تحفہ امن…
ایک دانشور کا کبھی نہ بھلائے جانے والا جملہ ہے کہ ’’جو کام تم بعد میں کرو گے، وہ کام تم پہلے کیوں نہیں کرتے‘‘
ایک دانشور کا کبھی نہ بھلائے جانے والا جملہ ہے کہ ''جو کام تم بعد میں کرو گے، وہ کام تم پہلے کیوں نہیں کرتے'' اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ فریقین کے درمیان عداوت پیدا ہو جائے اور وہ عداوت جنگ میں بدل جائے، ہزاروں سال تک جنگ جاری رہے، بالآخر اس کا فیصلہ مذاکرات کی صورت میں نکلتا ہے۔ حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کو بھی اس جملے کی حقیقت معلوم ہو چکی ہے اور اپنے ملک و قوم کی ترقی اور خطے میں پائیدار قیام امن کے لیے مذاکرات کو ہی ترجیح دے رہے ہیں تاہم یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ 'امن قائم کرنے کے لیے خوبصورت باتیں اور خوبصورت جذبے ضروری ہیں اور جذبے قربانیاں مانگتے ہیں'' صرف خواب دیکھنے سے پھول کھلا نہیں کرتے، آرزوئوں سے دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہتیں۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ اس تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر برسر اقتدار حکومت نے خواہ وہ سویلین ہو یا فوجی، بھارت سے خوشگوار تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے مگر عملی طو ر پر اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کی بناء پر تعلقات معمول پر نہیں آ سکے۔
وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دور میں بھارت سے اقلیتوں کے تحفظ اور دونوں ممالک کے درمیان سفر کی سہولتوں کو باقاعدہ بنانے کا معاہدہ ہوا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں سندھ طاس معاہدے کے ذریعے پانی کے تنازعے کو حل کیا گیا اگر چہ ان کے دور میں ستمبر 1965ء میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوئی مگر پھر تاشقند معاہدہ ہوا۔
ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے دور میں بھارت سے ہزار سال جنگ کا نعرہ تو لگایا تھا مگر انھوں نے 1972ء میں بھارت سے شملہ معاہدہ کر کے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو شروع کیا۔ ان کے دور کے آخری سال بھارت سے تجارت شروع ہوئی تھی۔ بھارتی اخبارات دوسرے دن کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دستیاب ہونے لگے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر رہے۔ کراچی میں بھارتی قونصل خانہ قائم ہوا۔ دونوں ممالک کے شہریوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے پانچ شہروں کا ویزا ملنے لگا۔ ان کے دور میں سیاچن کا معاملہ بھی منظر عام پر آیا مگر بھارت اور پاکستان کے تعلقات معمول پر رہے۔ جنرل ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کو بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے استعمال کیا۔
پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں وزیر اعظم راجیو گاندھی اسلام آباد آئے۔ اس دور میں کشمیر میں مجاہدین کی یلغار شروع ہوئی اور یہ سلسلہ وزیر اعظم نواز شریف کے دور تک جاری رہا مگر میاں نواز شریف نے پنجاب کے تاجروں اور صنعتکاروں کے لیے بھارتی سرحد کھول دی۔
بینظیر بھٹو جب دوسری بار وزیر اعظم بنیں تو انھوں نے دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی مگر نادیدہ قوتوں کے دبائو پر کراچی میں بھارتی قونصل خانے کی بندش کا فیصلہ ہوا۔ میاں نواز شریف نے دوستی بس کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو مینار پاکستان پر بلایا۔ بعد ازاں سابق صدر جنرل پرویز مشرف بھارتی وزیر اعظم سے ملنے آگرہ بھی گئے مگر حالات معمول نہ آ سکے۔
آصف زرداری نے صدر کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کرنے کی تجویز پیش کی تاہم غیر ریاستی کرداروں نے ممبئی میں دہشتگردی کرتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات کو جنگ کی نفسیاتی سطح تک پہنچا دیا۔ افسوسناک صورتحال یہ تھی کہ بھارتی حکومت میڈیا کے پیدا کردہ جنون کا شکار ہوئی۔ آئی ٹی ماہرین کے شور مچانے پر جنگ کا ماحول ختم ہوا، مگر دونوں ممالک کے درمیان ویزے کی پالیسی انتہائی سخت ہو گئی اور پاکستانی شہری کو بھارت کا ویزا حاصل کرنا امریکا کے ویزے کی طرح مشکل ہو گیا۔
میاں نواز شریف نے برسر اقتدار آ کر بھارت سے مذاکرات کا عندیہ دیا تو کنٹرول لائن پر حالات کشیدہ ہو گئے، جس سے مذاکرات کی کوششیں پس منظر میں چلی گئیں اور سرحدوں پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔ میاں نواز شریف نے تین ماہ تک بصیرت کا ثبوت دیا مگر پاکستان کے دوسرے حلقوں اور اہلکاروں نے خوب آگ برسائی۔ پھر یہ آگ دوسری طرف سے بھی برسائی گئی۔
قصہ مختصر کہ جب بھی پاک بھارت مذاکرات شروع کرنے کی بات کی جاتی ہے تب کوئی نہ کوئی ایسا سانحہ رونما ہو جاتا ہے جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنا ہوتا ہے۔ نیویارک میں میاں نواز شریف اور منموہن سنگھ کی ملاقات سے قبل مقبوضہ کشمیر میں فوجی وردیوں میں ملبوس مسلح افراد نے بھارتی فوجی اڈے اور پولیس اسٹیشن پر حملہ کر کے لیفٹیننٹ کرنل سمیت متعد افراد کو ہلاک کر کے بات چیت کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تھی، اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ''دونوں ممالک میں موجود ایک طبقہ خطے میں امن مذاکرات کا حامی نہیں اور وہ امن عمل کو ڈی ریل کرنا چاہتا ہے۔''
وہ خاص طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی بقا دونوں ممالک کی دشمنی اور نفرت میں ہے۔ دوستی سے اسے نقصان پہنچے گا، وہ کسی بھی صورت مذاکرات نہیں چاہتا، دشمنی اور نفرت کی فضاء کو نہ صرف قائم رکھنا چاہتا ہے بلکہ اسے کسی نہ کسی صورت بڑھاوا دینے کا خواہاں ہے، یہی سبب ہے کہ یہ طبقہ کوئی نہ کوئی ایسی شر انگیز کارروائی کر دیتا ہے جس سے مذاکرات کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی سبوتاژ ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ نیویارک میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ مذاکرات کا عمل ہر صورت شروع کیا جائے گا شر پسندوں کی کوئی بھی کارروائی ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ نیویارک میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات دراصل اس خطے کے انتہا پسندوں کی شکست تھی اور اس ملاقات کے بعد مختلف مسائل پر مذاکرات کا سلسلہ شروع بھی ہو گیا، جسکی تازہ ترین مثال پاکستان اور بھارت کی جانب سے باہمی تجارت کو فروغ دینے کے لیے ایک دوسرے کو اپنی منڈیوں تک امتیازی رسائی فراہم کرنے اور 24 گھنٹے تجارت جاری رکھنے پر اتفاق کیے جانا ہے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں گزشتہ دنوں ہونے والی دونوں ممالک کے وزراء کی ملاقات کے بعد بھارتی وزیر تجارت آنند شرما نے میڈیا کو بتایا کہ واہگہ اور اٹاری بارڈر کو تجارت کے لیے 24 گھنٹے کھلا رکھا جائے گا۔ ملاقات میں اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ دونوں ملکوں کے بینک جلد ہی ایک دوسرے کے یہاں اپنی شاخیں کھولیں گے۔ بھارتی ہم منصب سے مذاکرات کے بعد وطن واپس پہنچ کر پاکستانی وزیر مملکت برائے تجارت خرم دستگیر نے کہا کہ پاک بھارت تجارت سے روزگار کے زیادہ بہتر مواقع ملیں گے اور اس سے پاکستان کی معیشت مضبوط ہو گی۔ بھارت سے تجارت کے فروغ سے ایک ارب افراد کی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کو جگہ بنانے کا موقع ملے گا۔ کم قیمت اشیاء بنانے کے لیے سستا خام مال دور دراز سے منگوانے کی بجائے اگر چند میل کے فاصلے سے مل جائے تو اس سے عام آدمی کو ہی فائدہ ہو گا۔ دونوں ممالک کے وزرائے تجارت کے مابین ہونے والی ملاقات میں باہمی تجارت کو فروغ دینے کے لیے دونوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد کے لیے ویزا پالیسی میں نرمی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ نئی دہلی میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں ممالک کے وزراء نے امید ظاہر کی کہ اقتصادی تعاون کو بڑھانے سے مستقبل میں ممکنہ طور پر دونوں روایتی حریف ملکوں کے سیاسی تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔
ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی عوام دوست قیادت اگر امن مخالف قوتوں کے عزائم کو ناکام بناتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب جنوبی ایشیا میں تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو جائے گا۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان روابط سے ترقی اور خوشحالی کا ایک ایسا ماحول پیدا ہو گا جس سے پرانے تنازعات حل ہو جائیں گے۔ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کی بصیرت ہی اس خطے کو امن کا گہوارہ بنا سکتی ہے۔ گزشتہ 66 سال سے پاک و ہند کے عوام کے دلوں میں چھپی ہوئی محبت کی یہی پکار، یہی آرزو، یہی حسرت، یہی جستجو اور یہی التجا ہے کہ بس بہت ہو چکا، بہت رو چکے، بہت لہو بہہ چکا، اب ہمیں دور حاضر کا گوہر نایاب ''امن کا تحفہ'' ہر قیمت پر چاہیے۔ ''دل کھل جائیں تو سرحدوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی'' جنوبی ایشیا میں امن کا خواب ابھی تعبیر کے مرحلوں سے گزر رہا ہے، یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے یا نہیں، یہ آنیوالا وقت ہی بتا سکتا ہے۔
رہی بات کشمیر کی تو سمجھدار قومیں دنیا میں رائج قوانین کو پیش نظر رکھ کر اپنے عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اب ایک پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے، جس کا حل صرف اور صرف اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد سے ہی ممکن ہے، اقوام متحدہ کو بھی اس سلسلے میں اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔