ، جہاں تک پنجابی فلموں کی بات ہے تو ان کا مستقبل اچھا نہیں دیکھ رہا ۔ اس وقت فلم کا ساٹھ فیصد بزنس کراچی میں ہو رہا ہے جبکہ اسلام آباد میں بھی اس طرح کی اوسط سامنے آئی ہے۔ اس لئے موجودہ حالات میں پنجابی فلموں کا رحجان نہیں ہے، یہاں پر اردو زبان میں فلم بنانے میں ہی فائدہ ہے۔ ہمارے ہاں بنائی جانے والی فلموں کی نہ کوئی مارکیٹنگ ہوتی ہے اورنہ ہی معیار ، پھر واویلا کیا جاتا ہے کہ سینما والے ہمیں لفٹ نہیں کرا رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ریکارڈ بزنس کرنے والی فلم کی مارکیٹنگ اتنی اچھی کی گئی کہ ریلیز سے قبل ہی فلم مقبول ہو چکی تھی ۔ 2013ء فلم انڈسٹری کے لئے بہت اچھا رہا ہے ، دو تین پاکستانی فلموں نے اچھا بزنس کیا۔ ان کو دیکھنے کے بعد فلم اورسینما انڈسٹری کا روشن مستقبل دیکھ رہا ہوں۔

میرا فلم انڈسٹری والوں کو مشورہ ہے کہ وہ اپنے گھرکی فکرکریں کہ ہم نے کس طرح سے اس کو بہتر بنانا ہے۔ 2013ء میں آٹھ سے دس مزید سکرینیں بنیں اور اب سال 2014ء میں مزید چالیس سے پچاس سکرینیں بن رہی ہیں۔ جس سے دو سے تین کروڑ میں بننے والی فلم کو 60 ء سے 70 ء سکرینیں ملیں گی تو وہ ایک ہفتہ میں تین کروڑ روپے بآسانی کما سکے گی۔ ضوریز لاشاری نے کہا کہ امپورٹڈ پالیسی میں بھارتی فلم پر پابندی ہے مگر مشکل حالات میں پالیسی کے تحت بین چیزیں منگوائی جا سکتی ہیں۔ بھارتی فلم منسٹری آف کامرس سے این اوسی حاصل ملنے کے بعد ہی پاکستان میں آرہی ہیں۔ بھارتی فلمیں تو پچھلے ایک عرصہ سے گھر، گھر کیبل اور ڈی وی ڈیز پر دیکھی جا رہی ہیں۔

میرا (فلم سٹار)

ایکسپریس فورم میں آکر ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے 16 سال پہلے والی فلم انڈسٹری میں آئی ہوں ، یہاں پر شہزاد رفیق، محمد پرویز کلیم ، فیاض خان ، جونی ملک جیسے سینئر لوگوں سے ملاقات ہو گئی جن سے ملے ایک عرصہ ہو چلا ہے۔ یہ ہماری فلم انڈسٹری کی وہ معروف شخصیات ہیں جنہوں نے فلم انڈسٹری کے لئے یادگار فلمیں تخلیق کیں اور آج بھی جب شدید بحران سے دوچار ہے، یہ اپنے تئیں اس کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں۔ میں ان کی کاوشوں اور گراں قدر خدمات پر سلام پیش کرتی ہوں۔ میرا نے کہا کہ ہمارا ماضی ، حال اور مستقبل یہی لوگ ہیں۔



ہسپتال کی وجہ سے میں نے اپنی شوبز سرگرمیاں عارضی طور پر ترک کردی ہیں ۔ مگر فلم اور سینما انڈسٹری کے مسائل کے حل کے لئے میری خدمات حاضر ہیں ۔ 2013ء میں پاکستانی فلموں کی باکس آفس پر کامیابی خوشی کی بات ہے کیونکہ اس کی وجہ سے فلمسازوں اور ہدایتکاروں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور مجھے لگ رہا ہے کہ سال 2014ء میں جس طرح سے نئے سینما بن رہے ہیں اسی طرح بین الاقوامی معیار کی فلمیں زیادہ سے زیادہ بنیں گی ۔ میرا نے مزید کہا کہ میری محمد پرویز کلیم سمیت تمام سینئرز سے درخواست ہے کہ وہ جس طرح سے ایک فلم بنانے کے لئے پلاننگ کرتے ہیں اسی طرح فلم کے لئے 100 کروڑ روپے کی انویسمنٹ کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

شہزاد رفیق ( ہدایتکاروفلمساز)

فلم اورسینما کی بحالی کا عمل شروع ہو چکا ہے اورآنے والے وقتوں میں مزید بہتری دکھائی دے رہی ہے۔ ''ایکسپریس میڈیا گروپ'' نے جس طرح سے اپنی منفرد پہچان بنائی ہے اب اس ادارے کو نئے سال میں ''ایکسپریس فلمز'' کے نام سے بھی ایک ادارہ بنانا چاہئیے اور فلم سازی کے میدان میں عملی طور پرآنا چاہیئے۔ نئی سوچ اورنئی ٹیکنالوجی کے ساتھ آنے والوں سالوں میں فلمیں دکھائی دیں گی لیکن ایسے میں سینئر لوگوں کو تنہا چھوڑ دینا مناسب نہیں ہے۔ اگر نئے لوگ ، سینئرز کی رہنمائی میں کام کریں گے تو اس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔

ابتدائی کامیابیوں کے بعد اگر سینئرز کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو یہ عمل درست نہیں ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک کی فلم انڈسٹری نے ترقی کی نئی راہیں تلاش کی ہیں تو اس میں یش راج کا بڑا عمل دخل ہے۔ یش راج کی رہنمائی میں دس باصلاحیت ڈائریکٹر سامنے آئے اور آج وہ بالی وڈ کے لیڈنگ ڈائریکٹر مانے جاتے ہیں۔



اسی طرح مہیش بھٹ اور سبھاش گھئی نے بھی نوجوان ڈائریکٹروںکو کام کرنے کا موقع دیا جبکہ ہمارے ہاں سینئرز اس خوف میں مبتلا رہے کہ ان کی جگہ کوئی دوسرا نہ لے لے، جس کی وجہ سے آج حالات سب کے سامنے ہے۔ سینئرز کو یہ خوف ختم کرنا چاہیئے۔ ہمارے ملک میں کوئی سیکنڈ لائن ہی کھڑی نہیں کی گئی ۔ آج اگرہمارے ملک میں فلمیں بن رہی ہیں اور ان کو کامیابی مل رہی ہے تو اس کا کریڈٹ ہمارے سینئرز کو جاتا ہے۔ اگر وہ فلمیں بنانا بند کر دیتے تو ہماری انڈسٹری کئی برس قبل ہی بند ہو جاتی لیکن انہوں نے کم وسائل کے باوجود فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ہاں جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ نئی فلمیں بن رہی ہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آنے والا وقت بہت بہتر ہے۔ آئندہ چند برسوں میں ہم اس قابل ہوجائیں گے کہ پھر شاید ہمارے سینما گھروں میں صرف پاکستانی فلمیں ہی دکھائی جائیں گے۔ اس لئے میں 2014ء میں پاکستانی فلم اورسینما انڈسٹری کا مستقبل روشن دیکھ رہا ہوں اور مجھے امید ہے کہ پاکستانی فلم جلد ہی بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی اپنی منفرد پہچان حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

محمد پرویز کلیم (مصنف وہدایتکار)

پاکستانی فلم انڈسٹری ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکی ہے، ترقی کے اس سفر میں وہ لوگ بھی شامل ہو چکے ہیں جو ٹیکنالوجی سے نفرت کرتے تھے۔ 62 سال کا بوڑھا ہوں اور فلم انڈسٹری کے ساتھ میرا ایک گہرا رشتہ ہے۔ آج میں دیکھ رہا ہوں کہ فلم انڈسٹری میں نئی صبح کا آغاز ہو چکا ہے اور اماوس کی طویل رات ختم ہوچکی ہے ۔ ہمیں جو ''زندہ بھاگ'' ، '' میں ہوں شاہد آفریدی'' سمیت دیگر فلموں کی وجہ سے کامیابیاں ملی ہیں اور جس طرح سے انہیں فلم بینوں نے سراہا ہے۔ انشاء اللہ پاکستان فلم انڈسٹری کی بہاریں لوٹ آئیں گی ۔ پرویز کلیم نے کہا کہ ان فلموں کی کامیابی خوش آئند ہے اور نئے لوگوں کو مبارکباد بھی پیش کرتا ہوں۔ مگر سکرین پلے سمیت کہیں کہیں تھوڑی خامیاں نظر آئیں جن کے لئے انہیں رہنمائی اور مشورے کی ضرورت ہے۔



میری اپنی اس نوجوان نسل سے درخواست ہے کہ وہ اپنی بارات میں ایک آدھ بوڑھا شامل کر لیں جو انہیں پورا سالم بکرا کھانے کی ترکیب بتا سکے۔ سینما انڈسٹری جو ترقی کر رہی ہے وہ پاکستان فلم اندسٹری کا آئینہ ہے جس میں فلم انڈسٹری کا مستقبل دکھائی دے رہا ہے ۔ ہمارے پاس وہ کیمرے تھے جو انتہائی بوسیدہ اور پرانے تھے ۔ ہندوستان کے پاس بھی جب تک یہ رہے ہم ان کا مقابلہ کرتے رہے۔ مگر جدید ٹیکنالوجی میں ہم ان سے بہت پیچھے رہ گئے ۔ وہاں سو کروڑ کی فلم بنانا کوئی بڑی بات نہیں مگر پاکستان میں دو کروڑ کی فلم بنانا ہی بہت مشکل کام ہے۔ ہمیں اس کے لئے انٹرنیشنل مارکیٹ تلاش کرنی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ جو بچے فلم میکنگ پڑھ رہے ہیں اور پڑھانا چاہ رہے ہیں ان بچوں کو بیرون ممالک فلم میکنگ کی تربیت حاصل کرنے کیلئے حکومت اپنا کردار ادا کرے۔ 2013 ء میں پاکستان فلم اور سینما انڈسٹری میں معجزے ہوئے اور اچھی فلمیں بنیں ۔ 2014-15ء فلم انڈسٹری کے لئے بہت روشن ہے ۔

غفور بٹ ( فلمساز واداکار)

میں پچھلے تین سالوں سے فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے فلمیں بنا رہا ہوں حالانکہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے صرف نقصان ہوگا۔ فیاض خان سمیت دیگر دوستوں نے مجھے روکا بھی تھا کہ یہ صرف گھاٹے کا سودا ہے ۔ مگر اپنے مشن سے نہیں ہٹا۔ اب 2014ء کے لئے میں نے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ فلم''دی سسٹم'' بنائی ہے جو جلد ہی سینما گھروں کی زینت بنے گی ۔ میری میڈیا والوں سے درخواست ہے کہ میری اس کاوش میں وہ میرا ساتھ دیں کیونکہ ان کے تعاون کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے۔



فلم ٹریڈ کو گھسے پٹے موضوعات کی بجائے آج کے دور کی نوجوان نسل کو ذہن میں رکھ کر فلمیں بنانا ہوں گی ، ورنہ یہ اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہ جائیں گے اور باہر سے کوئی دوسرا آکر سینما کی طرح فلم میکنگ میں بھی قدم جما لے گا۔ ابھی وقت ہے کہ ہم خواب غفلت سے اٹھ کر حقیقت کو دیکھیں اور اپنی خامیوں ، کوتاہیوں کو ٹھیک کر کے آگے بڑھیں۔ نئے لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے ہم سب کو اصلیت دکھانے کے ساتھ راستہ دکھا دیا ہے کہ اگر اچھا کام کریں گے تو ہم چل سکتے ہیں۔

قیصر ثناء اللہ خان (چیئرمین سینما مینجمنٹ ایسوسی ایشن)

سال 2010 سے 2013ء تک دس سے بارہ فلمیں بنائی گئیں ، مگر 2013ء میں یہ ضرور ہوا کہ اب فلم بنانے والوں کو احساس ہوا ہے کہ جدید دور کی معیاری فلم بنائیں گے تو پھر ہی فلم بین خصوصاً فیملیاں سینماؤں کا رخ کریں گی ورنہ ہمارے پاس سوائے ناکامیوں کے کچھ نہیں رہے گا۔ اب 1980ء کے فارمولے والی فلمیں بنا کر فلم بینوں کو سینماؤں میں نہیں لایا جا سکتا ، فلم دیکھنے والے معیاری فلم ہی دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر انہیں ہم اچھی اور معیاری فلمیں دیں گے تو وہ ضرور آئیں گے۔ فلم بینوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی باتیں کرنے والوں کے لئے سال 2013ء میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلموں کے نتائج ان کے سامنے ہیں، جنہیں پاکستانی فلم بینوں نے سراہا اور باکس آفس پر بھارتی فلموں کے مقابلے میں کامیاب بزنس کیا ۔ آنے والا دور اردو فلموں کا ہے اور اب ہمیں بین الاقوامی معیار کو سامنے رکھ کر اردو فلمیں بنانا ہوں گی۔



سینما انڈسٹری کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ایکسپریس فورم کی وساطت سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سینما انڈسٹری کو بالی وڈ فلموں نے بچایا ہے اور آج ملک بھر میں سنی پلیکس کا جو جال بچھ رہا ہے اس کا کریڈٹ بھارتی فلموں کو ہی جاتا ہے جو نہ صرف ناراض فلم بینوں کو سینماؤں میں لائیں بلکہ پاکستان میں بھی معیاری فلم میکنگ کی بنیاد رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس لئے فلم والوں کو چاہیئے کہ وہ بھی جدید ٹیکنالوجی کو اپناتے ہوئے نئے ٹیلنٹ کی بھی حوصلہ افزائی کریں کیونکہ ہمارا مستقبل اب نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہی ہے۔ معیاری فلم میکنگ کا کراچی سے آغاز ہو چکا ہے اور اب لاہور سے بھی شروع ہوجائے گا ۔ 2014ء میں پچاس کے قریب سینما گھر باقی سینما گھروں سے مل جائیں گے اور اس سال اچھی کوالٹی والی فلمیں 100 سکرینوں کے ساتھ دیکھی جا سکیں گئیں۔

جونی ملک (فلمساز)

جب تک ہم کام نہیں کریں گے اس وقت تک دعوے ، پیش گوئیاں سب فضول ہیں۔ فلم ٹریڈ کی بحالی کے لئے فلمیں بنانے کی ضرورت ہے، اگر ہم اس طرح سے باتیں ہی کرتے رہے تو سال 2014ء میں بھی ہم اسی طرح کے فورم میں بیٹھے بہتر مستقبل کی باتیں ہی کر رہے ہوں گے۔ اس لئے ہمیں باتوں سے زیادہ عملی طور پر متحرک ہونا ہو گا ۔ آج ہم جن فلموں کی تعریف کر ر ہے ہیں تو اس کا کریڈٹ ان لوگوں کو جاتا ہے جو حالات کی پرواہ کئے بغیر میدان میں اترے ہیں۔

شیخ اکرم (فلمساز)

گزشتہ برس بننے والی فلموں میں تکنیکی اعتبار سے خامیاں ضرور تھیں مگر اس کے باوجود اچھے نتائج دئیے۔ جو ہمارے ان فلمسازاور ہدایتکاروں کے لئے پیغام ہے کہ آپ بھی اچھا اور معیاری کام کریں ۔ فلم ٹریڈ سے کروڑوں کمانے والے آج منظر عام سے غائب ہیں، انہیں چاہئے کہ آئیں اور اس کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں تعاون کریں۔ یاد رکھیں اگر انہیں نے ایسا نہ کیا تو آنے والے دور میں نئی فلم انڈسٹری میں کوئی ان کا نام لینے والا بھی نہیں ہوگا۔

فیاض خان ( وائس چیئر مین فلم پروڈیوسرایسویسی ایشن ، سینئر فلمساز)

فلم ٹریڈ سے وابستہ ہوئے 45 برس ہو گئے ہیں میں بھی فلم ٹریڈ کا نجومی ہوں ۔کچھ لوگ مایوس ہو گئے تھے کہ فلم ٹریڈ ختم ہوگئی، مگر میں نا امید نہیں تھا کہ جب تک پاکستان ہے فلم انڈسٹری زندہ رہے گی۔ ہم نے دولت ، شہرت فلم انڈسٹری سے ہی کمائی ہے۔ میں اپنے دوستوں سے کہتا تھا کہ ہم نے اپنی اننگز کھیل لی ہے اب نئی ٹیکنالوجی اور نئے لوگوں کا دور ہے انہیں آگے آنے کا موقع دو۔ اس وقت میری اس بات پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ جس کا نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے، سٹوڈیوز کو تالے لگ گئے، سینما گھر ختم ہونے لگے۔



آج جدید سینما اور جدید فلم میکنگ نے انقلاب برپا کرد یا ہے۔ میری بات کو نئے ٹیلنٹ نے سچ ثابت کر دکھایا، انہوں نے فلم میکنگ کے ذریعے فلم بینوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ان نئے لوگوں کے جنون اور کام کو دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ فلم انڈسٹری کا روشن مستقبل شروع ہو چکا ہے اور یہ جہاں پاکستان فلم انڈسٹری کو انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی دلائیں گے اس کے ساتھ وہ پرانے لوگوں کو موقع دینے کے ساتھ نئے آنے والوں کو بھی آگے لائیں گے۔

اداکار گلفام

فلم بھی ایک بزنس ہے ، سال میں دس سے بارہ فلمیں بننے سے بحران ختم نہیں ہوگا، اس کے لئے انویسٹمنٹ چاہیئے جس کے لئے میں دعا کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ انویسٹر فلم کی طرف آئے تاکہ ایک بار پھر فلم انڈسٹری کی رونقیں بحال ہوں اور لوگوںکو معیاری فلمیں دیکھنے کو مل سکیں۔ ہمارے پاس تجربہ کار لوگوں کی کمی نہیں ہے جنہیں صرف جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ابھی تک سبھی باتیں ہی کر رہے ہیں عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہے ۔ جب تک عملی طور کچھ کریں گے نہیں تو سب کیسے ٹھیک ہوگا ۔ اس کو ٹھیک بھی ہم نے ہی کرنا ہے ۔ اگر یہی حال رہا تو جو چند ایک فلمیں بن رہی ہیں وہ بھی بننا بند ہوجائیں گی۔کوئی کام بھی پیسے کے بغیر نہیں ہوتا میں اداکارہ میرا کی اس بات سے متفق ہوں کہ فلم انڈسٹری والوں کو فلم میں سرمایہ کاری کے لئے کوئی پلان بنانا چاہیئے۔

کیپٹن نوید پرویز

پاکستان میں جدید طرز کے سینما گھر بن رہے ہیں اور اچھی فلمیں بھی بنائی جا رہی ہیں اسلئے میں سمجھتا ہوں کہ 2014ء میں فلم اور سینما انڈسٹری ترقی کرے گی اور لوگوں کو بھی تفریح کے بہترین مواقع میسرآئیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں