انتہاپسندوں کیخلاف آپریشن کا آخری آپشن اختیارکرنے کا فیصلہ
سیکیورٹی اداروں کی تجاویزکا انتظار،سیاسی قیادت،قوم کواعتمادمیں لینے کیلیے 4 آپشنززیرغور
وفاق میں برسر اقتدار مسلم لیگ (ن) کے حددرجہ قابل اعتماد ذرائع سے معلوم ہوا کہ انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں کی جانب سے میڈیا ، سیکیورٹی فورسز اور عوامی مقامات پر بڑھتے ہوئے حملوں اور طالبان کے بعض گروپوں کی جانب سے ان حملوں کی ببانگ دہل ذمے داریاں قبول کرنے جبکہ مذاکرات کیلیے حکومتی رابطوں کے مثبت جواب نہ دیے جانے کے بعد وفاقی حکومت نے آخری آپشن کے طور پر انتہا پسندوں کیخلاف فیصلہ کن آپریشن کرنیکا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔
انتہاپسندوں کیخلاف طاقت کا استعمال کب ،کیسے اور کہاں سے شروع کیاجائے، اس کا فیصلہ آئندہ چند دنوں میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور حساس اداروں کے سربراہان سے ملنے والی تجاویز کی روشنی میں پارلیمنٹ میں موجود قومی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے کے بعد کیاجائیگا۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کے قریبی رفقاء سیاسی قیادت اور عوام کو اعتماد میں لینے کیلیے مختلف آپشن پر غور کررہے ہیں۔ وزیراعظم کو ان کے بعض رفقاء یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے کیلئے ضروری ہے کہ ایک بار پھر آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائی اور وہاں اعدادوشمار کیساتھ تمام حقائق سامنے رکھے جائیں اور اس کے بعد فیصلہ کن آپریشن کیاجائے۔ دوسرا آپشن یہ زیر غور ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر وہاں معاملہ اراکین پارلیمنٹ کے سامنے رکھاجائے اور انھیں اعتماد میں لیاجائے۔ تیسرا آپریشن یہ زیر غور ہے کہ وزیراعظم، وزیرداخلہ یا وزیراطلاعات و نشریات اور وزیر خزانہ علیحدہ علیحدہ سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں کریں اور انہیں آپریشن کے حوالے سے اعتماد میں لیں ۔
جبکہ آخری اور کم ترین حمایت کا حامل آپشن یہ زیر غور ہے کہ فیصلہ کن معرکے کے آغاز سے قبل وزیراعظم قوم سے خطاب کریں اور ساری صورتحال قوم کے سامنے رکھیں تاکہ حکومتی فیصلے کو عوامی سطح پر بھی مکمل تائید حاصل ہو۔ وزیراعظم کے مشاورت کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ قوم سے خطاب میں وزیراعظم آپریشن شروع کرنیکا اعلان تو نہ کریں مگر امن مذاکرات کیلئے کی گئی تمام کوششوں کی تفصیلات بتانے کے بِعد قوم پر واضح کردیں کہ اب حکومت کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا۔ ذرائع کے مطابق آپریشن شروع کرنیکا دارومدار موسم کی شدت اور سیکورٹی فورسز کو شورش زدہ علاقوں تک ضروری سازوسامان کیساتھ پہنچنے کیلیے درکار وقت پر بھی منحصر ہے۔ البتہ وفاقی کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں وزیراعظم نے وزارت داخلہ، خارجہ اور ریاستوں وسرحدی امور کی وزارتوں کے حکام کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ وہ افغان حکام سے فوری اور مئوثر رابطے کرکے اس بات کو یقینی بنائیں کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین سرحد پر ہونیوالی آمدورفت کی کڑی نگرانی کی جائے تاکہ انتہا پسندوں کیخلاف آپریشن کے آغاز کے بعد شرپسند عناصر افغانستان میں یا افغانستان کی جانب سے ان کیخلاف گھیراتنگ کرنے کی صورت میں پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ نہ لے سکیں۔ پاک افغان سرحد پر نقل وحرکت محفوظ بنانے کے بعد ہی آپریشن شروع کئے جانے کی بھی تجویز ہے۔
انتہاپسندوں کیخلاف طاقت کا استعمال کب ،کیسے اور کہاں سے شروع کیاجائے، اس کا فیصلہ آئندہ چند دنوں میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور حساس اداروں کے سربراہان سے ملنے والی تجاویز کی روشنی میں پارلیمنٹ میں موجود قومی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے کے بعد کیاجائیگا۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کے قریبی رفقاء سیاسی قیادت اور عوام کو اعتماد میں لینے کیلیے مختلف آپشن پر غور کررہے ہیں۔ وزیراعظم کو ان کے بعض رفقاء یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے کیلئے ضروری ہے کہ ایک بار پھر آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائی اور وہاں اعدادوشمار کیساتھ تمام حقائق سامنے رکھے جائیں اور اس کے بعد فیصلہ کن آپریشن کیاجائے۔ دوسرا آپشن یہ زیر غور ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر وہاں معاملہ اراکین پارلیمنٹ کے سامنے رکھاجائے اور انھیں اعتماد میں لیاجائے۔ تیسرا آپریشن یہ زیر غور ہے کہ وزیراعظم، وزیرداخلہ یا وزیراطلاعات و نشریات اور وزیر خزانہ علیحدہ علیحدہ سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں کریں اور انہیں آپریشن کے حوالے سے اعتماد میں لیں ۔
جبکہ آخری اور کم ترین حمایت کا حامل آپشن یہ زیر غور ہے کہ فیصلہ کن معرکے کے آغاز سے قبل وزیراعظم قوم سے خطاب کریں اور ساری صورتحال قوم کے سامنے رکھیں تاکہ حکومتی فیصلے کو عوامی سطح پر بھی مکمل تائید حاصل ہو۔ وزیراعظم کے مشاورت کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ قوم سے خطاب میں وزیراعظم آپریشن شروع کرنیکا اعلان تو نہ کریں مگر امن مذاکرات کیلئے کی گئی تمام کوششوں کی تفصیلات بتانے کے بِعد قوم پر واضح کردیں کہ اب حکومت کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا۔ ذرائع کے مطابق آپریشن شروع کرنیکا دارومدار موسم کی شدت اور سیکورٹی فورسز کو شورش زدہ علاقوں تک ضروری سازوسامان کیساتھ پہنچنے کیلیے درکار وقت پر بھی منحصر ہے۔ البتہ وفاقی کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں وزیراعظم نے وزارت داخلہ، خارجہ اور ریاستوں وسرحدی امور کی وزارتوں کے حکام کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ وہ افغان حکام سے فوری اور مئوثر رابطے کرکے اس بات کو یقینی بنائیں کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین سرحد پر ہونیوالی آمدورفت کی کڑی نگرانی کی جائے تاکہ انتہا پسندوں کیخلاف آپریشن کے آغاز کے بعد شرپسند عناصر افغانستان میں یا افغانستان کی جانب سے ان کیخلاف گھیراتنگ کرنے کی صورت میں پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ نہ لے سکیں۔ پاک افغان سرحد پر نقل وحرکت محفوظ بنانے کے بعد ہی آپریشن شروع کئے جانے کی بھی تجویز ہے۔