سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے اسلام آباد ہائیکورٹ

عوام اسی لئے اعتماد کھو رہے ہیں کہ ادارے کام نہیں کرتے، ہائیکورٹ

عوام اسی لئے اعتماد کھو رہے ہیں کہ ادارے کام نہیں کرتے، ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے گستاخانہ مواد کیخلاف کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ یہ سب سوچے سمجھے منصوبے سے اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔

سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے سے گستاخانہ مواد کی تمام شکایات پر تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ایف آئی اے کا سینئر افسر پیش ہو کر گستاخانہ مواد کی تمام شکایات پر الگ الگ رپورٹ پیش کرے۔

جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ تمام شکایات پر الگ الگ رپورٹ پیش کریں کہ کیا کارروائی کی گئی، شکایت آتی ہے تو ایف آئی اے تفتیش کرے، جرم بنتا ہے تو ایکشن لیا جائے، ستمبر 2020 کی شکایت پر انکوائری افسر کون ہے، ان شکایات کا کیا بنا۔


نمائندہ ایف آئی اے نے بتایا کہ شکایت انسداد دہشتگردی ونگ کو بھیجی ہے اس پر کارروائی جاری ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایک سال ہونے والا ہے، ایف آئی اے ابھی شکایت کو دیکھ رہا ہے، کچھ زیادہ نہیں دیکھ رہا، ایف آئی اے تفتیشی ایجنسی ہے، یہ کام کرنا خود ادارے کا فرض ہے، درخواست تو آنی ہی نہیں چاہیے، ایف آئی اے کو اپنا کام کرنا چاہیے، عوام اسی لئے اعتماد کھو رہے ہیں کہ ادارے کام نہیں کرتے، آپ لوگ کام کیوں نہیں کرتے، کیا ڈرتے ہیں کام کرنے سے، پولیس کو بھی بلا بلا کر تھک جاتے ہیں، انکا بھی یہی رویہ ہے۔

عدالت نے نمائندہ ایف آئی اے سے کہا کہ کام کریں ورنہ ڈی جی ایف آئی اے کو بلائیں گے اور پھر بات ان پر آئے گی کہ انکا ادارہ کام نہیں کر رہا، ایک انوسٹی گیشن ایجنسی شکایت کو ایک سال سے دیکھ رہی ہے کہ کرنا کیا ہے، اللہ سے ڈریں، حساب تو سب کا ہونا ہے نا، یا ایف آئی اے کا نہیں ہونا، کوئی مسلمان اس معاملے پر آنکھیں بند نہیں کر سکتا، یہ سب سوچے سمجھے منصوبے سے اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، ہمارے ادارے جس طرح کام کر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے، ایف آئی اے کو تو بنیادی حقائق بھی معلوم نہیں، درست بات کریں، عدالت بصورت دیگر گمراہ کرنے پر توہین عدالت کے نوٹسز جاری کریگی، بنیادی حقائق درست بتائیں ورنہ عدالت ڈی جی ایف آئی اے کو طلب کریگی، ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کو طلب کیا تھا تو سب ٹھیک سے کام کرنے لگ گئے تھے۔

عدالت نے ایف آئی اے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
Load Next Story