ڈیلٹا وائرس کے خلاف جنگ

انسانیت کے خلاف کورونا اور اس کے نئے ڈیلٹا وائرس سے بڑی تباہی پھیلنے کے آثار نظر آتے ہیں۔


Editorial July 11, 2021
انسانیت کے خلاف کورونا اور اس کے نئے ڈیلٹا وائرس سے بڑی تباہی پھیلنے کے آثار نظر آتے ہیں۔ فوٹو:امیجز

KARACHI: ملک میں کورونا کی بھارتی قسم ''ڈیلٹا وائرس'' کے کیسز سامنے آنے لگے ہیں۔ وفاقی وزیر اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی اوسی) کے سربراہ اسد عمر نے کورونا وائرس کی چوتھی لہر شروع ہونے سے متعلق خبردار کرتے ہوئے ایس او پیز پر عمل نہ ہونے کی صورت میں شادی ہالز اور ریستوران بند کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔

عالمی عندیہ یہ بھی ہے کہ کورونا وبا سے چالیس لاکھ اموات ہوچکی ہیں، انسانیت کے خلاف کورونا اور اس کے نئے ڈیلٹا وائرس سے بڑی تباہی پھیلنے کے آثار نظر آتے ہیں، بلاشبہ ہمیں اب کورونا کے خلاف جنگ قومی جنگ کی سطح پر لڑی جانی چاہیے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کورونا سے نمٹنے کی کوششیں اب بایولوجیکل وار کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ جب کہ کورونا کی نئی قسم کے پیش نظر حکومت نے 9 سے 18 جولائی تک ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے سختی کا فیصلہ کر لیا۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اور سربراہ این سی او سی اسد عمر نے کہا ہے کہ چوتھی لہر سے متعلق2 ہفتے پہلے ہی خبردار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مصنوعی انٹیلی جنس کورونا وائرس کی وبا کی چوتھی لہر کے امکانات ظاہر کر رہی ہے۔ اب کورونا وائرس کی وبا کی چوتھی لہر شروع ہونے کی واضح ابتدائی علامات ہیں۔ اپنی ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ شادی ہالز، ریسٹورینٹس اور جمز میں ویکسینیشن سرٹیفکیٹ سے متعلق ایس اوپیز پر عمل نہیں ہورہا۔ ان شعبوں نے ذمے داری نہ نبھائی تو انھیں بند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔

علاوہ ازیں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ڈیلٹا وائرس اور پاکستان میں موجود دیگر وائرس کے حوالے سے جامع حکمت عملی ترتیب دے دی۔ این سی او سی کا کہنا ہے کہ ملک میں انتہائی خطرناک کورونا کی بھارتی قسم ڈیلٹا وائرس کے کیسز سامنے آنے لگے ہیں جو کورونا کی چوتھی لہر بھی ہو سکتی ہے۔ جس کے پیش نظر 9 سے 18 جولائی تک ایس او پیز کا شدت سے نفاذ یقینی بنایا جائے گا۔ متعلقہ ایس او پیز پر عمل درآمد اور ویکسین لگوانے کی رفتار کو تیز کرنے پر زور دیا جائے گا۔

این سی او سی کا کہنا ہے کہ اگر ڈیلٹا وائرس پر قابو پانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وائرس کی وجہ سے بھارت نے نہ صرف لاکھوں اموات کا سامنا کیا بلکہ اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کے باعث عوام بے یار و مددگار اذیتیں جھیلتے رہے۔ تاہم پاکستانی عوام کو اس وائرس کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے این سی او سی نے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔ عید الاضحی کے موقع پر وبا کے پھیلاؤ کی صورت میں غیر ضروری نقل و حرکت کو محدود رکھنے کے لیے تجاویز زیر غور ہیں۔ جن پہ عمل درآمد کا فیصلہ کورونا کے پھیلاؤ کو مدنظر رکھ کر آیندہ چند دن میں کیا جائے گا۔ جب کہ بڑھتی ہوئی وبا کے پیش نظر سیر و سیاحت پر پابندی کا بھی امکان ہے۔

این سی او سی کا کہنا ہے کہ ایک بار پھر اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ہدایات جاری کی جا رہی ہیں کہ تمام پرائیویٹ سیکٹر ملازمین، بشمول کارپوریٹ سیکٹر، چھوٹی درمیانی اور بڑی انڈسٹری کے ملازمین، زراعت، میڈیا، وکلاء، پرائیویٹ کمپنیاں، فیکٹری مزدور، مارکیٹ میں کام کرنے والے ملازمین، ٹرانسپورٹ سیکٹر سے منسلک افراد، ہوٹل ورکز، ریڑھی بان، جمنازیم ملازمین، مساجد کے خدام اور آئماء، شادی ہال اور ورکشاپس پر کام کرنے والے افراد کو لازماً 31 جولائی سے قبل ویکسین لگوائی جائے، 18 سال سے زائد عمر کے طلبہ اور طالبات کے لیے 31 اگست تک ویکسین لگوانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

این سی او سی کے مطابق یکم اگست سے ویکسینیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر ہوائی سفر کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے، پاکستان کے تمام سیاحتی مقامات پہ جانے والے 30 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد پر بغیر ویکسینیشن سرٹیفیکٹ کے سفر اور ہوٹل بکنگ پر عائد پابندی کو یقینی بنانے کے لیے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔ یکم اگست سے اس پابندی کا اطلاق 18 سے 30 سال تک کے افراد پر بھی ہو گا۔

دوسری جانب عوامی حلقوں نے ویکسینیشن سرٹیفکیٹس کی چیکنگ پر حکومتی اقدامات کو عجلت میں لیا گیا اقدام قرار دیا ہے، شہریوں کا کہنا ہے کہ ابھی ویکسینیشن کا عمل اختتام کو نہیں پہنچا بیوروکریسی نے جادو کی چھڑی سے ہر شہری سے سرٹیفکیٹس مانگنے کی بیقراری دکھائی ہے، شہریوں نے سوال کیا کیا بائیس کروڑ کی آبادی میں بیس کروڑ افراد کی ویکسینیشن ہوگئی ہے؟

ان کا کہنا ہے کہ کورونا کی ویکسینیشن کی شرح تو پولیو کے قطرے پلانے کی شرح سے کم ہے، پولیو ورکر جان ہتھیلیوں پر رکھ کر کام کرتے ہیں، کورونا کے لیے بھی حکومت اپنی افرادی طاقت کو سامنے لائے، لاکھوں لوگ ویکسین لگانے کے لیے سینٹرز میں سہولت کے منتظر ہیں، بد نظمی پر لوگ برہمی کا اظہار کرتے ہیں، سینٹرز کی تعداد بڑھانی چاہیے، رجسٹریشن کے کام کو میکانیکل انداز میں جبر کے طور مکمل کرنے کی کوشش میں مشکلات بڑھیں گی، جب کہ گھر گھر ویکسینیشن کے لیے کوئی اضافی عملہ تعینات کرنے کی سہولتیں نہیں ہے، اس لیے ارباب اختیار ہر کام کی طرح ویکسینیشن کی ذمے داری کو بھی سائنسی رفتار اور مکمل تیاریوں کے ساتھ اپنی منطقی تکمیل تک پہنچائیں، غیر ضروری chaos اور ذہنی تناؤ کی صورتحال پیدا نہ ہونے دیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہر شخص کو احساس ہے کہ ویکسینیشن ناگزیر ہے اور جلدی لگوانی چاہیے مگر ویسی ہی سہولتیں اور ویکسین لگانے کی آسانی قریب ترین، مراکز، اسپتالوں میں دستیاب ہوں گی تو عوام بغیر کسی دباؤ، ہڑبونگ اور پریشانی کے اپنی پہلی خوراک لگوا سکیں گے۔ لہٰذا عملہ اور افرادی طاقت میں اضافہ اور پارٹی کارکنوں کو ملک کے دور افتادہ مقامات تک جملہ سہولتوں کے ساتھ رسائی کے میکنزم اور سسٹم کی موجودگی لازمی ہے۔

ارباب اختیار ملکی سیاسی اور خطے میں پیدا ہونے والی صورتحال کو بھی کورونا سے نمٹنے کے ٹاسک کا حصہ بنائیں اور افغانستان میں حالات کے خدشات اور سماجی زندگی میں آنے والے اندیشوں اور نقل مکانی اور خانی جنگی کو روکنے کے امکانات کی کوششوں میں کورونا ویکسینیشن میں عوام کو جو بھی سہولیات ملنی چاہئیں اس میں افراتفری، پینک اور تناؤ کے سدباب میں ایکسٹرا الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کورونا اور ویکسینیشن کے معاملات نارمل حالات میں نہیں ہو رہے، غیر یقینی صورتحال ہے، لوگ پہلے ہی معاشی اور اقتصادی طور پر مسائل اور الجھنوں میں گرفتار ہیں، ان کے مصائب کے ازالے کے لیے حکومت ریلیف، گھریلو طمانیت اور آسانیاں مہیا کرنے کے امکانات کا بھر پور جائزہ لے اور عوام ویکسینیشن کے چیلنج سے احسن طریقے سے نمٹنے میں حکومت سے تعاون کریں۔

مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ افغانستان کی صورتحال انتہائی خراب ہے، پاکستان کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں، وہاں کے حالات پر تشویش ہے کیونکہ دہشتگرد مہاجرین کے بھیس میں پاکستان میں داخل اور ٹی ٹی پی حملوں کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے جُڑا ہے، امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے باڑ لگا کر بارڈر کراسنگ پر مؤثر نگرانی شروع کردی ہے، افغانیوں کے لیے آن لائن ویزا اسٹریم لائن کردیا ہے جب کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، فوج اور خفیہ ایجنسیاں مستعدی سے کام کر رہی ہیں۔

مہنگائی بھی عوام کے اعصاب پر سوار ہے۔ ملک میں نئے مالی سال کے پہلے ماہ کے دوران مسلسل دو ہفتوں سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ کا رجحان جاری ہے، حالیہ ہفتے کے دوران23 اشیائے ضروریہ مہنگی، 9 سستی ہوئیں جب کہ 19کی قیمتیں برقرار رہی ہیں، وفاقی بجٹ کے نافذ ہوتے ہی ملک میں مہنگائی کی شرح میں 0.07 فیصد اضافہ ہوا ہے، سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 12.28 فیصد ہوگئی ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات نے ہفتہ وار رپورٹ جاری کردی جس سے واضع ہوتا ہے کہ نئے وفاقی بجٹ کے اثرات مہنگائی میں مسلسل اضافہ کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں، بجٹ نافذ ہونے والے دن یکم جولائی کو مہنگائی کی شرح میں0.53 فیصد اضافہ ہوا، گزشتہ ایک ہفتے کے دوران چینی، آلو، ٹماٹر، انڈے، پیاز، لہسن، مٹن، بیف، ویجی ٹیبل گھی، ایل پی جی، صابن، دال چنا اور تازہ کھلا دودھ سمیت مجموعی طور پر23 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، دال مونگ، دال ماش، چکن، آٹا اور دال مسور سمیت 9 اشیاء سستی ہوئیں، دال مونگ، دال ماش، چکن، آٹا اور دال مسور سمیت 19اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مستحکم رہیں۔

دنیا کو کورونا، مہنگائی، سیاسی خلفشار، جنگی و خانہ جنگی کے خطرات سمیت داخلی سیاسی و معاشی بحرانوں کا سامنا ہے، بیروزگاری کی اذیت کا کوئی حل نہیں مل رہا، حکمرانوں کے لیے پیدا شدہ حالات آزمائش اور سیاسی بصیرت و دور اندیشی کا امتحان ہیں، پاکستان کو خطے میں ایک بڑے طوفان کی آمد سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا، سیاست دانوں میں بلیم گیم اور سیاسی محاذ آرائی کا جو دردناک تماشا لگا ہوا ہے، زندہ قوموں کا یہ شیوہ نہیں ہوتا۔

ایک انگریزی معاصر نے اپنے فکر انگیز تجزیہ میں سوال اٹھایا ہے کہ حکومت چینی قیادت کے سیاسی تدبر، بہترین اقتصادی پالیسیوں، بیروزگاری کے خاتمہ، پیداواری صلاحیت اور محنت کشوں کو بہتر نتائج دینے کے لیے کیا کچھ کرسکتی ہے، ان رہنما اصولوں سے استفادہ کی ضرورت ہے، ہمیں چینی نظام تعلیم سے گائیڈنس لینی چاہیے، ہماری تعلیم تباہی سے دوچار ہے، تجزیہ کاروں کے مطابق چین نے اقتصادی طاقت کی بالادستی اور فوقیت کے لیے بنیادی اقدامات پر توجہ دی ہے، ہم اپنے آہن صفت پڑوسی کی خیرہ کن ترقی کی تقلید میں اپنے نان ایشوز سے کب دست بردار ہونگے، وقت تو آگیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔