کراچی آپ کا بھی تو ہے

اندرون سندھ کے لاکھوں افراد کراچی میں رہتے ہیں اور کراچی ان کا بھی ہے۔


Muhammad Saeed Arain July 15, 2021
[email protected]

سندھ حکومت کے میڈیا پر چلنے والے ایک اشتہار میں کراچی کے شہریوں سے کہا جا رہا ہے کہ یہ شہر آپ کا ہے ، اس کی صفائی ستھرائی آپ کی ذمے داری ہے، اس لیے کچرا مقررہ ڈسٹ بن میں پھینکیں اور نالوں اور جگہ جگہ کچرا ڈالنے سے گریز کریں تاکہ آپ کا شہر صاف ستھرا رہ سکے۔

کہنے کی حد تک تو یہ درست ہے مگر کراچی صرف یہاں کے لوگوں کا نہیں بلکہ کراچی اور اسلام آباد میں بیٹھ کر سندھ اور پاکستان پر حکمرانی کرنے والوں کا بھی ہے جو کراچی سے حاصل ہونے والی آمدنی سے سندھ اور پاکستان چلا رہے ہیں مگر کراچی کو اون نہیں کرتے۔

کراچی کے سابق سٹی ناظم مرحوم نعمت اللہ خان کہا کرتے تھے کہ ایم کیو ایم سمیت وفاقی و صوبائی حکومتیں مسلم لیگ (ن)، (ق) اور پیپلز پارٹی وفاق میں حکومت کرتی رہیں مگر کسی نے کراچی کو اون نہیں کیا جس کی وجہ سے ملک کو پالنے والا ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی لاتعداد مسائل کا شکار ہے جس کے شہری تمام بنیادی سہولتوں سے محروم اور مختلف مسائل کی اذیت میں مبتلا ہیں۔

سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ گزشتہ 13 سالوں میں کراچی کی آبادی میں ملک بھر سے آئے لاکھوں افراد کا اضافہ ہوا مگر کراچی کے پانی میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ کراچی میں بیٹھ کر سندھ پر حکومت کرنے والے تمام وزرائے اعلیٰ میں کبھی کسی کا بھی تعلق کراچی سے نہیں رہا وہ مختلف پارٹیوں کی طرف سے وزیر اعلیٰ مقرر تو ہوئے مگر سب کا تعلق اندرون سندھ سے تھا۔ سندھ کے جو بھی وزرائے اعلیٰ رہے ان کا تعلق لاڑکانہ، شکارپور، گھوٹکی، خیرپور، نواب شاہ، دادو، جامشورو، تھرپارکر سے رہا اور حیدرآباد و کراچی سے کبھی کوئی وزیر اعلیٰ نہیں بنایا گیا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے چار صدور ، متعدد گورنر اور صوبائی وزیر ضرور رہے اور ملک کے پہلے وزیر اعظم کا تعلق کراچی سے ضرور تھا۔ ملک کے چار صدور میں صرف جنرل پرویز مشرف نے کراچی کو اون کیا اور اپنے دور میں کراچی کو منہ مانگے مالی وسائل ایم کیو ایم کے سٹی ناظم کو دیے تھے جو کراچی پر کم اور باہر ضرور خرچ ہوئے۔

وہی مالی وسائل اگر جماعت اسلامی کے سٹی ناظم اور میئر کو دیے جاتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ کراچی و شہری علاقوں کی نمائندگی کی دعویدار ایم کیو ایم کے بھی کراچی میں 2 میئر اور سٹی ناظم رہے اور وہ سندھ اور وفاق میں پیپلز پارٹی، (ق) لیگ اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں ماضی میں شامل رہی ہے اور پی ٹی آئی کے موجودہ وفاقی حکومت میں بھی شامل ہے جس کا سندھ میں 14 سال گورنر بھی رہا اور تین سال سے پی ٹی آئی کی حکومت میں ایک وفاقی وزیر کی شکل میں شامل ہے جس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہم نے جن شرائط پر وفاقی حکومت کی حمایت کی تھی ہم سے کیا گیا ایک بھی وعدہ حکومت نے پورا نہیں کیا۔

پہلے ایم کیو ایم پر الزام لگتا رہا کہ وہ دھاندلی سے کراچی کی نشستیں حاصل کرتی رہی اور 2018 میں اس سے نشستیں چھین کر پی ٹی آئی کو دلائی گئیں۔ پی ٹی آئی کے صدر، گورنر اور متعدد وفاقی وزیروں کا تعلق کراچی سے ہے مگر محض جھوٹے دعوؤں کے علاوہ وفاقی حکومت نے کراچی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ بات حکومت کی حلیف ایم کیو ایم کے علاوہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بھی تین سال سے کہتی آ رہی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی میں سڑکوں سمیت متعدد منصوبے مکمل کرائے اور وفاقی حکومت نے فراہمی آب کے منصوبے کے لیے کچھ کیا نہ گرین لائن بس منصوبہ مکمل کرایا۔

پیپلز پارٹی موجودہ 13 سالوں کے علاوہ پہلے بھی تین بار سندھ پر حکمران رہی۔ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کراچی سے منتخب ہوئے۔ بے نظیر بھٹو اور بلاول زرداری تو پیدا ہی کراچی میں ہوئے تھے مگر پی پی کے کسی دور میں کراچی کو اس کا وہ حق نہیں ملا جو ملنا چاہیے تھا جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ کراچی میں ہمیشہ پیپلز پارٹی کی ترجیح اندرون سندھ اور کراچی کے وہ علاقے ہیں جہاں سے اس کے امیدوار کامیاب ہوتے آ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا حکمران طبقہ رہنما کراچی میں سالوں سے رہ رہے ہیں۔ حکمرانی اور کاروبار کرتے ہیں۔

اندرون سندھ کے لاکھوں افراد کراچی میں رہتے ہیں اور کراچی ان کا بھی ہے۔ کراچی کے شہریوں میں ملک اور اندرون سندھ سے سرکاری و نجی ملازمتیں شامل کرنے والے بھی ہیں کراچی میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے والے لاکھوں افراد شامل ہیں، عمران خان بھی کراچی سے منتخب ہوئے تھے مگر ملک اور سندھ پر حکمرانی کرنے والوں نے کراچی سے وفاداری کا حق ادا نہیں کیا۔ کراچی کے مستقل شہری ہی نہیں عارضی حکمرانی کرنے والے بھی کراچی کے شہری ہیں اور کراچی ان سب کا شہر ہے اور ان سب کا فرض ہے کہ وہ کراچی کو اہمیت دیں۔ کراچی اب سب جماعتوں اور موجودہ حکمرانوں کا بھی ہے وہ بھی کراچی کو اپنا سمجھیں اورکراچی پر فوری توجہ دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔