ہمارا المیہ
حکومت خواہ کسی کی بھی ہو اس کو چلانے کا کام ملازمین ہی کے ذمے ہوتا ہے
حکومت خواہ کسی کی بھی ہو اس کو چلانے کا کام ملازمین ہی کے ذمے ہوتا ہے۔ ارباب اختیار کا کام محض انھیں پالیسی بنا کردینے اور ہدایات ضروری تک ہی محدود ہوتا ہے۔ چنانچہ سرکاری ملازمین کی حیثیت جسم کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتی ہے۔ یہ ملازمین جس قدر خوشحال ہوں گے نظام حکومت اسی قدر بہتر ہوگا۔ یہ بات غیر سرکاری اداروں پر بھی صادق آتی ہے۔
ہم نے اپنے دورۂ جاپان میں اس کے مظاہر خوب دیکھے ہیں۔ روبوٹ کے برابرکھڑے ہوئے انسان بھی روبوٹ سے کچھ کم مستعد اور چاق و چوبند نظر آئے۔ کیا مجال جو ذرا سا بھی تساہل پایا گیا ہو۔ اس کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ اگر پلک جھپکنے کی تاخیر ہو جائے تو پروڈکشن کا سلسلہ بری طرح متاثر ہو جائے۔
جس کے نتیجے میں ادارہ یا کمپنی کا اتنا بڑا بھاری نقصان ہوجائے گا کہ جس کی تلافی ممکن نہیں۔ دوسری قابل ذکر خوبی جاپانی ملازمین کی مکمل وفاداری کی صورت میں نظر آئی۔ کیا مجال جو ملازم ایک سیکنڈ کی بھی تاخیر کرے۔ آندھی ہو یا طوفان، ممکن ہی نہیں کہ ملازم کام کی جگہ پر تاخیر سے پہنچے۔ ملازم اپنے آپ کو محض ملازم ہی نہیں بلکہ سٹیک ہولڈر سمجھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی جنگ میں ایٹم بم سے ہونے والی قیامت خیز تباہی اور بربادی کے باوجود ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے دو بڑے شہروںکی تعمیر نو کو دیکھ کر یہ یقین ہی نہیں آتا کہ ان پر کبھی یہ افتاد پڑی تھی۔ حب الوطنی اور بلند حوصلگی کی یہ مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ عاجل اور عجیل کا جو رشتہ جاپان میں نظر آیا وہ بھی لائق تحسین اور تقلید ہے۔
ایک فیکٹری ورکر نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ یہ ممکن ہے کہ ادارے کا چیئرمین ہفتہ دو ہفتہ تک فیکٹری کا دورہ نہ کرے، اگرچہ عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ لیکن یہ ناممکن ہے کہ وہ مہینے کے آخر میں فیکٹری ورکرز کے ساتھ پورا دن نہ گزارے، اور ان کا حال چال دریافت نہ کرے۔ اور اگر کوئی مسئلہ ہو تو اسے فوری طور پر حل نہ کرے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کمپنی کے ملازمین دل و جان سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اور جب تک ان کا کام پورا نہیں ہو جاتا اس وقت تک سانس بھی نہیں لیتے۔
یہی حال سرکاری ملازمین کا بھی ہے۔ گویا وفا داری بشرطِ استواری۔ جاپان کی ترقی کا یہی راز ہے۔ حالانکہ قدرتی رسائل کے معاملہ میں جاپان خوش قسمت نہیں۔ دوسری جانب ہم ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں ، لیکن اس کے باوجود اپنی خامی مفلس اور شکستہ حال ہیں۔ بقول شاعر:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی بھی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
جاپان کی مثالی تعمیر نو اور اس کے بعد برق رفتار ترقی کا یہ بھید بھی ہم پر کھلا کہ اس ملک کے صنعتی ادارے ریسرچ اور ڈیولپمنٹ پر 30 فیصد سے لے کر 45 فیصد تک خرچ کرتے ہیں۔ دراصل یہ خرچ نہیں بلکہ ایک طرح کی سرمایہ کاری ہے۔ اصطلاح عام میں اسے (آر اینڈ ڈی) کہا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اتنی زیادہ شرح (آر اینڈ ڈی) شاید ہی کسی اور ملک میں ہو۔
رہی بات وطن عزیز کے صنعتی یونٹوں کی تو شاید یہ شرح دس پندرہ فیصد سے بھی کم ہو ، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ شاید بعض کو سرے سے یہ بھی نہ معلوم ہو کہ (آر اینڈ ڈی) کس چڑیا کا نام ہے۔ ہمارے یہاں تو کافی وقت کام کے بجائے خوش گپیوں کی نذر ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ نہ تو آجر اجیر کے ساتھ مخلص ہوتا ہے اور نہ ہی اجیر آجر کے ساتھ۔ گویا دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ بات ہے بھی ٹھیک کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے ہی بجتی ہے۔ جیسا تیرا گانا ویسا میرا بجانا۔ جاپانیوں کو بخوبی معلوم ہے کہ وقت ہی اصل دولت ہے۔Time is money۔ جہاں تک ہمارا معاملہ ہے ہم وقت کی قدر ہی نہیں جانتے۔ وقت کی پابندی کا ہمارے یہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ ہم اس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ گیا وقت پھر نہیں آتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے یہاں ذہانت اور مہارت کا کوئی فقدان نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایسے بہت سے عالی دماغ گدڑی کے لعل اور رستم چھپے ہوئے ہیں، مگر حالات نے انھیں منظر عام پر آکر اپنا کمال دکھانے کا موقعہ ہی نہیں دیا۔
نظام کی خرابی کے نتیجے میں ہمارا بہترین ٹیلنٹ ملک سے نکل کر بیرونی ممالک میں جا کر اپنے جوہر دکھا رہا ہے، جسے ہم brain drain کہتے ہیں۔ اس حوالے سے کسی شاعر کا یہ شعر حسبِ حال ہے:
سر پھول وہ چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
وطن عزیز میں میرٹ کا قتل عام مسلسل جاری ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم نے ملک کا کباڑا کردیا اور سفارش کلچر نے ہماری جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔ ہمارا المیہ یہی ہے۔