بے طور زمانہ‘ پہلے اور اب

اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو خطروں کے بیچ بسر کرنا سیکھو۔ پتہ نہیں ہم زندہ رہنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں

rmvsyndlcate@gmail.com

کچھ سنا۔ اصغر ندیم سیّد بھی زد میں آ گئے۔ اس عزیز کے قارئین، سامعین' مداح' قدردان' ہوا خواہ بہت ہیں۔ سو تشویش اور فکر مندی کی لہر دور دور تک گئی۔ دور دور سے خیریت مطلوب ہوئی۔ بیشک بلائے ناگہانی نے آن پکڑا تھا۔ ولے بخیر گذشت۔ اپنے پرائے حیران ہو ہو کر پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہوا' کیسے ہوا' کیوں ہوا۔ عزیزو زمانہ پُرآشوب ہے۔ پر آشوب زمانوں میں کیسے اور کیوں سمجھ میں نہیں آیا کرتے۔ غنیمت جانو اور اللہ کا شکر ادا کرو کہ موت کنی کاٹ کر نکل گئی۔ بیمار کا حال اچھا ہے ورنہ یوں ہے کہ زمانہ ایسا ہے کہ کر تو ڈر' نہ کر تو ڈر۔

علامہ اقبال کیا خوب فرما گئے ہیں کہ؎

اگر خواہی حیات اندر خطر زی

اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو خطروں کے بیچ بسر کرنا سیکھو۔ پتہ نہیں ہم زندہ رہنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں۔ تو خطروں کے بیچ بسر کرنے کے آداب تو ہم نے کیا سیکھنے ہیں۔ بس یوں ہے کہ وہ جو حضرت علیؓ نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ اے غافل مسافرو تم ایسے اونٹوں پر سوار ہو جن کی آنکھیں بند ہیں اور جن کے حدی خواں سوئے ہوئے ہیں۔ سو ہم سوار کاہے کو بے اختیار بیٹھے ہیں۔ پھر بھی چلے جا رہے ہیں۔ کیسے اور کدھر' کچھ پتہ نہیں۔

کہیں تو جا کے رُکے گا سفینۂ غمِ دل

خطروں کے بیچ بسر کرنے کا معاملہ یہ ہے کہ ملک الموت کی بن آئی ہے۔ جانوں کی فصل کاٹتا چلا جا رہا ہے؎

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ

لیکن ؎

اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جئے جاتے ہیں

اور بازار میں نکل جائو تو لگتا ہے کہ راوی یاروں کے لیے چین لکھتا ہے۔ خریداروں کی گہما گہمی ہے۔ ہزاری بزاری۔ مصروف خریداری۔ دم کے دم میں ہزاروں لاکھوں کا سودا کرتے ہیں اور شاداں و فرحاں گھروں کو لوٹتے ہیں۔ اسی خلقت کے بیچ چوٹے اچکے بھی اپنا کام دکھاتے نظر آئیں گے۔ بُرے ڈاکے کے لیے بہت تردد کرنا پڑتا ہے۔ ان کا مشغلہ ہے۔ کھڑا کھیل فرخ آبادی۔ پستول دکھایا اور کہا کہ کہاں ہے تمہارا موبائل۔ دم کے دم میں موبائل لیا اور یہ جا وہ جا۔ اب سے پہلے چوٹوں اچکوں کی نظریں کلائی کی گھڑی پر ہوتی تھیں۔ دھمکا کر گھڑی اتروائی اور نو دو گیارہ ہو گئے۔ مگر یہ نئے زمانے کے اچکے ہیں۔ ان کی نظریں جیب میں پڑے موبائل پر ہیں۔ اور وہ کونسی جیب ہو گی جس میں موبائل نہیں ہو گا۔ عالم یہ ہے کہ صبح کو سڑکوں پر جھاڑو دینے والا ایک ہاتھ سے جھاڑو دے رہا ہے' دوسرے ہاتھ سے کان پر موبائل لگا رکھا ہے۔ چوٹے اچکے اب سے پہلے بھی اپنا کاروبار کرتے چلے آئے ہیں۔ بس فرق اس طرح پڑتا ہے کہ جب معاشرے کا' قوم کا شیرازہ بکھرا ہو اور انتظام و انصرام کی چولیں ڈھیلی ہوں تو وہ جو پہلے لُپ چھپ کر یہ کاروبار کرتے تھے اب شیر ہو جاتے ہیں۔ آخری دور مغلیہ اس سلسلہ میں تاریخ کے صفحوں میں بہت بدنام چلا آتا ہے۔ ان سے ہٹ کر جو نقشہ تھا وہ غالبؔ نے یوں بیان کیا ہے کہ؎

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ


پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

عجب' ثم العجب' غالبؔ کے وقت سے اب تک نقشہ وہی چلا آتا ہے ؎

نہ تم بدلے نہ ہم بدلے نہ رنگ آسماں بدلا

کتنے آئے' تیزی ترکی دکھائی اور چلے گئے۔ مار پیچھے پکار۔ نئے آنے والے کہتے ہیں کہ یہ ساری خرابی پچھلے پیدا کر کے گئے ہیں۔ ہم خرابیاں دور کریں گے۔ تھوڑا توقف' تھوڑا صبر' تھوڑی مہلت درکار ہے۔ یہ کہتے کہتے رخصت ہو جاتے ہیں۔ پرانی خرابیوں میں کچھ نئی خرابیوں کا اضافہ کر جاتے ہیں۔ نئی آمد' نئے نعرے' نئے وعدے وعید۔ نئے ہیرو۔ نئے نجات دہندگان۔ اور ہم آپ وہی موچی کے موچی۔

تو یہ ابتری کچھ نئی نہیں۔ اب سے پہلے بھی ابتر زمانے آئے اور گزر گئے۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ ابتری کسی صورت ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ ہمارے حساب سے دفع بھی ہو جاتی ہے۔ مگر پلٹ کر پھر آ جاتی ہے۔ مگر ایسے ابتر زمانوں میں بیچ بیچ میں ایسی بے لاگ روحیں بھی نمودار ہوتی تھیں جنھیں ہم اب تک یاد کرتے ہیں۔ یہ کہ زمانے کا طور بے طور ہوتے دیکھا اور پایا کہ ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی ہے تو دنیا کو ٹھوکر مار کر سب سے کنارہ کر کے الگ جا بیٹھتے تھے۔ کسی صوفی مزاج شاعر نے ایسا احوال یوں بیان کیا ہے ؎

شورے شد و از خواب عدم چشم کشودیم

دیدیم کہ باقیست شب فتنہ غنو دیم

ہم خواب عدم میں محو تھے کہ ایک شور سے آنکھ کھل گئی۔ ارد گرد دیکھا۔ ارے فتنہ کی رات تو ابھی تک جاری و ساری ہے۔ سو پھر آنکھیں موند لیں اور خراٹے لینے لگے۔

اور کسی کسی نے دیکھا کہ جینے کا تو اب کوئی قرینہ نہیں رہا۔ پھر میں کیوں جینے کا کشٹ کھینچ رہا ہوں۔ ایک فقیر چلتے چلتے ایک بزرگ کے آستانے پر رکا اور بولا کہ یا شیخ' زمانہ کا طور بہت بے طور ہو گیا۔ ہمیں اب مر جانا چاہیے۔ بزرگ نے اس کی سنی اور خاموش رہے۔ اگلے دن وہ فقیر پھر اسی راہ گزرا اور آستانے کے رو برو ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا۔ اور پھر وہی کلمہ زبان پر لایا کہ یاشیخ زمانے کا طور بہت بے طور ہو گیا ہے۔ ہمیں اب مر جانا چاہیے۔ بزرگ پھر خاموش رہے۔ تیسرے دن جب پھر اس آستانے پر پہنچ کر وہ فقیر ٹھٹھکا اور پھر وہی کلمہ زبان پر لایا کہ یا شیخ' زمانے کا طور بہت بے طور ہو گیا ہے۔ ہمیں اب مر جانا چاہیے۔

تب اس بزرگ نے گھور کر اسے دیکھا اور فرمایا کہ پھر مر جا۔

یہ سن کر اس فقیر نے بیچ راہ میں دراز ہو کر اینٹ پہ سر رکھ' آنکھیں موندیں اور کہا کہ یاشیخ' میں مر گیا۔ اور وہ مر گیا۔

مردان باصفا نے برے زمانوں میں آگے بڑھ کر موت کو لبیک کہنے کا کیا طور نکالا تھا۔ ہمارا زمانہ مردان باصفا سے خالی ہے۔ سو زمانہ بیشک طور سے بے طور ہو چکا ہے۔ مگر اپنی ہمت ہے یا بے ہمتی کہ ہم پھر بھی جئے جاتے ہیں۔ موت خود ہی سروں کی پکی فصل کو کاٹنے کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔
Load Next Story