ملکی سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں

اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ مسلم لیگ(ن)اورپیپلزپارٹی کے ادوارحکومت میں کرپشن کی سنگین شکایات میں بہت کچھ سچ ہے۔

اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ مسلم لیگ(ن)اورپیپلزپارٹی کے ادوارحکومت میں کرپشن کی سنگین شکایات میں بہت کچھ سچ ہے۔

پاکستان کی سیاست میں ''ناممکن'' ہونا ممکن نہیں کیونکہ آج کے دوست کل کے دشمن یا اور آج کے دشمن کل کے دوست بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی، ہمارے محترم سیاستدانوں نے تو اپنی موسمی اڑانوں کی وجہ سے ہونے والی عوامی تنقید کی شرمندگی کو کیمو فلاج کرنے کیلئے ایک بہترین راستہ ڈھونڈ رکھا ہے۔

ایک جماعت چھوڑ کر دوسری جماعت میں جانے والا جب دوبارہ واپس آتا ہے تو پریس کانفرنس میں یہ جملہ ضرور کہا جاتا ہے کہ ''صبح کا بھولا ہوا شام کو گھر واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے'' یا پھر اپنی جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعت میں شمولیت کرتے وقت یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ ''اصل جمہوریت اور عوام دوستی تو اس جماعت میں دکھائی دی ہے''۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے اندر بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنی ''ضروریات'' کے مطابق سیاست کرتے ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں کی بات کی جائے تو تحریک انصاف اس معاملے میں سب سے آگے نکل چکی ہے۔

سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائی بہت شدت اور وثوق سے دہرائی جاتی ہے کہ پاکستان کے بادشاہ گروں نے جب نیا پاکستان بنانے والوں کے سر پہ ہاتھ رکھا تو الیکشن جتوانے کیلئے دوسری سیاسی جماعتوں سے ''اپنے'' بندوں کو نکال کر تحریک انصاف میں شامل کروایا۔ سیاسی حلقوں کی اس رائے کو موجودہ حکومتی صورتحال سے تقویت مل رہی ہے۔

کابینہ پر نگاہ ڈالیں تو نمایاں تعداد میں ایسے وزراء، معاونین اور مشیران دکھائی دیتے ہیں جن کا تحریک انصاف سے کوئی نظریاتی تعلق نہیں اور وہ صرف اقتدار کے ہمسفر ہیں جبکہ چند ایسے ہیں جنہوں نے کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیا لیکن اس وقت وزیر اعظم عمران خان کے مقربین خاص میں شامل ہیں اور انہی لوگوں کی حماقتیں اور غلط بیانیاں عمران خان حکومت کو عوام میں غیر مقبول بنا رہی ہیں۔

اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے ادوار حکومت میں کرپشن کی سنگین شکایات میں بہت کچھ سچ ہے اور بادی النظر میں کئی میگا پراجیکٹس میں کک بیکس اور کمیشن بھی لیا گیا ہوگا کیونکہ جس وقت یہ پراجیکٹ بنائے گئے تب اس شہر کو ان کی فوری ضرورت نہیں تھی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی کرپشن ہو رہی ہے ،وزیر اعظم عمران خان اپنی ذات کی حد تک ہر قسم کی مالی بدعنوانی سے پاک ہیں تاہم ان کی ٹیم چوکہ چھکے لگا رہی ہے اور پانچ سالہ اقتدار کو ٹیسٹ میچ کی بجائے ٹی ٹوئنٹی میچ سمجھ کر کھیل رہی ہے شاید انہیں خوف ہے کہ حکومت کی مدت کسی وجہ سے پوری نہ ہو سکے گی اس لئے جو سمیٹا جا سکتا ہے وہ سمیٹ لیا جائے۔احتساب اور انسداد رشوت ستانی کے قومی وصوبائی محکمے بھی ''کنٹرولڈ'' کارروائیاں کر رہے ہیں۔

سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں سمیت تجارتی حلقوں میں اس قدر خوف وہراس پھیلا ہوا ہے کہ تجارتی سرگرمیوں کا حجم کم ہو چکا ہے حکومت ایکسپورٹ وہ بھی زیادہ تر ٹیکسٹائل سیکٹرکے اعدادوشمار کو پیش کر کے معاشی ترقی کا دعوی کر رہی ہے لیکن عام آدمی کا پیمانہ مختلف ہے وہ اپنے ارد گرد کی دکانوں پر خریدو فروخت کو دیکھتا ہے، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی خریدو فروخت کا موازنہ کرتا ہے، ہول سیل مارکیٹس میں کاروباری سرگرمیوں کو دیکھتا ہے، بڑی بڑی فیکٹریوں میں روزگار کا جائزہ لیتا ہے جہاں سب کچھ بری حالت میں دکھائی دے رہا ہے۔

معیشت کی صورتحال سیاست پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ بڑے سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں سمیت تاجر تنظیموں کے رہنماوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ حکومت اپنے تین سال گزار چکی ہے اور اب صرف ڈیمج کنٹرول کیا جا سکتا ہے جوکرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ پنجاب بھر میں سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر و مرمت بڑے زور وشور سے جا ری ہے، ہر وزیر مشیر اپنے حلقے میں چند سو فٹ کی سڑک تعمیر کا کریڈٹ یوں لے رہا ہے جیسے اس نے ہائی وے بنوا دی ہو۔صاف دکھائی دے رہا ہے کہ تحریک انصاف بھی ماضی کی حکومتوں کی مانند اب سڑکوں گلیوں کی تعمیر کا روایتی ہتھکنڈہ استعمال کر کے ووٹر کو خوش کرنا چاہتی ہے ۔


آئندہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ عام انتخابات 2023 کی بجائے2022 میں منعقد ہو سکتے ہیں۔گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے قائد سابق صدر آصف علی زرداری نے دورہ لاہور کے دوران جو اہم ترین ملاقاتیں کی ہیں ان میں بھی یہ بات کہی گئی ہے۔

تحریک انصاف میں موجود ترین گروپ بظاہر خاموش ہو چکا ہے لیکن درحقیقت جہانگیر ترین بھرپور انداز میں پنجاب سمیت دوسرے صوبوں کے اراکین اسمبلی اور اہم سیاستدانوں سے اہم ترین ملاقاتیں کر رہے ہیں ۔جہانگیر ترین چاہے جتنی بار یہ کہیں کہ وہ تحریک انصاف میں ہی شامل ہیں لیکن ان کی سرگرمیاں بتا رہی ہیں کہ وہ اور ان کا گروپ آئندہ الیکشن کیلئے صف بندی کر رہا ہے اور ترین گروپ آئندہ الیکشن کے بعد وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی کے حوالے سے اہم حیثیت حاصل کرے گا۔

مسلم لیگ(ن) دوبارہ سے فارم میں آ چکی ہے ، مریم نواز کشمیر الیکشن کے حوالے سے عمدہ اور موثر انتخابی مہم چلا رہی ہیں ،کشمیر الیکشن میں شاید مسلم لیگ(ن) فتح حاصل نہ کر سکے کیونکہ بر سر اقتدار حکومت کو مختلف وجوہات کی وجہ سے ہمیشہ فوقیت حاصل رہی ہے، اسٹیبلشمنٹ کے بھی اپنے مقاصد اور اہداف ہوتے ہیں لیکن یہ ضرور معلوم ہو رہا ہے کہ کشمیر الیکشن میں مسلم لیگ(ن) نے تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دیا ہوا ہے۔

پنجاب میں آئندہ الیکشن بہت دلچسپ ہوگا اور اصل مقابلہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے مابین ہی لڑا جائے گا ،بادی النظر میں ن لیگ کو تھوڑی سی برتری حاصل ہے مثال کے طور پر اگر لاہور کی بات کی جائے تو یہاں سے تحریک انصاف کے موجودہ اراکین اسمبلی میں سے ایک بڑی تعداد دوبارہ الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ،15 سے20 کے لگ بھگ ٹکٹ ہولڈرز اپنی پارٹی اور حکومت سے ناراض ہیں اس کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) کے اراکین اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز نے اپنے حلقوں میں کافی عرصہ سے منظم انداز میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اور موجودہ شدید مہنگائی اور بے روزگاری کی صورتحال انہیں عوام میں مزید رسائی اور مقبولیت دے رہی ہے۔

فیصل آباد میں بھی یہی صورتحال ہے اور وہاں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اپنے حلقوں کو مزید مضبوط کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں ۔حکومت کا المیہ یہ ہے کہ اس کے بہت سے وزراء اور اراکین اسمبلی اپنی موجودہ پوزیشن کو آئندہ الیکشن میں ووٹ بنک مضبوط کرنے کیلئے استعمال نہیں کر رہے، اول تو انہیں حلقوں سے دلچسپی نہیں اور اگر ہے بھی تو چند مخصوص لوگوں کو ان تک رسائی ہے ،پی ٹی آئی کا عام ووٹر اپنے رکن اسمبلی سے رابطہ ہی نہیں کر پاتا۔

اگر اس تھیوری کو بالفر ض محال تسلیم کر لیا جائے کہ آئندہ برس عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہے تو پھر اس تناظر میں تحریک انصاف کی پوزیشن بہت زیادہ مستحکم دکھائی نہیں دے رہی۔ایک تھیوری یہ بھی بیان کی جا رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا بڑا حصہ موجودہ حکومت سے خوش نہیں ہے اور وہ بھی ''متبادل'' آپشنز پر غور کر رہا ہے۔

عام آدمی یہ سوچ رہا ہے کہ اگر ماضی میں دونوں بڑی پارٹیوں نے خرابیاں کی ہیں تو اس حکومت نے بھی کچھ کم نہیں کیا بلکہ معاشی لحاظ سے تو یہ دور زیادہ تباہ کن ثابت ہوا ہے اب تک۔ آنے والے دنوں میں شاید حکومت کوئی انہونی کر دکھائے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اپنے اردگرد موجود لوگوں سے ''پرہیز'' کرنے کی اشد ضرورت ہے جو آج بھی کپتان کو''سب اچھا ہے'' کی رپورٹ دے رہے ہیں۔

یہ لوگ حکومت اور میڈیا کو آپس میں لڑوا چکے ہیں، یہی وہ افراد ہیں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ حکومت کے تعلقات کو نازک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جبکہ انہی ''ریلوں کٹوں''نے کپتان کو یہ سمجھا رکھا ہے کہ عوام حکومت سے بہت خوش ہیں اور آئندہ الیکشن تحریک انصاف بھاری اکثریت سے جیت جائے گی جبکہ جو ووٹ پاکستان میں کم ہوں گے وہ کمی اوور سیز ووٹ سے پوری ہو جائے گی۔ لہذا محترم وزیر اعظم کیلئے یہی گزارش ہے کہ خوشامدیوں سے پرہیز کریں۔
Load Next Story