پی ڈی ایم کے جلسے کے جواب میں وزیر اعلیٰ کا بھرپور سیاسی وار
وزیراعلیٰ نے مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر شہباز شریف سے لے کر مولانا فضل الرحمٰن تک سب ہی کو آڑے ہاتھوں لیا۔
ہفتہ رفتہ کے دوران خیبرپختونخوا میں سیاسی درجہ حرارت بلند رہا کیونکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے اپنے دورہ بونیر کے دوران جلسہ سے خطاب میں تمام سیاسی مخالفین کے لتے لے لیے جس کے جواب میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی بیانات داغنے کا سلسلہ جاری رہا۔
درحقیقت وزیراعلیٰ کو غصہ اس بات کا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے ان کے آبائی ضلع سوات میں اپنا جلسہ بھی کیا اور پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر تنقید کے تیر بھی برسائے جس کا جواب اگرچہ خود وزیر اعلیٰ محمودخان اور معاون خصوصی برائے اطلاعات کامران بنگش نے اسی روز بیانات کی صورت میں دے تو دیا تھا تاہم وزیراعلیٰ کو جب جلسہ کی صورت پلیٹ فارم میسر آیا تو انہوں نے اپوزیشن قائدین کو خوب کھری سنائیں۔
وزیراعلیٰ نے مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر شہباز شریف سے لے کر مولانا فضل الرحمٰن تک سب ہی کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبہ سے تعلق رکھنے والی اپوزیشن قیادت پر بھی چڑھائی کی۔
وزیراعلیٰ کے گرما گرم خطاب کے جواب میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی جوابی کاروائی کرنے کی کوشش کی تاہم یہ کوشش زیادہ باآور اس لیے ثابت نہ ہو سکی کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعلیٰ کے خلاف جوابی کاروائی کی ذمہ داری اپنے ترجمانوں کے حوالے کر دی حالانکہ یہی فریضہ اگر ان جماعتوں کے صوبائی سربراہ سرانجام دیتے تو بات شاید جم پاتی تاہم انہوں نے کسی ایک وجہ یا دوسری وجہ سے یہ ذمہ داری اپنے ترجمانوں کو سونپ کر خانہ پری کرنے کی کوشش کی۔
ایک جانب تو وزیراعلیٰ محمودخان اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان یہ ٹکراؤ ہوا تو ساتھ ہی دوسری جانب اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے سوات جلسہ میں طالبان کی افغانستان میں مسلسل پیش قدمی اور فتوحات کا خیر مقدم کرنے کے جواب میں ان کے خلاف مورچہ سنبھالتے ہوئے بھرپور جواب دینے کی کوشش کی اور ساتھ ہی عوام سے اس بات پر معذرت بھی کر لی کہ وہ اس پی ڈی ایم کا حصہ بنے تھے کہ جو آج پختونوں کا خون بہانے والوں کی ستائش کر رہی ہے ۔
چونکہ اے این پی کو اپنے شہید رہنما ہارون بلور کی تیسری برسی کے موقع پر منعقدہ جلسہ کی صورت ایک زبردست موقع ہاتھ لگا تھا اس لیے اے این پی کے رہنماؤں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان کی موجودہ صورت حال پر خوب دل کھول کر بات بھی کی اور پارٹی پالیسی بھی واضح کردی ،یقینی طور پر افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے پاکستان میں تشویش تو پائی جاتی ہے کیونکہ افغانستان ایک مرتبہ پھر بدامنی کا شکار ہونے جا رہا ہے اوراس صورت حال کے اثرات سے پاکستان کے لیے بھی بچنا مشکل ہو جائے گا اسی لیے اے این پی کی جانب سے کھل کر مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہر قسم کی بیرونی مداخلت سے گریز کرتے ہوئے افغانستان کی عوام کو یہ موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں، اے این پی کے علاوہ یہ مطالبہ دیگرسیاسی قوتوں کی جانب سے بھی کیا جا رہا ہے۔
تاہم افغانستان کی اس وقت جو صورت حال ہے اس میں ایسے مطالبات بے معنی دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ وہاں طاقت کی زبان بولی اور سمجھی جا رہی ہے۔ اگرچہ امریکہ اور نیٹوفورسز کے افغانستان سے انخلاء کے باوجود وہاں ایک منتخب حکومت اور ڈاکٹر اشرف غنی افغان صدرکے طور پر منظرمیں موجود ہیں تاہم طالبان نے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کا سلسلہ شروع ہوتے ہی جو طریقہ کار اپنایا اور جس طریقہ سے افغانستان کو بتدریج فتح کرنے کا سلسلہ شروع کیا وہ ایک بالکل واضح پالیسی کے تحت کیا گیا جس کے مطابق طالبان بالادستی حاصل کرتے ہوئے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی کا فیصلہ کراسکیں اور یہ فیصلہ کچھ اور نہیں بلکہ یہی ہے کہ چونکہ انہوں نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر افغانستان فتح کر لیا ہے اس لیے حکومت کرنے کا حق بھی کسی اور کو نہیں بلکہ انھیں ہی ہے اور اسی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان میں سیاسی قوتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ اس بات کی خواہاں ہیں کہ امریکہ اور نیٹو ممالک یہاں سے نکلنے سے قبل افغان مسلہ کو حل کرکے جائیں جس کی ایک صورت اسلامی ممالک کی افواج کی تقرری بھی ہو سکتی ہے تاکہ ان کی نگرانی میں نئے انتخابات کراتے ہوئے حکومت افغان عوام کے نمائندوں کو سونپی جا سکے۔
افغانستان میں کیا ہوگا؟اس بارے میں صورت حال آنے والے دنوںہی میں واضح ہوگی تاہم خیبرپختونخوا کا معاملہ یہ ہے کہ ایک جانب تو سیاسی بیانات کی وجہ سے گرما گرمی ہے تو ساتھ ہی صوبائی حکومت نے سیاسی قائدین اور حکومتی عہدیداروں سے سیکورٹی یا تو واپس لے لی ہے یا پھر کم کردی ہے جس کی وجہ سے اپوزیشن کو حکومت پر مزید تنقید کرنے کا موقع مل گیا ہے کیونکہ جن اپوزیشن قائدین سے سیکورٹی اہلکاروں کی خدمات واپس لی گئی ہیں وہ پہلے ہی سے پاکستان تحریک انصاف کے سخت ناقدین ہیں اور اس اقدام کی وجہ سے انھیں حکومت کو مزید تنقید کا نشانہ بنانے کا موقع مل گیا ہے۔
گوکہ وزیراعظم کی ہدایات کے مطابق وفاقی وزراء اور بیوروکریٹس کی سیکورٹی بھی کم کی گئی ہے تاہم یہ بات واضح ہے کہ یہ معاملات بہرکیف حکومت کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوتے ہیں اور وہ کمی بیشی کو پورا کر لیں گے تاہم جہاں تک اپوزیشن رہنماؤں کا تعلق ہے تو ان سے واپس لی گئی سیکورٹی انھیں دوبارہ ملنا مشکل ہوگی اور اگر ایسا ہوا بھی تو اس کے لیے انھیں حکومت سے درخواست کرنی پڑے گی ۔ اور اس کے ساتھ ہی سوات کے کڈنی ہسپتال کے نام کی تبدیلی کا معاملہ بھی گرم ہے ،مذکورہ ہسپتال سابق وزیراعظم نواز شریف کے نام پر قائم ہے۔
تاہم اب خیبرپختونخوا کی حکومت نے ہسپتال کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ سطور قارئین کے زیر مطالعہ آنے تک اس سلسلے میں حتمی طور پر فیصلہ بھی ہوچکا ہوگا جس کے خلاف مسلم لیگ ن کے رہنما شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ اب چونکہ ستمبر، اکتوبر کے مہینے قریب آگئے ہیں اس لیے سیاسی جماعتوں میں بھی ہلچل دکھائی دے رہی ہے کیونکہ پہلے ان سیاسی جماعتوں کو کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے لیے ایک دوسرے سے نبردآزما ہونا ہے اور اس کے بعد بلدیاتی انتخابات کے لیے ،پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتیں تاحال یہ فیصلہ نہیں کر پائیں کہ انہوں نے ان انتخابات کے حوالے سے کیا کرنا ہے؟
اگر تو ان جماعتوں میں سے ہر ایک تنہا پرواز کرتی ہے تواس کا فائدہ یقینی طور پر پاکستان تحریک انصاف کو ہی ہوگا اس لیے اپوزیشن جماعتوں کو یکجا ہوکر ہی میدان میں اترنا ہوگا تاہم زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں یکجا ہوتی بھی ہیں تب بھی کم ازکم دو سے تین اپوزیشن گروپ میدان میں ہونگے، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا اپنا گروپ ہوگا تو اے این پی و پیپلزپارٹی کا اپنا الگ گروپ اور جماعت اسلامی الگ سے میدان میں موجود ہوگی اس لیے پاکستان تحریک انصاف ،اپوزیشن کے اس بکھرے پن کا پورے طریقہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی کیونکہ جو بلدیاتی نمائندے اس سال منتخب ہونگے وہ 2025ء تک خدمات انجام دینگے اور جس پارٹی کے نمائندوں کی تعداد زیادہ ہوگی اسے 2023ء کے عام انتخابات میں نچلی سطح پر اتنی ہی زیادہ سپورٹ حاصل ہوگی۔n
ہفتہ رفتہ کے دوران خیبرپختونخوا میں سیاسی درجہ حرارت بلند رہا کیونکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے اپنے دورہ بونیر کے دوران جلسہ سے خطاب میں تمام سیاسی مخالفین کے لتے لے لیے جس کے جواب میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی بیانات داغنے کا سلسلہ جاری رہا، درحقیقت وزیراعلیٰ کو غصہ اس بات کا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے ان کے آبائی ضلع سوات میں اپنا جلسہ بھی کیا اور پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر تنقید کے تیر بھی برسائے جس کا جواب اگرچہ خود وزیر اعلیٰ محمودخان اور معاون خصوصی برائے اطلاعات کامران بنگش نے اسی روز بیانات کی صورت میں دے تو دیا تھا تاہم وزیراعلیٰ کو جب جلسہ کی صورت پلیٹ فارم میسر آیا تو انہوں نے اپوزیشن قائدین کو خوب کھری سنائیں، وزیراعلیٰ نے مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر شہباز شریف سے لے کر مولانا فضل الرحمٰن تک سب ہی کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبہ سے تعلق رکھنے والی اپوزیشن قیادت پر بھی چڑھائی کی۔
وزیراعلیٰ کے گرما گرم خطاب کے جواب میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی جوابی کاروائی کرنے کی کوشش کی تاہم یہ کوشش زیادہ باآور اس لیے ثابت نہ ہو سکی کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعلیٰ کے خلاف جوابی کاروائی کی ذمہ داری اپنے ترجمانوں کے حوالے کر دی حالانکہ یہی فریضہ اگر ان جماعتوں کے صوبائی سربراہ سرانجام دیتے تو بات شاید جم پاتی تاہم انہوں نے کسی ایک وجہ یا دوسری وجہ سے یہ ذمہ داری اپنے ترجمانوں کو سونپ کر خانہ پری کرنے کی کوشش کی۔
ایک جانب تو وزیراعلیٰ محمودخان اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان یہ ٹکراؤ ہوا تو ساتھ ہی دوسری جانب اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے سوات جلسہ میں طالبان کی افغانستان میں مسلسل پیش قدمی اور فتوحات کا خیر مقدم کرنے کے جواب میں ان کے خلاف مورچہ سنبھالتے ہوئے بھرپور جواب دینے کی کوشش کی اور ساتھ ہی عوام سے اس بات پر معذرت بھی کر لی کہ وہ اس پی ڈی ایم کا حصہ بنے تھے کہ جو آج پختونوں کا خون بہانے والوں کی ستائش کر رہی ہے ۔
چونکہ اے این پی کو اپنے شہید رہنما ہارون بلور کی تیسری برسی کے موقع پر منعقدہ جلسہ کی صورت ایک زبردست موقع ہاتھ لگا تھا اس لیے اے این پی کے رہنماؤں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان کی موجودہ صورت حال پر خوب دل کھول کر بات بھی کی اور پارٹی پالیسی بھی واضح کردی ،یقینی طور پر افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے پاکستان میں تشویش تو پائی جاتی ہے کیونکہ افغانستان ایک مرتبہ پھر بدامنی کا شکار ہونے جا رہا ہے اوراس صورت حال کے اثرات سے پاکستان کے لیے بھی بچنا مشکل ہو جائے گا اسی لیے اے این پی کی جانب سے کھل کر مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہر قسم کی بیرونی مداخلت سے گریز کرتے ہوئے افغانستان کی عوام کو یہ موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں۔
اے این پی کے علاوہ یہ مطالبہ دیگرسیاسی قوتوں کی جانب سے بھی کیا جا رہا ہے تاہم افغانستان کی اس وقت جو صورت حال ہے اس میں ایسے مطالبات بے معنی دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ وہاں طاقت کی زبان بولی اور سمجھی جا رہی ہے۔
اگرچہ امریکہ اور نیٹوفورسز کے افغانستان سے انخلاء کے باوجود وہاں ایک منتخب حکومت اور ڈاکٹر اشرف غنی افغان صدرکے طور پر منظرمیں موجود ہیں تاہم طالبان نے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کا سلسلہ شروع ہوتے ہی جو طریقہ کار اپنایا اور جس طریقہ سے افغانستان کو بتدریج فتح کرنے کا سلسلہ شروع کیا وہ ایک بالکل واضح پالیسی کے تحت کیا گیا جس کے مطابق طالبان بالادستی حاصل کرتے ہوئے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی کا فیصلہ کراسکیں اور یہ فیصلہ کچھ اور نہیں بلکہ یہی ہے کہ چونکہ انہوں نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر افغانستان فتح کر لیا ہے اس لیے حکومت کرنے کا حق بھی کسی اور کو نہیں بلکہ انھیںہی ہے اور اسی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان میں سیاسی قوتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ اس بات کی خواہاں ہیں کہ امریکہ اور نیٹو ممالک یہاں سے نکلنے سے قبل افغان مسلہ کو حل کرکے جائیں جس کی ایک صورت اسلامی ممالک کی افواج کی تقرری بھی ہو سکتی ہے تاکہ ان کی نگرانی میں نئے انتخابات کراتے ہوئے حکومت افغان عوام کے نمائندوں کو سونپی جا سکے۔
افغانستان میں کیا ہوگا؟اس بارے میں صورت حال آنے والے دنوںہی میں واضح ہوگی تاہم خیبرپختونخوا کا معاملہ یہ ہے کہ ایک جانب تو سیاسی بیانات کی وجہ سے گرما گرمی ہے تو ساتھ ہی صوبائی حکومت نے سیاسی قائدین اور حکومتی عہدیداروں سے سیکورٹی یا تو واپس لے لی ہے یا پھر کم کردی ہے جس کی وجہ سے اپوزیشن کو حکومت پر مزید تنقید کرنے کا موقع مل گیا ہے کیونکہ جن اپوزیشن قائدین سے سیکورٹی اہلکاروں کی خدمات واپس لی گئی ہیں وہ پہلے ہی سے پاکستان تحریک انصاف کے سخت ناقدین ہیں اور اس اقدام کی وجہ سے انھیں حکومت کو مزید تنقید کا نشانہ بنانے کا موقع مل گیا ہے۔
گوکہ وزیراعظم کی ہدایات کے مطابق وفاقی وزراء اور بیوروکریٹس کی سیکورٹی بھی کم کی گئی ہے تاہم یہ بات واضح ہے کہ یہ معاملات بہرکیف حکومت کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوتے ہیں اور وہ کمی بیشی کو پورا کر لیں گے تاہم جہاں تک اپوزیشن رہنماؤں کا تعلق ہے تو ان سے واپس لی گئی سیکورٹی انھیں دوبارہ ملنا مشکل ہوگی اور اگر ایسا ہوا بھی تو اس کے لیے انھیں حکومت سے درخواست کرنی پڑے گی ۔ اور اس کے ساتھ ہی سوات کے کڈنی ہسپتال کے نام کی تبدیلی کا معاملہ بھی گرم ہے ،مذکورہ ہسپتال سابق وزیراعظم نواز شریف کے نام پر قائم ہے تاہم اب خیبرپختونخوا کی حکومت نے ہسپتال کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ سطور قارئین کے زیر مطالعہ آنے تک اس سلسلے میں حتمی طور پر فیصلہ بھی ہوچکا ہوگا جس کے خلاف مسلم لیگ ن کے رہنما شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
اب چونکہ ستمبر، اکتوبر کے مہینے قریب آگئے ہیں اس لیے سیاسی جماعتوں میں بھی ہلچل دکھائی دے رہی ہے کیونکہ پہلے ان سیاسی جماعتوں کو کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے لیے ایک دوسرے سے نبردآزما ہونا ہے اور اس کے بعد بلدیاتی انتخابات کے لیے ،پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتیں تاحال یہ فیصلہ نہیں کر پائیں کہ انہوں نے ان انتخابات کے حوالے سے کیا کرنا ہے؟ اگر تو ان جماعتوں میں سے ہر ایک تنہا پرواز کرتی ہے تواس کا فائدہ یقینی طور پر پاکستان تحریک انصاف کو ہی ہوگا۔
اس لیے اپوزیشن جماعتوں کو یکجا ہوکر ہی میدان میں اترنا ہوگا تاہم زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں یکجا ہوتی بھی ہیں تب بھی کم ازکم دو سے تین اپوزیشن گروپ میدان میں ہونگے، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا اپنا گروپ ہوگا تو اے این پی و پیپلزپارٹی کا اپنا الگ گروپ اور جماعت اسلامی الگ سے میدان میں موجود ہوگی اس لیے پاکستان تحریک انصاف ،اپوزیشن کے اس بکھرے پن کا پورے طریقہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی کیونکہ جو بلدیاتی نمائندے اس سال منتخب ہونگے وہ 2025ء تک خدمات انجام دینگے اور جس پارٹی کے نمائندوں کی تعداد زیادہ ہوگی اسے 2023ء کے عام انتخابات میں نچلی سطح پر اتنی ہی زیادہ سپورٹ حاصل ہوگی۔
درحقیقت وزیراعلیٰ کو غصہ اس بات کا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے ان کے آبائی ضلع سوات میں اپنا جلسہ بھی کیا اور پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر تنقید کے تیر بھی برسائے جس کا جواب اگرچہ خود وزیر اعلیٰ محمودخان اور معاون خصوصی برائے اطلاعات کامران بنگش نے اسی روز بیانات کی صورت میں دے تو دیا تھا تاہم وزیراعلیٰ کو جب جلسہ کی صورت پلیٹ فارم میسر آیا تو انہوں نے اپوزیشن قائدین کو خوب کھری سنائیں۔
وزیراعلیٰ نے مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر شہباز شریف سے لے کر مولانا فضل الرحمٰن تک سب ہی کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبہ سے تعلق رکھنے والی اپوزیشن قیادت پر بھی چڑھائی کی۔
وزیراعلیٰ کے گرما گرم خطاب کے جواب میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی جوابی کاروائی کرنے کی کوشش کی تاہم یہ کوشش زیادہ باآور اس لیے ثابت نہ ہو سکی کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعلیٰ کے خلاف جوابی کاروائی کی ذمہ داری اپنے ترجمانوں کے حوالے کر دی حالانکہ یہی فریضہ اگر ان جماعتوں کے صوبائی سربراہ سرانجام دیتے تو بات شاید جم پاتی تاہم انہوں نے کسی ایک وجہ یا دوسری وجہ سے یہ ذمہ داری اپنے ترجمانوں کو سونپ کر خانہ پری کرنے کی کوشش کی۔
ایک جانب تو وزیراعلیٰ محمودخان اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان یہ ٹکراؤ ہوا تو ساتھ ہی دوسری جانب اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے سوات جلسہ میں طالبان کی افغانستان میں مسلسل پیش قدمی اور فتوحات کا خیر مقدم کرنے کے جواب میں ان کے خلاف مورچہ سنبھالتے ہوئے بھرپور جواب دینے کی کوشش کی اور ساتھ ہی عوام سے اس بات پر معذرت بھی کر لی کہ وہ اس پی ڈی ایم کا حصہ بنے تھے کہ جو آج پختونوں کا خون بہانے والوں کی ستائش کر رہی ہے ۔
چونکہ اے این پی کو اپنے شہید رہنما ہارون بلور کی تیسری برسی کے موقع پر منعقدہ جلسہ کی صورت ایک زبردست موقع ہاتھ لگا تھا اس لیے اے این پی کے رہنماؤں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان کی موجودہ صورت حال پر خوب دل کھول کر بات بھی کی اور پارٹی پالیسی بھی واضح کردی ،یقینی طور پر افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے پاکستان میں تشویش تو پائی جاتی ہے کیونکہ افغانستان ایک مرتبہ پھر بدامنی کا شکار ہونے جا رہا ہے اوراس صورت حال کے اثرات سے پاکستان کے لیے بھی بچنا مشکل ہو جائے گا اسی لیے اے این پی کی جانب سے کھل کر مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہر قسم کی بیرونی مداخلت سے گریز کرتے ہوئے افغانستان کی عوام کو یہ موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں، اے این پی کے علاوہ یہ مطالبہ دیگرسیاسی قوتوں کی جانب سے بھی کیا جا رہا ہے۔
تاہم افغانستان کی اس وقت جو صورت حال ہے اس میں ایسے مطالبات بے معنی دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ وہاں طاقت کی زبان بولی اور سمجھی جا رہی ہے۔ اگرچہ امریکہ اور نیٹوفورسز کے افغانستان سے انخلاء کے باوجود وہاں ایک منتخب حکومت اور ڈاکٹر اشرف غنی افغان صدرکے طور پر منظرمیں موجود ہیں تاہم طالبان نے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کا سلسلہ شروع ہوتے ہی جو طریقہ کار اپنایا اور جس طریقہ سے افغانستان کو بتدریج فتح کرنے کا سلسلہ شروع کیا وہ ایک بالکل واضح پالیسی کے تحت کیا گیا جس کے مطابق طالبان بالادستی حاصل کرتے ہوئے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی کا فیصلہ کراسکیں اور یہ فیصلہ کچھ اور نہیں بلکہ یہی ہے کہ چونکہ انہوں نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر افغانستان فتح کر لیا ہے اس لیے حکومت کرنے کا حق بھی کسی اور کو نہیں بلکہ انھیں ہی ہے اور اسی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان میں سیاسی قوتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ اس بات کی خواہاں ہیں کہ امریکہ اور نیٹو ممالک یہاں سے نکلنے سے قبل افغان مسلہ کو حل کرکے جائیں جس کی ایک صورت اسلامی ممالک کی افواج کی تقرری بھی ہو سکتی ہے تاکہ ان کی نگرانی میں نئے انتخابات کراتے ہوئے حکومت افغان عوام کے نمائندوں کو سونپی جا سکے۔
افغانستان میں کیا ہوگا؟اس بارے میں صورت حال آنے والے دنوںہی میں واضح ہوگی تاہم خیبرپختونخوا کا معاملہ یہ ہے کہ ایک جانب تو سیاسی بیانات کی وجہ سے گرما گرمی ہے تو ساتھ ہی صوبائی حکومت نے سیاسی قائدین اور حکومتی عہدیداروں سے سیکورٹی یا تو واپس لے لی ہے یا پھر کم کردی ہے جس کی وجہ سے اپوزیشن کو حکومت پر مزید تنقید کرنے کا موقع مل گیا ہے کیونکہ جن اپوزیشن قائدین سے سیکورٹی اہلکاروں کی خدمات واپس لی گئی ہیں وہ پہلے ہی سے پاکستان تحریک انصاف کے سخت ناقدین ہیں اور اس اقدام کی وجہ سے انھیں حکومت کو مزید تنقید کا نشانہ بنانے کا موقع مل گیا ہے۔
گوکہ وزیراعظم کی ہدایات کے مطابق وفاقی وزراء اور بیوروکریٹس کی سیکورٹی بھی کم کی گئی ہے تاہم یہ بات واضح ہے کہ یہ معاملات بہرکیف حکومت کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوتے ہیں اور وہ کمی بیشی کو پورا کر لیں گے تاہم جہاں تک اپوزیشن رہنماؤں کا تعلق ہے تو ان سے واپس لی گئی سیکورٹی انھیں دوبارہ ملنا مشکل ہوگی اور اگر ایسا ہوا بھی تو اس کے لیے انھیں حکومت سے درخواست کرنی پڑے گی ۔ اور اس کے ساتھ ہی سوات کے کڈنی ہسپتال کے نام کی تبدیلی کا معاملہ بھی گرم ہے ،مذکورہ ہسپتال سابق وزیراعظم نواز شریف کے نام پر قائم ہے۔
تاہم اب خیبرپختونخوا کی حکومت نے ہسپتال کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ سطور قارئین کے زیر مطالعہ آنے تک اس سلسلے میں حتمی طور پر فیصلہ بھی ہوچکا ہوگا جس کے خلاف مسلم لیگ ن کے رہنما شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ اب چونکہ ستمبر، اکتوبر کے مہینے قریب آگئے ہیں اس لیے سیاسی جماعتوں میں بھی ہلچل دکھائی دے رہی ہے کیونکہ پہلے ان سیاسی جماعتوں کو کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے لیے ایک دوسرے سے نبردآزما ہونا ہے اور اس کے بعد بلدیاتی انتخابات کے لیے ،پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتیں تاحال یہ فیصلہ نہیں کر پائیں کہ انہوں نے ان انتخابات کے حوالے سے کیا کرنا ہے؟
اگر تو ان جماعتوں میں سے ہر ایک تنہا پرواز کرتی ہے تواس کا فائدہ یقینی طور پر پاکستان تحریک انصاف کو ہی ہوگا اس لیے اپوزیشن جماعتوں کو یکجا ہوکر ہی میدان میں اترنا ہوگا تاہم زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں یکجا ہوتی بھی ہیں تب بھی کم ازکم دو سے تین اپوزیشن گروپ میدان میں ہونگے، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا اپنا گروپ ہوگا تو اے این پی و پیپلزپارٹی کا اپنا الگ گروپ اور جماعت اسلامی الگ سے میدان میں موجود ہوگی اس لیے پاکستان تحریک انصاف ،اپوزیشن کے اس بکھرے پن کا پورے طریقہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی کیونکہ جو بلدیاتی نمائندے اس سال منتخب ہونگے وہ 2025ء تک خدمات انجام دینگے اور جس پارٹی کے نمائندوں کی تعداد زیادہ ہوگی اسے 2023ء کے عام انتخابات میں نچلی سطح پر اتنی ہی زیادہ سپورٹ حاصل ہوگی۔n
ہفتہ رفتہ کے دوران خیبرپختونخوا میں سیاسی درجہ حرارت بلند رہا کیونکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے اپنے دورہ بونیر کے دوران جلسہ سے خطاب میں تمام سیاسی مخالفین کے لتے لے لیے جس کے جواب میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی بیانات داغنے کا سلسلہ جاری رہا، درحقیقت وزیراعلیٰ کو غصہ اس بات کا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے ان کے آبائی ضلع سوات میں اپنا جلسہ بھی کیا اور پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر تنقید کے تیر بھی برسائے جس کا جواب اگرچہ خود وزیر اعلیٰ محمودخان اور معاون خصوصی برائے اطلاعات کامران بنگش نے اسی روز بیانات کی صورت میں دے تو دیا تھا تاہم وزیراعلیٰ کو جب جلسہ کی صورت پلیٹ فارم میسر آیا تو انہوں نے اپوزیشن قائدین کو خوب کھری سنائیں، وزیراعلیٰ نے مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر شہباز شریف سے لے کر مولانا فضل الرحمٰن تک سب ہی کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبہ سے تعلق رکھنے والی اپوزیشن قیادت پر بھی چڑھائی کی۔
وزیراعلیٰ کے گرما گرم خطاب کے جواب میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی جوابی کاروائی کرنے کی کوشش کی تاہم یہ کوشش زیادہ باآور اس لیے ثابت نہ ہو سکی کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعلیٰ کے خلاف جوابی کاروائی کی ذمہ داری اپنے ترجمانوں کے حوالے کر دی حالانکہ یہی فریضہ اگر ان جماعتوں کے صوبائی سربراہ سرانجام دیتے تو بات شاید جم پاتی تاہم انہوں نے کسی ایک وجہ یا دوسری وجہ سے یہ ذمہ داری اپنے ترجمانوں کو سونپ کر خانہ پری کرنے کی کوشش کی۔
ایک جانب تو وزیراعلیٰ محمودخان اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان یہ ٹکراؤ ہوا تو ساتھ ہی دوسری جانب اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے سوات جلسہ میں طالبان کی افغانستان میں مسلسل پیش قدمی اور فتوحات کا خیر مقدم کرنے کے جواب میں ان کے خلاف مورچہ سنبھالتے ہوئے بھرپور جواب دینے کی کوشش کی اور ساتھ ہی عوام سے اس بات پر معذرت بھی کر لی کہ وہ اس پی ڈی ایم کا حصہ بنے تھے کہ جو آج پختونوں کا خون بہانے والوں کی ستائش کر رہی ہے ۔
چونکہ اے این پی کو اپنے شہید رہنما ہارون بلور کی تیسری برسی کے موقع پر منعقدہ جلسہ کی صورت ایک زبردست موقع ہاتھ لگا تھا اس لیے اے این پی کے رہنماؤں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان کی موجودہ صورت حال پر خوب دل کھول کر بات بھی کی اور پارٹی پالیسی بھی واضح کردی ،یقینی طور پر افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے پاکستان میں تشویش تو پائی جاتی ہے کیونکہ افغانستان ایک مرتبہ پھر بدامنی کا شکار ہونے جا رہا ہے اوراس صورت حال کے اثرات سے پاکستان کے لیے بھی بچنا مشکل ہو جائے گا اسی لیے اے این پی کی جانب سے کھل کر مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہر قسم کی بیرونی مداخلت سے گریز کرتے ہوئے افغانستان کی عوام کو یہ موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں۔
اے این پی کے علاوہ یہ مطالبہ دیگرسیاسی قوتوں کی جانب سے بھی کیا جا رہا ہے تاہم افغانستان کی اس وقت جو صورت حال ہے اس میں ایسے مطالبات بے معنی دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ وہاں طاقت کی زبان بولی اور سمجھی جا رہی ہے۔
اگرچہ امریکہ اور نیٹوفورسز کے افغانستان سے انخلاء کے باوجود وہاں ایک منتخب حکومت اور ڈاکٹر اشرف غنی افغان صدرکے طور پر منظرمیں موجود ہیں تاہم طالبان نے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کا سلسلہ شروع ہوتے ہی جو طریقہ کار اپنایا اور جس طریقہ سے افغانستان کو بتدریج فتح کرنے کا سلسلہ شروع کیا وہ ایک بالکل واضح پالیسی کے تحت کیا گیا جس کے مطابق طالبان بالادستی حاصل کرتے ہوئے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی کا فیصلہ کراسکیں اور یہ فیصلہ کچھ اور نہیں بلکہ یہی ہے کہ چونکہ انہوں نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر افغانستان فتح کر لیا ہے اس لیے حکومت کرنے کا حق بھی کسی اور کو نہیں بلکہ انھیںہی ہے اور اسی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان میں سیاسی قوتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ اس بات کی خواہاں ہیں کہ امریکہ اور نیٹو ممالک یہاں سے نکلنے سے قبل افغان مسلہ کو حل کرکے جائیں جس کی ایک صورت اسلامی ممالک کی افواج کی تقرری بھی ہو سکتی ہے تاکہ ان کی نگرانی میں نئے انتخابات کراتے ہوئے حکومت افغان عوام کے نمائندوں کو سونپی جا سکے۔
افغانستان میں کیا ہوگا؟اس بارے میں صورت حال آنے والے دنوںہی میں واضح ہوگی تاہم خیبرپختونخوا کا معاملہ یہ ہے کہ ایک جانب تو سیاسی بیانات کی وجہ سے گرما گرمی ہے تو ساتھ ہی صوبائی حکومت نے سیاسی قائدین اور حکومتی عہدیداروں سے سیکورٹی یا تو واپس لے لی ہے یا پھر کم کردی ہے جس کی وجہ سے اپوزیشن کو حکومت پر مزید تنقید کرنے کا موقع مل گیا ہے کیونکہ جن اپوزیشن قائدین سے سیکورٹی اہلکاروں کی خدمات واپس لی گئی ہیں وہ پہلے ہی سے پاکستان تحریک انصاف کے سخت ناقدین ہیں اور اس اقدام کی وجہ سے انھیں حکومت کو مزید تنقید کا نشانہ بنانے کا موقع مل گیا ہے۔
گوکہ وزیراعظم کی ہدایات کے مطابق وفاقی وزراء اور بیوروکریٹس کی سیکورٹی بھی کم کی گئی ہے تاہم یہ بات واضح ہے کہ یہ معاملات بہرکیف حکومت کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوتے ہیں اور وہ کمی بیشی کو پورا کر لیں گے تاہم جہاں تک اپوزیشن رہنماؤں کا تعلق ہے تو ان سے واپس لی گئی سیکورٹی انھیں دوبارہ ملنا مشکل ہوگی اور اگر ایسا ہوا بھی تو اس کے لیے انھیں حکومت سے درخواست کرنی پڑے گی ۔ اور اس کے ساتھ ہی سوات کے کڈنی ہسپتال کے نام کی تبدیلی کا معاملہ بھی گرم ہے ،مذکورہ ہسپتال سابق وزیراعظم نواز شریف کے نام پر قائم ہے تاہم اب خیبرپختونخوا کی حکومت نے ہسپتال کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ سطور قارئین کے زیر مطالعہ آنے تک اس سلسلے میں حتمی طور پر فیصلہ بھی ہوچکا ہوگا جس کے خلاف مسلم لیگ ن کے رہنما شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
اب چونکہ ستمبر، اکتوبر کے مہینے قریب آگئے ہیں اس لیے سیاسی جماعتوں میں بھی ہلچل دکھائی دے رہی ہے کیونکہ پہلے ان سیاسی جماعتوں کو کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے لیے ایک دوسرے سے نبردآزما ہونا ہے اور اس کے بعد بلدیاتی انتخابات کے لیے ،پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتیں تاحال یہ فیصلہ نہیں کر پائیں کہ انہوں نے ان انتخابات کے حوالے سے کیا کرنا ہے؟ اگر تو ان جماعتوں میں سے ہر ایک تنہا پرواز کرتی ہے تواس کا فائدہ یقینی طور پر پاکستان تحریک انصاف کو ہی ہوگا۔
اس لیے اپوزیشن جماعتوں کو یکجا ہوکر ہی میدان میں اترنا ہوگا تاہم زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں یکجا ہوتی بھی ہیں تب بھی کم ازکم دو سے تین اپوزیشن گروپ میدان میں ہونگے، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا اپنا گروپ ہوگا تو اے این پی و پیپلزپارٹی کا اپنا الگ گروپ اور جماعت اسلامی الگ سے میدان میں موجود ہوگی اس لیے پاکستان تحریک انصاف ،اپوزیشن کے اس بکھرے پن کا پورے طریقہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی کیونکہ جو بلدیاتی نمائندے اس سال منتخب ہونگے وہ 2025ء تک خدمات انجام دینگے اور جس پارٹی کے نمائندوں کی تعداد زیادہ ہوگی اسے 2023ء کے عام انتخابات میں نچلی سطح پر اتنی ہی زیادہ سپورٹ حاصل ہوگی۔