لکھتے رہے جنوں کی حکایات
الطاف گوہر کے اخباری کالموں کے مجموعے میں ایک کالم ’’باتیں ملک فیروز خان نون کی‘‘ کے عنوان سے بھی ہے۔۔۔
الطاف گوہر کے اخباری کالموں کے مجموعے میں ایک کالم ''باتیں ملک فیروز خان نون کی'' کے عنوان سے بھی ہے۔ ملک صاحب متحدہ پاکستان کے آخری وزیر اعظم تھے۔ 1958ء میں مارشل لا لگا تو ان کی حکومت بھی ختم ہو گئی اور جمہوری نظام بھی رخصت ہو گیا۔ ایوب خان اور پھر ان کے بعد یحییٰ خان کی حکمرانی نے ملک کی سالمیت ہی کو ختم کر دیا۔
الطاف گوہر ڈپٹی سیکریٹری ہو کر وزیر اعظم کے سیکریٹریٹ میں آئے۔ ان کے فرائض میں یہ بھی تھا کہ وہ اہم فائلیں وزیر اعظم کو پیش کریں، ان کا خلاصہ بیان کر کے احکامات حاصل کریں۔ یوں الطاف گوہر کی ملک صاحب سے شناسائی ہوئی اور بہت جلد انھیں وزیراعظم کا اعتماد ہی نہیں ان کی قربت بھی حاصل ہو گئی۔ وہ ملک صاحب کے گھر کا ایک فرد بن گئے۔ ملک فیروز خان نون کو سرکاری حلقوں میں کوئی قابل یا دبنگ سیاستداں نہیں سمجھا جاتا تھا۔ عام شہرت یہ تھی کہ وہ سیدھے سادے آدمی ہیں۔ پنجاب کے ایک مشہور ٹوڈی (انگریز پرست) خاندان کے چشم و چراغ ہیں جنھوں نے ولایت میں تعلیم پائی اور انگریزوں کے منظور نظر ہو گئے۔ قیام پاکستان سے پہلے نئی دہلی میں وائسرائے کی ایگزیکٹیو کونسل کے ممبر تھے۔ 1945ء میں لندن میں ہندوستان کے ہائی کمشنر تھے۔ 1946ء میں انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور مسلم لیگ کی طرف سے الیکشن میں حصہ لیا۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے آزادی کے بعد وہ مشرقی پاکستان کے گورنر مقرر ہوئے۔ تین برس اس عہدے پر رہے اور پھر ملک کے وزیر خارجہ بنے۔ 1957ء میں جب اسکندر مرزا سیاست دانوں کو پتلیوں کا ناچ نچا رہے تھے ملک صاحب کو وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔
فیروز خان نون کو خوب اندازہ تھا کہ ملک کس طرف جا رہا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کی بساط لپیٹی جا رہی ہے۔ اختیارات کہیں اور مرتکز ہو رہے ہیں لیکن جب انھوں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو سربراہ حکومت کی ذمے داریاں پوری تندہی سے ادا کیں۔ ان میں نہ قوت فیصلہ کی کمی تھی اور نہ وہ کسی مسئلے کو التوا میں ڈالنے کے قائل تھے۔ قومی مفاد کا معاملہ ہو تو وہ ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوتے۔ ان میں بڑی بڑی گھتیاں سلجھانے کی صلاحیت تھی اور اس سے انھوں نے کام لیا۔ الطاف گوہر کہتے ہیں کہ 1958ء میں جب دریاؤں کے پانی کے مسئلے پر ہندوستان نے پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کیں تو ملک صاحب نے امریکا پر زور دیا کہ وہ ہندوستان پر دباؤ ڈالے اور اسے اپنا جارحانہ رویہ ترک کرنے پر آمادہ کرے۔ انھوں نے بے دھڑک قومی اسمبلی میں اعلان کر دیا کہ اگر امریکا نے ایسا نہ کیا تو پاکستان امریکا سے اپنے تمام معاہدے ختم کر دے گا۔ فیروز خان نون نے گوادر کا ڈھائی ہزار مربع میل علاقہ جو اس وقت مسقط کے قبضے میں تھا پاکستان کو واپس دلانے کے لیے برطانیہ کو آمادہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
الطاف گوہر لکھتے ہیں ''ملک صاحب بڑے مزے کے آدمی تھے۔ وہ بسا اوقات اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے قصے کہانیوں اور لطیفوں کا سہارا لیتے تھے۔ ایک دفعہ احمد شاہ بخاری (پطرس) جو ان دنوں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمایندے تھے تشریف لائے اور کئی دنوں تک وزیر اعظم سے ملاقات کی کوشش کرتے رہے مگر وزیر اعظم ہر دفعہ ملاقاتیوں کی فہرست میں سے ان کا نام خارج کر دیتے۔ آخر میں ان کے پاس گیا اور بڑے ادب سے گزارش کی کہ بخاری صاحب کو واپس نیویارک جانا ہے اور وہ بعض اہم معاملات پر آپ سے ہدایات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت تک ملک صاحب نے مجھے اپنے گھر کا فرد بنا لیا تھا اور ڈانٹ ڈپٹ بھی کرنے لگے تھے۔ بولے ''یہ پطرس بڑا بدمذاق آدمی ہے'' پھر تفصیل بیان کی اور بتایا کہ جب وہ پنجاب کے وزیر تعلیم ہوتے تھے اور پطرس ان کے ماتحت محکمہ تعلیم میں ڈائریکٹر تھے تو انھوں نے اپنی پہلی انگریزی کتاب کا مسودہ پطرس کو دیا اور کہا کہ اسے دیکھ لیجیے، کہیں انگریزی زبان کی کوئی غلطی نہ ہو۔ دو چار دفعہ انھوں نے پطرس کو یاد بھی دلایا مگر انھوں نے یہ عذر پیش کیا کہ ابھی انھیں کتاب پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ بالآخر پطرس مسودہ لے کر ملک صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے قبلہ میں نے یہ کتاب بڑے غور سے پڑھ لی ہے۔ بہت اچھی ہے۔ اب اس کا کوئی انگریزی میں ترجمہ کر دے تو اشاعت کے لیے بھیج دی جائے۔ پطرس کی حس مزاح سے لاہور والے واقف تھے اور ملک صاحب کی طرح اور بھی کئی لوگ نالاں تھے۔''
الطاف گوہر نے ایک اور واقعہ لکھا ہے۔ فرماتے ہیں ''ہم کراچی سے لاہور دورے پر آئے ہوئے تھے اور نہر کے کنارے ملک صاحب کے ذاتی مکان ''الوقار'' میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ صبح سویرے ملاقاتی جمع ہو گئے۔ اتنے میں ایم شریف مرحوم جو بعد میں وفاقی وزارت تعلیم کے سیکریٹری ہوئے، تشریف لائے اور اصرار کرنے لگے کہ انھیں فوراً وزیر اعظم سے ملوایا جائے۔ وزیر اعظم مکان کے اندر برآمدے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے موقع پاتے ہی شریف صاحب کو اندر بھجوا دیا۔ کوئی پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ شریف صاحب ہانپتے کانپتے آئے اور دروازے سے باہر نکل گئے۔ ملک صاحب ان کے پیچھے پیچھے تھے اور زور زور سے کہہ رہے تھے۔ ''اوئے شریف! روٹی کھا لے، میری روٹی وچ لون نہیں ہوندا''۔ مگر شریف صاحب نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور موٹر میں بیٹھ کر چلے گئے۔ میں ملک صاحب کے ساتھ واپس آیا۔ بتانے لگے کہ یہ شریف میرا پرانا دوست ہے اور اس کے میں نے بڑے کام کیے ہیں۔ وہ یہ تجویز لے کر آیا تھا کہ اسے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا چیئرمین لگا دیا جائے۔
جب میں نے اسے سمجھایا کہ وہ اس عہدے کی اہلیت نہیں رکھتا تو بولا ''ملک صاحب! اگر آپ وزیر اعظم بننے کی اہلیت رکھتے ہیں تو میں چیئرمین کے معمولی عہدے کے لیے نا اہل کیوں قرار دیا گیا؟ بڑا نمک حرام ہے''۔ملک مظفر علی قزلباش مغربی پاکستان کے وزیر خزانہ تھے۔ ان کا وزیر اعظم نون سے بڑا یارانہ تھا۔ وہ جب کراچی آتے تو مطالبات کی ایک فہرست ساتھ لاتے۔ ان دنوں عام انتخابات کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور وہ جوڑ توڑ میں لگے ہوئے تھے۔ ان کو الیکشن میں جھرلو پھیرنے کا ایسا فن آتا تھا کہ ووٹ ایک ڈبے میں سے نکل کر دوسرے ڈبے میں چلے جاتے تھے۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں ''شام کو وزیر اعظم کے ساتھ ان کی محفل ہوتی تو مجھے طلب کیا جاتا اور احکامات جاری ہونے شروع ہو جاتے، فلاں انجینئر کو تبدیل کر دیا جائے، فلاں پولیس افسر کو معطل، فلاں ضلع کی سڑک فوراً تعمیر کی جائے۔ میں سب کچھ لکھ لیتا۔ اس وقت تک مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ ان ہدایات کا مقصد قزلباش صاحب کو خوش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ صبح جب وزیر اعظم پوچھتے، کل رات جو ہدایات دی گئی تھیں ان کا کیا ہوا؟ میں جواب دیتا، جی کچھ نہیں۔ اور بات وہیں ختم ہو جاتی۔''