سینیٹ اجلاس دوران حراست تشدد پر 10 سال اور موت پر عمرقید کا بل منظور
اس ایکٹ کے تحت دی گئی سزا ناقابل معافی اور ناقابل ضمانت تصور کی جائے گی، بل کا متن
سینیٹ نے دوران حراست شہری پر تشدد کرنے والے کو 10 سال قید کی سزا اور موت پر عمرقید دیے جانے کا بل منظور کرلیا۔
پیر کو سینیٹ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ایوان بالا نے زیر حراست تشدد اور ہلاکت روکنے کا بل منظور کرلیا۔ ایوان میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ انتخابات کے عمل میں ترمیم کی تحریک سمیت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں متعدد ترمیمی بل پیش کیے گئے۔ انسداد تشدد کا بل پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے پیش کیا۔ وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے بل کی حمایت کی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ تشدد میں ملوث سرکاری ملازم کو 10 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، سرکاری ملازم جس کا فرض تشدد روکنا ہے، اگر وہ جان بوجھ کر یا غفلت برتتے ہوئے اس کی روک تھام میں ناکام رہتا ہے تو اسے 5سال قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص دوران حراست موت یا جنسی تشدد کے جرم کا ارتکاب یا سازش کرے گا تو اسے عمر قید اور 30 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔ مزید براں اگر کوئی سرکاری ملازم جس کا فرض دوران حراست اموات یا جنسی تشدد کی روک تھام ہے، اگر وہ جان بوجھ کر یا غفلت کے نتیجے میں ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو انھیں کم از کم 7سال قید اور 10لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بل کے مطابق جرمانہ مقتول یا ورثا کو ادا کیا جائے گا، اگر جرمانہ ادا نہیں کیا گیا تو جرم کا ارتکاب کرنے والے سرکاری ملازم کو بالترتیب 3 اور5سال تک اضافی قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بل میں کہا گیا ہے کہ کسی کو بھی کسی بھی جرم میں ملزم کے ٹھکانے یا ثبوت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے تحویل میں نہیں لیا جاسکتا جبکہ خواتین کو صرف خاتون اہلکار کے ذریعے تحویل میں لیا جاسکتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ تشدد کے ذریعے اقبال جرم عدالت میں ناقابل قبول ہوگا۔
دوران حراست تشدد اور موت (روک تھام اور سزا) کے بل 2021ء میں کہا گیا کہ اس ایکٹ کے تحت دی گئی سزا ناقابل معافی اور ناقابل ضمانت تصور کی جائے گی۔ بل میں دوران حراست تشدد کی صورت میں شکایت کے اندراج کا طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے۔ عدالت موصولہ شکایت کے نتیجے میں درخواست گزار کا بیان ریکارڈ کرے گی اور ہدایت دے گی کہ طبی اور نفسیاتی معائنہ کیا جائے، اس کے نتائج 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کرنا ہوں گے۔
اگر شواہد مل گئے کہ تشدد ہوا ہے تو عدالت مزید کارروائی کیلیے معاملہ سیشن کورٹ کو بھیجے گی جو تحقیقات کی ہدایت کرتے ہوئے 15 دن میں رپورٹ طلب کرے گی۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر شکایت کی سماعت کرے گی اور 60 دن میں فیصلہ سنائے گی۔
بل کی منظوری پر اظہار خیال کرتے ہوئے شیری رحمٰن نے کہا پاکستان آخر کار تشدد کو جرم قرار دینے کے راستے پر گامزن ہے۔ انہوں نے بل کی منظوری پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے تمام سینیٹرز، وفاقی وزیر انسانی حقوق اور سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سابق چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر کا شکریہ ادا کیا۔
عافیہ صدیقی کو ہر 3 ماہ بعد قونصل رسائی ملتی ہے، علی محمد خان
وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا ہے کہ عافیہ صدیقی کو ہر 3 ماہ بعد قونصل رسائی ملتی ہے، ان کی رہائی لیے کوششیں کررہے ہیں ہم اپنی بات سے پھرے نہیں، نیت پر شک نہ کیا جائے۔
مکمل خبر : عافیہ صدیقی کو ہر 3 ماہ بعد قونصل رسائی ملتی ہے، علی محمد خان
ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں ترمیم موخر
اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کے ایکٹ میں ترمیم کا بل موخر کردیا گیا۔ اجلاس میں چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور اتھارٹی ترمیمی بل 2021ء اور سینیٹ قواعد و ضابطہ کار و انصرام کارروائی میں ترامیم بل سمیت متعدد بل ایوان میں پیش کیے گئے جو متعلقہ کمیٹیز کے سپرد کردیے گئے۔
چئیرمین سینیٹ نے شیری رحمان کو ''دادی اماں '' کہہ دیا
اجلاس میں چئیرمین سینیٹ نے سینیٹر شیری رحمان کو ''دادی اماں '' کا خطاب دے دیا۔ چئیرمین سینیٹ نے گھریلو ملازمین کی ملازمت کو باضابطہ بنانے کا بل پیش کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ دادی اماں بل پیش کریں۔
شیری رحمان نے اپنی نشست پر کھڑے ہوتے ہوئے حکومتی بینچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے دادای اماں کہا گیا ہے۔ چئیرمین سینیٹ کے ریمارکس پر ایوان میں قہقہے گوبجتے رہے۔
دریں اثنا اجلاس میں پیر پگاڑا کی والدہ کے لیے دعا کی گئی جب کہ سینیٹ اجلاس منگل کی شام پانچ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
پیر کو سینیٹ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ایوان بالا نے زیر حراست تشدد اور ہلاکت روکنے کا بل منظور کرلیا۔ ایوان میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ انتخابات کے عمل میں ترمیم کی تحریک سمیت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں متعدد ترمیمی بل پیش کیے گئے۔ انسداد تشدد کا بل پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے پیش کیا۔ وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے بل کی حمایت کی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ تشدد میں ملوث سرکاری ملازم کو 10 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، سرکاری ملازم جس کا فرض تشدد روکنا ہے، اگر وہ جان بوجھ کر یا غفلت برتتے ہوئے اس کی روک تھام میں ناکام رہتا ہے تو اسے 5سال قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص دوران حراست موت یا جنسی تشدد کے جرم کا ارتکاب یا سازش کرے گا تو اسے عمر قید اور 30 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔ مزید براں اگر کوئی سرکاری ملازم جس کا فرض دوران حراست اموات یا جنسی تشدد کی روک تھام ہے، اگر وہ جان بوجھ کر یا غفلت کے نتیجے میں ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو انھیں کم از کم 7سال قید اور 10لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بل کے مطابق جرمانہ مقتول یا ورثا کو ادا کیا جائے گا، اگر جرمانہ ادا نہیں کیا گیا تو جرم کا ارتکاب کرنے والے سرکاری ملازم کو بالترتیب 3 اور5سال تک اضافی قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بل میں کہا گیا ہے کہ کسی کو بھی کسی بھی جرم میں ملزم کے ٹھکانے یا ثبوت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے تحویل میں نہیں لیا جاسکتا جبکہ خواتین کو صرف خاتون اہلکار کے ذریعے تحویل میں لیا جاسکتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ تشدد کے ذریعے اقبال جرم عدالت میں ناقابل قبول ہوگا۔
دوران حراست تشدد اور موت (روک تھام اور سزا) کے بل 2021ء میں کہا گیا کہ اس ایکٹ کے تحت دی گئی سزا ناقابل معافی اور ناقابل ضمانت تصور کی جائے گی۔ بل میں دوران حراست تشدد کی صورت میں شکایت کے اندراج کا طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے۔ عدالت موصولہ شکایت کے نتیجے میں درخواست گزار کا بیان ریکارڈ کرے گی اور ہدایت دے گی کہ طبی اور نفسیاتی معائنہ کیا جائے، اس کے نتائج 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کرنا ہوں گے۔
اگر شواہد مل گئے کہ تشدد ہوا ہے تو عدالت مزید کارروائی کیلیے معاملہ سیشن کورٹ کو بھیجے گی جو تحقیقات کی ہدایت کرتے ہوئے 15 دن میں رپورٹ طلب کرے گی۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر شکایت کی سماعت کرے گی اور 60 دن میں فیصلہ سنائے گی۔
بل کی منظوری پر اظہار خیال کرتے ہوئے شیری رحمٰن نے کہا پاکستان آخر کار تشدد کو جرم قرار دینے کے راستے پر گامزن ہے۔ انہوں نے بل کی منظوری پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے تمام سینیٹرز، وفاقی وزیر انسانی حقوق اور سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سابق چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر کا شکریہ ادا کیا۔
عافیہ صدیقی کو ہر 3 ماہ بعد قونصل رسائی ملتی ہے، علی محمد خان
وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا ہے کہ عافیہ صدیقی کو ہر 3 ماہ بعد قونصل رسائی ملتی ہے، ان کی رہائی لیے کوششیں کررہے ہیں ہم اپنی بات سے پھرے نہیں، نیت پر شک نہ کیا جائے۔
مکمل خبر : عافیہ صدیقی کو ہر 3 ماہ بعد قونصل رسائی ملتی ہے، علی محمد خان
ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں ترمیم موخر
اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کے ایکٹ میں ترمیم کا بل موخر کردیا گیا۔ اجلاس میں چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور اتھارٹی ترمیمی بل 2021ء اور سینیٹ قواعد و ضابطہ کار و انصرام کارروائی میں ترامیم بل سمیت متعدد بل ایوان میں پیش کیے گئے جو متعلقہ کمیٹیز کے سپرد کردیے گئے۔
چئیرمین سینیٹ نے شیری رحمان کو ''دادی اماں '' کہہ دیا
اجلاس میں چئیرمین سینیٹ نے سینیٹر شیری رحمان کو ''دادی اماں '' کا خطاب دے دیا۔ چئیرمین سینیٹ نے گھریلو ملازمین کی ملازمت کو باضابطہ بنانے کا بل پیش کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ دادی اماں بل پیش کریں۔
شیری رحمان نے اپنی نشست پر کھڑے ہوتے ہوئے حکومتی بینچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے دادای اماں کہا گیا ہے۔ چئیرمین سینیٹ کے ریمارکس پر ایوان میں قہقہے گوبجتے رہے۔
دریں اثنا اجلاس میں پیر پگاڑا کی والدہ کے لیے دعا کی گئی جب کہ سینیٹ اجلاس منگل کی شام پانچ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔