ایک اتفاق جس نے پشاور کے یوسف کو برصغیر کی فلم نگری کا دلیپ بنا دیا

دلیپ کمار دنیا چھوڑ گئے،اداکاری کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا۔

دلیپ کمار دنیا چھوڑ گئے،اداکاری کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا۔ فوٹو: فائل

وہ اپنے والدین کے بچوں میں سے چوتھے نمبر پر تھا، والد پھل اور خشک میوہ کا کاروبار کرتے تھے،عملی زندگی کا آغاز یوں کیا کہ پونا سینڈوچ اور لیمونیڈ کا اسٹال لگا لیا۔

گھر چھوڑنے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک شام جیسے ہی وہ گھر پہنچا، باپ کا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا، زبان آگ اگل رہی تھی،سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اصل ماجرہ کیا ہے، نوجوان کے لب خاموش تھے لیکن دل میں بغاوت کا طوفان امڈ آیا تھا، کمرے میں گیا، کپڑے لیے اور گھر سے نکل کھڑا ہوا، پونا جانے کے لیے تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لیا اور انجانی منزل کی جانب رواں ہو گیا۔

ایک ریستوران میں کینٹین مینیجر کے اسسٹنٹ سے کام کا آغاز کیا اوردیکھتے ہی دیکھتے اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر منیجر کے عہدہ پر جا پہنچا، پونا میں کام ٹھپ ہوا تو بمبئی میں تگ و دو کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ یہ پشاور سے بمبئی آ کر بسنے والے لالہ غلام سرور خان کا شرمیلا لڑکا یوسف خان تھا جسے دنیا آج دلیپ کمار کے نام سے جانتی ہے۔

دلیپ کمارکی فلمی دنیا میں آنے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے، سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے زندگی میں شاید صرف ایک بارہی فلم دیکھی ہو اور وہ ایک دن ایک ارب 39 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک بھارت کا سب سے ٹاپ سٹار بھی بن جائے، یہ بڑی عجیب سی بات دکھائی دیتی ہے۔

اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن کسی کام کے سلسلے میں یوسف بمبئی کے چرچ گیٹ ریلوے سٹیشن پر کھڑا تھا کہ ایک جانی پہچانی صورت نظر آئی ، غور کیا تو وہ مشہور نفسیات دان ڈاکٹر مسانی تھے جو ایک بار ان کے کالج میں لیکچر دینے آئے تھے۔ ہیلو ہائے کے بعد ڈاکٹر مسانی نے پوچھا یوسف آج کل کیا کر رہے ہو؟' 'نوکری کی تلاش،' دلیپ نے کہا۔ڈاکٹر مسانی نے کہا، یہ بات ہے تو چلو قسمت آزما کر دیکھتے ہیں، اور یوسف کوساتھ لے کر بمبئی ٹاکیز چلے گئے۔ وہاں دیویکا رانی اور مشہور ڈائریکٹر امیا چکرورتھی دونوں موجود تھے۔

دیویکا رانی نے پوچھا، 'آپ کی اردو کیسی ہے؟' نوجوان سے پہلے ڈاکٹر مسانی نے تعریفوں کے پل باندھ دئیے،بعد ازاں دیویکارانی اور یوسف کی مختصر بات ہوئی جس میں دیویکارانی نے یوسف میں چھپے فنکار کو بھانپ لیا اور انہیں پرکشش معاوضے پر فلموں میں کام کرنے کی پیشکش بھی کر دی۔یوں بمبئی ٹاکیز نے نہ صرف ان کی تقدیر بدلی بلکہ ان کا نام بھی بدل ڈالا اور وہ یوسف خان سے دلیپ کمار بن گئے۔

اداکار دیویکا رانی نے دلیپ کمار کو ان کی مسلم شناخت کو چھپانے اور ایک نیا ہندو نام لینے کا مشورہ دیا کیونکہ رانی کا خیال تھا کہ ہندو نام تقسیمِ ہند کے بعد بھارت میں دلیپ کمار کو فلمی کیریئر میں کامیابی حاصل کرنے میں مدد دے گا۔



دلیپ کمار نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1944ء میں فلم 'جواربھاٹا'سے کیا مگر فلم انڈسٹری میں اپنی اصل پہچان 1960ء میں تاریخی فلم 'مغلِ اعظم' میں شہزادہ سلیم کا کردار ادا کر کے بنائی۔ دلیپ کمار نے اپنے فلمی کیرئیر کے دوران مغل اعظم، ملن، جگنو، شہید، ندیا کے پار، انداز جوگن، بابل، آرزو، ترانہ، ہلچل، دیدار، سنگدل، داغ، آن، شکست، فٹ پاتھ، امر،اڑن کٹھولا، انسانیت، دیوداس، نیا دور، پیغام، کوہ نور،گنگا جمنا، شکتی، سمیت کئی لازوال فلموں میں عمدہ اداکاری کے جوہر دکھائے۔

سنگ دل، امر، اڑن کھٹولہ، آن، انداز، نیا دور، مدھومتی، یہودی اور مغل اعظم ایسی چند فلمیں ہیں جن میں کام کرنے کے دوران میں انہیں شہنشاہ جذبات کا خطاب دیا گیا۔ لیکن انہوں نے فلم کوہ نور، آزاد، گنگا جمنا اور رام اور شیام میں ایک کامیڈین کی اداکاری کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ لوگوں کو ہنسانے کا فن بھی جانتے ہیں۔

دلیپ کمار کی اداکاری میں ایک ہمہ جہت فنکار دیکھا جاسکتا ہے جو کبھی جذباتی بن جاتا ہے تو کبھی سنجیدہ اور روتے روتے آپ کو ہنسانے کا گر بھی جانتا ہو۔ انڈین فلم انڈسٹری انہیں آج بھی بہترین اداکار مانتی ہے اور اس کا لوگ اعتراف بھی کرتے ہیں۔ دلیپ کمار اپنے دور کے فلم انڈسٹری کے ایسے اداکار تھے جن کے سٹائل کی نقل لڑکے کرتے تھے اور ان کی ساتھی ہیروئینوں کے ساتھ ساتھ عام لڑکیاں ان پر مرتی تھیں۔

ہیروئین مدھوبالا سے ان کے عشق کے چرچے رہے لیکن کسی وجہ سے ان کی یہ محبت دم توڑ گئی اور زندگی میں ہی دونوں علیحدہ ہو گئے۔ان کی وجیہہ شخصیت کو دیکھ کر برطانوی اداکار ڈیوڈ لین نے انہیں فلم 'لارنس آف عریبیہ' میں ایک رول کی پیشکش کی لیکن دلیپ کمار نے اسے ٹھکرا دیا۔ 1998 میں فلم ' قلعہ ' میں کام کرنے کے بعد فلمی دنیا سے کنارہ کشی کر لی تھی۔ دلیپ کمار صرف فلمی پارٹیوں میں اپنی بیوی سائرہ بانو کے ساتھ نظر آتے رہے۔


ابتدائی دور میں دلیپ کمار کو ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنی اصل منزل کے حصول کے لئے ڈٹے رہے،ایک بار دلیپ کمار کرکٹ سٹیڈیم پہنچے تو دو شخص ان کی طرف دیکھتے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ یہ ملے تو پتہ چلا ایک موسیقار نوشاد علی اور دوسرے پروڈیوسر ڈائریکٹر محبوب خان ہیں۔ نوشاد نے دلیپ کمار کو ملاقات کی دعوت دی۔ اگلے دن پروڈیوسر ڈائریکٹر یو ایس سنی کے دفتر میں ان کی ملاقات ہوئی اور دلیپ صاحب کے سامنے 'میلہ' فلم کی کہانی رکھی گئی۔

'میلہ' سے دلیپ کمار اور نوشاد کی طویل رفاقت کا آغاز ہوا، جنہوں نے اگلے 20 برس میں 14 فلمیں ایک ساتھ کیں۔ بمبئی کی فلم نگری میں اس وقت راج کپور اور نرگس کے رومانوی تعلقات کی دھوم مچی تھی۔ 'برسات' اور 'انداز' میں دونوں کے انداز پس پردہ محبت کی برسات کا پتہ دیتے تھے، لیکن 1951کی فلم 'ترانہ' سے بھارت میں رومانس کے نئے دور کی بنا پڑی۔

روشن خدوخال والے دلیپ کمار اور حسن کی دیوی مدھوبالا نے جیسا رومانس پردے پر اتارا اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسی فلم سے دلیپ کمار اور مدھوبالا کی محبت کا آغاز ہوا جو ناکامی سے دوچار ہوئی اور آج تک اس کا ذکر برابر سننے کو ملتا ہے۔ اس کے بعد 'داغ، سنگدل، آن اور امر' جیسی فلموں میں دلیپ کمار کا فن مزید پختہ ہوا اور باکس آفس پر کامیابی کا گراف بلند ہوتا گیا۔ اسی دوران بمل رائے نے کلکتہ سے بمبئی کا رخ کیا اور اپنی پہلی ہی فلم 'دو بیگھہ زمین' سے پوری انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا۔

سنجیدہ موضوعات پر مبنی ان کی فلمیں ایک طرف نچلے طبقات کو اپنی آواز محسوس ہوئیں تو دوسری طرف ناقدین فنی دسترس پر حیران رہ گئے۔ ہندوستان میں فلم کی کامیابی کا بڑا انحصار فلم کی موسیقی پر ہوتا ہے۔ دیوداس کے گیت شائقین کے دل نہ چھو سکے۔ دیوداس سے دلیپ کمار 'ٹریجڈی کنگ' بنے۔ تین سال بعد دلیپ کمار اور بمل رائے کی مدھومتی(1958) ریلیز ہوئی تو اس نے صرف دل ہی نہیں فلم فیئر ایوارڈز بھی جیتے۔ یہ پہلی فلم تھی جس نے آواگون کو موضوع کو بتایا اور اس کے بعد ایک سلسلہ چل نکلا۔

دلیپ کمار کے ڈبل رول کو خوب سراہا گیا۔بی آر چوپڑا کی 'نیا دور'، یو ایس سنی کی 'کوہ نور' اس دہائی کی دیگر دو اہم فلمیں ہیں۔ 50 کی دہائی کو دلیپ کمار کے فن کا نقطہ عروج کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، دیوداس کا دیو بابو، مغل اعظم کا شہزادہ سلیم 1961 کی فلم 'گنگا جمنا' میں ایک اینٹی ہیرو کے کردار میں فن کی نئی بلندیوں کو چھوتا ہے۔1960 کے عشرے میں کامیابی کی نسبت ناکامی کے بادل گہرے ہونے لگے۔



70 کی دہائی میں راجیش کھنہ کے کرشمے سے اور امیتابھ بچن کے اینگری ینگ مین کے روپ کو شہرت ملی۔ سدا بہار دیو آنند اور جادوئی موسیقار ایس ڈی برمن کے علاوہ پرانی نسل کی سانسیں پھولنے لگیں۔ 1976 میں دلیپ کمار نے فلم سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔پانچ برس بعد کرانتی (1981) سے کریکٹر ایکٹر کی صورت میں نئے دلیپ کمار کا جنم ہوا۔

گنگا جمنا' کا باغی اب ایک ایماندار پولیس افسر تھا اور 'شعلے' کا جے قانون شکن بیٹا۔ 'شکتی' میں دونوں اداکاروں نے زبردست اداکاری کا مظاہرہ کیا، سینماسے نکلتے ہوئے کچا کھا جانی والی نسل کا لہجہ بدلا ہوتا، دیوتا کے پرستاروں کا سینہ مزید چوڑا ہو گیا۔ مشعل، کرما اور سوداگر' میں بطور کریکٹر ایکٹر دلیپ کمار نے اپنا لوہا منوایا۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دلیپ کمارمیں منجھے ہوئے اداکار کے ساتھ بہترین صلاحیتوں کے مالک صحافی کی جھلک بھی نظر آتی تھی، انہوں نے ملکہ ترنم نور جہاں کا انٹرویو کیا جسے اس دور میں بے پناہ مقبولیت بھی حاصل ہوئی، بنیادی طور پر یہ انٹرویو پنجابی میں تھا، انٹرویو کے دوران دلیپ کمارنے ملکہ ترنم سے گانا سنانے کی فرمائش بھی کی جسے نور جہاں نے گانا گا کر دلیپ کمار کی اس خواہش کو فوری پورا بھی کر دیا۔

بعد ازاں نور جہاں نے دلیپ کمار کی جانب سے لیے گئے انٹرویو کو اپنے لیے اعزاز قرار دیا۔میڈم نور جہاں کا کہنا تھا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کا انٹرویو دلیپ کمار نے کیا تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے جب دلیپ کمار نے کسی کا انٹرویو کیا ہو۔ اس سے قبل دلیپ کمار صاحب نے بس انٹرویو دیئے ہی ہیں۔میڈم نور جہاں کا مزید کہنا تھا کہ یہ دلیپ کمار کا ان کے لیے پیار تھا کہ ممتاز اداکار نے ان کا انٹرویو کیا، وہ دلیپ کمار کی جانب سے دیئے گئے اس پیار اور عزت کو ہمیشہ یاد رکھیں گی۔

دلیپ کمار جتنے بڑے فنکار تھے بالی وڈ فلموں میں اتنا عمدہ مواد نہیں ملتا۔ اکثر و بیشتر کہانیاں عامیانہ سطح کی اور تکنیکی اعتبار سے بے ہنگم اور فارمولا فلمیں ہیں۔ دلیپ کمار کوجہاں بے شمار اعزازات سے نوازا گیا وہاں انھیں انڈین فلم کا سب سے بڑا اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی دیا گیا۔پاکستان حکومت کی طرف سے 1998ء میں ان کو پاکستان کے سب سے بڑے سویلین اعزاز نشان پاکستان سے بھی نوازا گیا۔

بھارت کا دوسرا سب سے بڑا شہری اعزاز، 2015 میں پدم ویبھوشن سے نوازا گیا۔ دلیپ کمار 98 برس کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے، ان کی وفات پر جہاں بالی ووڈ انڈسٹری سوگوار ہے وہیں وزیراعظم عمران خان،چودھری شجاعت حسین پرویزالٰہی سمیت پاکستان کی نامور سیاسی شخصیات نیبھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔ گو دلیپ کمار آج ہم میں نہیں لیکن ان کی جانداری اداکاری اور سحر انگیز لہجہ اداکاروں کیلئے مشکل دہ رہے گا۔
Load Next Story