تصورِ ’’دوئی‘‘

یہ ’’دوئی‘‘ کا ایسا تصور ہے کہ جس کی بعض دانشور اکثر تبلیغ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔


[email protected]

یونانی فلسفے میں ''وجود '' کے مسئلے کا باقاعدہ آغاز تو سقراط اور افلاطون سے قبل پارمینائڈز سے شروع ہوتا ہے اور پارمینائڈز ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے اپنی نظم'' فطرت'' میں وجود کے مسئلے کو منطقی شکل میں پیش کیا، اور اسی وجہ سے پارمینائڈز کو 'منطق' کا بانی بھی تصور کیا جاتا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پارمینائڈز سے قبل تقریبا سارا ہی یونانی فلسفہ کائنات کی ماہیت دریافت کرنے پر لگا ہوا تھا ، اور سقراط وہ پہلا فلسفی ہے جس نے کائنات یا وجود کے بجائے '' انسان '' اور اس سے منسلک اخلاقیات کو موضوع بنایا۔ انھی معنوں میں سقراط کو فلسفے کا بانی خیال کیا جاتا ہے۔ ارسطو نے اپنی کتاب بعنوان''مابعد الطبیعات'' میں فلسفے کی تاریخ کا تفصیلی احاطہ کیا ہے۔ سقراط کے بارے میں عظیم فلسفی ارسطو کے یہ الفاظ سقراط کی فکری ترجیحات کا بخوبی تعین کرتے ہیں:

Socrates however, was busing himself about ethical matters, and neglecting the world of nature...... Metaphysics, P, 11

افلاطون چونکہ سقراط کا شاگرد تھا، اس لیے اس کی توجہ کا مرکز بھی انسان سے جڑے ہوئے معاملات ہی رہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ قطعی طور پر باطل ہے کہ'' سقراط و افلاطون سے جو تاریخ شروع ہوئی وہ ایک ہی چیز پر توجہ کیے ہوئے تھی اور وہ وجود کا مسئلہ تھا۔ '' مجھے فلسفے کے طالب علموں کو اس سنگین تاریخی غلطی سے بچانے کے لیے غامدی صاحب کے اٹھائے گئے اس باطل نکتے کی تصحیح کرنی پڑی۔

غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ سقراط و افلاطون سے جو تاریخ شروع ہوتی ہے جس سے ان کے بقول ''وجود'' کی بحث شروع ہوتی ہے اس کے لیے، بقول غامدی ''یہ عالم اور اس عالم سے ماورا اگر کوئی قوت کارفرما ہے تو اس کو ایک حقیقت مان کر اس کی توجیح کرنا، یہ سب سے بڑا مسئلہ تھا۔'' یہاں وہ جس نکتے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں اس کا تعلق ''ایک حقیقت'' سے ہے یعنی وجود اور ماورائے وجود کو ''ایک حقیقت'' ماننا۔ یونانی فلسفے کی ابتدائی نوعیت کی کتابیں پڑھیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ سقراط اور افلاطون سے شروع ہونے والا یونانی فلسفہ کائنات اور ماورائے کائنات کو ''ایک حقیقت'' سمجھتا ہے۔

فلسفے کے طالبِ علم اس فلسفیانہ قضیے سے اچھی طرح سے آگاہ ہوں گے کہ افلاطون کے فلسفے میں حقیقت کے ایک ہونے کے تصور کی نفی ہوتی ہے اور ''دوئی'' کا فلسفہ اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ اور یہی دوئی کا تصور تھا جسے ارسطو نے افلاطون کے فلسفے کا تنقیدی محاکمہ کرنے کی جانب راغب کیا۔ ارسطو نے افلاطون کے برعکس یہ دعویٰ کیا کہ پارٹیکولر کے بغیر یونیورسل کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، جب کہ افلاطون یونیورسل کو پارٹیکولر سے الگ یعنی یونیورسل کو اس کی خود مختار حیثیت سے تسلیم کرتا تھا۔

غامدی صاحب کا ''حقیقت'' کو ''ایک'' کہہ کر سقراط و افلاطون سے منسوب کرنا اور بعد ازاں یہ دعویٰ کرنا کہ'' یہ قرآن ہے جس نے ہماری معلوم تاریخ میں پوری وضاحت کے ساتھ یہ بتایا کہ یہ تصور بالکل باطل ہے، قطعی طور پر بے بنیاد دعویٰ ہے۔'' بعض دانشور پہلے ایک مفروضہ تشکیل دیتے ہیں کہ جس کا یونانی فلسفے کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور بعد ازاں خود ہی قرآن کی آڑ میں اس مفروضے کو باطل قرار دے کرایک صریح غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔

دوئی یا ثنویت کا تصور افلاطون کے فلسفے میں موجود ہے، اور وہی دوئی ہے جو بعد ازاں ڈیکارٹ کے فلسفے میں پوری منطقیانہ قوت کے ساتھ تشکیل پاتی ہے۔ اس حوالے سے یہ تاثر دینا کہ ڈیکارٹ نے دوئی کا تصور قرآن سے لیا ہے، مہمل بات ہے۔ ڈیکارٹ نے اپنی کتاب بعنوان '' فلسفہ اوّل پر تفکر'' کے آغاز میں ہی یہ لکھ دیا تھا کہ وہ بائبل کی کتاب ''پیدائش'' کے آغاز میں پیش کی گئی تخلیق کی کہانی کو مکمل طور پر تسلیم کرتا ہے۔ یعنی ڈیکارٹ کے پیشِ نظر بائبل کی پیش کردہ '' تخلیق'' کی داستان تھی ۔ ڈیکارٹ اپنی دوئی کے تصور میں کس حد تک صحیح تھا ، اس کا تنقیدی جائزہ میں آگے چل کر پیش کروں گا، جس میں یہ وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا کہ ڈیکارٹ کا پیش کردہ دوئی کا فلسفہ ناقابلِ مدافعت ہے۔

بعض مفکرین اپنے مفروضات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ

''اس کائنات کے پروردگار اور اس کائنات کا معاملہ ایک حقیقت کے مطالعے کا معاملہ ہی نہیں ہے۔ یہ دونوں بالکل الگ الگ ہیں۔ ان کا باہمی تعلق خالق اور مخلوق کا ہے۔ یہ عالم پروردگار کی گواہی دیتا ہے۔ اس لیے کہ یہ تخلیق ہے جو خالق کا پتا دے رہی ہے ، لیکن یہ حقیقتِ واحدہ نہیں ہے۔ عالم کی کوئی ایک چیز بھی نہیں کہ جسے کسی بھی درجے میں، حقیقت کے درجے میں یا تعینات کے درجے میںذاتِ خداوندی کے مماثل قرار دیا جا سکے۔''

یہ ''دوئی'' کا ایسا تصور ہے کہ جس کی بعض دانشور اکثر تبلیغ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ یہ سب مفروضات پیش تو کر دیتے ہیں لیکن کبھی بھی ان کو تقویت دینے والے دلائل پیش نہیں کرتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کا ''دوئی'' کا یہ دعویٰ تضادات سے پرُ دکھائی دیتا ہے۔ وہ اس سے قبل خالق اور تخلیق کے تعلق کی وضاحت کے لیے میز اور کرسی کی مثال دے چکے ہیں کہ میز یا کرسی کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے کسی انسان نے بنایا ہے۔ یعنی کرسی یا میز میں ایسا کچھ ہے جو کہ صرف انسان میں موجود ہے دیگر جانوروں میں نہیں ہے۔

کسی بھی تخلیق میں ایسا کیا ہوتا ہے جو اس تخلیق کو اس کے خالق سے جوڑتا ہے، یہ سمجھنے کے لیے ہمیں اس تخلیق کی ماہیت پر غور کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ انسان اور میز میں فرق ان کے ظاہر میں ہے، اور یہی ظاہر کا فرق غامدی کے پیشِ نظر ہے جب وہ کائنات اور خدا کی 'دوئی' کی بات کرتے ہیں۔ کسی بھی تخلیق میں دو چیزیں شامل ہوتی ہیں: ایک مواد (اوبجیکٹ) اور دوسری وہ بنتر (سبجیکٹ) جو خود مواد میں شامل نہیں ہوتی، بلکہ اس مواد کو عطا کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر میز انسان کے بغیر محض ایک لکڑی ہوتا۔ میز کی بنتر (فام) انسان کا آئیڈیا ہے۔

یعنی انسان کے ذہن میں میز کی بنتر کا ایک خیال آتا ہے اور وہ لکڑی کو اس بنتر میں ڈھال دیتا ہے۔ لہٰذا انسان نے لکڑی میں جو شے شامل کی ہے وہ اس کا آئیڈیا ہے۔ انسان کا آئیڈیا انسان سے الگ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگر آئیڈیا میز سے واپس لے لیا جائے تو وہ صرف ایک لکڑی ہی رہ جاتا ہے۔ اس مثال کو کسی بھی شے تک توسیع دی جا سکتی ہے، حتیٰ کہ کائنات کی تخلیق تک بھی یہ مثال کارآمد ہو گی۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ کائنات میں کوئی ایک بھی شے ایسی نہیں ہے جسے خدا کے ''مماثل'' کہا جا سکے۔

یعنی میز کی مثال لیتے ہوئے یہ کہنا کہ میز میں کوئی ایک بھی شے ایسی نہیں ہے جسے انسان کے مماثل کہا جا سکے۔ اس کا سطحی مفہوم تو یہ نکلتا ہے کہ مماثل قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ دو میز ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیے جائیں اور پھر یہ کہا جائے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ لیکن مماثلت کا یہ تصور ظاہر تک تو ہے لیکن وہ اس شے کے جوہر تک رسائی حاصل نہیں کر پایا، اور نہ ہی کسی شے کی ماہیت ہی بیان کر پاتا ہے، کیونکہ حقیقت جوہر میں ہے نہ کہ ظاہر میں۔ اور جیسا کہ میں وضاحت کر چکا ہوں کہ میز میں سے آئیڈیا نکال لیا جائے تو وہ محض لکڑی ہی رہ جاتی ہے۔

انسان کو میز سے مماثل ہونے کے لیے میز نہیں بن جانا جیسا کہ بعض دانشور سوچتے ہیں، بلکہ میز کی اس شے میں انسان کے جوہر کو تلاش کرنا ہے جو اسے میز بناتا ہے۔ یہی ''مماثلت'' کے فلسفیانہ مفاہیم ہیں۔ اس دلیل کا دائرہ وسیع کریں اور اسے کائنات تک وسعت دیں تو اس نکتے کی تفہیم مزید آسان ہو جائے گی۔ میں جب آئیڈیا کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو اس کے دو مفاہیم ہیں: اوّل ایک خیال کا پیدا ہونا، اور دوسرا اس خیال کی عملی جہت جس سے کوئی تخلیق ممکن ہو سکتی ہے۔ صرف اسی صورت میں آئیڈیا ''ایبسولیوٹ'' آئیڈیا کہلا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں