بلدیاتی انتخابات…
کسی کوعددی لحاظ سے وسائل نہ ملیں توبے چینی پیدا ہوجاتی ہے، ایمانداری سے وسائل نہ ملیں تو احساسِ محرومی پیدا ہو جاتا ہے
ISLAMABAD:
بلدیاتی انتخابات میں بھرپور شرکت کی تیاری کے لیے سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے 3 جنوری سے باقاعدہ جلسے کرنے کا آغاز حیدر آباد میں ایک شاندار سیاسی اجتماع منعقد کر کے کر دیا۔ حیدر آباد کے حق پرست عوام، کارکنوں اور ذمے داران سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے خطاب کیا۔ جس میں انھوں نے سندھ گورنمنٹ کی بد نیتی اور ایم کیو ایم کو بلدیاتی انتخابات میں زک پہنچانے کی ترکیبوں سے آگاہ کیا۔ ملک میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا ریکارڈ رکھنے کی حامل پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو خیر سے بلدیاتی انتخابات کرانے سے کوئی دلچسپی ماضی میں تھی اور نہ اس وقت نظر آتی ہے۔ پس پردہ حقیقت تو یہی تھی کہ سپریم کورٹ کی مداخلت کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو مجبوراً بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرنا پڑا۔
اور اب 18 جنوری کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی امید نظر تو آئی تھی ، لیکن ساتھ ہی التوا کا آپشن بھی موجود تھا ۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے شروع دن سے ہی پیپلز پارٹی کی نیت میں کھوٹ تھا۔ جبھی تو سندھ میں جب بلدیاتی انتخابات کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے، اس وقت سے ہی پیپلز پارٹی کے حلقوں اور رہنمائوں نے فخریہ اظہارِ خیال شروع کر دیا تھا کہ کراچی کا آیندہ آنے والا میئر ہمارا ہو گا۔ باوجود اس روشن سچائی کے، کہ کراچی میں سب سے کم مینڈیٹ پی پی پی کو حاصل ہے جس کے صرف ایک رکن قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلی کے ارکان ہیں۔ اس ضمن میں قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ ماضی میں اتنا کم مینڈیٹ کبھی پیپلز پارٹی کی حکومت کو نہیں ملا۔ کراچی کے اطراف میں دیہی علاقوں سے پی پی پی کو ہمیشہ مینڈیٹ ملتا رہا، لیکن 2013ء کے انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی اپنے حلقوں کے دفاع میں ناکام رہی۔
2014ء کے ممکنہ بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے کراچی کو 6 اضلاع میں تقسیم کر کے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ساتھ ضلع سائوتھ، ضلع ملیر اور ضلع کورنگی کی میونسپل کارپوریشنوں کی میئر شپ حاصل کرنے کا منصوبہ پیپلز پارٹی نے بنایا ہے جب کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت نے جس طرح حلقہ بندیاں وضع کی تھیں، وہ غیر آئینی اور غیر قانونی تھیں جس کے خلاف ایم کیو ایم نے عدالت میں درخواست دی تھی جس کے بعد کئی ماہ تک عدالتی کارروائی کے بعد عدالت نے سندھ لوکل گورنمنٹ کے ترمیمی بل کو مسترد کر دیا۔ 5 جنوری 2014ء کو کراچی میں ہونے والے ایم کیو ایم کے ایک عظیم الشان عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد نے کھل کر اس ضمن میں تمام تر تفصیل سے کارکنوں کو آگاہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی والوں نے اس طرح کی غیر قانونی اور غیر آئینی حلقہ بندیاں کیں تا کہ بلدیاتی انتخابات میں وہ جیت جائیں۔ ایم کیو ایم نے اس حوالے سے مذاکرات کیے تو انھوں نے کہہ دیا کہ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں، اس طرح پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ نے بلدیاتی حلقوں میں دھاندلی کا پروگرام بنایا تھا۔ اس لیے ایم کیو ایم کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ کیس عدالت میں لے جائیں ۔ 30 دسمبر2013ء کو سندھ ہائی کورٹ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دے دیا۔ پیراگراف 40 میں عدالت عالیہ لکھتی ہے کہ اس عدالتی کارروائی میں عدالتی کمیشن کے نمایندے کو واضح طور پر بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے حلقہ بندیاں اپنے طور پر کی ہیں۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن نے کوئی ایسی ہدایت نہیں دی تھی۔
اس بات میں دو رائے نہیں کہ ایم کیو ایم ملک کی ایک ایسی طاقتور سیاسی پارٹی ہے جس کو تخلیق کرنے والے تحریک کے قائد الطاف حسین نہ صرف ایک اعلیٰ پائے کے سیاسی لیڈر تسلیم کیے جاتے ہیں بلکہ ان کے تدبر، معاملہ فہمی، دور اندیشی ، ان کی فکر و فلسفہ اور ان کا نظریہ حقیقت پسندی و عملیت پسندی ان تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک بہترین مثال بن چکی ہے جو حقوق حاصل کرنے کے لیے سیاسی جدوجہد کر رہی ہیں۔ بلا شبہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ملک میں موجود ان دیگر رہنمائوں کی طرح نہیں جو کہتے کچھ اور کرتے کچھ اور ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ الطاف حسین کی شخصیت ، سیاست، اندازِ خطابت، اندازِ فکر، نظریے ، صبر آزما جدوجہد کے جذبے میں ایک ایسا کرشمہ چھپا ہے جو آج تک اس ملک کے کسی دوسرے سیاست دان کا نصیب نہیں بن سکا ہے۔ تب ہی تو ہر قسم کے الزامات، پروپیگنڈے اور ریاستی جبر کے جواب میں 5 جنوری کے جلسے میں انھوں نے کہا کہ ''میرا نعرہ ہے امن اور ڈائیلاگ'' ۔ جب کہ ایم کیو ایم کسی سے بدلہ لینے کی بجائے معاف کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ ایم کیو ایم کا اس وقت بھی مؤقف یہی ہے کہ لڑائی جھگڑے اور فساد کے بغیر مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر افہام و تفہیم سے معاملہ حل کیا جائے، جو آپ کا جائز حق بنتا ہے، وہ آپ لے لیں اور جو ہمارا جائز حق بنتا ہے، ہمیں دے دیا جائے۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔
کسی کو عددی لحاظ سے وسائل نہ ملیں تو بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایمانداری سے وسائل نہ ملیں تو احساسِ محرومی پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر احتجاج کیا جاتا ہے اور اسے اگر دبا دیا جائے تو وہ پھر تشدد کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے وسائل کی تقسیم طے کر لیں تو بہتر ہے ۔ قائد تحریک کا بھی یہ کہنا تھا کہ سندھ دھرتی ماں کی طرح ہے اور ماں کی تقسیم کوئی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن مسئلے کے حل کے لیے سندھیوں کے لیے سندھ ون اور دیگر زبانیں بولنے والوں کے لیے سندھ ٹو بنا دیں۔ پھر دیکھیں کون زیادہ ترقی کرتا ہے۔ اس موقعے پر ایم کیو ایم کے قائد نے سندھ گورنمنٹ سے صاف اور سادہ الفاظ میں بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ کوٹہ سسٹم ختم کر دیجیے۔ اُردو بولنے والوں کو سندھی تسلیم کر لیجیے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کر دیجیے تو معاملات ڈائیلاگ کے ذریعے سیٹل ہو سکتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات میں بھرپور شرکت کی تیاری کے لیے سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے 3 جنوری سے باقاعدہ جلسے کرنے کا آغاز حیدر آباد میں ایک شاندار سیاسی اجتماع منعقد کر کے کر دیا۔ حیدر آباد کے حق پرست عوام، کارکنوں اور ذمے داران سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے خطاب کیا۔ جس میں انھوں نے سندھ گورنمنٹ کی بد نیتی اور ایم کیو ایم کو بلدیاتی انتخابات میں زک پہنچانے کی ترکیبوں سے آگاہ کیا۔ ملک میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا ریکارڈ رکھنے کی حامل پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو خیر سے بلدیاتی انتخابات کرانے سے کوئی دلچسپی ماضی میں تھی اور نہ اس وقت نظر آتی ہے۔ پس پردہ حقیقت تو یہی تھی کہ سپریم کورٹ کی مداخلت کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو مجبوراً بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرنا پڑا۔
اور اب 18 جنوری کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی امید نظر تو آئی تھی ، لیکن ساتھ ہی التوا کا آپشن بھی موجود تھا ۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے شروع دن سے ہی پیپلز پارٹی کی نیت میں کھوٹ تھا۔ جبھی تو سندھ میں جب بلدیاتی انتخابات کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے، اس وقت سے ہی پیپلز پارٹی کے حلقوں اور رہنمائوں نے فخریہ اظہارِ خیال شروع کر دیا تھا کہ کراچی کا آیندہ آنے والا میئر ہمارا ہو گا۔ باوجود اس روشن سچائی کے، کہ کراچی میں سب سے کم مینڈیٹ پی پی پی کو حاصل ہے جس کے صرف ایک رکن قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلی کے ارکان ہیں۔ اس ضمن میں قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ ماضی میں اتنا کم مینڈیٹ کبھی پیپلز پارٹی کی حکومت کو نہیں ملا۔ کراچی کے اطراف میں دیہی علاقوں سے پی پی پی کو ہمیشہ مینڈیٹ ملتا رہا، لیکن 2013ء کے انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی اپنے حلقوں کے دفاع میں ناکام رہی۔
2014ء کے ممکنہ بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے کراچی کو 6 اضلاع میں تقسیم کر کے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ساتھ ضلع سائوتھ، ضلع ملیر اور ضلع کورنگی کی میونسپل کارپوریشنوں کی میئر شپ حاصل کرنے کا منصوبہ پیپلز پارٹی نے بنایا ہے جب کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت نے جس طرح حلقہ بندیاں وضع کی تھیں، وہ غیر آئینی اور غیر قانونی تھیں جس کے خلاف ایم کیو ایم نے عدالت میں درخواست دی تھی جس کے بعد کئی ماہ تک عدالتی کارروائی کے بعد عدالت نے سندھ لوکل گورنمنٹ کے ترمیمی بل کو مسترد کر دیا۔ 5 جنوری 2014ء کو کراچی میں ہونے والے ایم کیو ایم کے ایک عظیم الشان عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد نے کھل کر اس ضمن میں تمام تر تفصیل سے کارکنوں کو آگاہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی والوں نے اس طرح کی غیر قانونی اور غیر آئینی حلقہ بندیاں کیں تا کہ بلدیاتی انتخابات میں وہ جیت جائیں۔ ایم کیو ایم نے اس حوالے سے مذاکرات کیے تو انھوں نے کہہ دیا کہ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں، اس طرح پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ نے بلدیاتی حلقوں میں دھاندلی کا پروگرام بنایا تھا۔ اس لیے ایم کیو ایم کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ کیس عدالت میں لے جائیں ۔ 30 دسمبر2013ء کو سندھ ہائی کورٹ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دے دیا۔ پیراگراف 40 میں عدالت عالیہ لکھتی ہے کہ اس عدالتی کارروائی میں عدالتی کمیشن کے نمایندے کو واضح طور پر بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے حلقہ بندیاں اپنے طور پر کی ہیں۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن نے کوئی ایسی ہدایت نہیں دی تھی۔
اس بات میں دو رائے نہیں کہ ایم کیو ایم ملک کی ایک ایسی طاقتور سیاسی پارٹی ہے جس کو تخلیق کرنے والے تحریک کے قائد الطاف حسین نہ صرف ایک اعلیٰ پائے کے سیاسی لیڈر تسلیم کیے جاتے ہیں بلکہ ان کے تدبر، معاملہ فہمی، دور اندیشی ، ان کی فکر و فلسفہ اور ان کا نظریہ حقیقت پسندی و عملیت پسندی ان تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک بہترین مثال بن چکی ہے جو حقوق حاصل کرنے کے لیے سیاسی جدوجہد کر رہی ہیں۔ بلا شبہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ملک میں موجود ان دیگر رہنمائوں کی طرح نہیں جو کہتے کچھ اور کرتے کچھ اور ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ الطاف حسین کی شخصیت ، سیاست، اندازِ خطابت، اندازِ فکر، نظریے ، صبر آزما جدوجہد کے جذبے میں ایک ایسا کرشمہ چھپا ہے جو آج تک اس ملک کے کسی دوسرے سیاست دان کا نصیب نہیں بن سکا ہے۔ تب ہی تو ہر قسم کے الزامات، پروپیگنڈے اور ریاستی جبر کے جواب میں 5 جنوری کے جلسے میں انھوں نے کہا کہ ''میرا نعرہ ہے امن اور ڈائیلاگ'' ۔ جب کہ ایم کیو ایم کسی سے بدلہ لینے کی بجائے معاف کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ ایم کیو ایم کا اس وقت بھی مؤقف یہی ہے کہ لڑائی جھگڑے اور فساد کے بغیر مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر افہام و تفہیم سے معاملہ حل کیا جائے، جو آپ کا جائز حق بنتا ہے، وہ آپ لے لیں اور جو ہمارا جائز حق بنتا ہے، ہمیں دے دیا جائے۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔
کسی کو عددی لحاظ سے وسائل نہ ملیں تو بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایمانداری سے وسائل نہ ملیں تو احساسِ محرومی پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر احتجاج کیا جاتا ہے اور اسے اگر دبا دیا جائے تو وہ پھر تشدد کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے وسائل کی تقسیم طے کر لیں تو بہتر ہے ۔ قائد تحریک کا بھی یہ کہنا تھا کہ سندھ دھرتی ماں کی طرح ہے اور ماں کی تقسیم کوئی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن مسئلے کے حل کے لیے سندھیوں کے لیے سندھ ون اور دیگر زبانیں بولنے والوں کے لیے سندھ ٹو بنا دیں۔ پھر دیکھیں کون زیادہ ترقی کرتا ہے۔ اس موقعے پر ایم کیو ایم کے قائد نے سندھ گورنمنٹ سے صاف اور سادہ الفاظ میں بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ کوٹہ سسٹم ختم کر دیجیے۔ اُردو بولنے والوں کو سندھی تسلیم کر لیجیے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کر دیجیے تو معاملات ڈائیلاگ کے ذریعے سیٹل ہو سکتے ہیں۔