اضلاع کی حق تلفی کیوں
اضلاع کو صرف دس فیصد بجٹ ملا اور 90 فیصد وزیر اعلیٰ کے اختیار میں ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد چاروں صوبے انتہائی بااختیار ہوگئے ہیں جب کہ ملک بھرکے اضلاع اپنے اپنے صوبائی وزرائے اعلیٰ سے مکمل طور پر محتاج ہیں اور اب تو وفاق کو بھی احساس ہو رہا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پی پی کی وفاقی حکومت نے وفاق کو کمزورکردیا تھا، جس میں صوبوں کے مالی وسائل بڑھ گئے تھے اور وفاق کے مالی وسائل کم ہوگئے تھے جس سے دفاعی بجٹ بھی متاثر ہوا اور وفاق کے پاس ترقیاتی کاموں کے لیے پہلے جیسے مالی وسائل باقی نہیں رہے ہیں۔
موجودہ حکومت صوبوں کی مالی خودمختاری سے خوش نہیں جب کہ 18ویں ترمیم کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں سالوں حکومت رہی مگر وہ موجودہ حکومت کی طرح اٹھارہویں ترمیم پر اعتراض نہیں کرتی تھیں۔
مسلم لیگ (ن) کے دور میں خاص طور پر ملک بھر میں ترقیاتی کام ہوئے۔ تباہ حال پاکستان ریلوے کی حالت بہتر بنائی گئی۔ موٹرویز مکمل ہو رہے تھے جب کہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی اپنی ترجیحات کے مطابق وفاقی فنڈ سے ملک بھر میں ترقیاتی کام کرائے تھے اور دفاعی ضروریات پر بھی توجہ دی تھی مگر ریلوے کو نظرانداز کیا تھا کیونکہ ریلوے کی وزارت اے این پی کے وزیرکو دی تھی جن کے دور میں ریلوے کا جو حال ہوا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
18 ویں ترمیم کے وقت صوبوں کے مالی وسائل بڑھائے گئے تھے تو ملک بھر کے اضلاع کے لیے پی ایف سی ایوارڈ کا بھی ذکر تھا اور وفاق سے صوبوں کو ملنے والی رقم میں ہر صوبہ اپنے اضلاع کو بھی فنڈز فراہم کرنے کا پابند تھا۔
18 ویں ترمیم سے صوبائی وزرائے اعلیٰ مالی طور پر مکمل بااختیار بنا دیے گئے تھے جس کے بعد ہر وزیر اعلیٰ نے اپنے اضلاع کو نظرانداز کرنا شروع کردیا تھا اور صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور ہی میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلز پارٹی کے پی کے میں اے این پی اور بلوچستان میں پی پی کی مخلوط حکومتوں نے آتے ہی جنرل پرویز کا دیا ہوا بااختیار ضلعی نظام ختم کرکے 1979 کا جنرل ضیا الحق کا بلدیاتی نظام بحال کردیا تھا کیونکہ ضلعی نظام کو حاصل آئینی مدت ختم ہو رہی تھی جو ایک بہترین بااختیار ضلعی حکومتوں کا نظام تھا جس میں منتخب ناظمین مالی اور انتظامی طور پر بااختیار مگر صوبائی حکومتوں کے محتاج اور وزرائے اعلیٰ و وزرائے بلدیات کے رحم و کرم پر نہیں تھے۔
ہر ضلع میں وہاں کی منتخب ناظمین کی بااختیار کونسلیں اور ضلعی حکومتیں تھیں جو ارکان اسمبلی کو مداخلت نہیں کرنے دیتی تھیں جس کی وجہ سے ارکان اسمبلی اپنے اپنے اضلاع کی حکومتوں کے خلاف تھے اور 2008 میں منتخب ہونے والی سیاسی حکومتوں نے آتے ہی پہلا وار بااختیار ضلعی حکومتوں پر کیا اور اضلاع کو اپنا محتاج بنالیا اور بلدیاتی اداروں پر صوبائی وزرائے بلدیات دوبارہ کنٹرولنگ اتھارٹی بنا دیے گئے تھے۔
18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی وزرائے اعلیٰ کو 90 فیصد بجٹ اپنی صوابدید پر خرچ کرنے کا اختیار مل گیا اور اضلاع مالی طور پر اپنے وزیر اعلیٰ کے محتاج ہوگئے اور وزرائے اعلیٰ نے اپنے صوابدیدی اختیارات کا من مانا استعمال شروع کردیا تھا اور وفاق صوبوں کے مالی وسائل میں مداخلت نہیں کرسکتا تھا۔
وزرائے اعلیٰ کو حاصل بجٹ اختیارات کے غیر منصفانہ استعمال کی وجہ سے وزیر اعلیٰ پنجاب پر الزام تھا کہ انھوں نے جنوبی پنجاب کو نظراندازکرکے زیادہ رقم لاہور اور پسندیدہ اضلاع پر خرچ کی۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے کما کر دینے والے کراچی کو نظر انداز کیا اور لیاری سمیت ان اضلاع پر فنڈ خرچ کیے جہاں ان کی پارٹی کا ووٹ بینک تھا۔
کے پی کے وزرائے اعلیٰ نے اپنے ذاتی اضلاع نوشہرہ اور سوات کو ترجیح دی اور اب پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ جنوبی پنجاب کے من پسند اضلاع کو نواز رہے ہیں اور یہی حال بلوچستان کا ہے جہاں ضرورت مند اضلاع کو نظرانداز کرکے اپنے علاقوں میں صوبائی بجٹ خرچ کیا جا رہا ہے۔
کراچی میں اب سات اضلاع ہیں اور کراچی سے وفاق اور سندھ حکومت کو سب سے زیادہ ٹیکس حاصل ہوتے ہیں۔ سندھ کی ہی مثال لیں جسے 1400 ہزار روپے کے بجٹ میں 848 ارب روپے وفاق سے ملتے ہیں اور وفاقی اور سندھ حکومت نے سب سے زیادہ کما کر دینے والے کراچی کو نظرانداز کر رکھا ہے۔ سندھ کا بجٹ کہاں جا رہا ہے اس پر تو اب سپریم کورٹ بھی سوال اٹھا چکی ہے۔ سندھ کو گزشتہ 13 سالوں میں 10242ارب روپے ملے جس میں لوکل گورنمنٹ کو صرف 82 بلین روپے دیے گئے جس سے شہروں اور اضلاع کو وہ حق نہیں ملا جو ملنا چاہیے تھا۔
اضلاع کو صرف دس فیصد بجٹ ملا اور 90 فیصد وزیر اعلیٰ کے اختیار میں ہے۔ وفاق سے ملنے والی رقم میں ملک کے تمام اضلاع کو منصفانہ طور پر صوبوں نے ان کا حق نہیں دیا۔ آئین کے آرٹیکل A-140میں وضاحت کے ساتھ میئروں کے محکموں اور اضلاع کے مالی اختیارات کا تفصیلی ذکر نہیں ہے اس لیے ضروری ہے کہ وفاق کے این ایف سی ایوارڈ کی طرح ہر ضلع کا پی ایف سی ایوارڈ ہو اور وفاق اسی فارمولے کے تحت صوبوں کو بجائے ڈائریکٹ اضلاع کو رقم دے تاکہ اضلاع کو ان کا حق مل سکے۔
موجودہ حکومت صوبوں کی مالی خودمختاری سے خوش نہیں جب کہ 18ویں ترمیم کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں سالوں حکومت رہی مگر وہ موجودہ حکومت کی طرح اٹھارہویں ترمیم پر اعتراض نہیں کرتی تھیں۔
مسلم لیگ (ن) کے دور میں خاص طور پر ملک بھر میں ترقیاتی کام ہوئے۔ تباہ حال پاکستان ریلوے کی حالت بہتر بنائی گئی۔ موٹرویز مکمل ہو رہے تھے جب کہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی اپنی ترجیحات کے مطابق وفاقی فنڈ سے ملک بھر میں ترقیاتی کام کرائے تھے اور دفاعی ضروریات پر بھی توجہ دی تھی مگر ریلوے کو نظرانداز کیا تھا کیونکہ ریلوے کی وزارت اے این پی کے وزیرکو دی تھی جن کے دور میں ریلوے کا جو حال ہوا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
18 ویں ترمیم کے وقت صوبوں کے مالی وسائل بڑھائے گئے تھے تو ملک بھر کے اضلاع کے لیے پی ایف سی ایوارڈ کا بھی ذکر تھا اور وفاق سے صوبوں کو ملنے والی رقم میں ہر صوبہ اپنے اضلاع کو بھی فنڈز فراہم کرنے کا پابند تھا۔
18 ویں ترمیم سے صوبائی وزرائے اعلیٰ مالی طور پر مکمل بااختیار بنا دیے گئے تھے جس کے بعد ہر وزیر اعلیٰ نے اپنے اضلاع کو نظرانداز کرنا شروع کردیا تھا اور صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور ہی میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلز پارٹی کے پی کے میں اے این پی اور بلوچستان میں پی پی کی مخلوط حکومتوں نے آتے ہی جنرل پرویز کا دیا ہوا بااختیار ضلعی نظام ختم کرکے 1979 کا جنرل ضیا الحق کا بلدیاتی نظام بحال کردیا تھا کیونکہ ضلعی نظام کو حاصل آئینی مدت ختم ہو رہی تھی جو ایک بہترین بااختیار ضلعی حکومتوں کا نظام تھا جس میں منتخب ناظمین مالی اور انتظامی طور پر بااختیار مگر صوبائی حکومتوں کے محتاج اور وزرائے اعلیٰ و وزرائے بلدیات کے رحم و کرم پر نہیں تھے۔
ہر ضلع میں وہاں کی منتخب ناظمین کی بااختیار کونسلیں اور ضلعی حکومتیں تھیں جو ارکان اسمبلی کو مداخلت نہیں کرنے دیتی تھیں جس کی وجہ سے ارکان اسمبلی اپنے اپنے اضلاع کی حکومتوں کے خلاف تھے اور 2008 میں منتخب ہونے والی سیاسی حکومتوں نے آتے ہی پہلا وار بااختیار ضلعی حکومتوں پر کیا اور اضلاع کو اپنا محتاج بنالیا اور بلدیاتی اداروں پر صوبائی وزرائے بلدیات دوبارہ کنٹرولنگ اتھارٹی بنا دیے گئے تھے۔
18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی وزرائے اعلیٰ کو 90 فیصد بجٹ اپنی صوابدید پر خرچ کرنے کا اختیار مل گیا اور اضلاع مالی طور پر اپنے وزیر اعلیٰ کے محتاج ہوگئے اور وزرائے اعلیٰ نے اپنے صوابدیدی اختیارات کا من مانا استعمال شروع کردیا تھا اور وفاق صوبوں کے مالی وسائل میں مداخلت نہیں کرسکتا تھا۔
وزرائے اعلیٰ کو حاصل بجٹ اختیارات کے غیر منصفانہ استعمال کی وجہ سے وزیر اعلیٰ پنجاب پر الزام تھا کہ انھوں نے جنوبی پنجاب کو نظراندازکرکے زیادہ رقم لاہور اور پسندیدہ اضلاع پر خرچ کی۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے کما کر دینے والے کراچی کو نظر انداز کیا اور لیاری سمیت ان اضلاع پر فنڈ خرچ کیے جہاں ان کی پارٹی کا ووٹ بینک تھا۔
کے پی کے وزرائے اعلیٰ نے اپنے ذاتی اضلاع نوشہرہ اور سوات کو ترجیح دی اور اب پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ جنوبی پنجاب کے من پسند اضلاع کو نواز رہے ہیں اور یہی حال بلوچستان کا ہے جہاں ضرورت مند اضلاع کو نظرانداز کرکے اپنے علاقوں میں صوبائی بجٹ خرچ کیا جا رہا ہے۔
کراچی میں اب سات اضلاع ہیں اور کراچی سے وفاق اور سندھ حکومت کو سب سے زیادہ ٹیکس حاصل ہوتے ہیں۔ سندھ کی ہی مثال لیں جسے 1400 ہزار روپے کے بجٹ میں 848 ارب روپے وفاق سے ملتے ہیں اور وفاقی اور سندھ حکومت نے سب سے زیادہ کما کر دینے والے کراچی کو نظرانداز کر رکھا ہے۔ سندھ کا بجٹ کہاں جا رہا ہے اس پر تو اب سپریم کورٹ بھی سوال اٹھا چکی ہے۔ سندھ کو گزشتہ 13 سالوں میں 10242ارب روپے ملے جس میں لوکل گورنمنٹ کو صرف 82 بلین روپے دیے گئے جس سے شہروں اور اضلاع کو وہ حق نہیں ملا جو ملنا چاہیے تھا۔
اضلاع کو صرف دس فیصد بجٹ ملا اور 90 فیصد وزیر اعلیٰ کے اختیار میں ہے۔ وفاق سے ملنے والی رقم میں ملک کے تمام اضلاع کو منصفانہ طور پر صوبوں نے ان کا حق نہیں دیا۔ آئین کے آرٹیکل A-140میں وضاحت کے ساتھ میئروں کے محکموں اور اضلاع کے مالی اختیارات کا تفصیلی ذکر نہیں ہے اس لیے ضروری ہے کہ وفاق کے این ایف سی ایوارڈ کی طرح ہر ضلع کا پی ایف سی ایوارڈ ہو اور وفاق اسی فارمولے کے تحت صوبوں کو بجائے ڈائریکٹ اضلاع کو رقم دے تاکہ اضلاع کو ان کا حق مل سکے۔