امریکا پاکستان کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا

امریکا پاکستان کو دنیائے اسلام کو لیڈ کرنے سے بھی روکنا چاہتا ہے۔


سرور منیر راؤ July 11, 2021

آج کل ہر طرف یہ گفتگو ہے کہ امریکا تو افغانستان کو بیچ منجدھار چھوڑے جا رہا ہے۔ اس تمام صورتحال کا نگیٹو فال آوٹ پاکستان پر ہوگا۔

اس ساری صورتحال کے پہلوں پر گفتگو تو اپنی جگہ خصوصی اہمیت کی حامل ہے لیکن آج میں ایک ایسی کتاب کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس نے پاکستان کے حوالے سے امریکی سوچ اور حکمت عملی کو کھل کر بیان کر دیا ہے بلکہ ہماری آنکھیں بھی کھول دی ہیں۔اس کتاب کا ٹائٹل ہے ''No Exit from Pakistan''

اس کتاب کے مصنف ایک ممتاز امریکی اسکالر اور امور خارجہ کے ماہر پروفیسرڈینیل مارکے ہیں۔ انھوں نے 25 سال کی کی محنت اور تحقیق کے بعد اس کتاب میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے حوالے سے حیران کن اور چشم کشا حقائق کو آشکار کیا ہے۔ڈینیل مارکے امریکا کی ایک ممتاز یونیورسٹی میں پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور خارجہ امور کونسل کے سینئر فیلو بھی ہیں۔ انھوں نے پاکستان بھارت چین اور جنوبی ایشیا کی سیکیورٹی اور گورننس میں اسپیشلائزیشن کی ہوئی ہے۔

اس کتاب کا مرکزی خیال ہے کہ امریکا پاکستان کو کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گا کیونکہ اسے پاکستان پر کڑی نظر رکھنی ہے۔ڈینیئل کا کہنا ہے کہ امریکا نے 72 سال پہلے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور پرامن ملک نہیں رہنے دے گا۔ ڈینیل نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ امریکا نے پاکستان پر کبھی اعتماد نہیں کیا لیکن اس کے باوجود امریکا پاکستان سے گہرے تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔

اس کا مزید کہنا ہے ہے کہ امریکی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم پاکستانیوں کی جتنی بھی مدد کریں اور پیسے دیں وہ پاکستانیوں کے دلوں میں امریکا کے لیے محبت پیدا نہیں کر سکتے۔ڈینیل کہتا ہے کہ اس کے باوجود امریکا پاکستان کو کیوں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا اس کے لیے وہ تین اہم وجوہات بیان کرتا ہے۔اس کی پہلی اور اہم وجہ پاکستان کا نیوکلیئر اور میزائل پروگرام ہے۔ اس پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جسکے چین سے بہت گہرے تعلقات ہیں۔ چین کے عزائم کیا ہیں اور اس کی مستقبل کی حکمت عملی کیا ہوگی اس حوالے سے جب امریکی حکام پاکستانی حکام سے ملاقات کرتے ہیں تو ان کو کچھ نہ کچھ فیڈبیک ملتی رہتی ہے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس ایک بڑی اور پروفیشنل آرمی ہے۔ڈینیل کا کہنا ہے کہ ان تین وجوہات کی بنیاد پر امریکا نے بہت پہلے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ پاکستان کو نہ تو ترقی کی اجازت دی جائے گی اور نہ ہی وہاں مستحکم سیاسی اور معاشی نظام قائم ہونے دیا جائے گا۔

امریکا پاکستان کو دنیائے اسلام کو لیڈ کرنے سے بھی روکنا چاہتا ہے، اس کے لیے امریکا نے جوحکمت عملی اختیار کی ہے اسے Managed Desatbliztion کا نام دیا گیا ہے۔اس کے لیے امریکا جو حکمت عملی یا طریقہ واردات اختیار کرتا ہے اس سے بہت حد تک پاکستان کا ہر ذی شعور شہری بھی آگاہ ہے۔

ڈینیل مارکے غیر مستحکم پاکستان کے لیے امریکی پالیسی کو بیان کرتے کہتا ہے کہ ہم پاکستانی اہم لوگوں جن میں سیاستدان اہم افسران ، جرنلسٹ، دانشوروں اور academisions شام ہیں، ان میں کام کرتے ہیں۔اس کا کہنا ہے ایسے لوگ امریکی ویزہ، نکی اولاد کو امریکا میں اسکالرشپ وغیرہ مل جائے ان کے لیے اتنا فائدہ ہی بہت ہوتا ہے ۔ ان بااثر افراد کے بچوں کو جب امریکی یونیورسٹیوں میں داخلہ مل جاتا ہے تو کچھ عرصے بعد انھیں گرین کارڈ دے دیا جاتا ہے اور اس طرح ان کے والدین بھی گرین کارڈ یا امیگریشن کے حقدار بن جاتے ہیں۔

ڈینیل کی یہ کتاب سب پاکستانیوں کو پڑھنی چاہیے اور اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے۔اپنی اصلاح کرنی چاہیے آئے اور ایک خودار قوم کے طور پر اپنا تشخص قائم قائم کرنا چاہیے۔امریکا کی دو سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ اگر کسی حکمران یا ملک نے امریکی مفادات کے خلاف کام کیا تو امریکا نے اسے سے انتقام کا نشانہ بنایا۔

انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو ذوالفقار علی بھٹو،صدام حسین، کرنل قذافی اس کی چند مثال ہیں۔لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سے لے کر اب تک امریکا کی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی حکمت عملی تسلسل سے جاری ہیں۔ اس کی تفصیل میں اگر جائیں تو کالم شاید اجازت نہ دیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1951 میں لیاقت علی خان کی شہادت بعد سے لے کر پاکستان کا سیاسی نظام کبھی بھی حقیقی معنوں میں مستحکم نہیں ہو سکا۔

سول اور ملٹری حکمران آتے اور جاتے رہے لیکن ملکی سیاسی نظام مستحکم نہ ہو سکا۔پاکستان آرمی کو کمزور کرنے کے لیے بھارت کو بھی استعمال کیا گیا۔ملک کے اندر مختلف صرف انداز میں آرمی کو نشانہ بھی بنایا گیا لیکن یہ بات خوش آیند ہے کہ پاکستان کی افواج نہ صرف یہ کہ متحد مستحکم اور مضبوط ہیں بلکہ پاکستان ان کے لیے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ لیکن ہمارے حکومتوں کی گورننس اب تک مثالی نہیں ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ھم گورننس کو بہتر بنائیں۔ امریکا کی حکمت عملی کچھ بھی ہو بھارت کے عزائم کتنے بھی خطرناک کیوں نہ ہو لیکن اگر ہمارے سیاسی قائدین بہتر گورننس کے لیے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات رات کو پس پشت ڈال دیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی اس عمل میں اپنا کردار ادا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کا کوئی بھی ملک خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو پاکستان کو غیر مستحکم کر سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں