غذائیت کی کمی دور کرنے کیلئے گندم کی بائیو فورٹیفکیشن کرنا ہوگی
شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
خوراک میں غذائیت کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے جسے دور کرنے کیلئے سائنسدان نئی نئی تحقیق اور ایجادات کر رہے ہیں۔
پاکستان میں کھانے کیلئے سب سے زیادہ گندم کا استعمال ہوتا ہے لہٰذا ماہرین کے مطابق اگر اس کی غذائیت میں اضافہ کر دیا جائے تو لوگوں کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ''گندم کی بائیو فورٹیفکیشن'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی وزیر اور زرعی ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
حسین جہانیاں گردیزی
(صوبائی وزیر زراعت پنجاب )
پاکستان ہمیشہ سے خوراک اور گندم کے مسائل کا شکار رہا ہے۔ ہمارا بارڈر ایسا ہے کہ ہمیں دوسرے ممالک کیلئے بھی گندم پیدا کرنا پڑتی ہے لہٰذا دباؤ کی وجہ سے یہاں حکومت اور پالیسی میکرز کی توجہ صرف پیداوار پر رہی تاکہ خوراک کی کمی نہ ہو۔ جب ہمارے ہاں عالمی مارکیٹ سے گندم کی قیمت کم ہو تو اس کی سمگلنگ کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں گندم کی پروڈکشن پر اس قدر زور رہا ہے کہ اس کی غذائیت و دیگر حوالے سے کام نہیں ہوا۔ روایتی طور پر ہمارے ہاں یہ مسئلہ رہا ہے کہ قیمت کا تعین کرتے وقت بھی معیار کو نہیں مقدار کو مدنظر رکھا گیا، یہی وجہ ہے کہ یہاں فصلیں تباہ ہوئیں جس کی ایک مثال کپاس ہے۔
ہم گندم کی پیداوار زیادہ چاہتے ہیں لیکن کبھی اس پر توجہ نہیں دی کہ کس قسم کی گندم پیدا کرنی چاہیے جو صحیح معنوں میں ہمارے لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرسکے۔ مائیکرو نیوٹرینٹس ہماری غذا کا اہم حصہ ہیں جن پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کی خوراک دیسی ہوتی تھی، اس میں ورائٹی ہوتی تھی، وہ پھل، کچی سبزیاں و دیگر اجناس کھاتے تھے جس سے مائیکرو نیوٹرینٹس مل جاتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا زیادہ انحصار گندم پر آگیا ہے جبکہ باقی اجناس کے استعمال میں کمی آئی ہے۔
بڑے سٹورز پر امپورٹڈ اجناس موجود ہوتی ہیں جن پر ملٹی گرینز کی خصوصی طور پر تشہیر کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں غربت بھی ہے لہٰذا یہاں پیٹ بھرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ گندم میں پروٹین زیادہ ہوتی ہے ، ہر شخص گوشت کھانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ لہٰذاہماری خوراک میں سب سے زیادہ استعمال گندم کاہوتا ہے۔
اس لئے ملٹی گرین اناج اور گندم انتہائی اہم ہے تاکہ غذائی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔ ہمارے نوجوانوں اور خواتین میں مائیکرو نیوٹرینٹس، زنک و آئرن کی کمی زیادہ ہے لہٰذا ان کی صحت کیلئے ضروری ہے کہ گندم کی بائیو فورٹیفکیشن کی جائے اور غذائیت کو بڑھایا جائے۔ میں نے بطور وزیر خوراک 2006ء میں فورٹیفائڈ آٹا شروع کرایا اورمہم کے طور پر اس پر کام کا آغاز کیا۔
اس پر جو لاگت آرہی تھے، اس حوالے سے طے کیا گیا کہ حکومت اور فلار ملز یہ خرچ اٹھائیں گی اور اس کا اثر آٹے کی قیمت پر نہیں پڑے گا۔ بدقسمتی سے 2007 ء میں جب حکومت ختم ہوئی تو یہ پروگرام بھی ختم ہوگیا اور اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ اب میں محکمہ خوراک سے اس حوالے سے بات کروں گا کہ اس پر کام کا آغاز کیا جائے، اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان سے بھی بات کروں گا تاکہ صرف گندم ہی نہیں بلکہ دیگر اجناس کی فورٹیفکیشن بھی کی جاسکے، مکئی میں یہ کام زیادہ آسان ہوگا۔ غذائیت پر کام وزیراعظم کے ویژن میں شامل ہے، گندم سمیت دیگر اجناس کی بائیو فورٹیفکیشن کو تیز کیا جائے گا اور سپلائی چین میکنزم بھی بنایا جائے گا ۔
مبارک علی سرور
(زرعی ماہر )
پاکستان زرعی ملک ہے۔ ہمارے دیہی علاقوں کا زیادہ ترانحصار براہ راست زراعت اور اس سے منسلک شعبوں پر ہے جن میں لائیو سٹاک و دیگر شامل ہیں۔ زراعت پر سب سے زیادہ انحصار پنجاب کا ہے اور ملک کی 80 فیصد گندم پنجاب پیدا کرتا ہے لہٰذا اگر یہاں درست پالیسی بنا لی جائے تو بڑے پیمانے پر مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔
میرے نزدیک زراعت کے حوالے سے درست پالیسی وہی بنا سکتا جو خود اس شعبے سے وابستہ ہو ۔ یہ خوش آئند ہے کہ موجودہ وزیر کا تعلق زراعت سے ہے لہٰذا وہ بہتر طریقے سے نہ صرف موثر پالیسی بنا سکتے ہیں بلکہ اس پر عملدرآمد میں حائل رکاوٹیں بھی دور کر سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بہتر اور موثر انداز سے گندم ذخیرہ کی اور عام آدمی کی ضرورت کو پورا کیا۔
گندم کے حوالے سے مسئلہ غذائیت کی کمی ہے، زنک و دیگر غذائی اجزاء کی کمی کی وجہ سٹنٹنگ گروتھ، ڈائریا و دیگر بیماریاں ہوتی ہیں، بچوں کی نشونما ٹھیک سے نہیں ہوتی جبکہ خواتین کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بائیو فورٹیفکیشن کے حوالے سے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ فارم کی سطح پر فورٹیفائڈ اور سادہ گندم میں کوئی تفریق نہیں ہے۔
بائیوفورٹیفائڈ گندم کے لیے کوئی خصوصی دکانیں یا مارکیٹ بھی موجود نہیں ہے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بھی اس لحاظ سے کوئی تفریق نہیں ہے، پروکیورمنٹ کرتے ہوئے اس کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ اسی طرح فلار ملز میں بھی یہی معاملات ہیں،و ہاں بھی بغیر تفریق کے گندم کی پسائی کی جاتی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ 2018ء میں پنجاب نے زرعی پالیسی بنائی مگر اس میں بھی بائیوفورٹیفکیشن کی بات نہیں کی گئی۔ البتہ اب حکومت پنجاب اور محکمہ زراعت اس پر توجہ دے رہے ہیں جو خوش آئند ہے۔ گندم کی بائیو فورٹیفکیشن کی بات کریں تو اس وقت زنک بائیوفورٹیفائڈ گندم کی دو اقسام Zincol-2016 اور Akbar-2019 حکومت سے منظور شدہ ہیں، ان کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے، اس کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے اداروں کو آن بورڈ لیا جائے۔ فلار ملز کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ اپنی پروڈکشن کا ایک خاص حصہ بائیو فورٹیفائڈ گندم استعمال کرے۔
بائیوفورٹیفکیشن کے حوالے سے کوئی معیار مقرر نہیں ہے۔ ا س بارے میں لوگوں کو آگاہی بھی نہیں ہے۔ ابتدائی طور پر گندم کی بائیوفورٹیفکیشن پنجاب کے چند اضلاع سے شروع کی جارہی ہے جن میں جنوبی پنجاب کے 4 اضلاع شامل ہیں۔ پنجاب سے اس کا آغاز اس لیے کیا گیا ہے کہ 80فیصد گندم پنجاب پیدا کرتا ہے لہٰذا اگر یہاں بہتری آجائے تو پورے ملک میں بہتری آجائے گی۔ میرے نزدیک بائیو فورٹیفکیشن کیلئے ہمیں کسانوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔ انہیں اس حوالے سے ترغیب دی جائے اور سپلائی چین میکنزم بھی بنایا جائے۔
ہماری غذا کا زیادہ انحصار گندم پر ہے جو 87 کلو فی کس سالانہ ہے لہٰذا اس کی بائیو فورٹیفکیشن کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کی غذائی ضرورت پوری ہوسکے اور وہ صحت مند زندگی گزار سکیں۔ عام آدمی کو بھی اس کے بارے میں آگاہی دی جائے اور لوگوں کو بائیو فورٹیفائڈ گندم خریدنے پر راغب کیا جائے۔
بائیوفورٹیفکیشن کے مسائل حل کرنے کیلئے میری چند تجاویز ہیں۔ اس حوالے سے محکمہ زراعت کے ورکرز کو تربیت دی جائے تاکہ وہ آگے کسانوں کو اس حوالے سے ٹریننگ دیں۔ اس کے علاوہ سیڈ کمپنیوں کیلئے قانون بنایا جائے اور سرکاری و نجی سیڈ کمپنیوں کیلئے بائیوفورٹیفائڈ گندم کی ایک خاص مقدار لازمی قرار دی جائے۔ پنجاب کی زرعی پالیسی میں فوری ترمیم کرکے بائیوفورٹیفکیشن کو اس میں شامل کیا جائے اور ریسرچ کے اداروں کو متحرک کیا جائے تاکہ فورٹیفائڈ گندم کی مزید اقسام لائی جاسکیں۔ جدید دور میں ہمیں کسانوں کو نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا ہے، انہیں موسمیاتی تبدیلیاں اور پانی کے حوالے سے لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ کرنا ہوگا۔ پانی کے مسائل کے حل کیلئے بھی کام کیا جائے۔
فرح ناز
(زرعی ماہر )
فصل میں کنونشنل پلانٹ بریڈنگ تکنیک سے آئرن، زنک اور وٹامن اے کی مقدار کو بڑھانے کے عمل کو بائیو فورٹیفکیشن کہتے ہیں، مائیکرو نیوٹرینٹس انسانی صحت اور نشونما کیلئے انتہائی اہم ہیں، زنک کی کمی سے سٹنٹنگ ، بھوک نہ لگنا، قوت مدافعت کی کمی، سانس کے مسائل اور ڈائریا جیسے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
لڑکوں اور لڑکیوں میں زنک کی کمی 18.6 فیصد ہے،جوان لڑکیوں میں زنک کی کمی کی شرح 24.1 ہے جو تمام صوبوں میں سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد بلوچستان 23.4 فیصد، سندھ 21.4 فیصد جبکہ خیبرپختونخوا میں 15.9 فیصد ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق منرل اور وٹامن کی کمی کی وجہ سے پاکستان کو جی ڈی پی کا سالانہ 3 بلین ڈالر نقصان ہوتا ہے لہٰذا اگر یہاں بائیوفورٹیفکیشن پر کام کیا جائے تو بڑے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ گندم پاکستان کی ایک اہم جنس ہے، پاکستان میں دنیا کی نسبت سب سے زیادہ گندم کا استعمال ہوتا ہے جو 87 کلو فی کس سالانہ ہے۔
لہٰذا گندم کی زنک بائیو فورٹیفکیشن کرکے ملک سے زنک کی کمی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔پنجاب ملک کی 80 فیصد گندم پیدا کرتا ہے، اسی لیے پہلے پنجاب کو ہی بائیوفورٹیفکیشن کیلئے منتخب کیا گیا ہے، یہاں سے گندم پورے ملک میں تقسیم ہوگی ۔ زنک بائیو فورٹیفائڈ گندم کی پہلی قسم زنکول 2016ء جبکہ دوسری اکبر 2019ء ہے، اب تک 2 لاکھ 20 ہزار کسان انہیںاستعمال کرچکے ہیں، گزشتہ برس ان دونوں اقسام کا 3600 ٹن بیج 36 ہزار ہیکٹر ایریا میں کاشت کیا گیا،اب اس حوالے سے ڈیٹا مرتب کیا جارہا ہے کہ اگلی فصل کیلئے کتنا بیج دستیاب ہوگا۔گندم کی بائیو فورٹیفکیشن انتہائی ضروری ہے، اس حوالے سے حکومت کو سرپرستی کرنی چاہیے، کسانوں کو مراعات دینی چاہیے اور گراس روٹ لیول پر اس کی آگاہی دینی چاہیے۔
کسان اس طرف جائے گا جہاں اسے زیادہ فائدہ ہو لہٰذا اگر اسے یہ بتایا جائے یہ بیج استعمال کرنے سے اس کی فصل زیادہ اور بہتر ہوگی اور اسے زنگ بھی نہیں لگے گا تو وہ ضرور اس طرف راغب ہوگا۔ میرے نزدیک اگر ہم سب مل کر غذائیت کے مسائل حل کرنے پر کام کریں تو بہت فائدہ ہوگا۔ ہمیں ہر وہ کام کرنا چاہیے جو ہمارے مستقبل کو بہتر بنا سکے۔ ہم نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے حوالے سے 2030ء میں رپورٹ جمع کرانی ہے کہ ہم نے ان پر کیا کام کیا۔ اس میں ایک ہدف ''زیروہنگر'' ہے۔ یہ ایک وسیع ہدف ہے جس کے انڈیکیٹرز میں نیوٹریشن بھی شامل ہے۔ حکومت اگر بائیو فورٹیفکیشن پر کام کرے اور اس فصل کو فروغ دے تو ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔ اس سے معیشت بہتر اور شعبہ صحت پربوجھ کم ہوگا ۔
پاکستان میں کھانے کیلئے سب سے زیادہ گندم کا استعمال ہوتا ہے لہٰذا ماہرین کے مطابق اگر اس کی غذائیت میں اضافہ کر دیا جائے تو لوگوں کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ''گندم کی بائیو فورٹیفکیشن'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی وزیر اور زرعی ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
حسین جہانیاں گردیزی
(صوبائی وزیر زراعت پنجاب )
پاکستان ہمیشہ سے خوراک اور گندم کے مسائل کا شکار رہا ہے۔ ہمارا بارڈر ایسا ہے کہ ہمیں دوسرے ممالک کیلئے بھی گندم پیدا کرنا پڑتی ہے لہٰذا دباؤ کی وجہ سے یہاں حکومت اور پالیسی میکرز کی توجہ صرف پیداوار پر رہی تاکہ خوراک کی کمی نہ ہو۔ جب ہمارے ہاں عالمی مارکیٹ سے گندم کی قیمت کم ہو تو اس کی سمگلنگ کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں گندم کی پروڈکشن پر اس قدر زور رہا ہے کہ اس کی غذائیت و دیگر حوالے سے کام نہیں ہوا۔ روایتی طور پر ہمارے ہاں یہ مسئلہ رہا ہے کہ قیمت کا تعین کرتے وقت بھی معیار کو نہیں مقدار کو مدنظر رکھا گیا، یہی وجہ ہے کہ یہاں فصلیں تباہ ہوئیں جس کی ایک مثال کپاس ہے۔
ہم گندم کی پیداوار زیادہ چاہتے ہیں لیکن کبھی اس پر توجہ نہیں دی کہ کس قسم کی گندم پیدا کرنی چاہیے جو صحیح معنوں میں ہمارے لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرسکے۔ مائیکرو نیوٹرینٹس ہماری غذا کا اہم حصہ ہیں جن پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کی خوراک دیسی ہوتی تھی، اس میں ورائٹی ہوتی تھی، وہ پھل، کچی سبزیاں و دیگر اجناس کھاتے تھے جس سے مائیکرو نیوٹرینٹس مل جاتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا زیادہ انحصار گندم پر آگیا ہے جبکہ باقی اجناس کے استعمال میں کمی آئی ہے۔
بڑے سٹورز پر امپورٹڈ اجناس موجود ہوتی ہیں جن پر ملٹی گرینز کی خصوصی طور پر تشہیر کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں غربت بھی ہے لہٰذا یہاں پیٹ بھرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ گندم میں پروٹین زیادہ ہوتی ہے ، ہر شخص گوشت کھانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ لہٰذاہماری خوراک میں سب سے زیادہ استعمال گندم کاہوتا ہے۔
اس لئے ملٹی گرین اناج اور گندم انتہائی اہم ہے تاکہ غذائی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔ ہمارے نوجوانوں اور خواتین میں مائیکرو نیوٹرینٹس، زنک و آئرن کی کمی زیادہ ہے لہٰذا ان کی صحت کیلئے ضروری ہے کہ گندم کی بائیو فورٹیفکیشن کی جائے اور غذائیت کو بڑھایا جائے۔ میں نے بطور وزیر خوراک 2006ء میں فورٹیفائڈ آٹا شروع کرایا اورمہم کے طور پر اس پر کام کا آغاز کیا۔
اس پر جو لاگت آرہی تھے، اس حوالے سے طے کیا گیا کہ حکومت اور فلار ملز یہ خرچ اٹھائیں گی اور اس کا اثر آٹے کی قیمت پر نہیں پڑے گا۔ بدقسمتی سے 2007 ء میں جب حکومت ختم ہوئی تو یہ پروگرام بھی ختم ہوگیا اور اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ اب میں محکمہ خوراک سے اس حوالے سے بات کروں گا کہ اس پر کام کا آغاز کیا جائے، اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان سے بھی بات کروں گا تاکہ صرف گندم ہی نہیں بلکہ دیگر اجناس کی فورٹیفکیشن بھی کی جاسکے، مکئی میں یہ کام زیادہ آسان ہوگا۔ غذائیت پر کام وزیراعظم کے ویژن میں شامل ہے، گندم سمیت دیگر اجناس کی بائیو فورٹیفکیشن کو تیز کیا جائے گا اور سپلائی چین میکنزم بھی بنایا جائے گا ۔
مبارک علی سرور
(زرعی ماہر )
پاکستان زرعی ملک ہے۔ ہمارے دیہی علاقوں کا زیادہ ترانحصار براہ راست زراعت اور اس سے منسلک شعبوں پر ہے جن میں لائیو سٹاک و دیگر شامل ہیں۔ زراعت پر سب سے زیادہ انحصار پنجاب کا ہے اور ملک کی 80 فیصد گندم پنجاب پیدا کرتا ہے لہٰذا اگر یہاں درست پالیسی بنا لی جائے تو بڑے پیمانے پر مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔
میرے نزدیک زراعت کے حوالے سے درست پالیسی وہی بنا سکتا جو خود اس شعبے سے وابستہ ہو ۔ یہ خوش آئند ہے کہ موجودہ وزیر کا تعلق زراعت سے ہے لہٰذا وہ بہتر طریقے سے نہ صرف موثر پالیسی بنا سکتے ہیں بلکہ اس پر عملدرآمد میں حائل رکاوٹیں بھی دور کر سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بہتر اور موثر انداز سے گندم ذخیرہ کی اور عام آدمی کی ضرورت کو پورا کیا۔
گندم کے حوالے سے مسئلہ غذائیت کی کمی ہے، زنک و دیگر غذائی اجزاء کی کمی کی وجہ سٹنٹنگ گروتھ، ڈائریا و دیگر بیماریاں ہوتی ہیں، بچوں کی نشونما ٹھیک سے نہیں ہوتی جبکہ خواتین کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بائیو فورٹیفکیشن کے حوالے سے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ فارم کی سطح پر فورٹیفائڈ اور سادہ گندم میں کوئی تفریق نہیں ہے۔
بائیوفورٹیفائڈ گندم کے لیے کوئی خصوصی دکانیں یا مارکیٹ بھی موجود نہیں ہے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بھی اس لحاظ سے کوئی تفریق نہیں ہے، پروکیورمنٹ کرتے ہوئے اس کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ اسی طرح فلار ملز میں بھی یہی معاملات ہیں،و ہاں بھی بغیر تفریق کے گندم کی پسائی کی جاتی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ 2018ء میں پنجاب نے زرعی پالیسی بنائی مگر اس میں بھی بائیوفورٹیفکیشن کی بات نہیں کی گئی۔ البتہ اب حکومت پنجاب اور محکمہ زراعت اس پر توجہ دے رہے ہیں جو خوش آئند ہے۔ گندم کی بائیو فورٹیفکیشن کی بات کریں تو اس وقت زنک بائیوفورٹیفائڈ گندم کی دو اقسام Zincol-2016 اور Akbar-2019 حکومت سے منظور شدہ ہیں، ان کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے، اس کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے اداروں کو آن بورڈ لیا جائے۔ فلار ملز کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ اپنی پروڈکشن کا ایک خاص حصہ بائیو فورٹیفائڈ گندم استعمال کرے۔
بائیوفورٹیفکیشن کے حوالے سے کوئی معیار مقرر نہیں ہے۔ ا س بارے میں لوگوں کو آگاہی بھی نہیں ہے۔ ابتدائی طور پر گندم کی بائیوفورٹیفکیشن پنجاب کے چند اضلاع سے شروع کی جارہی ہے جن میں جنوبی پنجاب کے 4 اضلاع شامل ہیں۔ پنجاب سے اس کا آغاز اس لیے کیا گیا ہے کہ 80فیصد گندم پنجاب پیدا کرتا ہے لہٰذا اگر یہاں بہتری آجائے تو پورے ملک میں بہتری آجائے گی۔ میرے نزدیک بائیو فورٹیفکیشن کیلئے ہمیں کسانوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔ انہیں اس حوالے سے ترغیب دی جائے اور سپلائی چین میکنزم بھی بنایا جائے۔
ہماری غذا کا زیادہ انحصار گندم پر ہے جو 87 کلو فی کس سالانہ ہے لہٰذا اس کی بائیو فورٹیفکیشن کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کی غذائی ضرورت پوری ہوسکے اور وہ صحت مند زندگی گزار سکیں۔ عام آدمی کو بھی اس کے بارے میں آگاہی دی جائے اور لوگوں کو بائیو فورٹیفائڈ گندم خریدنے پر راغب کیا جائے۔
بائیوفورٹیفکیشن کے مسائل حل کرنے کیلئے میری چند تجاویز ہیں۔ اس حوالے سے محکمہ زراعت کے ورکرز کو تربیت دی جائے تاکہ وہ آگے کسانوں کو اس حوالے سے ٹریننگ دیں۔ اس کے علاوہ سیڈ کمپنیوں کیلئے قانون بنایا جائے اور سرکاری و نجی سیڈ کمپنیوں کیلئے بائیوفورٹیفائڈ گندم کی ایک خاص مقدار لازمی قرار دی جائے۔ پنجاب کی زرعی پالیسی میں فوری ترمیم کرکے بائیوفورٹیفکیشن کو اس میں شامل کیا جائے اور ریسرچ کے اداروں کو متحرک کیا جائے تاکہ فورٹیفائڈ گندم کی مزید اقسام لائی جاسکیں۔ جدید دور میں ہمیں کسانوں کو نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا ہے، انہیں موسمیاتی تبدیلیاں اور پانی کے حوالے سے لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ کرنا ہوگا۔ پانی کے مسائل کے حل کیلئے بھی کام کیا جائے۔
فرح ناز
(زرعی ماہر )
فصل میں کنونشنل پلانٹ بریڈنگ تکنیک سے آئرن، زنک اور وٹامن اے کی مقدار کو بڑھانے کے عمل کو بائیو فورٹیفکیشن کہتے ہیں، مائیکرو نیوٹرینٹس انسانی صحت اور نشونما کیلئے انتہائی اہم ہیں، زنک کی کمی سے سٹنٹنگ ، بھوک نہ لگنا، قوت مدافعت کی کمی، سانس کے مسائل اور ڈائریا جیسے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
لڑکوں اور لڑکیوں میں زنک کی کمی 18.6 فیصد ہے،جوان لڑکیوں میں زنک کی کمی کی شرح 24.1 ہے جو تمام صوبوں میں سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد بلوچستان 23.4 فیصد، سندھ 21.4 فیصد جبکہ خیبرپختونخوا میں 15.9 فیصد ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق منرل اور وٹامن کی کمی کی وجہ سے پاکستان کو جی ڈی پی کا سالانہ 3 بلین ڈالر نقصان ہوتا ہے لہٰذا اگر یہاں بائیوفورٹیفکیشن پر کام کیا جائے تو بڑے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ گندم پاکستان کی ایک اہم جنس ہے، پاکستان میں دنیا کی نسبت سب سے زیادہ گندم کا استعمال ہوتا ہے جو 87 کلو فی کس سالانہ ہے۔
لہٰذا گندم کی زنک بائیو فورٹیفکیشن کرکے ملک سے زنک کی کمی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔پنجاب ملک کی 80 فیصد گندم پیدا کرتا ہے، اسی لیے پہلے پنجاب کو ہی بائیوفورٹیفکیشن کیلئے منتخب کیا گیا ہے، یہاں سے گندم پورے ملک میں تقسیم ہوگی ۔ زنک بائیو فورٹیفائڈ گندم کی پہلی قسم زنکول 2016ء جبکہ دوسری اکبر 2019ء ہے، اب تک 2 لاکھ 20 ہزار کسان انہیںاستعمال کرچکے ہیں، گزشتہ برس ان دونوں اقسام کا 3600 ٹن بیج 36 ہزار ہیکٹر ایریا میں کاشت کیا گیا،اب اس حوالے سے ڈیٹا مرتب کیا جارہا ہے کہ اگلی فصل کیلئے کتنا بیج دستیاب ہوگا۔گندم کی بائیو فورٹیفکیشن انتہائی ضروری ہے، اس حوالے سے حکومت کو سرپرستی کرنی چاہیے، کسانوں کو مراعات دینی چاہیے اور گراس روٹ لیول پر اس کی آگاہی دینی چاہیے۔
کسان اس طرف جائے گا جہاں اسے زیادہ فائدہ ہو لہٰذا اگر اسے یہ بتایا جائے یہ بیج استعمال کرنے سے اس کی فصل زیادہ اور بہتر ہوگی اور اسے زنگ بھی نہیں لگے گا تو وہ ضرور اس طرف راغب ہوگا۔ میرے نزدیک اگر ہم سب مل کر غذائیت کے مسائل حل کرنے پر کام کریں تو بہت فائدہ ہوگا۔ ہمیں ہر وہ کام کرنا چاہیے جو ہمارے مستقبل کو بہتر بنا سکے۔ ہم نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے حوالے سے 2030ء میں رپورٹ جمع کرانی ہے کہ ہم نے ان پر کیا کام کیا۔ اس میں ایک ہدف ''زیروہنگر'' ہے۔ یہ ایک وسیع ہدف ہے جس کے انڈیکیٹرز میں نیوٹریشن بھی شامل ہے۔ حکومت اگر بائیو فورٹیفکیشن پر کام کرے اور اس فصل کو فروغ دے تو ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔ اس سے معیشت بہتر اور شعبہ صحت پربوجھ کم ہوگا ۔