ڈالر کی اڑان اور درآمدات میں اضافہ

ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ملکی قرضوں کے بوجھ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔



ان دنوں ڈالرکی اڑان جاری ہے اور درآمدات میں بھی اضافہ جاری ہے۔ صرف ماہ جون کی درآمدات مئی کے مقابلے میں بلحاظ ڈالرز ساڑھے اٹھارہ فی صد زائد رہیں۔ ان باتوں نے بھی ڈالر کی طلب میں اضافہ کر دیا۔ حالیہ دنوں میں افواہوں نے بھی ڈالر کو اونچا اڑنے میں مدد فراہم کی۔ عموماً ان افواہوں کے باعث کہ انٹر بینک ریٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

درآمد کنندگان درآمدی سرگرمیوں میں اضافہ کردیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اگر گزشتہ مالی سال کی درآمدات پر نظر ڈالتے ہیں وہ 56 ارب 32 کروڑ ڈالرز سے زائد ہے جب کہ مالی سال 2019-20 درآمدات کی مالیت 44 ارب 55 کروڑ ڈالرز تک بھی پاکستان میں گزشتہ مالی سال 25 ارب 27کروڑ ڈالرز تک کی برآمدات نے بھی بہت سی ایسی اشیا جوکہ برآمدی مال میں استعمال کی جاتی ہیں اس کی درآمدات بڑھا دی ہیں۔

اس طرح سے جب تجارتی خسارہ تقریباً 8 ارب ڈالرز کے بڑھنے سے بھی درآمدات کے بڑھتے رجحان نے مل کر روپیہ پر دباؤ ڈالا ہے۔ یوں روپیہ جوکہ کئی ماہ سے تگڑا ہو رہا تھا اب پھر کمزور ہونا شروع ہو گیاہے۔ یوں ڈالر کی قدر میں روز بروز اضافے سے سب سے زیادہ عوام ہی پریشان ہوتے ہیں،کیونکہ ڈالر کی قیمت میں اضافے پر وہ درآمدی اشیا جو عوام استعمال کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان میں بچوں کے استعمال کرنے کی دودھ سے بنی غذائی اشیا کی قیمت تک بڑھ جاتی ہے۔

اب پٹرول کی قیمت میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ نئی حکومت کے قیام سے قبل نگران حکومت کے دور میں ڈالر کی قیمت میں بڑا اضافہ 121 روپے سے بڑھ کر 125روپے تک جا پہنچا تھا۔ ان دنوں نگراں وزیر خزانہ کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال مئی کے پہلے عشرے کی بات ہے جب ڈالر کی قیمت میں تقریباً 3روپے تک کا اضافہ ہونے کے بعد ڈالر 157 روپے کا ہوگیا تھا۔

ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ملکی قرضوں کے بوجھ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً جولائی 2018 میں جب ایک ہی روز میں ڈالر 4 روپے مہنگا ہوا اسے کے ساتھ ہی ملکی قرضوں کے بوجھ میں بھی 160 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد نئی حکومت کے قیام کے بعد آئی ایم ایف سے مذاکرات میں تاخیر کے باعث ڈالر کی قدر مسلسل بڑھتی رہی۔ جسے حکومت کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔

اکتوبر 2018 میں بالآخر مجبوراً پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب جانا پڑا۔ 2018 کی ہی بات ہے صرف کھانے پینے کی اشیا ہی مہنگی نہیں ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ہی پاکستان میں زرعی زمینوں، رہائشی پلاٹوں مکانوں کی قیمت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا۔ پاکستانی حکومتی حکام عوام کو دلاسا دیتے رہے کہ مشکل وقت جلد ہی گزر جائے گا۔

لیکن ایسا ہوا نہیں اب بات یہ ہے کہ پاکستان کو ہر ماہ کروڑوں ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ قرضوں، قسطوں، سود کی ادائیگی کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی اب درآمدات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا روپیہ کو کوئی سہارا نہیں مل رہا ہے کہ روپیہ قدرے مضبوط ہوسکے۔ ہوسکتا ہے کہ اب حکومت کچھ ایسے اقدامات اٹھانے کی جانب مائل ہو تاکہ ڈالر کے ریٹ میں کمی ہوسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر وہ چیز جوکہ پاکستان میں بنا سکتے ہیں وہ پاکستان میں بنائیں۔ تاکہ درآمدات میں کمی لائی جاسکے۔

ملک میں اربوں ڈالرز کی غذائی مصنوعات اور فوڈ گروپ کی درآمدات بڑھ رہی ہیں۔ اس میں کمی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس طرح کی بہت سی غیر ضروری اشیا کی درآمد سے پاکستان کا درآمدی بل ناقابل برداشت حد تک بڑھ جانے سے بھی ڈالر کو مضبوط ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ جب برآمدات اور درآمدات کا فرق بڑھے گا ساتھ ہی تجارتی خسارے میں بھی اضافہ ہوکر رہے گا۔

چند دن قبل جاری پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق 2020-21 کے دوران پاکستان کا تجارتی خسارہ 31 ارب 5کروڑ 70 لاکھ ڈالرز تک جا پہنچا ہے۔ جب کہ مالی سال 2019-20 میں تجارتی خسارہ 23 ارب 15 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز تک تھا۔ یعنی مالی سال 2020-21 کے دوران 19-20کی نسبت 34.10 فی صد اضافہ ہوا ہے اب بتدریج پٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمت بھی بڑھ رہی ہے۔

عالمی منڈی میں مختلف غذائی اجناس، خوردنی تیل، دالوں، چائے، گندم، چینی، خام کپاس اور بہت سی درآمدی میٹیرلز جن کے استعمال کے بعد برآمدی مصنوعات بنائی جاتی ہیں وغیرہ مہنگی ہونے کے باعث درآمدی بل کے بڑھنے کا رجحان غالب ہے۔ اگرچہ حکومت نے رواں مالی سال سے بہت غذائی اشیا اور غیر ضروری اشیا کی درآمد پر ڈیوٹی بڑھائی ہے۔ لیکن ان سب باتوں کا کچھ زیادہ اثر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ کیونکہ ملک کا ایک طبقہ ایسا ہے جوکہ غیر ملکی برانڈ اور درآمدی اشیا کے استعمال کو ترجیح دیتا ہے ، آخر بہت سی غذائی اور دیگر ضرورت کی اشیا جن کا متبادل پاکستان میں موجود ہے۔ لیکن غیر ملکی اشیا کی خرید کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جس کے باعث درآمدی بل کا بڑھنا یقینی ہو کر رہتا ہے۔

اس میں کچھ وجہ مقامی انڈسٹری کی طرف سے بھی ہے کہ غیر ملکی مصنوعات کے معیار کے مطابق اشیا تیار نہیں کی جاتیں۔ بیرون ممالک سے درآمدی اشیا کے مقابلے میں معیار کم ہوتا ہے۔ ناپائیداری بہت زیادہ بھی ہوتی ہے اور دیگر خصوصیات کم ہونے کے باعث صارفین کے معیار پر پورا نہ اترنے کے باعث بھی ملکی مصنوعات کی طلب کم ہوتی ہے اور مہنگی ہونے کے باوجود غیر ملکی اشیا کی طلب رہتی ہے۔ لہٰذا حکومت جس قسم کی بھی پلاننگ کر رہی ہوتی ہے اس میں اس بات کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ملک میں بننے والی مصنوعات کے معیار کو بہت زیادہ بہتر بنایا جائے۔ پھر اس میں تشہیر کا بھی معاملہ ہے کہ بہت سی غیر ملکی برانڈ یا اشیا وغیرہ اتنی مشہور ہو چکی ہیں کہ صارف اس کو خریدنے کو ترجیح دیتا ہے۔

لہٰذا پاکستانی کمپنیاں اپنی مصنوعات کو غیر ملکی مال کے مقابلے میں اس طرح سے تیار کریں کہ ان کی مصنوعات صارفین کے لیے جاذب نظر بھی اور دیگر خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی پائیداری اور غیر ملکی مصنوعات کے مقابلے میں قیمت بھی اتنی کم ہو کہ صارف اسے خریدنے کو ترجیح دے۔ لہٰذا ملکی انڈسٹری کو اس طرح مزید جدید سے جدید تر بنانے سے مصنوعات کو صارفین کی پسند کے مطابق ڈھالنے اور قیمت کو بھی کم رکھنے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے کرنے سے ملکی مصنوعات پاکستان اور دنیا بھر میں بھی مقبول عام ہو کر رہیں گی اس طرح برآمدات زیادہ درآمدات کم روپیہ پر دباؤ کم اور مضبوط بھی ہوگا اور ڈالر کی اڑان کم ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں