آٹزم کا شکار بچے کا والدین ہونا آسان نہیں

مرض کی تشخیص کے فوراً بعد بچے کی ’خصوصی تربیت‘ شروع ہونا ضروری ہے

گاؤں دیہات میں آج بھی آٹزم کو کوئی مرض تصور نہیں کیا جاتا

شکر ہے کہ اب لوگوں میں آٹزم (Autism) کے بارے میں شعور پیدا ہوا ہے۔ مجھے اپنے گاؤں کے وہ دو بچے یاد آتے ہیں، جنھیں اس بیماری کی وجہ سے عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔۔۔ پورا گاؤں انھیں ''سائیں'' کہتا ہے ان سے باقاعدہ دعائیں کروائی جاتی ہیں اور گھر والے بھی اب ہر طرح کے علاج کے بعد مایوس ہو کر انھیں ان کے حال پر چھوڑ چکے ہیں۔

گاؤں دیہات میں آج بھی آٹزم کو کوئی مرض تصور نہیں کیا جاتا اس کی بنیادی وجہ والدین کی اس بیماری سے ناواقفیت ہے۔ دوسری وجہ اس نفسیاتی بیماری کا کوئی علاج نہیں، تو والدین ڈاکٹری علاج سے مایوس ہوکر بنیادی تربیت کی طرف سے بھی غافل ہو جاتے ہیں، جو آٹزم کے شکار بچے کو اگر بروقت مل جائے تو اس بچے کی جذباتی، ذہنی نشوونما میں مدد مل سکتی ہے

آٹزم کا شکار بچوں کے والدین کو انتہائی صبر آزما مراحل سے گزرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہونے کے ساتھ اس بیماری سے متعلق آگاہی کا ہونا بھی اشد ضروری ہے

٭آٹزم کیا ہے؟

یہ ایک ایسی پیدائشی ذہنی بیماری ہے، جو نسلوں میں منتقل ہو سکتی ہے، بدقسمتی سے اس بیماری کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا، بچہ جب پیدا ہوتا ہے، تو دیکھنے میں وہ بالکل نارمل ہی لگتا ہے، لیکن جوں ہی اس کی عمر دو یا تین سال کے قریب ہوتی ہے تو اپنی عادات و رویے کی وجہ سے دوسرے بچوں سے مختلف دکھائی دیتا ہے، چناں چہ باقاعدہ تشخیص کے ذریعے یہ بیماری علم میں آتی ہے اس سے پہلے اس بیماری کا پتا چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔

بین الاقوامی شماریات کے مطابق 54 ہزار میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہوتا ہے اور اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو اس کی پوری زندگی برباد ہو سکتی ہے۔

٭آٹزم کی علامات

اس بیماری کی چند بنیادی علامات یہ ہیں :

ایسے بچے کا بولنا یا اپنی بات سمجھانا عام بچوں سے ذرا مختلف ہوتا ہے۔۔۔

وہ بات کرتے وقت نظریں چراتے ہیں۔۔۔

بار بار ایک ہی بات کو دہراتے چلے جاتے ہیں۔

انھیں سماجی روابط میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

توجہ دینے میں مشکل پیش آتی ہے۔

نام پکارنے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔


طبیعت میں نرمی یا جارحانہ پن ہوتا ہے

ہمہ وقت بے چین رہتے ہیں اور تنہائی پسند ہوتے ہیں۔

٭آٹزم کی تشخیص

اس کی تشخیص کے لیے ماہرینِ نفسیات کی ٹیم بچے کی حرکات و سکنات کا مکمل مشاہدہ کر کے اپنے پروفشنل طریقے کار کے ذریعے سے بچے کی بیماری کی اسٹیج کا درست تعین کرتی ہے۔

آٹزم کی وجوہات ماہرین کے مطابق آٹزم کی کوئی خاص وجہ معلوم نہیں ہو سکیں۔ تحقیق سے اندازہ ہوا ہے کہ جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے یہ بیماری ہو سکتی ہے، لیکن ہر شخص میں اس کی وجوہات مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔

٭آٹزم کے سلسلے میں

والدین کیا اقدام کر سکتے ہیں؟

یہ والدین کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے، جب وہ اچانک سے بچے کے اندر ہونے والی تبدیلی کو 'آٹزم' کی صورت میں دریافت کرتے ہیں۔ والدین کو ایسے بچوں کے لیے خود کو کیسے تیار کرنا ہے یہ سوال دراصل انتہائی اہم ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق جتنا جلدی بچہ کی تشخیص ہو گی، اتنا ہی جلدی بچے پر کام کیا جا سکتا ہے۔

والدین کے لیے ایسے بچے کو سنبھالنا آسان نہیں ہوتا، خاص طور پر اس سماج میں، جہاں لوگ اس بیماری کو سمجھتے ہی نہ ہوں اور بچوں کے سامنے ہی انھیں ذہنی مریض قرار دے کر بلا وجہ ترحم آمیز رویہ اختیار کریں۔

بچپن تو محبت کی چادر میں کسی نہ کسی طرح والدین کی سرپرستی میں گزر جاتا ہے، لیکن جب یہی بچے بڑے ہو کر باقاعدہ معاشرے کا سامنا کرتے ہیں، تو انھیں لوگوں کے رویے اور انداز سمجھ میں نہیں آتے، اس مشکل سے نکالنے کے لیے اور سماجی دنیا سے رابطے میں والدین ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں، کیوں کہ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں پر ایسے بچے جسمانی تبدیلیوں کے ساتھ جذباتی نشوونما کے مراحل سے بھی گزر رہے ہوتے ہیں، انھیں گھر سے باہر کی دنیا پریشان کرتی رہتی ہے، وہ اپنے سامنے ہنستے، الجھتے، بے تکان گفتگو کرتے، اتفاق رائے قائم کرتے ہوئے لوگوں سے سماجی دوری اختیار کرنے لگتے ہیں، لہٰذا اس موقع پر والدین کو ان مہارتوں کا علم ہونا چاہیے، جس سے ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔

کیوں کہ ایسے بچے پڑھائی میں اچھے ہوتے ہیں، ذہین ہوتے ہیں انھیں ریاضی جیسے علوم میں قدرتی طور پر مہارت حاصل ہوتی ہے اور ان مضامین میں خود کو منوا بھی سکتے ہیں، اگر ان کے اردگرد کا ماحول سازگار ہو، لیکن بعض اوقات اپنے ماحول سے بے چینی، یاسیت اور اداسی کا شکار ہو کر اپنے ہدف تک نہیں پہنچ پاتے لہذا ایسے بچے کی تربیت کے آغاز سے ہی والدین کو ماہرین سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ اس خاموشی کو توڑ دیں، جو ان کے اور بچے کے درمیان موجود ہے، بات چیت کی راہ نکالیں، بچے کو متوجہ کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بات کریں۔ جب بچہ بار بار بات دُہرائے، تو صبر سے اس کی بات کو سنیں، سوال ضرور کریں، مگر جواب دینے کے لیے انھیں وقت ضرور دیں۔

والدین کی طرف سے مناسب دیکھ بھال، بھرپور محبت اور 'اسپیچ تھراپی' وہ قوت ہے جو بچے کو اس بیماری سے لڑنے میں مدد دیتی ہے ۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ جب آپ کے بچے میں اس کا انکشاف ہو تو پہلے خود کو سنبھالیں اور اس کے بعد مثبت سوچ رکھتے ہوئے بچے کی زندگی کو بہتر سے بہترین کرنے کی چارہ جوئی کریں۔ اگر وہ صدمے کا شکار ہو کر بیٹھ جائیں گے، تو اس سے مزید مشکلات بڑھ سکتی ہیں، کم نہیں ہوسکتیں، اس لیے جوں ہی تشخیص ہو، ویسے ہی آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں ماہرین سے مشورہ شروع کردیجیے۔
Load Next Story