عثمان مرزا کیس دہشتگردی کی دفعات شامل کرنے کی ضرورت

یہ سیدھا سیدھا دہشت گردی کا کیس ہے جس نے ملک کے شہریوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا


حامد الرحمان July 10, 2021
یہ سیدھا سیدھا دہشت گردی کا کیس ہے جس نے ملک کے شہریوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا

اسلام آباد میں لڑکے لڑکی پر تشدد اور برہنہ کرنے کے واقعے نے دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا اور بیک وقت خوف و نفرت کے جذبات پیدا ہوئے۔

مالدار پراپرٹی ڈیلر عثمان مرزا سمیت چند بااثر افراد نے اپنے فلیٹ میں ایک لڑکا لڑکی کو برہنہ کرکے زیادتی کی اور نازیبا ویڈیوز بناکر انہیں طویل عرصے تک بلیک میل کرکے لاکھوں روپے بٹورے۔ پھر مزید پیسے نہ دینے اور اپنی عزت مزید پامال نہ کرنے دینے پر ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کردیں۔

سوشل میڈیا بنیادی پر لوگوں کے رابطے اور تفریح کےلیے بنایا گیا تھا لیکن ہمارے معاشرے میں سوشل میڈیا کا استعمال اب زیادہ سے زیادہ ذہنی بے سکونی کا باعث بنتا جارہا ہے۔ اس واقعے نے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ ملک میں معمولی طاقتور کو اپنے سے کسی کمزور پر تھوڑی سی طاقت ملنے کی دیر ہے کہ وہ اس کی عزت خاک میں ملا دیتا ہے۔

جہاں سوشل میڈیا کا منفی پہلو ہے وہیں اس کا قابل تعریف پہلو کسی مسئلے کو اجاگر کرنا بھی ہے، جس سے معاملہ ارباب اختیار یہاں تک کہ وزیراعظم تک پہنچ جاتا ہے جو اس کا نوٹس لیتے ہیں۔ اور ایک امید پیدا ہوتی ہے کہ شاید اب یہ درندہ اتنی آسانی سے قانون کی گرفت سے نہ چھوٹ سکے۔

اس واقعے میں ملوث عثمان مرزا اور اس کے دوست انسان تو کجا جانور کہلانے کے بھی لائق نہیں کہ کسی کی عزت کو یوں بے دردی سے پامال کیا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں درحقیقت ہم سب اخلاقی طور پر اس قدر زوال پذیر ہوچکے ہیں کہ ہم سب کے اندر ایک ریپسٹ، ایک درندہ چھپا بیٹھا ہے جسے موقع ملنے کی دیر ہے اور وہ کسی کی عزت کو پامال کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ چاہے یہ جسمانی طور پر، یا کسی کی چغلی، غیبت کے معنی میں ہو۔ ہم دو منٹ کے اندر اپنے سے کم تر کی عزت کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: لڑکا لڑکی تشدد کیس میں عثمان مرزا کا مزید 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

اس معاملے میں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ان تمام سوشل میڈیا صارفین کو جنہوں نے یہ ویڈیوز آگے فارورڈ کیں اور پھیلائیں، کہ کہیں ہمارے اندر بھی تو ایک عثمان مرزا چھپا نہیں بیٹھا۔ تاویلات پیش کرنے والے اس معاملے کے خلاف صدائے احتجاج تو نازیبا ویڈیوز فارورڈ کیے بغیر بھی بلند کرسکتے تھے۔

عثمان مرزا نامی یہ ذہنی مریض بے شرمی کا ننگا ناچ ناچتا رہا۔ اس کی دیگر ویڈیوز میں اس کے لہجے میں اس قدر غرور و تکبر ہے کہ فریق مخالف کو کہہ رہا ہے کہ کچھ کمزور لوگوں نے اس پر پرچہ کرادیا۔ اس کے لہجے سے لگ رہا ہے جیسے اسے قانون کی کوئی پروا نہیں، جو اس کے نزدیک مکڑی کا ایک جالا ہو، جسے جب دل چاہے توڑ سکتا ہے۔

انگریزوں سے وراثت میں ملا ہمارا عدالتی نظام انصاف اس قدر خراب اور ناقص ہے جہاں پیسے کے بل بوتے پر امیر اور طاقتور سزا سے باآسانی بچ نکلتا ہے اور کمزور پر ظلم ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو نظام پر اعتماد نہیں رہا اور لاقانونیت بڑھتی ہے۔ لیکن تحریک انصاف حکومت سے امید ہے کہ اپنے نام کی طرح وہ ملک میں انصاف کو قائم کرکے دکھائے گی۔

یہ واقعہ محض ایک زیادتی اور تشدد کا واقعہ نہیں بلکہ اس نے ملک کے لاکھوں انسانوں کو اپنی عزت و آبرو کے حوالے سے خوف و دہشت کا شکار کردیا ہے کہ کیا اس ملک میں کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں اور اس کی آبرو کو اتنی آسانی سے پامال کیا جاسکتا ہے۔ نہ جانے کتنے لوگوں کو یہ واقعہ دیکھ کر نیند نہ آئی ہو۔ یہ سیدھا سیدھا دہشت گردی کا واقعہ ہے جس نے ملک کے شہریوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا ہے۔

اگر یہ واقعہ ان لڑکا لڑکی کےلیے جہنم بن جانے والے کمرے تک محدود رہتا تو اس کی سنگینی تب بھی کم نہ تھی لیکن سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اس کی سنگینی میں شدید اضافہ ہوگیا ہے۔ لہٰذا اب عثمان مرزا سمیت اس گھناؤنے سانحے میں ملوث تمام افراد کو نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ آئندہ کوئی سوچ بھی نہ سکے۔ سزا ہی آئندہ جرائم کو کچلنے کا بہترین راستہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے: لاہور کے اسپتال میں لڑکی کی لاش ملنے کا کیس، اسقاط حمل کا انکشاف

علاوہ ازیں رواں سال جنوری میں لاہور کے اسپتال میں ایک لڑکی کی لاش کو اس کا دوست چھوڑ کر فرار ہوگیا تھا، جس کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ غیرشادی شدہ تھی اور اسقاط حمل کے دوران اس کی موت ہوگئی۔ یہ خبریں ہمارے معاشرے میں اخلاقی زوال کی کچھ نہ کچھ عکاسی کرتی ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان کی معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی پر تشویش کا اظہار بالکل بجا ہے۔

عثمان مرزا کیس میں جہاں مجرموں کو سزا دینے کی ضرورت ہے، وہیں متاثرہ لڑکا اور لڑکی بھی ضرور اپنا جائزہ لیں کہ کیا ان کا مذہب، اخلاقیات اور اقدار انہیں اہنے گھروں سے دور رات کے اس پہر کسی کمرے میں ایک دوسرے کے ساتھ اس تنہائی کی اجازت دیتے تھے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں