دودھ کے دھلے فرشتے
فٹبال میچ کی ہار نے گوروں کو پاگل کردیا اور انھوں نے املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ سیاہ فاموں کے خلاف بھی احتجاج کیا
PARIS:
یہ یورو کپ 2021 کا فائنل تھا۔ اٹلی اور انگلینڈ کی ٹیمیں کمر کس کے آمنے سامنے تھیں۔ ویمبلے اسٹیڈیم برطانیہ کے حامیوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ دونوں ٹیموں نے پورا زور لگایا لیکن کانٹے کا یہ میچ 1-1 سے برابر ہوگیا۔ اب فیصلہ پینالٹی ککس کی صورت میں ہونا تھا۔ اٹلی نے پینالٹی ککس پر یہ مقابلہ 2 کے مقابلے میں 3 سے جیت لیا۔
انگلینڈ کے فٹبال شائقین کےلیے یہ 1966 کے بعد سے پہلا موقع تھا کہ وہ جشن مناتے لیکن ان کے ارمانوں پر اوس پڑگئی اور اس گیم میں پینالٹی ککس کے معاملے میں ایسا جرم بھی تھا جو کہ گورے کے دیس میں ناقابل معافی تھا۔ پینالٹی ککس کےلیے جن کھلاڑیوں نے ککس کی تھیں، ان میں 3 سیاہ فام مارکس، جے ڈان اور بکائیو بھی شامل تھے۔ ان تینوں کھلاڑیوں سے بال پوسٹ نہ ہوسکی۔
اس ہار نے گوروں کو بالکل پاگل کردیا اور لندن کی سڑکوں پر احتجاج شروع ہوگیا۔ اس احتجاج میں مظاہرین نے سڑکوں پر خوب اودھم مچاتے ہوئے املاک کو نقصان بھی پہنچایا۔ انہوں نے مبینہ طور پر ہار کی وجہ بننے والے سیاہ فام کھلاڑیوں کے خلاف نسل پرستی اور نفرت پر مبنی نعرے بھی لگائے۔ یہ یاد رہے کہ گورے کے دیس میں سیاہ فاموں کےلیے آج بھی نفرت ہے۔ اس کے اظہار کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان سیاہ فام کھلاڑیوں کےلیے سوشل میڈیا پر گالیاں بھی نکالی گئیں اور پھر یہ معاملہ اس حد تک طول پکڑ گیا کہ فٹبال ایسوسی ایشن اور برطانوی وزیراعظم کو ان سیاہ فاموں کی حمایت میں سامنے آنا پڑا۔
حقیقت میں گورے کے دل و دماغ میں احساس تفاخر بھرا ہوا ہے۔ یہ خناس آج کا نہیں بلکہ صدیوں پرانا ہے۔ بلڈی بلیک ڈاگ کا نعرہ تو برطانیہ میں بہت پرانا ہے۔ ایشیائی اور افریقی باشندوں کو یہ نام کثرت سے سننے کو ملتا ہے۔ برطانیہ کے مشرقی اور جنوب مشرقی حصے میں رنگت کی بنیاد پر تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہاں آج بھی رنگت کی بنیاد پر جرائم ہوتے ہیں، اس میں سے کچھ پولیس میں رپورٹ ہوتے ہیں اور کچھ رپورٹ نہیں ہوتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق رنگت کی بنیاد پر رپورٹ ہونے والے کیس میں گوری پولیس بھی معاملے کو وارننگ دے کر رفع دفع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ ہے وہ حقیقت جو سب کے سامنے ہے کہ برطانیہ کے اقتدار کا سورج تو غروب ہوا ہے لیکن اس کی نسل میں سے احساس تفاخر آج بھی ختم نہیں ہوا۔
رنگت کی بنیاد پر ہونے والے سلوک کی وجہ سے میگھن مارکل کو محل چھوڑنا پڑا تھا۔ اس حوالے سے بین الاقوامی نیوز ویب سائٹس پر رپورٹ موجود ہے۔ سابق برطانوی شہزادی نے اوپرا وینفرے کو انٹرویو میں اس مسئلے پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اب محل اس بات پر جتنے مرضی پردے ڈال دے لیکن بات وہی ہے کہ میگھن کے دعوے کی کھلے عام تردید کریں۔ ایک برطانوی تحقیقاتی صحافی کی رپورٹ کے مطابق، میگھن مارکل کے رنگت کی بنیاد پر برا سلوک کرنے کے دعوے میں سچائی موجود ہے۔
میں ایسی کئی اور مثالیں بھی دے سکتا ہوں جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ برطانوی معاشرہ جتنا مہذب بنتا ہے، وہ اتنا نہیں ہے۔ یہ صرف قلعی ہے جو ذرا سی بارش سے دھل جائے گی۔ اب سامنے آئیں وہ سب سیاستدان اور دانشور جو بات بات پر برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں۔ جنہیں اپنے قابض دادا ابو کی سلطنت کے سورج ڈوبنے کا افسوس ٹھیک سے سانس ہی نہیں لینے دے رہا ہے۔ جو مغرب کو اتنا جانتے ہیں کہ کوئی اور نہیں جانتا۔ جن کےلیے ویسٹ تو دنیا میں رب کی جنت ہے۔
امریکا کے چہرے کا نقاب ٹرمپ نے خود ہی نوچ اتارا تھا، جب اس کی شہ پر مظاہرین وائٹ ہاؤس میں گھس کر آل یوتھ مت جیسی حرکتیں کررہے تھے۔ برطانوی نقاب کل اتر گیا جب ان سے یورو کپ کے فائنل کی ہار تسلیم نہیں ہوئی اور انہوں نے لندن ہی الٹا کر رکھ دیا۔ ہمیں مغرب کی مثالیں دینے والوں کو شرم آنی چاہئے، ہم کیوں احساس کمتری کا شکار ہوں؟ ٹھیک ہے کہ ہمارے معاشرتی رویے خراب ہیں لیکن جن کی مثالیں آپ دے رہے ہیں، کیا وہ دودھ کے دھلے فرشتے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ یورو کپ 2021 کا فائنل تھا۔ اٹلی اور انگلینڈ کی ٹیمیں کمر کس کے آمنے سامنے تھیں۔ ویمبلے اسٹیڈیم برطانیہ کے حامیوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ دونوں ٹیموں نے پورا زور لگایا لیکن کانٹے کا یہ میچ 1-1 سے برابر ہوگیا۔ اب فیصلہ پینالٹی ککس کی صورت میں ہونا تھا۔ اٹلی نے پینالٹی ککس پر یہ مقابلہ 2 کے مقابلے میں 3 سے جیت لیا۔
انگلینڈ کے فٹبال شائقین کےلیے یہ 1966 کے بعد سے پہلا موقع تھا کہ وہ جشن مناتے لیکن ان کے ارمانوں پر اوس پڑگئی اور اس گیم میں پینالٹی ککس کے معاملے میں ایسا جرم بھی تھا جو کہ گورے کے دیس میں ناقابل معافی تھا۔ پینالٹی ککس کےلیے جن کھلاڑیوں نے ککس کی تھیں، ان میں 3 سیاہ فام مارکس، جے ڈان اور بکائیو بھی شامل تھے۔ ان تینوں کھلاڑیوں سے بال پوسٹ نہ ہوسکی۔
اس ہار نے گوروں کو بالکل پاگل کردیا اور لندن کی سڑکوں پر احتجاج شروع ہوگیا۔ اس احتجاج میں مظاہرین نے سڑکوں پر خوب اودھم مچاتے ہوئے املاک کو نقصان بھی پہنچایا۔ انہوں نے مبینہ طور پر ہار کی وجہ بننے والے سیاہ فام کھلاڑیوں کے خلاف نسل پرستی اور نفرت پر مبنی نعرے بھی لگائے۔ یہ یاد رہے کہ گورے کے دیس میں سیاہ فاموں کےلیے آج بھی نفرت ہے۔ اس کے اظہار کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان سیاہ فام کھلاڑیوں کےلیے سوشل میڈیا پر گالیاں بھی نکالی گئیں اور پھر یہ معاملہ اس حد تک طول پکڑ گیا کہ فٹبال ایسوسی ایشن اور برطانوی وزیراعظم کو ان سیاہ فاموں کی حمایت میں سامنے آنا پڑا۔
حقیقت میں گورے کے دل و دماغ میں احساس تفاخر بھرا ہوا ہے۔ یہ خناس آج کا نہیں بلکہ صدیوں پرانا ہے۔ بلڈی بلیک ڈاگ کا نعرہ تو برطانیہ میں بہت پرانا ہے۔ ایشیائی اور افریقی باشندوں کو یہ نام کثرت سے سننے کو ملتا ہے۔ برطانیہ کے مشرقی اور جنوب مشرقی حصے میں رنگت کی بنیاد پر تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہاں آج بھی رنگت کی بنیاد پر جرائم ہوتے ہیں، اس میں سے کچھ پولیس میں رپورٹ ہوتے ہیں اور کچھ رپورٹ نہیں ہوتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق رنگت کی بنیاد پر رپورٹ ہونے والے کیس میں گوری پولیس بھی معاملے کو وارننگ دے کر رفع دفع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ ہے وہ حقیقت جو سب کے سامنے ہے کہ برطانیہ کے اقتدار کا سورج تو غروب ہوا ہے لیکن اس کی نسل میں سے احساس تفاخر آج بھی ختم نہیں ہوا۔
رنگت کی بنیاد پر ہونے والے سلوک کی وجہ سے میگھن مارکل کو محل چھوڑنا پڑا تھا۔ اس حوالے سے بین الاقوامی نیوز ویب سائٹس پر رپورٹ موجود ہے۔ سابق برطانوی شہزادی نے اوپرا وینفرے کو انٹرویو میں اس مسئلے پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اب محل اس بات پر جتنے مرضی پردے ڈال دے لیکن بات وہی ہے کہ میگھن کے دعوے کی کھلے عام تردید کریں۔ ایک برطانوی تحقیقاتی صحافی کی رپورٹ کے مطابق، میگھن مارکل کے رنگت کی بنیاد پر برا سلوک کرنے کے دعوے میں سچائی موجود ہے۔
میں ایسی کئی اور مثالیں بھی دے سکتا ہوں جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ برطانوی معاشرہ جتنا مہذب بنتا ہے، وہ اتنا نہیں ہے۔ یہ صرف قلعی ہے جو ذرا سی بارش سے دھل جائے گی۔ اب سامنے آئیں وہ سب سیاستدان اور دانشور جو بات بات پر برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں۔ جنہیں اپنے قابض دادا ابو کی سلطنت کے سورج ڈوبنے کا افسوس ٹھیک سے سانس ہی نہیں لینے دے رہا ہے۔ جو مغرب کو اتنا جانتے ہیں کہ کوئی اور نہیں جانتا۔ جن کےلیے ویسٹ تو دنیا میں رب کی جنت ہے۔
امریکا کے چہرے کا نقاب ٹرمپ نے خود ہی نوچ اتارا تھا، جب اس کی شہ پر مظاہرین وائٹ ہاؤس میں گھس کر آل یوتھ مت جیسی حرکتیں کررہے تھے۔ برطانوی نقاب کل اتر گیا جب ان سے یورو کپ کے فائنل کی ہار تسلیم نہیں ہوئی اور انہوں نے لندن ہی الٹا کر رکھ دیا۔ ہمیں مغرب کی مثالیں دینے والوں کو شرم آنی چاہئے، ہم کیوں احساس کمتری کا شکار ہوں؟ ٹھیک ہے کہ ہمارے معاشرتی رویے خراب ہیں لیکن جن کی مثالیں آپ دے رہے ہیں، کیا وہ دودھ کے دھلے فرشتے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔