سفاکی اور قانون سازی
جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو صرف ایک شعبہ زندگی میں نہیں بلکہ معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس کی عکاسی ہوتی ہے
KARACHI:
جب کسی ملک یا قوم پر زوال آتا ہے تو صرف ایک شعبہ زندگی میں نہیں آتا بلکہ معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس کی عکاسی ہوتی ہے، انسان طبعاً ایک جانور ہے اس کا نظام تنفس، ہاضمہ اور دیگر جسم کے اعضا و جوارح یہاں تک کہ نظام تولید اور پھر اپنی کالونیاں بنا کے رہنا مگر انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لیے اس میں ترقی کرنے کی صلاحیت موجود ہے، ہر دس پانچ سال بعد اس میں ترقی اور نمو دیکھنے میں آتی ہے جب کہ صدیوں سے جانوروں میں کوئی ترقی نہ ہوئی اور انسان نے ان کو اپنے زولوجیکل گارڈن میں بند کرکے اپنے بچوں کے لیے تفریح کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ قدرت نے انسانی دماغ کو اس قدر بیدار کر رکھا ہے کہ وہ 25 فیصد انسانی دماغ کے روشن ہونے پر کائنات کا مالک بن بیٹھا ہے۔
ایجادات کے ان روشن دریچوں کو کھول کر وہ حکمرانی کا دائرہ دیگر سیارگان کی طرف بڑھا رہا ہے، مراقبے کی کیفیت، مابعد الطبیعات اور طبیعات کی مختلف جہتوں کو جو الگ الگ رواں دواں ہیں ان کو قریب تر لانے کی کوشش میں سرگرداں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان طاقت اور جرأت سے دوسرے ممالک پر قبضہ کرتا تھا مگر اب جو وقت ہے اس میں حکمت سے ایک بٹن دبا کر نوعمر لڑکے اور لڑکیاں ڈرون حملوں کے ذریعے اپنے سے حد درجہ مضبوط، جرأت مند دشمن کو ہلاک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جنگ و جدل سے انسان نے قبضہ کرکے اپنا خیال، رجحانات، فلسفہ حیات اور زندگی کو آگے بڑھایا ہے۔ مگر ان ہی میں وہ گروہ اور وہ خیال انسانوں میں موجود رہا ہے جنھوں نے پیار، موسیقی، رقص، دھمال جو صوفیا کا طریقہ زندگی تھا، اپنے خیال کو آگے بڑھایا۔ مسالک خیالوں میں جنم لیتے ہیں اور رموز شناس قدرت سے لطف اندوز ہوکر رب کا شکر ادا کرتے ہیں، جس نے انسان کی جبلت کو محسوس کیا اور پھر قابو کیا اس نے جانوریت کے راستے کو ترک کیا جس کو نفس امارہ بھی کہہ سکتے ہیں، یہی راستہ نرم مزاجی، راست گوئی اور دائرہ انسانیت کو بڑھانے کا ہوتا ہے۔
ایک زمانے میں فارسی زبان جب چھٹی جماعت میں پڑھائی جاتی تھی تو بہت سی اخلاقی قدروں سے بچے روشناس ہوجاتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ان کو اپنا رہنما مان لیں اور وہ ضرب الامثال زندگی بھر طلبہ کا پیچھا کیا کرتی تھیں، مگر پروفیشنل ذریعہ تعلیم نے زندگی کے اخلاقی پہلوؤں کو یکسر دور کردیا ہے، جس کی وجہ سے اخلاقی تربیت ہونا بند ہوگئی ہے اور آئے دن ایسی خبریں آتی ہیں جن کا کبھی گمان بھی نہ ہوتا تھا مثلاً حالیہ دنوں میں ایک خبر نظر سے گزری کہ باپ نے اپنے 7 سالہ بچے کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ ظاہر ہے یہ کوئی عام خبر نہیں کہ اس پر قانون سازی کی جائے۔ یہ واقعہ، بچہ تو بچہ اور سب سے بڑھ کر اپنا بچہ اس کے ساتھ اس قدر سفاکی کا پہلو، نفسیاتی تشریحات کتنی ہی کیوں نہ کی جائیں یہ سب کی سب بے سود ہوں گی، ماسوائے اس کے کہ نفسیاتی طور پر ایک نئی معاشرت جنم لے رہی ہے۔ بچے آج کل پلاسٹک کی بنی پستولوں سے کھیل رہے ہیں، یہ ان کا پسندیدہ کھلونا ہے ہاں مگر لڑکیاں ابھی اس کھلونے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے میں یہ بھی اس کھیل میں مشغول ہوجائیں۔ ان کھیلوں میں ایک بچہ دوسرے پر حملہ کرتا ہے اور دوسرا بچہ جس کو گولی لگتی ہے آنکھ بند کرکے بستر پر گر پڑتا ہے، گویا وہ مر جاتا ہے۔ اگر معاشرے میں یہ کھیل بڑھا تو آگے چل کر کیا ہوگا؟ گویا مارنا، مرنا روز مرہ کا معمول اور مضبوط تر ہوتا جائے گا، لہٰذا نصاب تعلیم میں اخلاقی پہلوؤں کا اندراج بے حد ضروری ہوتا جا رہا ہے، خصوصیت کے ساتھ شعور کی ارتقا کے چند برس یعنی پانچویں، چھٹی، ساتویں کلاسوں میں۔
گزشتہ دنوں کی خبروں نے ایک عجیب بھونچال پیدا کردیا ایک خبر یہ آئی کہ کلفٹن کے علاقے بوٹ بیسن کے قریب ڈاکٹر سنیل کمار کے گھر کی چھٹی منزل سے ہریش کمار 10 یا 12 سالہ بچہ مار کے ڈر سے چھلانگ لگا کر کود پڑا۔ایک الزام یہ کہ اسے نیچے پھینک دیا گیا۔ دوسرا واقعہ لاہور کے ایک پروفیسر نے اپنی گھریلو ملازمہ بچی پر اتنے مظالم کیے کہ وہ ہلاک ہوگئی اور اس کی لاش میو اسپتال کے مردہ خانے میں پڑی رہی۔ ایک ظالم ہندو تھا تو دوسرا ظالم مسلمان۔ اخلاقیات اور انصاف کی روش کیا ہندو میں ہو یا مسلمان میں جو بھی دین کو انصاف سے پکڑے اور اخلاقی قدریں موجود ہوں اور جو سیرت نبی یا اپنے مذہب کے اعتبار سے اپنے دین کے اکابرین کے پیروکار بنیں گے وہی راستی سے روشناس ہوں گے مگر یہاں دونوں واقعات میں گھریلو ملازمین کے ساتھ مظالم ہوئے ہیں اور گھریلو ملازمین رکھنے کے واقعات میں آج نہیں مسلسل ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں کہ گھریلو ملازمین کے ساتھ بدسلوکی لوگوں کا وطیرہ بن گیا ہے اور ہر سال سیکڑوں لوگوں کے ساتھ یہ واقعات پیش آتے ہیں لہٰذا اس مسئلے پر قانون سازی کی ضرورت تھی جس کا ادراک کیا گیا ۔
لاکھوں کی تعداد میں لوگ جنوبی پنجاب، بھاولپور، رحیم یار خان اور اس کے اطراف کے چھوٹے شہروں اور گاؤں سے کراچی آتے جا رہے ہیں، ایک تو کراچی میں چھوٹے کاروباری لوگ، انڈسٹریل ایریا گودی کی برکات نے کراچی کو غریب پرور بنا رکھا ہے، ساحلی شہر، معتدل موسم، اعتدال پسند لوگ اور جمہوری تحریک سے وابستہ شہر کے خدوخال رفتہ رفتہ بدلتے چلے گئے۔ صوبہ پختونخوا سے آمد تو 1964 سے ہی شروع تھی جب کہ اندرون سندھ سے ہجرت اس قدر نہ تھی، کراچی کا موسم ہی نہیں بلکہ یہ رواداری یہاں کے پرندوں تک میں موجود ہے، شہر کے وسط صدر کراچی پریس کلب اور اس کے گرد و پیش بلڈنگوں اور چھتوں پر چیل اور کبوتر ایک ساتھ بسیرا کرتے اور اپنی نئی نسل کی تولید میں سرگرداں ہیں مگر رفتہ رفتہ یہ اعتدال پسندی سفاکی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ بے گناہوں کا قتل اور وہ بھی سفاکی سے قتل ایک عام روش بن گیا ہے۔ وہ نبی کاملﷺ جس نے فتح مکہ پر عام معافی کا اعلان کیا اور اس دن کو امن عالم اور انسانی حقوق کے لیے ایک مثال قرار دے دیا غرض زندگی کے تمام شعبوں میں سفاکی گھر کرتی جا رہی ہے۔ مذہب رواداری، ہمسایہ اور بزرگوں اور کمزوروں کے ساتھ سلوک انسانیت کی تربیت دیتا ہے اور لوگ پھر بھی انحراف کرتے ہوئے اپنی منشا کے ادیان کی پیروی میں مصروف ہیں۔
خداوند قدوس نے روز محشر بپا کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ جزا اور سزا کا مالک ہے مگر یہ بھی انسان نے اپنے کمزور ہاتھوں میں لے رکھا ہے اور خصوصیت کے ساتھ اس شہر کراچی سے جو وفا اٹھی ملک بھر میں پھیلتی چلی گئی، نہ اس سفاکی کو قرار ہے اور نہ جمود ہے، ہر زور آور اپنی سفاکی کی حس کو تقویت پہنچانے کے لیے زیر دست پر حملہ آور ہے۔ گھریلو ملازمین چونکہ وہ براہ راست زیردست ہیں یہ حکم عدولی یا ذرا سی لاپرواہی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق صرف کراچی شہر میں 20 لاکھ گھریلو ملازمین ہیں، کل ملازمین میں 10 فیصد ایسے ہیں جو اپنے آقاؤں کے گھروں میں رات گزارتے ہیں، ان کی زندگی کے متعلق کچھ کہنا قبل ازوقت ہے جو لوگ کہ انسان کے حقوق کو پہچانتے ہیں ان سے تو ملازمین کو خیر ہے یا بقیہ کا خدا ہی حافظ ہے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ گھریلو ملازمین کے لیے قوانین وضع کیے جائیں، ان کے لیے خصوصی کارڈ بنانے ہوں گے اور ادارہ جاتی کارروائی کو منظم کرنا ہوگا کیونکہ اس میں دہرے فائدے ہیں خود وہ لوگ جو ملازمین رکھتے ہیں بعض اوقات ان کے جان و مال پر بھی بن آتی ہے مگر حکومت کی اولیت کے کچھ اور ہی کام ہیں اسمبلی کے ممبران کو اپنی مراعات کی فکر ہے، اکثر اوقات اسمبلی کے اہم مسائل پر بھی کورم پورا نہیں ہوتا تو پھر گھریلو ملازمین کے لیے قانون سازی کون کرے گا؟ تہذیب کے بھی کئی ستون ہیں جن میں معیشت، علم و ہنر، ادب، آرٹ، فنون لطیفہ کی تمام شاخیں مل کر تہذیب کا دامن بھرتی ہیں، فکر اقبال کے نام پر پاکستان کا تخیل ہے جہاں انسانی اعضا دھماکوں میں بکھرے نظر آتے ہیں، وہاں سفاکی کی روک تھام بھلا کون کرے گا؟ سبز پاسپورٹ دنیا میں سفاکی کی علامت بن چکا ہے، البتہ بلاول بھٹو نے تہذیب و ثقافت کی بات کی ہے اور پانچ ہزار سالہ تاریخ کو دہرایا ہے کہ ہم امن اور تہذیب کے علمبردار ہیں، لہٰذا دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک؟
جب کسی ملک یا قوم پر زوال آتا ہے تو صرف ایک شعبہ زندگی میں نہیں آتا بلکہ معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس کی عکاسی ہوتی ہے، انسان طبعاً ایک جانور ہے اس کا نظام تنفس، ہاضمہ اور دیگر جسم کے اعضا و جوارح یہاں تک کہ نظام تولید اور پھر اپنی کالونیاں بنا کے رہنا مگر انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لیے اس میں ترقی کرنے کی صلاحیت موجود ہے، ہر دس پانچ سال بعد اس میں ترقی اور نمو دیکھنے میں آتی ہے جب کہ صدیوں سے جانوروں میں کوئی ترقی نہ ہوئی اور انسان نے ان کو اپنے زولوجیکل گارڈن میں بند کرکے اپنے بچوں کے لیے تفریح کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ قدرت نے انسانی دماغ کو اس قدر بیدار کر رکھا ہے کہ وہ 25 فیصد انسانی دماغ کے روشن ہونے پر کائنات کا مالک بن بیٹھا ہے۔
ایجادات کے ان روشن دریچوں کو کھول کر وہ حکمرانی کا دائرہ دیگر سیارگان کی طرف بڑھا رہا ہے، مراقبے کی کیفیت، مابعد الطبیعات اور طبیعات کی مختلف جہتوں کو جو الگ الگ رواں دواں ہیں ان کو قریب تر لانے کی کوشش میں سرگرداں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان طاقت اور جرأت سے دوسرے ممالک پر قبضہ کرتا تھا مگر اب جو وقت ہے اس میں حکمت سے ایک بٹن دبا کر نوعمر لڑکے اور لڑکیاں ڈرون حملوں کے ذریعے اپنے سے حد درجہ مضبوط، جرأت مند دشمن کو ہلاک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جنگ و جدل سے انسان نے قبضہ کرکے اپنا خیال، رجحانات، فلسفہ حیات اور زندگی کو آگے بڑھایا ہے۔ مگر ان ہی میں وہ گروہ اور وہ خیال انسانوں میں موجود رہا ہے جنھوں نے پیار، موسیقی، رقص، دھمال جو صوفیا کا طریقہ زندگی تھا، اپنے خیال کو آگے بڑھایا۔ مسالک خیالوں میں جنم لیتے ہیں اور رموز شناس قدرت سے لطف اندوز ہوکر رب کا شکر ادا کرتے ہیں، جس نے انسان کی جبلت کو محسوس کیا اور پھر قابو کیا اس نے جانوریت کے راستے کو ترک کیا جس کو نفس امارہ بھی کہہ سکتے ہیں، یہی راستہ نرم مزاجی، راست گوئی اور دائرہ انسانیت کو بڑھانے کا ہوتا ہے۔
ایک زمانے میں فارسی زبان جب چھٹی جماعت میں پڑھائی جاتی تھی تو بہت سی اخلاقی قدروں سے بچے روشناس ہوجاتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ان کو اپنا رہنما مان لیں اور وہ ضرب الامثال زندگی بھر طلبہ کا پیچھا کیا کرتی تھیں، مگر پروفیشنل ذریعہ تعلیم نے زندگی کے اخلاقی پہلوؤں کو یکسر دور کردیا ہے، جس کی وجہ سے اخلاقی تربیت ہونا بند ہوگئی ہے اور آئے دن ایسی خبریں آتی ہیں جن کا کبھی گمان بھی نہ ہوتا تھا مثلاً حالیہ دنوں میں ایک خبر نظر سے گزری کہ باپ نے اپنے 7 سالہ بچے کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ ظاہر ہے یہ کوئی عام خبر نہیں کہ اس پر قانون سازی کی جائے۔ یہ واقعہ، بچہ تو بچہ اور سب سے بڑھ کر اپنا بچہ اس کے ساتھ اس قدر سفاکی کا پہلو، نفسیاتی تشریحات کتنی ہی کیوں نہ کی جائیں یہ سب کی سب بے سود ہوں گی، ماسوائے اس کے کہ نفسیاتی طور پر ایک نئی معاشرت جنم لے رہی ہے۔ بچے آج کل پلاسٹک کی بنی پستولوں سے کھیل رہے ہیں، یہ ان کا پسندیدہ کھلونا ہے ہاں مگر لڑکیاں ابھی اس کھلونے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے میں یہ بھی اس کھیل میں مشغول ہوجائیں۔ ان کھیلوں میں ایک بچہ دوسرے پر حملہ کرتا ہے اور دوسرا بچہ جس کو گولی لگتی ہے آنکھ بند کرکے بستر پر گر پڑتا ہے، گویا وہ مر جاتا ہے۔ اگر معاشرے میں یہ کھیل بڑھا تو آگے چل کر کیا ہوگا؟ گویا مارنا، مرنا روز مرہ کا معمول اور مضبوط تر ہوتا جائے گا، لہٰذا نصاب تعلیم میں اخلاقی پہلوؤں کا اندراج بے حد ضروری ہوتا جا رہا ہے، خصوصیت کے ساتھ شعور کی ارتقا کے چند برس یعنی پانچویں، چھٹی، ساتویں کلاسوں میں۔
گزشتہ دنوں کی خبروں نے ایک عجیب بھونچال پیدا کردیا ایک خبر یہ آئی کہ کلفٹن کے علاقے بوٹ بیسن کے قریب ڈاکٹر سنیل کمار کے گھر کی چھٹی منزل سے ہریش کمار 10 یا 12 سالہ بچہ مار کے ڈر سے چھلانگ لگا کر کود پڑا۔ایک الزام یہ کہ اسے نیچے پھینک دیا گیا۔ دوسرا واقعہ لاہور کے ایک پروفیسر نے اپنی گھریلو ملازمہ بچی پر اتنے مظالم کیے کہ وہ ہلاک ہوگئی اور اس کی لاش میو اسپتال کے مردہ خانے میں پڑی رہی۔ ایک ظالم ہندو تھا تو دوسرا ظالم مسلمان۔ اخلاقیات اور انصاف کی روش کیا ہندو میں ہو یا مسلمان میں جو بھی دین کو انصاف سے پکڑے اور اخلاقی قدریں موجود ہوں اور جو سیرت نبی یا اپنے مذہب کے اعتبار سے اپنے دین کے اکابرین کے پیروکار بنیں گے وہی راستی سے روشناس ہوں گے مگر یہاں دونوں واقعات میں گھریلو ملازمین کے ساتھ مظالم ہوئے ہیں اور گھریلو ملازمین رکھنے کے واقعات میں آج نہیں مسلسل ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں کہ گھریلو ملازمین کے ساتھ بدسلوکی لوگوں کا وطیرہ بن گیا ہے اور ہر سال سیکڑوں لوگوں کے ساتھ یہ واقعات پیش آتے ہیں لہٰذا اس مسئلے پر قانون سازی کی ضرورت تھی جس کا ادراک کیا گیا ۔
لاکھوں کی تعداد میں لوگ جنوبی پنجاب، بھاولپور، رحیم یار خان اور اس کے اطراف کے چھوٹے شہروں اور گاؤں سے کراچی آتے جا رہے ہیں، ایک تو کراچی میں چھوٹے کاروباری لوگ، انڈسٹریل ایریا گودی کی برکات نے کراچی کو غریب پرور بنا رکھا ہے، ساحلی شہر، معتدل موسم، اعتدال پسند لوگ اور جمہوری تحریک سے وابستہ شہر کے خدوخال رفتہ رفتہ بدلتے چلے گئے۔ صوبہ پختونخوا سے آمد تو 1964 سے ہی شروع تھی جب کہ اندرون سندھ سے ہجرت اس قدر نہ تھی، کراچی کا موسم ہی نہیں بلکہ یہ رواداری یہاں کے پرندوں تک میں موجود ہے، شہر کے وسط صدر کراچی پریس کلب اور اس کے گرد و پیش بلڈنگوں اور چھتوں پر چیل اور کبوتر ایک ساتھ بسیرا کرتے اور اپنی نئی نسل کی تولید میں سرگرداں ہیں مگر رفتہ رفتہ یہ اعتدال پسندی سفاکی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ بے گناہوں کا قتل اور وہ بھی سفاکی سے قتل ایک عام روش بن گیا ہے۔ وہ نبی کاملﷺ جس نے فتح مکہ پر عام معافی کا اعلان کیا اور اس دن کو امن عالم اور انسانی حقوق کے لیے ایک مثال قرار دے دیا غرض زندگی کے تمام شعبوں میں سفاکی گھر کرتی جا رہی ہے۔ مذہب رواداری، ہمسایہ اور بزرگوں اور کمزوروں کے ساتھ سلوک انسانیت کی تربیت دیتا ہے اور لوگ پھر بھی انحراف کرتے ہوئے اپنی منشا کے ادیان کی پیروی میں مصروف ہیں۔
خداوند قدوس نے روز محشر بپا کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ جزا اور سزا کا مالک ہے مگر یہ بھی انسان نے اپنے کمزور ہاتھوں میں لے رکھا ہے اور خصوصیت کے ساتھ اس شہر کراچی سے جو وفا اٹھی ملک بھر میں پھیلتی چلی گئی، نہ اس سفاکی کو قرار ہے اور نہ جمود ہے، ہر زور آور اپنی سفاکی کی حس کو تقویت پہنچانے کے لیے زیر دست پر حملہ آور ہے۔ گھریلو ملازمین چونکہ وہ براہ راست زیردست ہیں یہ حکم عدولی یا ذرا سی لاپرواہی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق صرف کراچی شہر میں 20 لاکھ گھریلو ملازمین ہیں، کل ملازمین میں 10 فیصد ایسے ہیں جو اپنے آقاؤں کے گھروں میں رات گزارتے ہیں، ان کی زندگی کے متعلق کچھ کہنا قبل ازوقت ہے جو لوگ کہ انسان کے حقوق کو پہچانتے ہیں ان سے تو ملازمین کو خیر ہے یا بقیہ کا خدا ہی حافظ ہے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ گھریلو ملازمین کے لیے قوانین وضع کیے جائیں، ان کے لیے خصوصی کارڈ بنانے ہوں گے اور ادارہ جاتی کارروائی کو منظم کرنا ہوگا کیونکہ اس میں دہرے فائدے ہیں خود وہ لوگ جو ملازمین رکھتے ہیں بعض اوقات ان کے جان و مال پر بھی بن آتی ہے مگر حکومت کی اولیت کے کچھ اور ہی کام ہیں اسمبلی کے ممبران کو اپنی مراعات کی فکر ہے، اکثر اوقات اسمبلی کے اہم مسائل پر بھی کورم پورا نہیں ہوتا تو پھر گھریلو ملازمین کے لیے قانون سازی کون کرے گا؟ تہذیب کے بھی کئی ستون ہیں جن میں معیشت، علم و ہنر، ادب، آرٹ، فنون لطیفہ کی تمام شاخیں مل کر تہذیب کا دامن بھرتی ہیں، فکر اقبال کے نام پر پاکستان کا تخیل ہے جہاں انسانی اعضا دھماکوں میں بکھرے نظر آتے ہیں، وہاں سفاکی کی روک تھام بھلا کون کرے گا؟ سبز پاسپورٹ دنیا میں سفاکی کی علامت بن چکا ہے، البتہ بلاول بھٹو نے تہذیب و ثقافت کی بات کی ہے اور پانچ ہزار سالہ تاریخ کو دہرایا ہے کہ ہم امن اور تہذیب کے علمبردار ہیں، لہٰذا دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک؟