طلبہ تحریکوں کی کہانی دوسرا اورآخری حصہ
این ایس ایف میں یہ رجحان محض عام انتخابات سے کنارہ کشی کانہیں بلکہ طلبہ یونینوں کے انتخابات سے کنارہ کشی کابھی نظرآیا۔
1958میںغیر جمہوری قوتوں نے اقتدار پر قبضہ کیا اور جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا ۔ مارشل لاء کے نفاذ کے فوراً بعد نومبر 1958میں این ایس ایف کی مجلس عاملہ سے اپنے پہلے اجلاس میں مارشل لاء کے نفاذ کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ملک میں سیاسی جماعتوں پر پابندی اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہارکیا گیا۔
7 جنوری 1959 کو این ایس ایف پر پابندی لگا دی گئی۔ مارچ 1959 میں این ایس ایف کے صدر شیر افضل ملک نے این ایس ایف پر پابندی کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ ہائی کورٹ نے شیر افضل کی عرض داشت کو ناقابل سماعت قرار دیا۔ حکومت نے سیکیورٹی ایکٹ کے تحت شیر افضل ملک کو گرفتار کرلیا اور این ایس ایف کے سرکردہ کارکنوں کو بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 3 ماہ کے لیے نظربند کردیا گیا۔
کتاب کے چھٹے حصہ 19ویں باب میں کمیونسٹ رہنما حسن ناصرکی شاہی قلعہ لاہور میں شہادت کا تفصیلی ذکرکیا گیا ہے۔ افریقہ کے انقلابی رہنما پیٹرک لوممبا کے قتل کے خلاف این ایس ایف نے امریکی سامراج کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی۔ این ایس ایف نے تین سالہ ڈگری کے مخالف تحریک چلائی۔ یہ تحریک شریف کمیشن کی سفارشات کے خلاف 12 نکات پر مطالبات کی حمایت میں چلائی گئی۔ اس تحریک میں این ایس ایف کے 12رہنماؤں کوکراچی بدر کیاگیا۔
یہ رہنما جس شہر میں گئے وہاں تحریک پھیل گئی۔ اپنے رہنماؤں کی شہر بدری کے احکامات کی منسوخی کے لیے طلبہ نے ڈی جے کالج میں بھوک ہڑتال کی۔ طلبہ نے احتجاجی جلوس نکالاجس پر پولیس نے فائرنگ کی۔ اس فائرنگ میں ایک طالب علم کرامت علی شہید ہوئے۔کراچی میں طلبہ پر فائرنگ کے خلاف مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ حکومت کو 12طلبہ رہنماؤں کو کراچی بدر کرنے کے احکامات واپس لینے پڑے۔
عالمی کمیونسٹ تحریک میں نظریاتی اختلافات کا آغاز 60ء کی دہائی سے ہوگیا تھا۔ اس نظریاتی تقسیم کے اثرات کمیونسٹ پارٹی اور اس کی اتحادی تنظیموں پر بھی پڑے، این ایس ایف بھی تقسیم ہوئی۔ اس اہم باب میں مصنفین نے اختر احتشام کی سوانح حیات سے یہ بات تحریرکی ہے کہ یہ پارٹی کے سرکردہ افراد نے شیر افضل ملک کی مقبولیت سے خوفزدہ ہونے کے باعث ان کو این ایس ایف سے مزدوروں کے محاذ پر منتقل کرنے اور پھر محاذ میں واپسی کے بعد ان کے خلاف ایک عدم اعتماد کی قرارداد کا ذکرکیا ہے۔
اسی طرح معراج محمد خان ، ڈاکٹر رشید حسن خان ، شیر افضل ملک اور دیگر رہنماؤں کے اختلافات کا ذکر آیا اور بار بار پارٹی کا لفظ استعمال ہوا ہے ، مگر یہاں پارٹی سے مراد کمیونسٹ پارٹی ہے تو مکمل نام تحریر ہونا چاہیے تھا۔ ایوب خان اور فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخاب میں اختلافات کا ذکر ہے۔ این ایس ایف رشید اور این ایس ایف کاظمی گروپوں کی تشکیل اور 1968 کی ایوب خان کے خلاف این ایس ایف کی شروع کردہ تحریک پیپلز پارٹی اور این ایس ایف رشید گروپ کی قربت، ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور این ایس ایف پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
سورج پہ کمند کی تیسری جلد کے نویں حصہ کے ستاونویں باب میں تحریر کیا گیا ہے کہ 7 اکتوبر 196 کو کراچی میں این ایس ایف رشید گروپ کے بعض مطالبات نے جس عظیم عوامی ابھار کا آغاز کیا اس کا دائرہ نہایت تیزی سے نہ صرف مغربی پاکستان کے طول و عرض میں کراچی سے لے کر پشاور تک بلکہ مشرقی پاکستان کے شہر شہر اور قریہ قریہ تک پھیل گیا۔ اس عوامی ابھار میں دیگر ترقی پسند اور جمہوریت دوست تنظیمیں بھی شامل ہوتی گئیں۔
این ایس ایف کاظمی گروپ جو اس ابھار میں 14 اکتوبر کو شریک ہوا تنظیمی طور پر کراچی تک محدود تھا لیکن اس نے مغربی پاکستان کے دیگر علاقوں میں اپنی برادر تنظیموں مثلاً حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن (بعد میں سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن)، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن، لیاری اسٹوڈنٹس فرنٹ نے اشتراک عمل کے ذریعہ شرکت کی۔ مصنفین کا کہنا ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے کہ کاظمی گروپ نے دیگر علاقوں میں تنظیم سازی کی کوشش کی ہو۔ اس کی بنیادی وجہ غالبا امام علی نازش کی قیادت میں پارٹی کا فیصلہ تھا۔
مغربی پاکستان کے دیگر علاقوں میں قومیتوں کی بنیاد پر طالب علموں کے متحدہ محاذ تشکیل دیے جاسکیں گے۔ این ایس ایف کاظمی گروپ کا دائرہ کراچی تک محدود رکھا جائے گا۔ تیسری جلد میں انقلاب یا انقلاب کے عنوان سے ڈاکٹر رشید حسن خان کا ایک مضمون شائع کیا گیا۔
ڈاکٹر رشید حسن خان نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ عوام دوستوں نے تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے اور چند جزوی یا معمولی اصلاحات کروانے میں کامیابیاں ضرور حاصل کیں لیکن وہ تمام تر نیک خواہشات کے باوجود اس عوام دشمن تعلیمی نظام ، اس جاہلانہ تعلیمی نصاب اور علم و عوام کے مخالف استحصالی طبقاتی معاشرہ سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے۔ نتیجتاً طلبہ کے تمام مسائل جوں کے توں رہے۔ ایسے عوام دشمن عناصر حقیقی طور پر پھلتے اور پھولتے رہے۔
ریاست کے انتظامی ڈھانچوں پر قبضہ جماتے رہے۔ عوام دوست طلبہ کارکنوں کو تعلیمی اداروں سے اندر یونینوں کے انتخابات میں یقینا کامیاب کرتے رہے۔ چنانچہ اب نئے پہلوؤں کے پیش نظر طالب علم کارکن تعلیمی اداروں کے اندر یونینوں کے انتخابات میں حصہ لینے کی دیرینہ روایت سے بغاوت کررہے ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ موجودہ مرحلہ پر تعلیمی اداروں میں یونینوں کے انتخابات کے سلسلہ میں سنجیدگی اور ہوش کے ساتھ غور کرکے انقلابی سمت میں ایک واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کریں۔ اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ کتاب میں صرف طلبہ تحریکوں کا جائزہ نہیں لیا گیا بلکہ اساتذہ، صحافیوں اور مزدور تنظیموں کی جدوجہد کا احاطہ بھی کیا گیا۔
کتاب کے چونسٹھویں باب میں 1970 میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی 10 روزہ ہڑتال کے واقعات قلم بند کیے گئے ہیں۔ اس تاریخی تحریک میں جو غیر صحافی عملہ کو عبوری امداد کے لیے چلائی گئی تھی 10 دن تک ملک بھر میں اخبارات شائع نہیں ہوئے تھے۔ حکومت کی ایماء پر 100سے زائد صحافیو ں کو ملازمتوں سے برطرف کیا گیا تھا جنھیں بعد میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد بحال کرایا تھا۔
اسی طرح ایک باب میں این ایس ایف کے صدر ڈاکٹر رشید حسن خان کی مسلسل اسیری اور سکھر جیل میں ان پر بدترین تشدد کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اس کتاب میں یحییٰ خان کے دور کی تحریکوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے باسٹھویں باب کے مطابق مارشل لاء کے نفاذ کے فورا بعد ملک کے کئی شہروں میں طلبہ نے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا۔ طلبہ کی نظر میں مارشل لاء کا نفاذ عوامی حقوق کے لیے برپا کی ہوئی ، ان کی تاریخ ساز مہم پر ایک شب خون تھا۔ اس دوران 1969 کے طلبہ یونینوں کے انتخابات کو نئی اہمیت حاصل ہوئی۔
مارشل لاء حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ رجعت پسند سیاسی قوتوں کی کوششوں کے باوجود اشاعت، تعلیم، کالج، اسلامیہ کالج، ایم اے او کالج، القدس کالج، انجنیئرنگ یونیورسٹی کے انتخابات میں ترقی پسند طلبہ منتخب ہوئے۔ کراچی یونیورسٹی میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف این ایس ایف کے کارکنوں نے بھوک ہڑتال کی۔ بھوک ہڑتال کرنے والے طلبہ کے خلاف غیر سول عدالت میں مقدمے چلائے گئے۔ اس باب میں 1970کے عام انتخابات میں پرچی یا پرچھی کے عنوان سے این ایس ایف رشید گروپ کا مؤقف تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے۔
کتاب کے مصنفین کا کہنا ہے کہ این ایس ایف رشید گروپ ترقی پسندوں کے قیام کے وقت سے ہی اس میں بھرپور انداز میں شریک تھا اور کمیونسٹ پارٹی کے تمام عوامی محاذ پیپلز پارٹی کی تنظیم سازی میں متحرک رہے۔ خصوصا طلبہ محاذ این ایس ایف رشید گروپ نے اس کی مقبولیت اور تنظیم سازی میں اہم کردار ادا کیا لیکن انتخابات کے اعلان سے طفیل عباس گروپ میں انتخابی عمل سے کنارہ کشی کا رجحان نظر آتا ہے۔
این ایس ایف میں یہ رجحان محض عام انتخابات سے کنارہ کشی کا نہیں بلکہ طلبہ یونینوں کے انتخابات سے کنارہ کشی کا بھی نظر آیا۔ اس کتاب میں بنگلہ دیش کی تحریک ، بھٹو دور میں این ایس ایف کے رہنماؤں کے خلاف کارروائیاں، جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونینوں پر پابندی سمیت بائیں بازو کی تحریک سے منسلک تنظیموں کی سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ہر موضوع کے ساتھ اس موضوع کے مطابق اشعار درج کیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقار علی نے سورج پر کمند میں صرف ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کی تاریخ بیان نہیں کی بلکہ پاکستان میں ترقی پسند تحریک کی تاریخ رقم کی ہے۔
7 جنوری 1959 کو این ایس ایف پر پابندی لگا دی گئی۔ مارچ 1959 میں این ایس ایف کے صدر شیر افضل ملک نے این ایس ایف پر پابندی کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ ہائی کورٹ نے شیر افضل کی عرض داشت کو ناقابل سماعت قرار دیا۔ حکومت نے سیکیورٹی ایکٹ کے تحت شیر افضل ملک کو گرفتار کرلیا اور این ایس ایف کے سرکردہ کارکنوں کو بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 3 ماہ کے لیے نظربند کردیا گیا۔
کتاب کے چھٹے حصہ 19ویں باب میں کمیونسٹ رہنما حسن ناصرکی شاہی قلعہ لاہور میں شہادت کا تفصیلی ذکرکیا گیا ہے۔ افریقہ کے انقلابی رہنما پیٹرک لوممبا کے قتل کے خلاف این ایس ایف نے امریکی سامراج کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی۔ این ایس ایف نے تین سالہ ڈگری کے مخالف تحریک چلائی۔ یہ تحریک شریف کمیشن کی سفارشات کے خلاف 12 نکات پر مطالبات کی حمایت میں چلائی گئی۔ اس تحریک میں این ایس ایف کے 12رہنماؤں کوکراچی بدر کیاگیا۔
یہ رہنما جس شہر میں گئے وہاں تحریک پھیل گئی۔ اپنے رہنماؤں کی شہر بدری کے احکامات کی منسوخی کے لیے طلبہ نے ڈی جے کالج میں بھوک ہڑتال کی۔ طلبہ نے احتجاجی جلوس نکالاجس پر پولیس نے فائرنگ کی۔ اس فائرنگ میں ایک طالب علم کرامت علی شہید ہوئے۔کراچی میں طلبہ پر فائرنگ کے خلاف مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ حکومت کو 12طلبہ رہنماؤں کو کراچی بدر کرنے کے احکامات واپس لینے پڑے۔
عالمی کمیونسٹ تحریک میں نظریاتی اختلافات کا آغاز 60ء کی دہائی سے ہوگیا تھا۔ اس نظریاتی تقسیم کے اثرات کمیونسٹ پارٹی اور اس کی اتحادی تنظیموں پر بھی پڑے، این ایس ایف بھی تقسیم ہوئی۔ اس اہم باب میں مصنفین نے اختر احتشام کی سوانح حیات سے یہ بات تحریرکی ہے کہ یہ پارٹی کے سرکردہ افراد نے شیر افضل ملک کی مقبولیت سے خوفزدہ ہونے کے باعث ان کو این ایس ایف سے مزدوروں کے محاذ پر منتقل کرنے اور پھر محاذ میں واپسی کے بعد ان کے خلاف ایک عدم اعتماد کی قرارداد کا ذکرکیا ہے۔
اسی طرح معراج محمد خان ، ڈاکٹر رشید حسن خان ، شیر افضل ملک اور دیگر رہنماؤں کے اختلافات کا ذکر آیا اور بار بار پارٹی کا لفظ استعمال ہوا ہے ، مگر یہاں پارٹی سے مراد کمیونسٹ پارٹی ہے تو مکمل نام تحریر ہونا چاہیے تھا۔ ایوب خان اور فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخاب میں اختلافات کا ذکر ہے۔ این ایس ایف رشید اور این ایس ایف کاظمی گروپوں کی تشکیل اور 1968 کی ایوب خان کے خلاف این ایس ایف کی شروع کردہ تحریک پیپلز پارٹی اور این ایس ایف رشید گروپ کی قربت، ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور این ایس ایف پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
سورج پہ کمند کی تیسری جلد کے نویں حصہ کے ستاونویں باب میں تحریر کیا گیا ہے کہ 7 اکتوبر 196 کو کراچی میں این ایس ایف رشید گروپ کے بعض مطالبات نے جس عظیم عوامی ابھار کا آغاز کیا اس کا دائرہ نہایت تیزی سے نہ صرف مغربی پاکستان کے طول و عرض میں کراچی سے لے کر پشاور تک بلکہ مشرقی پاکستان کے شہر شہر اور قریہ قریہ تک پھیل گیا۔ اس عوامی ابھار میں دیگر ترقی پسند اور جمہوریت دوست تنظیمیں بھی شامل ہوتی گئیں۔
این ایس ایف کاظمی گروپ جو اس ابھار میں 14 اکتوبر کو شریک ہوا تنظیمی طور پر کراچی تک محدود تھا لیکن اس نے مغربی پاکستان کے دیگر علاقوں میں اپنی برادر تنظیموں مثلاً حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن (بعد میں سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن)، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن، لیاری اسٹوڈنٹس فرنٹ نے اشتراک عمل کے ذریعہ شرکت کی۔ مصنفین کا کہنا ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے کہ کاظمی گروپ نے دیگر علاقوں میں تنظیم سازی کی کوشش کی ہو۔ اس کی بنیادی وجہ غالبا امام علی نازش کی قیادت میں پارٹی کا فیصلہ تھا۔
مغربی پاکستان کے دیگر علاقوں میں قومیتوں کی بنیاد پر طالب علموں کے متحدہ محاذ تشکیل دیے جاسکیں گے۔ این ایس ایف کاظمی گروپ کا دائرہ کراچی تک محدود رکھا جائے گا۔ تیسری جلد میں انقلاب یا انقلاب کے عنوان سے ڈاکٹر رشید حسن خان کا ایک مضمون شائع کیا گیا۔
ڈاکٹر رشید حسن خان نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ عوام دوستوں نے تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے اور چند جزوی یا معمولی اصلاحات کروانے میں کامیابیاں ضرور حاصل کیں لیکن وہ تمام تر نیک خواہشات کے باوجود اس عوام دشمن تعلیمی نظام ، اس جاہلانہ تعلیمی نصاب اور علم و عوام کے مخالف استحصالی طبقاتی معاشرہ سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے۔ نتیجتاً طلبہ کے تمام مسائل جوں کے توں رہے۔ ایسے عوام دشمن عناصر حقیقی طور پر پھلتے اور پھولتے رہے۔
ریاست کے انتظامی ڈھانچوں پر قبضہ جماتے رہے۔ عوام دوست طلبہ کارکنوں کو تعلیمی اداروں سے اندر یونینوں کے انتخابات میں یقینا کامیاب کرتے رہے۔ چنانچہ اب نئے پہلوؤں کے پیش نظر طالب علم کارکن تعلیمی اداروں کے اندر یونینوں کے انتخابات میں حصہ لینے کی دیرینہ روایت سے بغاوت کررہے ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ موجودہ مرحلہ پر تعلیمی اداروں میں یونینوں کے انتخابات کے سلسلہ میں سنجیدگی اور ہوش کے ساتھ غور کرکے انقلابی سمت میں ایک واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کریں۔ اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ کتاب میں صرف طلبہ تحریکوں کا جائزہ نہیں لیا گیا بلکہ اساتذہ، صحافیوں اور مزدور تنظیموں کی جدوجہد کا احاطہ بھی کیا گیا۔
کتاب کے چونسٹھویں باب میں 1970 میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی 10 روزہ ہڑتال کے واقعات قلم بند کیے گئے ہیں۔ اس تاریخی تحریک میں جو غیر صحافی عملہ کو عبوری امداد کے لیے چلائی گئی تھی 10 دن تک ملک بھر میں اخبارات شائع نہیں ہوئے تھے۔ حکومت کی ایماء پر 100سے زائد صحافیو ں کو ملازمتوں سے برطرف کیا گیا تھا جنھیں بعد میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد بحال کرایا تھا۔
اسی طرح ایک باب میں این ایس ایف کے صدر ڈاکٹر رشید حسن خان کی مسلسل اسیری اور سکھر جیل میں ان پر بدترین تشدد کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اس کتاب میں یحییٰ خان کے دور کی تحریکوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے باسٹھویں باب کے مطابق مارشل لاء کے نفاذ کے فورا بعد ملک کے کئی شہروں میں طلبہ نے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا۔ طلبہ کی نظر میں مارشل لاء کا نفاذ عوامی حقوق کے لیے برپا کی ہوئی ، ان کی تاریخ ساز مہم پر ایک شب خون تھا۔ اس دوران 1969 کے طلبہ یونینوں کے انتخابات کو نئی اہمیت حاصل ہوئی۔
مارشل لاء حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ رجعت پسند سیاسی قوتوں کی کوششوں کے باوجود اشاعت، تعلیم، کالج، اسلامیہ کالج، ایم اے او کالج، القدس کالج، انجنیئرنگ یونیورسٹی کے انتخابات میں ترقی پسند طلبہ منتخب ہوئے۔ کراچی یونیورسٹی میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف این ایس ایف کے کارکنوں نے بھوک ہڑتال کی۔ بھوک ہڑتال کرنے والے طلبہ کے خلاف غیر سول عدالت میں مقدمے چلائے گئے۔ اس باب میں 1970کے عام انتخابات میں پرچی یا پرچھی کے عنوان سے این ایس ایف رشید گروپ کا مؤقف تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے۔
کتاب کے مصنفین کا کہنا ہے کہ این ایس ایف رشید گروپ ترقی پسندوں کے قیام کے وقت سے ہی اس میں بھرپور انداز میں شریک تھا اور کمیونسٹ پارٹی کے تمام عوامی محاذ پیپلز پارٹی کی تنظیم سازی میں متحرک رہے۔ خصوصا طلبہ محاذ این ایس ایف رشید گروپ نے اس کی مقبولیت اور تنظیم سازی میں اہم کردار ادا کیا لیکن انتخابات کے اعلان سے طفیل عباس گروپ میں انتخابی عمل سے کنارہ کشی کا رجحان نظر آتا ہے۔
این ایس ایف میں یہ رجحان محض عام انتخابات سے کنارہ کشی کا نہیں بلکہ طلبہ یونینوں کے انتخابات سے کنارہ کشی کا بھی نظر آیا۔ اس کتاب میں بنگلہ دیش کی تحریک ، بھٹو دور میں این ایس ایف کے رہنماؤں کے خلاف کارروائیاں، جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونینوں پر پابندی سمیت بائیں بازو کی تحریک سے منسلک تنظیموں کی سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ہر موضوع کے ساتھ اس موضوع کے مطابق اشعار درج کیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقار علی نے سورج پر کمند میں صرف ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کی تاریخ بیان نہیں کی بلکہ پاکستان میں ترقی پسند تحریک کی تاریخ رقم کی ہے۔