میں ایک عورت ہوں اور خود اپنا سامان اٹھا سکتی ہوں شکریہ
کسی بھی ملک کی ثقافت کو جاننے کیلئے ایئرپورٹ اچھا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ بھی ایساہی ہے۔
میڈم آپ کو قلی چاہیے؟ فوٹو: CREATIVE COMMONS
کسی بھی ملک کی ثقافت کو جاننے کے لیے ایئرپورٹ اچھا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔ لاہور کا علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ بھی ایسا ہی ہے۔
اس معمولی موضوع کے بارے میں لکھنے کی وجہ بھی وہ مایوسی بنی جو کہ میں نے اس ایئرپورٹ پرآمد کے وقت محسوس کی۔ اس تجربے نے مجھے بے تحاشا غصہ دلایا اور جو میں آپ کو بتانے جا رہی ہوں وہ اس معاملے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے تاکہ آپ میری آزمائش سمجھ سکیں۔
کینیڈا سے 12 گھنٹے کی پرواز کے بعد میں سامان موصول کرنے کی جگہ کی جانب بڑھ رہی تھی کہ میں نے دیکھا کہ پورٹرز کی ایک بڑی تعداد گاہکوں کو گھیرنے کے لئے کھڑی تھی۔ ان میں سے ایک پورٹر نے مجھے مخاطب کیا اور کہا،
میڈم، پورٹر چاہئے۔
میں نے اس پشکش کو ٹھکرادیا لیکن میری تفریح کے لئے ان لوگوں کے ایک گروپ نے میرے گرد دائرہ بنا لیا اور وہی سوال دوبارہ پوچھنے لگے۔ ایسا نہیں تھا کہ میں نے اس کی پیشکش اس کی شخصیت یا ان کے مجھ تک رسائی کے انداز پر ٹھکرائی تھی۔ میں نے فرض کرلیا جب میں نے ایک پورٹر کو انکار کیا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے دوسرے پورٹرز کی مدد کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
میں نے اتنی ہی شائستگی سے منع کیا جنتان ممکن تھا لیکن جیسے ہی میں نے آگے چلنا شروع کیا تو میری مایوسی کے لئے کافی تھا کہ ایک کے پیچھے ایک پورٹر میری پیچھے چلتا رہا اور مجھ سے میرا سامان اٹھانے کے بارے میں پوچھتا رہا۔ میں نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنے ہی مہذب انداز میں ان کو انکار کردیا جتنا میں کر سکتی تھی۔
سامان موصول کرنے کے لیے انتظار کے دوران بالآخر میں نے اپنا سامان آتے ہوئے دیکھا۔ سامان لینے کے لیے میں آگے بڑھی لیکن جب میں نے ایسا کیا تو کئی نگاہیں مجھے دیکھنا شروع ہوگئیں۔ میں نے اپنی پریشانی جس کا مجھے سامنا تھا اسے نظر انداز کرتے ہوئےاپنا کچھ سامان اٹھانے کے لئے آگے بڑھی۔
اپنا سامان اٹھانے کی حیرت انگیز کوشش کے تناظر میں کئی قلی میری جانب بڑھے۔
مجھے ایسا محسوس ہوا جیسا کہ میں کیمرہ پر ہوں اور میری ہر حرکت کی جانچ کی جارہی ہو۔
پرتجسس نظریں مسلسل مجھ پر جمی ہوئی تھیں اور اسی دوران میں نے اپنا بقیہ سامان بھی اٹھالیا۔ اس کے بعد ان میں سے ایک نے خاموشی توڑی اور میرا سامان لے جانے کی ایک اور درخواست کر دی۔ اب میں نے محسوس کیا جیسے مجھے ہراساں کیا جارہا ہو اور میں نے مشتعل لہجے میں اسے دور جانے کے لئے کہا۔
میں نے غور کیا کہ جاتے ہوئے اس کے چہرے کے تمام رنگ اتر گئے۔ اسے پتا تھا کہ اس کے دیگر ساتھیوں اور دوسرے لوگوں نے بھی اس کی جانب میرے غصے کو محسوس کرلیا تھا۔ پاکستان میں عورتوں کو اس طرح غصہ کرنے کی اجازت نہیں ہے چاہے کوئی انہیں کتنا بھی پریشان کررہا ہو۔
جیسے ہی میں اپنا سامان باہر نکالنے کے لئے مڑی میں نے انہیں اپنے متعلق بات کرتے ہوئے سنا اور ان کے تبصرے اتنے بلند تھے کہ میں باآسانی انہیں سن سکتی تھی۔ اچھے لفظوں میں نہیں لیکن انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ میں ایک مغرور لڑکی ہوں۔
اس طرح مجھے لاہور میں خوش آمدید کہا گیا۔
اور یہ پہلی بار نہیں تھا کہ مجھے اس کوفت سے گزرنا پڑا۔ ہر دفعہ جب میں لاہور ایئرپورٹ پر اتراتی ہوں وہاں یہی ماحول غالب رہتا۔ مجھے معلوم ہے کہ ایک پورٹر کی خدمات حاصل کرکے شاید میں اس تمام اذیت سے بچ جاؤں گی لیکن مجھے تعجب ہے کہ یہاں اصل مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہوسکتا ہے (اگر کوئی ہوں)۔
میرے لئے اس احمقانہ معاملہ کی وجہ ہماری ثقافت کی جڑوں میں خواتین کے لیے موجود امتیاز ہے۔ کسی بھی غیرملک میں اگر آپ کو ضرورت ہے تو آپ پورٹر سے رجوع کریں گے جیسے کہ اگر آپ کو دودھ یا انڈے خریدنے کی ضرورت ہے تو آپ پرچون کی دکان کا رخ کرتے ہیں۔
لیکن یہاں یہ ہرگزقابل قبول نہیں ہے۔
میں اس طرح کے رویے کو مالی بدتری سے منسوب کروں گی، کیا میرے ساتھ سفر کرنے والے مردوں کو بھی اسی طرح کے تجربے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ان کو اس طرح کے رویوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور یہ واضح طور پر میرے ساتھ ایک عورت ہونے کی وجہ سے ہی کیا گیا اوریہاں یقینی بات یہ ہے کہ میرے ساتھ ایک آدمی کی غیر موجودگی کے باعث مجھے مدد کی ضرورت پڑے گی۔
میں یہ بات سمجھتی ہوں کہ بہت سی خواتین بھاری سامان اٹھانا نہیں چاہیں گی اور اکثر اوقات میں بھی ایسا کرتی ہوں لیکن یہ کوئی پتھر پر لکیر نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ زیادہ تر پاکستانی خواتین اکیلے سفر نہیں کرتیں اور بہت سی پورٹرز کی خدمات بھی حاصل کرتی ہیں جو ممکنہ طور پر اس یقین کو تقویت دیتا ہے کہ خواتین آزاد نہیں ہوسکتیں۔
اس کے علاوہ صرف یہ قلی ہی ہمارے معاشرے کے واحد فرد نہیں ہیں جو کھلا ذہن رکھنے والے معاشرے سے محروم ہیں۔ یہاں تک کہ جب خواتین پرہجوم بازاروں میں جاتی ہیں انہیں اپنا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بلکل ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں آپ مرد کے بغیر اکیلی عورت کی حیثیت سے نہیں جائیں گی۔
مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ اکثر خواتین کے کام کرنے، خوابوں کے تعمیل، عوامی مقام پر جانے یہاں تک کہ پاکستان سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقے میں جانے کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔
اگرچہ خواتین کی آزادی پر معاشرے کی تمام سطحوں میں ناپسندیدگی کا عنصر پایا جاتا ہے اس کا ثبوت ان چھوٹی چھوٹی مثالوں جیسا کہ ایئرپورٹ پر خواتین کے سامان کا پیچھا کرنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ روزمرہ کی زندگی کی نزاکتیں ہیں جو ہمارے معاشرے میں خواتین کے خلاف موجود تعصبات کو بیان کرتی ہیں۔
اگرچہ میں لوگوں کے درمیان اس خیال کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی خواہش کرتی ہوں، درحقیقت اس سوچ میں یہ تبدیلی فوری طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ اس سوچ کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
اور اس طرح لاہور کے علامہ اقبال ایئرپورٹ پر میرا استقبال صرف پاکستان میں خواتین کی زندگی کے تلخ حقائق کی یاد دہانی کے طور پر محفوظ ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔