میوٹیشنز کورونا وائرس اور ڈارون

کورونا کی اتنی اقسام آخر کیونکر پیدا ہورہی ہیں اور ہر نئی قسم اتنی مہلک کیوں ہے؟


میوٹیشن کی غلطیاں کورونا کی نت نئی اقسام کے وجود میں آنے کا باعث ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ایک نئی قسم ڈیلٹا (جس کا پورا نام SARS COV2 B.1.617 ہے) کا غلغلہ مچا ہوا ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی ڈان کی ایک خبر کے مطابق راولپنڈی میں ڈیلٹا ویریئنٹ کے 15 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ بعض ممالک تو ایک بار پھر سے لاک ڈاؤن کے نفاذ کی طرف جارہے ہیں اس ڈیلٹا وائرس سے بچنے کے لیے۔ اور بھارت میں جو حالیہ تباہی آئی تھی کورونا کی دوسری لہر کی صورت میں، وہ بھی اسی ڈیلٹا قسم کی وجہ سے ہی تھی۔

اس ڈیلٹا ویریئنٹ سے پہلے برطانوی، برازیلی، جنوبی افریقی اقسام وغیرہ دریافت ہوئی تھیں اور ان تمام تر اقسام کی جڑیں ووہان میں سب سے پہلے دریافت ہونے والے ناول کورونا وائرس سے جا ملتی ہیں۔ اب یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ آخر کیوں کر اتنی اقسام پیدا ہورہی ہیں۔ اور کیا وجہ ہے کہ ہر نئی قسم پچھلی والی سے زیادہ خطرناک ثابت ہورہی ہے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک وائرس یا کسی بھی جاندار کا اپنے اندر تبدیلی کرنا اور اس کے نتیجے میں نئی اقسام کا وجود میں آنا درحقیقت ڈارون کے پیش کردہ نظریہ حیاتیاتی ارتقا کا واضح اور بین ثبوت ہے۔ جس کو کوئی بھی ذی العقل اور اہلِ علم شخص جھٹلا ہی نہیں سکتا ہے۔ خیر اس بات پر ہم بعد میں آئیں گے کہ ڈارون کے نظریہ کے مطابق کیونکر یہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں اور اس کا کورونا کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ ابھی ہم بات کرتے ہیں کہ اس نظریہ ارتقا سے ہٹ کر ایسی تبدیلیوں کے کیا عوامل ہوتے ہیں اور کورونا کے تناظر میں کیوں ہر نئی قسم زیادہ حشر سامانیوں کے ساتھ ہم پر نازل ہوئے جارہی ہے۔

آپ سب جانتے ہی ہوں گے کہ کورونا وائرس کی بنیادی ساخت کیا ہے؟ وائرس کی ایک بیرونی سطح ہے جس پر مختلف پروٹینز لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور اور اہم 'اسپائیک یا ایس' پروٹین ہے۔ یہی پروٹین ہے جو کہ اس وائرس کو تاج نما شکل دیتا ہے جب اسے برقی خوردبین کے ذریعے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ایس پروٹین ایسی چابی کا کام کرتا ہے جو کہ وائرس کےلیے انسانی خلیوں کے اندر داخلے کا ذریعہ بنتی ہے۔

اس بیرونی سطح سے اگر ہم تھوڑا اندر کی طرف جائیں تو ہمیں وائرس کا جنیاتی مادہ آر این اے کی شکل میں ملتا ہے۔ اس آر این اے کے سالمے میں وائرس کی تمام تر معلومات تحریر ہوئی ہوتی ہیں کہ وائرس کی شکل کیا ہوگی ، یہ کتنے اور کون کون سے پروٹینز بنائے گا اور کب بنائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام معلومات کی موجودگی نہایت اہم ہوتی ہے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہر وائرس باآسانی اپنی افزائشِ نسل کرسکے۔ اس سلسلے میں سب سے اہمیت کا حامل مرحلہ وائرس کےلیے اپنے جنیاتی مادے، جسے جینوم بھی کہتے ہیں، کی زیادہ سے زیادہ نقول کی تیاری ہے، تاکہ ہر نئے وائرس میں اس کا جینوم آر این اے کی شکل میں موجود ہو۔

وائرس کے جینوم کی جب کاپیاں بنائی جارہی ہوتی ہیں تو یہی وہ سب سے اہم مرحلہ ہوتا ہے جہاں سے وائرس کی نئی اقسام کی ابتدا ہوتی ہے۔ لیکن کیسے؟ آسان زبان میں اس مرحلے کی مثال آپ کسی تحریر کو دوبارہ لکھنے کی سمجھ لیں۔ آپ نے اپنے زمانہ طالبعلمی میں کبھی نہ کبھی تو کسی سے ہوم ورک یا اسائنمنٹ وغیرہ کاپی تو کیا ہوگا، یا پھر ٹیکسٹ بک سے کوئی پیراگراف جواب کے طور پر اپنی نوٹ بک میں نقل تو کیا ہی ہوگا۔ اگر نہیں کیا تو پھر کسی اور کے نوٹس فوٹو اسٹیٹ تو لازمی کروائے ہوں گے ہی۔ ہر وائرس کے اندر موجود اس کا آر این اے والا جینوم، جیسا کہ اوپر گزر چکا کہ وہ اپنے اندر ساری معلومات رکھتا ہے۔ یہ سالمہ کسی بھی ٹیکسٹ بک یا اس اصل نوٹس کی مانند ہوتا ہے جس سے آگے مزید اس کی نقول تیار کی جاتی ہیں۔ وائرس کے پاس ایک خاص پروٹین موجود ہوتا ہے جو کہ اس آر این اے کو پڑھ کر اس کی کاپیاں بنانے کا ذمے دار ہوتا ہے اور یوں وائرس کی ہر نسل کے اندر اس کا جینوم موجود رہتا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ عمل صرف وائرس تک ہی محدود نہیں بلکہ تمام تر جانداروں میں خواہ وہ جانور ہوں یا پرندے، انسان ہوں یا پودے یا پھر کوئی بھی جاندار، سب میں معمولی سے فرق کے ساتھ متواتر ہوتا رہتا ہے۔ بلکہ اس وقت بھی میرے اور آپ کے اجسام میں بھی یہی عمل جاری ہے کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر ہمارے خلیات مرتے اور ان کی جگہ نئے خلیات پیدا ہوتے ہیں اور ان سب میں ہمارے جینوم کی کاپیاں موجود ہوتی ہیں۔

خیر واپس چلتے ہیں زمانہ طالبِ علمی کی جانب، آپ سب کو اپنے اپنے ہوم ورک میں پائی جانے والی غلطیوں پر ڈانٹ تو پڑی ہی ہوگی، ان غلطیوں کی وجہ عموماً کام کرتے ہوئے بے دھیانی یا پھر لاپرواہی ہوتی ہے۔ یا اگر نوٹس کی بات کریں تو جیسے جیسے فوٹوکاپی مشین پرانی ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے نئی کاپیوں میں صفائی کم ہوتی جاتی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ یونیورسٹی میں ایک بار نوٹس کی فوٹو کاپی اتنی بری تھی کہ کچھ پڑھا ہی نہیں جارہا تھا۔ جس پر ساری کلاس نے پہلے تو CR کی طبعیت صاف کی اور پھر جاکر فوٹو کاپی والے کی کلاس لی۔

یہاں ہوم ورک، غلطیاں، نوٹس اور فوٹوکاپی کا تذکرہ محض نوسٹلجیا Nostalgia کےلیے نہیں، بلکہ آپ کو یہ باور کروانا ہے کہ وائرس جب اپنے جینوم کی کاپیاں تیار کررہا ہوتا ہے تو انسانوں اور باقی تمام جانداروں کے برعکس اس کا رویہ کسی لاپرواہ بچے جیسا ہوتا ہے، جو اپنے اسکول کا کام بس سر سے اتار کر جان چھڑانے کی کوشش میں مگن ہو۔ یعنی اس سے کافی زیادہ غلطیاں ہوتی ہیں۔ اوپر میں نے وائرس اور باقی تمام جانداروں کے درمیان جس معمولی سے فرق کی بات کی تھی وہ درحقیقت پروف ریڈنگ کی صلاحیت ہے۔ کورونا، ایڈز اور انفلوئنزا کی قبیل کے وائرسوں کے پاس اپنے جینوم میں ہونے والی غلطیوں کی پروف ریڈنگ کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں باقی تمام تر جاندار پروف ریڈنگ کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ (اب یہ پروف ریڈنگ کیسے ہوتی ہے اس پر کسی اور وقت بات کریں گے)۔

آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس صلاحیت سے محرومی کا مطلب وائرس کے آر این اے کی بننے والی نئی کاپیوں میں اصل کے مقابلے میں زیادہ غلطیاں موجود ہوں گی۔ انہی غلطیوں کو ہی حرفِ عام میں میوٹیشنز Mutations کہتے ہیں۔ آپ نے سائنس فکشن موویز اور کہانیوں میں میوٹیشنز کا ذکر تو خیر دیکھ، پڑھ اور سن ہی رکھا ہوگا۔ اب یہ میوٹیشنز ہی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے جانداروں میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی ہے۔ اس تبدیلی کو ہی ڈارون نے حیاتیاتی ارتقا کا نام دیا تھا اور یہی تبدیلیاں ہی اس وقت کورونا کی نت نئی اقسام کے وجود میں آنے کا واحد سبب ہیں۔

(جاری ہے)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔