شہباز شریف کی نا اہلی کی بازگشت
شہباز شریف جیل سے رہائی کے بعد سے ایک محتاط اننگ کھیل رہے ہیں
شہباز شریف جیل سے رہائی کے بعد سے ایک محتاط اننگ کھیل رہے ہیں۔ وہ نہ صرف حالات کا جائزہ لے رہے ہیں اور کسی تنازعہ سے بھی بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم وہ جتنے بھی محتاط ہو جائیں، وہ حکومت کے دشمن نمبر ون ہی رہیں گے۔
وہ خاموش رہیں یا بولیں، وہ حکومت کے نشانہ پر ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف...مریم نواز، شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر مسلم لیگ قیادت کو اپنا سیاسی دشمن نہیں سمجھتی۔ عمران خان کے خیال میں انھیں مریم نواز سے کوئی خطرہ نہیں ۔ وہ ان سے اقتدار نہیںچھین سکتیں۔ لیکن شہباز شریف سے خطرہ ہے اور وہ اقتدار چھین بھی سکتے ہیں اسی لیے ان کی کوشش ہے کہ شہباز شریف کو سیاست سے مائنس کرا دیا جائے۔
اسی لیے انھیں دو دفعہ گرفتار کیا گیا ہے۔ پروڈکشن آرڈر نہیں جاری کیے گئے۔ غرض کہ ہر وہ سختی کی گئی جو ممکن تھی۔ تاہم شہباز شریف نے اف نہیں کی اور دوسری بار بھی وہ ایک لمبی جیل کاٹنے کے بعد عدالت کے حکم سے رہا ہو گئے۔ رہائی کے بعد شہباز شریف نے دوبارہ ایک محتاط اننگ شروع کی ہے۔ لیکن وہ عمران حکومت کے دشمن نمبر ون ہیں، ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور رہیں گے۔
شہباز شریف کو تیسری مرتبہ جیل بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ دو دفعہ نیب کو استعمال کر نے کے بعد اب ایف آئی اے سے گرفتاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ وہی ایف آئی اے ہے جس نے بجٹ سے پہلے جہانگیر ترین کے لیے عدالت میں بیان دے دیا کہ انھیں جہانگیر ترین کی گرفتاری کی کوئی ضرورت نہیں۔ تاہم ایسا لگ رہا ہے کہ شہباز شریف کی باری وہ کہے گا کہ انھیں شہباز شریف کی گرفتاری کی اشد ضرورت ہے اور ان کی گرفتاری کے بغیر تفتیش آگے نہیں بڑھ سکتی۔
یہ درست ہے کہ شہباز شریف کی ضمانت کے احکامات میں ہر دفعہ عدالت نے ان کی بے گناہی اور ان پر لگنے والے الزامات کے جھوٹ ہونے پر بات کی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان فیصلوں اور عدالت کے ان ریمارکس کے بعد بھی ان کی مشکلات کم نہیں ہوئی ہیں بلکہ جیسے جیسے عدالت سے انھیں ریلیف ملتا ہے ویسے ویسے حکومت ان پر نئی طاقت اور تیاری سے حملہ کرتی ہے۔ ابھی تک حکومت کو شہباز شریف کے خلاف کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس پر انھیں بھی یقین ہو جائے کہ بس یہ کافی ہے۔ اس لیے آج تک نئے سے نئے مقدمات کی تلاش جاری ہے۔
آجکل ان کی جیل سے رہائی کے بعد ایک ماحول بنایا جا رہا ہے کہ اگلے انتخابات سے قبل انھیں نا اہل قرار دلوا دیا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے ایک ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شہباز شریف کا سیاسی مستقبل مخدوش ہے۔ جیسے 2018کے انتخابات سے چند دن قبل نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔
ایسے ہی اگلے انتخابات سے قبل شہباز شریف کو نا اہل قرار دے دیا جائے گا۔ رائے عامہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انھیں منی لانڈرنگ میں سزا دی جائے گی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شائد یہ ممکن نہیں۔ ابھی پاکستان میں ایسے سیاسی حالات نہیں ہیں کہ شہباز شریف کو نا اہل قرار دیا جا سکے۔ نا اہل قرار دلانے کے لیے جن محرکات کی ضرورت ہے وہ ابھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ کسی کو نااہل کروانے کے لیے حکومت کو جس قوت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ابھی عمران خان کے پاس نظر نہیں آرہی ۔
نیب نے پہلے شہباز شریف پر پاکستان میں پیسے لانے کا کیس بنانے کی کوشش کی ہے۔ ٹی ٹی کو ایک بہت بڑ اجرم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ پاکستان کے قوانین میں ان کی گنجائش موجود رہی ہے۔ اور اگر ٹی ٹی پر سزائیں دی جائیں گی تو پاکستان کے تمام بڑے کاروباری افراد کو سزا دینا ہوگی۔ اسی لیے شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد پاکستان کی کاروباری برادری میں ایک عدم اطمینان کی فضا قائم ہو گی۔ جس کے بعد حکومت کو مجبور ہو کر اعلان کرنا پڑا کہ نیب کسی کاروباری فرد کو ہاتھ نہیں لگائے گی۔ تا ہم شہباز شریف کے کاروبار کے لیے یہ ہدایت نہیں تھی۔ ان کے کاروبار کو نیب نے مسلسل نشانے پر رکھا۔ تا ہم نیب ابھی تک ان پر کچھ ثابت نہیں کر سکا ہے جس کی وجہ سے ہر گرفتاری کے بعد شہباز شریف سیاسی قوت سے باہر آئے ہیں۔
نااہلی کے لیے صرف حکومت کی خواہش کافی نہیںہے اس کے لیے ریاستی ادارو ں کی حمایت ناگزیر ہے۔ آپ دیکھیں نواز شریف کی نا اہلی کے لیے کس قدر محنت کرنا پڑی۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی، بعد میں اس جے آئی ٹی کی رپورٹ کو نیب کو دینے کے لیے سپریم کورٹ نے حکم دیا۔ اس پر ریفرنس بنانے کے لیے بھی نیب کو خصوصی ہدایت جاری کی گئی۔ یہ سب بھی کافی نہیں تھا۔ اس کے بعد مانیٹرنگ جج بھی لگایا گیا۔ اس مانیٹرنگ جج نے احتساب عدالت کو چھٹی والے دن بھی کیس سننے کا حکم دیا۔ لیکن پھر بھی آپ دیکھیں فیصلہ میں سقم رہ گئے۔ جج صاحب کے حوالہ سے تنازعات سامنے آئے اور اپیلیں آج بھی زیر سماعت ہیں جن میں نواز شریف کے بری ہونے کے امکانات آج بھی موجود ہیں۔ اسی طرح نا اہلی کوئی ایسی چیز نہیں جو اس طرح یک دم ممکن ہو جائے۔
اس لیے اگر نواز شریف کی نا اہلی کے حالات کا شہباز شریف اور موجودہ حالات سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو فی الحال شہباز شریف کو نا اہل قرار دلوانا صرف عمران خان اور ان کی ٹیم کی خواہش نظرا ٓرہی ہے۔ تا ہم انھیں اپنی اس خواہش میں ریاست کے دیگر اداروں کی وہ حمایت حاصل نہیں ہے۔ آپ دیکھیں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور دیگر کو بھی عدالت سے ریلیف ملا ہے۔ ساری مسلم لیگ (ن) کو عدالت سے ریلیف ملا ہے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ کی مسلم لیگ (ن) کے حوالہ سے سوچ مختلف ہے۔شہباز شریف کی نا اہلی کے لیے عمران خان ایف آئی ا ے اور نیب سے جتنے مرضی کیس بنوا لیں ابھی ان کی نا اہلی کا منظر نامہ دور دور تک نظر نہیں آرہا۔ عدالت میں جو کیسز زیر سماعت ہیں قانونی ماہرین کی رائے میں ان میں سزائیں بہت مشکل ہیں۔ کیس کمزور ہیں جن کی طرف عدالتیں بھی اشارہ کر چکی ہیں۔
شہباز شریف کو حالات کا بخوبی اندازہ ہے۔ اسی لیے وہ محتاط کھیل رہے ہیں۔ سیاسی طور پر شہباز شریف ایک پل صراط پر چل رہے ہیں۔ جہاں ان کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ انھیں ایک طرف مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی اتفاق اور یکجہتی قائم رکھنی ہے۔ دوسری طرف مفاہمت کو بھی لے کر چلنا ہے۔ انھیں نواز شریف کا اعتماد بھی قائم رکھنا ہے اور دوسرے فریق کے ساتھ بھی مفاہمت کرنی ہے۔ یہ سب آسان نہیں ہے۔
شہباز شریف پر قومی سرمائے میں کرپشن کاآج تک کوئی کیس نہیں بن سکا ہے۔ کسی منصوبے میں کک بیکس کا کوئی کیس نہیں ہے۔ کمپنیوں والے معاملہ میں سے بھی کچھ نہیں نکلا۔ آشیانہ سے بھی کچھ نہیں نکلا۔ اس لیے اب کاروباری معاملات کا سہارا لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
لیکن حکومت یہ بھول رہی ہے کہ ٹارگٹڈ احتساب بھی انتقام ہی کی شکل ہے۔شاید احتساب کا بیانیہ اپنی وہ طاقت بھی کھو گیا ہے۔ جس کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے مجھے شہباز شریف کی نا اہلی ممکن نظر نہیں آتی۔ وہ عمران خان کو چیلنج کر رہے ہیں اور عمران خان کے متبادل ہیں۔ عمران خان انھیں سیاسی دشمن نمبر ون سمجھ رہے ہیں لیکن شاید وہ بے بس ہیں۔ اس سیاسی دشمن کے ساتھ انھیں جینا ہوگا اور کھیل کر ہی مقابلہ کرنا ہوگا۔ اسے وہ ٹیکنیکل ناٹ آؤٹ نہیں کر سکیں گے۔
وہ خاموش رہیں یا بولیں، وہ حکومت کے نشانہ پر ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف...مریم نواز، شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر مسلم لیگ قیادت کو اپنا سیاسی دشمن نہیں سمجھتی۔ عمران خان کے خیال میں انھیں مریم نواز سے کوئی خطرہ نہیں ۔ وہ ان سے اقتدار نہیںچھین سکتیں۔ لیکن شہباز شریف سے خطرہ ہے اور وہ اقتدار چھین بھی سکتے ہیں اسی لیے ان کی کوشش ہے کہ شہباز شریف کو سیاست سے مائنس کرا دیا جائے۔
اسی لیے انھیں دو دفعہ گرفتار کیا گیا ہے۔ پروڈکشن آرڈر نہیں جاری کیے گئے۔ غرض کہ ہر وہ سختی کی گئی جو ممکن تھی۔ تاہم شہباز شریف نے اف نہیں کی اور دوسری بار بھی وہ ایک لمبی جیل کاٹنے کے بعد عدالت کے حکم سے رہا ہو گئے۔ رہائی کے بعد شہباز شریف نے دوبارہ ایک محتاط اننگ شروع کی ہے۔ لیکن وہ عمران حکومت کے دشمن نمبر ون ہیں، ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور رہیں گے۔
شہباز شریف کو تیسری مرتبہ جیل بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ دو دفعہ نیب کو استعمال کر نے کے بعد اب ایف آئی اے سے گرفتاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ وہی ایف آئی اے ہے جس نے بجٹ سے پہلے جہانگیر ترین کے لیے عدالت میں بیان دے دیا کہ انھیں جہانگیر ترین کی گرفتاری کی کوئی ضرورت نہیں۔ تاہم ایسا لگ رہا ہے کہ شہباز شریف کی باری وہ کہے گا کہ انھیں شہباز شریف کی گرفتاری کی اشد ضرورت ہے اور ان کی گرفتاری کے بغیر تفتیش آگے نہیں بڑھ سکتی۔
یہ درست ہے کہ شہباز شریف کی ضمانت کے احکامات میں ہر دفعہ عدالت نے ان کی بے گناہی اور ان پر لگنے والے الزامات کے جھوٹ ہونے پر بات کی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان فیصلوں اور عدالت کے ان ریمارکس کے بعد بھی ان کی مشکلات کم نہیں ہوئی ہیں بلکہ جیسے جیسے عدالت سے انھیں ریلیف ملتا ہے ویسے ویسے حکومت ان پر نئی طاقت اور تیاری سے حملہ کرتی ہے۔ ابھی تک حکومت کو شہباز شریف کے خلاف کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس پر انھیں بھی یقین ہو جائے کہ بس یہ کافی ہے۔ اس لیے آج تک نئے سے نئے مقدمات کی تلاش جاری ہے۔
آجکل ان کی جیل سے رہائی کے بعد ایک ماحول بنایا جا رہا ہے کہ اگلے انتخابات سے قبل انھیں نا اہل قرار دلوا دیا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے ایک ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شہباز شریف کا سیاسی مستقبل مخدوش ہے۔ جیسے 2018کے انتخابات سے چند دن قبل نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔
ایسے ہی اگلے انتخابات سے قبل شہباز شریف کو نا اہل قرار دے دیا جائے گا۔ رائے عامہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انھیں منی لانڈرنگ میں سزا دی جائے گی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شائد یہ ممکن نہیں۔ ابھی پاکستان میں ایسے سیاسی حالات نہیں ہیں کہ شہباز شریف کو نا اہل قرار دیا جا سکے۔ نا اہل قرار دلانے کے لیے جن محرکات کی ضرورت ہے وہ ابھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ کسی کو نااہل کروانے کے لیے حکومت کو جس قوت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ابھی عمران خان کے پاس نظر نہیں آرہی ۔
نیب نے پہلے شہباز شریف پر پاکستان میں پیسے لانے کا کیس بنانے کی کوشش کی ہے۔ ٹی ٹی کو ایک بہت بڑ اجرم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ پاکستان کے قوانین میں ان کی گنجائش موجود رہی ہے۔ اور اگر ٹی ٹی پر سزائیں دی جائیں گی تو پاکستان کے تمام بڑے کاروباری افراد کو سزا دینا ہوگی۔ اسی لیے شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد پاکستان کی کاروباری برادری میں ایک عدم اطمینان کی فضا قائم ہو گی۔ جس کے بعد حکومت کو مجبور ہو کر اعلان کرنا پڑا کہ نیب کسی کاروباری فرد کو ہاتھ نہیں لگائے گی۔ تا ہم شہباز شریف کے کاروبار کے لیے یہ ہدایت نہیں تھی۔ ان کے کاروبار کو نیب نے مسلسل نشانے پر رکھا۔ تا ہم نیب ابھی تک ان پر کچھ ثابت نہیں کر سکا ہے جس کی وجہ سے ہر گرفتاری کے بعد شہباز شریف سیاسی قوت سے باہر آئے ہیں۔
نااہلی کے لیے صرف حکومت کی خواہش کافی نہیںہے اس کے لیے ریاستی ادارو ں کی حمایت ناگزیر ہے۔ آپ دیکھیں نواز شریف کی نا اہلی کے لیے کس قدر محنت کرنا پڑی۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی، بعد میں اس جے آئی ٹی کی رپورٹ کو نیب کو دینے کے لیے سپریم کورٹ نے حکم دیا۔ اس پر ریفرنس بنانے کے لیے بھی نیب کو خصوصی ہدایت جاری کی گئی۔ یہ سب بھی کافی نہیں تھا۔ اس کے بعد مانیٹرنگ جج بھی لگایا گیا۔ اس مانیٹرنگ جج نے احتساب عدالت کو چھٹی والے دن بھی کیس سننے کا حکم دیا۔ لیکن پھر بھی آپ دیکھیں فیصلہ میں سقم رہ گئے۔ جج صاحب کے حوالہ سے تنازعات سامنے آئے اور اپیلیں آج بھی زیر سماعت ہیں جن میں نواز شریف کے بری ہونے کے امکانات آج بھی موجود ہیں۔ اسی طرح نا اہلی کوئی ایسی چیز نہیں جو اس طرح یک دم ممکن ہو جائے۔
اس لیے اگر نواز شریف کی نا اہلی کے حالات کا شہباز شریف اور موجودہ حالات سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو فی الحال شہباز شریف کو نا اہل قرار دلوانا صرف عمران خان اور ان کی ٹیم کی خواہش نظرا ٓرہی ہے۔ تا ہم انھیں اپنی اس خواہش میں ریاست کے دیگر اداروں کی وہ حمایت حاصل نہیں ہے۔ آپ دیکھیں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور دیگر کو بھی عدالت سے ریلیف ملا ہے۔ ساری مسلم لیگ (ن) کو عدالت سے ریلیف ملا ہے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ کی مسلم لیگ (ن) کے حوالہ سے سوچ مختلف ہے۔شہباز شریف کی نا اہلی کے لیے عمران خان ایف آئی ا ے اور نیب سے جتنے مرضی کیس بنوا لیں ابھی ان کی نا اہلی کا منظر نامہ دور دور تک نظر نہیں آرہا۔ عدالت میں جو کیسز زیر سماعت ہیں قانونی ماہرین کی رائے میں ان میں سزائیں بہت مشکل ہیں۔ کیس کمزور ہیں جن کی طرف عدالتیں بھی اشارہ کر چکی ہیں۔
شہباز شریف کو حالات کا بخوبی اندازہ ہے۔ اسی لیے وہ محتاط کھیل رہے ہیں۔ سیاسی طور پر شہباز شریف ایک پل صراط پر چل رہے ہیں۔ جہاں ان کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ انھیں ایک طرف مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی اتفاق اور یکجہتی قائم رکھنی ہے۔ دوسری طرف مفاہمت کو بھی لے کر چلنا ہے۔ انھیں نواز شریف کا اعتماد بھی قائم رکھنا ہے اور دوسرے فریق کے ساتھ بھی مفاہمت کرنی ہے۔ یہ سب آسان نہیں ہے۔
شہباز شریف پر قومی سرمائے میں کرپشن کاآج تک کوئی کیس نہیں بن سکا ہے۔ کسی منصوبے میں کک بیکس کا کوئی کیس نہیں ہے۔ کمپنیوں والے معاملہ میں سے بھی کچھ نہیں نکلا۔ آشیانہ سے بھی کچھ نہیں نکلا۔ اس لیے اب کاروباری معاملات کا سہارا لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
لیکن حکومت یہ بھول رہی ہے کہ ٹارگٹڈ احتساب بھی انتقام ہی کی شکل ہے۔شاید احتساب کا بیانیہ اپنی وہ طاقت بھی کھو گیا ہے۔ جس کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے مجھے شہباز شریف کی نا اہلی ممکن نظر نہیں آتی۔ وہ عمران خان کو چیلنج کر رہے ہیں اور عمران خان کے متبادل ہیں۔ عمران خان انھیں سیاسی دشمن نمبر ون سمجھ رہے ہیں لیکن شاید وہ بے بس ہیں۔ اس سیاسی دشمن کے ساتھ انھیں جینا ہوگا اور کھیل کر ہی مقابلہ کرنا ہوگا۔ اسے وہ ٹیکنیکل ناٹ آؤٹ نہیں کر سکیں گے۔