بینک ڈپازٹس 198 کھرب روپے کی بلندترین سطح پر پہنچ گئے
ڈپازٹس میں اضافے کی شرح 14 سال میں سب سے زیادہ، 22 فیصد ریکارڈ کی گئی
مالی سال 2020-21ء میں بینکوں کے ڈپازٹس 22 فیصد کی شرح سے بڑھ کر 19.8کھرب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے جب کہ ان میں حکومتی، نجی شعبے اور ہاؤس ہولڈ ڈپازٹس شامل ہیں۔
ٹاپ لائن ریسرچ کے مطابق 30جون 2020ء کو بینک ڈپازٹس 16.2 کھرب روپے تھے۔ 22 فیصد بینکوں کے ڈپازٹس میں اضافے کی کی 14سال میں سب سے زیادہ شرح ہے۔
عارف حبیب کے ریسرچ ہیڈ طاہر عباس کہتے ہیں کہ معاشی سرگرمیوں کے فروغ پانے سے کاروبارں اور افراد کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں بینکوں کے ڈپازٹس بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
گزشتہ مالی سال میں ملکی معیشت نے 4 فیصد کی شرح سے ترقی کی جبکہ 2019-20ء میں معاشی نمو کی شرح محض 0.5 فیصد رہی تھی۔ رواں مالی سال کے لیے حکومت نے معاشی نمو کا ہدف 4.8 فیصد مقرر کیا ہے۔
ٹاپ لائن ریسرچ کے مطابق بینکوں کے ڈپازٹس میں اضافے میں بیرون ملک مصروف کار پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر نے بھی اہم کردار ادا کیا جو 29.4 ارب ڈالرکے ساتھ بلندترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
میزان بینک کے پروڈکٹ ڈیولپمنٹ ہیڈ اور شریعہ کمپلائنس کے سینئر ایگزیکٹیو وائس پریزیڈینٹ احمد علی صدیقی کہتے ہیں کہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے کمرشل بینکوں سے بے تحاشا قرض لینے، ڈیجیٹل بینکاری کے فروغ اور زیادہ مقدار میں نوٹ چھاپنے سے بھی بینک ڈپازٹس میں اضافہ ہوا۔
ٹاپ لائن ریسرچ کے مطابق 30جون 2020ء کو بینک ڈپازٹس 16.2 کھرب روپے تھے۔ 22 فیصد بینکوں کے ڈپازٹس میں اضافے کی کی 14سال میں سب سے زیادہ شرح ہے۔
عارف حبیب کے ریسرچ ہیڈ طاہر عباس کہتے ہیں کہ معاشی سرگرمیوں کے فروغ پانے سے کاروبارں اور افراد کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں بینکوں کے ڈپازٹس بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
گزشتہ مالی سال میں ملکی معیشت نے 4 فیصد کی شرح سے ترقی کی جبکہ 2019-20ء میں معاشی نمو کی شرح محض 0.5 فیصد رہی تھی۔ رواں مالی سال کے لیے حکومت نے معاشی نمو کا ہدف 4.8 فیصد مقرر کیا ہے۔
ٹاپ لائن ریسرچ کے مطابق بینکوں کے ڈپازٹس میں اضافے میں بیرون ملک مصروف کار پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر نے بھی اہم کردار ادا کیا جو 29.4 ارب ڈالرکے ساتھ بلندترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
میزان بینک کے پروڈکٹ ڈیولپمنٹ ہیڈ اور شریعہ کمپلائنس کے سینئر ایگزیکٹیو وائس پریزیڈینٹ احمد علی صدیقی کہتے ہیں کہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے کمرشل بینکوں سے بے تحاشا قرض لینے، ڈیجیٹل بینکاری کے فروغ اور زیادہ مقدار میں نوٹ چھاپنے سے بھی بینک ڈپازٹس میں اضافہ ہوا۔