عید قربان گوشت کا استعمال کیسے زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے
گوشت میں سبزیاں ملا کر پکایا اور کھایا جائے تو اس کے مضر اثرات کافی حد تک بے اثر ہوجاتے ہیں۔
ذوالحجہ کے نویں دن پوری دنیا کے مسلمان اسلام کے اہم فر یضے حج کی ادائیگی کے لئے حجازِمقدس میں جمع ہوتے ہیں۔
10ذالحجہ کو مسلمان خدا کی راہ میں قربانی کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان ہر سال سنت ابراہیمی کی عملی یاد تازہ کرتے ہیں۔سب بڑے شوق اور اہتمام سے قربانی کے جانور خرید کر لاتے ہیں۔ان کی دیکھ بھال نہایت عمدگی سے کی جاتی ہے۔بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین سبھی قربانی کے جانوروں کی آؤ بھگت کرتے ہیں۔
قربانی کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ کی ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ قربانی کے جانوروں کے بدن پر جس قدر بال ہوتے ہیں ہر ہر بال کے بدلے ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔
مسلمان ثواب کے حصول اور اللہ کی رضا ء خوشنودی کی خاطر اچھے اچھے جانوروں کو اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔دین ودنیا میں کامیابی و کامرانی سے سرفراز ہوتے ہیں۔ قربانی کاتصور آتے ہی گوشت کے مزیدار پکوان اور چٹ پٹی ڈشزکا سوچ کر منہ سے رالیں بہنے لگتی ہیں۔عید قرباں کو بکرا عید بھی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس پہ بکرے کا گوشت کھانے کو عام ملتا ہے۔جب گوشت عام ہوگا تو کھانے کو بھی خوب دل چاہے گا۔
ایسے افراد جو اپنے کم وسائل کی وجہ سے عمومی طور پر گوشت کھانے کی گنجائش نہیں رکھتے عید قرباں پہ انہیں بھی گوشت کی فراوانی میسر آتی ہے۔ عام طور پہ دیکھا جاتا ہے کہ قربانی کے موقع پر بڑا گوشت بکثرت ہوتا ہے، جبکہ بڑا گوشت بہت سے بدنی مسائل کا سبب بھی بنتا ہے۔ اگرچہ گوشت ہماری خوراک کا ایک لازمی اور ضروری حصہ ہے ۔
طبی ماہرین کے مطابق ایک صحت مند آدمی کو روزانہ 100 گرام تک گوشت لازمی کھانا چاہیے ۔گوشت پروٹین ، چربی ، نمکیات اور پانی کا مجموعہ ہوتا ہے۔اس میں پروٹینی اجزا قدرے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ چونکہ انسانی بدن کے رگ و ریشے بھی پروٹین سے بنے ہوتے ہیں اور دورانِ حرکات و سکنات یہ پروٹینی مادے تحلیل بھی ہوتے رہتے ہیں، یوں ہمارے جسم کو پروٹینی اجزا کی ضرورت لازمی ہوتی ہے۔ ہماری صحت مندی کا ایک لازمی جزو پروٹینز ہیں جو ہم اپنی خوراک میں شامل گوشت اور دیگر پروٹینی غذاؤں سے حاصل کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق حیوانی پروٹینز نباتاتی پروٹینز سے بہتر طور پہ ہماری جسمانی ضروریات کو پورا کر سکتی ہیں لیکن فی زمانہ سہل پسندی اور پر تعیش طرزِ زندگی کی وجہ سے یہی پروٹینی مادے ہمارے بدن میں کئی مہلک اور موذی امراض کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں۔ طبی نقطہ نظر کے مطابق گوشت موجودہ دور کی خطر ناک اور مہلک بیماریوں جیسے امراض قلب ،امراض گردہ،جگر ،مثانہ،یورک ایسڈ،کو لیسڑول ،جوڑوں کا درد اور ذہنی و دماغی مسائل کا سبب بن رہاہے۔دانا کہتے ہیںکہ گوشت انسان کے اندرحیوانی خصوصیات پیدا کرتا ہے۔
ذہن کو کند کرکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ماندکرتا ہے۔ہوش کی نسبت جوش اور اشتعال انگیزی کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ دانتوں میں گوشت کے ریشے پھنس کر امراض دندان کے مسائل بھی اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔دھیان رہے کہ وہ لوگ جو امراض قلب،گردہ،جگر، ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول قبض،جوڑوں کا درد،یورک ایسڈ ، ذیابیطس اور خرابی خون جیسے امراض کا شکار ہوں ان کے لیے بڑا گوشت انتہائی مضر ثابت ہو سکتا ہے۔
ہم یہاں گوشت کے فوائد، نقصانات اور استعمال کے مفید طریقے تحریر کیے دیتے ہیں تاکہ گوشت کا مناسب استعمال کر کے اثرات بد سے محفوظ رہا جا سکے۔ خصوصیات کے لحاظ سے اونٹ کا گوشت پٹھوں کو طاقت دینے والا، ہیپاٹائیٹس کو ختم کرنے، پیشاب کی جلن دورکرنے اور ضدی بخاروں کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔ اس کی چربی کا لیپ بواسیری موہکوں کا خاتمہ کرتاہے۔ دھیان رہے اونٹ کا گوشت دیر ہضم،کم غذائیت کا حامل، فاسد مادے پیداکرتا ہے اور اس کا ذائقہ نمکین ہوتا ہے۔ مزاج کے لحاظ سے اونٹ کا گوشت گرم خشک ہوتا ہے ۔ یہ سرد تر مزاج والے افراد کے لیے منافع بخش ہوتا ہے ۔
گائے کے بارے میں کہا جاتا ہے '' گائے کا گوشت بیماری ہے اور اس کا دودھ شفاء ہے۔'' گائے کا گوشت خراب خون پیدا کرتاہے، دیر سے ہضم ہوتا ہے اور سوداوی امراض ، اداسی، چڑچڑاپن ، جنون ، ارتھرائیٹس، شاٹیکا پین اور زہریلے بخار وں کا سبب بنتا ہے۔ مسوڑھوں پر ورمی کیفیت پیدا کرتا ہے۔گائے کے گوشت کا مزاج دوسرے درجے میںگرم خشک ہوتا ہے۔ اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے انسانی صحت کے لیے مضر ثابت ہوتا ہے۔
بھینس کا گوشت پہلے درجے میں گرم خشک ہوتا ہے اور تمام اخلاط کے فاسد مادے کثیر تعداد میں پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔اس کے غیر ضروری استعمال سے سوداوی مادوں کو بڑھاوا ملتا ہے ۔کم عمر اور جوان بچھڑے کا گوشت کم مضرت کا حامل ہوتا ہے۔یہ پہلے درجے میں گرم خشک ہوتا ہے۔
بکرے کا گوشت ہر عمر کے افراد کے لیے مفید ، عمدہ خون پیدا کرتا ہے ، جلد ہضم ہوتا ہے اور اس کا مغز تازگی مہیا کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ جوان بکرے کا گوشت بڑی عمر کے جانور کی نسبت زیادہ خصوصیات کا حا مل سمجھا جاتا ہے۔کمزور اور نحیف مریضوںکے لیے بکرے کے گوشت کی یخنی اور پتلا شوربہ مفید مانا جاتا ہے۔ اس کا مزاج گرم تر ہوتا ہے اور یہ سرد خشک مزاج کے حامل افراد کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
بھیڑ کا گوشت گاڑھا خون پیدا کرتا ہے چونکہ اس میں چربی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے اس لیے کمزور معدہ والے افراد کو ہضم نہیں ہو پاتا ۔ مقوی اعضائے رئیسہ اور بدن کو موٹا کرتا ہے۔ مزاج کے لحاظ سے بھیڑ کا گوشت گرم تر ہوتا ہے۔ دنبے کا گوشت گرم خشک خصوصیات کا مالک ہوتا ہے۔ اس میں غذائیت کی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔ جسامت کو خوبصورت بناتا ہے۔اعضائے رئیسہ اور اعصاب کو طاقت ور بناتا ہے۔ اس کی چربی پٹھوں کی سختی دور کر کے انہیں نرم بناتی اور ورم کو تحلیل کرتی ہے۔ جوڑوں کے درد میں مبتلا افراد قربانی کے اس موقع سے خاطر خواہ فوائد اٹھا سکتے ہیں۔
ایسے افراد جو کولیسٹرول کی زیادتی میں مبتلا ہوں اور وہ عیدِ قربان کا گوشت کھانا چاہیں تو درج ذیل طریقے سے گوشت بنا کر استعما ل کر سکتے ہیں:
بکرے کا گوشت حسبِ ضرورت لے کر اچھی طرح چربی صاف کر لیں۔ایک کلو گرام گوشت میںلہسن100 گرام، پیاز 100 گرام کالی مرچ10 گرام ، زیرہ سیاہ20 گرام اور الائچی کلاں دو عدد شامل کر کے حسبِ ذائقہ نمک سیاہ ڈال کر ہلکی آنچ پر پکائیں۔جب گوشت کے ریشے اچھی طرح نرم ہو جائیں تو بند گوبھی، ٹماٹر اور کچی پیاز کی سلاد اور بالائی اترے دہی کے ساتھ جی بھر کے کھائیں۔کولڈ ڈرنکس کے قریب بھی نہ جائیں بلکہ لیمن گراس قہوے کا ایک نیم گرم کپ ضرور پئیں۔
ایسے افراد جو یورک ایسڈ کی زیادتی اور اس سے جڑے عوارض میںگرفتار ہوں وہ نیچے دیے گئے طرز پہ گوشت بنا کر کھا سکتے ہیں:
چربی سے صاف ایک کلو گرام گوشت میں ادرک100 گرام ، پیاز100 گرام ، لہسن100 گرام ، لونگ5 عدد ، تیز پات 3 عدد اور اجوائن، ہلدی و نمک سیاہ حسبِ ضرورت ڈال کر ہلکی آنچ پر پکائیں۔ ریشے نرم ہونے پر مولی،پیاز ،سبز مرچ اور ادرک کی سلاد کے ساتھ استعمال میں لائیں۔ یخ ٹھنڈے پانی اور کولا مشروبات پینے سے گریز کریں اور درج ذیل نیچرل قہوہ استعمال کریں:
ادرک ایک گرام ، میتھرے 15 دانے ، پودینہ سبز 10 پتے، سبز چائے 10 پتے ایک کپ پانی میں اچھی طرح پکا کر لیمن کے چند قطرے شامل کر کے نوش فرما ئیں۔ دھیان رہے کہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ ایک پاؤ گوشت ہی کھایا جا سکتا ہے۔ زیادتی کی صورت میں نقصان کا اندیشہ ہو گا ۔ واضح رہے کہ اوپر دی گئی مقداریں حسبِ ذائقہ اور حسب گنجائش کم یا زیادہ کی جا سکتی ہیں۔
ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ عیدِ قربان کے گوشت کے استعمال کے حوالے سے ہم اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو کئی ایک معاشرتی ، بدنی اور اخلاقی مسائل سے بچ سکتے ہیں۔ جیسا کہ شرعی حوالے سے تو قربانی کے گوشت کو تین برابر حصوں میں بانٹ کر ایک حصہ مساکین ، فقراء اور دیگر مستحقین میں تقسیم کر دیا جاتا ہے، دوسرا حصہ عزیز و اقرباء اور ہمسایوں کو دے دیا جاتا ہے جبکہ تیسرا حصہ خود گھر میں رکھ کر استعمال کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں بد قسمتی سے عید آ نے سے قبل گو شت جمع اور محفوظ کرنے کی تراکیب بنائی جاتی ہیں۔
اضافی فریزر اور فریج وغیرہ کا بند وبست کیا جاتا ہے۔ رانیں روسٹ کرنے والوں کی طرف سے جابجا بینر ز اور اشتہارات عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لوگ گوشت کو گھر میں ہی رکھنے کے بند وبست کرنے میں مصروف پائے جاتے ہیں۔ قربانی کا تاثر ایک مذہبی تہوار کے کم اور گوشت کھا نے کا موقع زیادہ دکھائی دیتا ہے۔
صاحب ِ ثروت اور مالدار حضرات تو عام دنوں میں بھی پورا سال گوشت ہی کھاتے ہیں جبکہ غریب وغرباء کو سال میں چند دن گوشت کھانے کا موقع ملتا ہے۔لہٰذا ہم قربا نی کر نے کی سعادت حاصل کرنے والوں سے التماس کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے فرمان اقدس کے مطابق ہی گوشت کی تقسیم کریں تاکہ قربانی کے مکمل اور صحیح ثمرات سے فیض یاب ہو نے والے بن سکیں۔
بڑے گوشت کی نسبت چھوٹا گوشت کم مضرات کا حامل ہوتا ہے لہٰذا کوشش کریں کہ بڑے کی بجائے چھوٹے کو ترجیح دی جائے ۔ طبی ماہرین کے مطابق اگر گوشت میں سبزیاں ملا کر پکایا اور کھایا جائے تو اس کے مضر اثرات کافی حد تک بے اثر ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا گوشت پکاتے وقت اس میں شلجم ، مولی ، پالک ،گھیا ، ٹینڈے اور کریلے شامل کر کے ہم اس کے نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ سبز پتوںوالی کچی سبزیوں کی سلاد ، سلاد کے پتے، ٹماٹر ، پیاز اور بند گوبھی کو بھی بطور سلاد استعمال کرکے بھی ہم اس روزِ سعید کو اپنے اور اپنی صحت کے لئے پیغامِ شفاء بناسکتے ہیں۔ عام صحت مند افراد جب بھی گوشت کھائیں تو سونف1/4 گرام ، زیرہ1/4 گرام ، ادرک1 گرام ، الائچی دانہ5 دانے اور شکر سرخ نصف چمچ کو ڈیڑھ کپ پانی میں پکا کر بطورِقہوہ استعمال کریں ، معدے سے جڑے کئی ایک مسائل سے محفوظ رہیںگے۔ یخ ٹھنڈے کولا مشروبات پینے سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کریں۔
مکرر عرض ہے کہ گوشت خود ضرور کھایئے مگر حقیقی مستحقین تک ان کا حصہ بھی ضرور پہنچائیے۔ قربانی کا دن ہمیں ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے۔ہم اپنے مذہب، ملک و قوم،عزیز و اقرباء، دوست و احباب اور اپنے گرد و نواح کے لوگوں کے لئے قربانی دینے والے بن جائیں ۔ اپنی خواہشات ، تعیشات اور ضروریات کو دوسروں کی خواہشوں اور ضرورتوں پر قربان کرنے والے بن جائیں۔ حضرت ابراھیمؑ کی تقلید کرتے ہوئے اللہ کی رضاء و خوشنودی کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کریں۔
قربانی کرتے وقت ہمیں چاہئیے کہ ہم حسد ، تکبر، نفرت ، انتقام ،کینہ ، ریا کاری ، ہوس ، لالچ ، طمع ، خود غرضی ، مطلب پرستی اور خود پسندی کو بھی ذبح کریں تاکہ معاشرے میں پھیلی ہر سو بد امنی ، انتشار، خلفشار اور منافرت کا خاتمہ ہو ۔آئیے ! اس عیدِ قرباں کے موقع پر عہد کریں کہ ہم ابراھیمی نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے قول و فعل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا و خوشنودی کو ملحوظ رکھیں گے۔
نوٹ فرمالیں! پرہیز کا تعلق صرف بیماری سے ہوتا ہے جب تک بیماری ہے تب تک پرہیز ہے ۔جونہی مرض ختم ہوا آپ تمام غذائیں حدِ اعتدال میں رہ کرکھا سکتے ہیں۔ ہمارا اختلاف کھانے سے نہیں ہے بلکہ نان سٹاپ کھانے سے ہے۔ قارئین سے بس اتنی گزارش ہے کہ زندہ رہنے کے لیے کھایا جائے نہ کہ کھانے کے لیے زندہ رہا جائے۔
10ذالحجہ کو مسلمان خدا کی راہ میں قربانی کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان ہر سال سنت ابراہیمی کی عملی یاد تازہ کرتے ہیں۔سب بڑے شوق اور اہتمام سے قربانی کے جانور خرید کر لاتے ہیں۔ان کی دیکھ بھال نہایت عمدگی سے کی جاتی ہے۔بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین سبھی قربانی کے جانوروں کی آؤ بھگت کرتے ہیں۔
قربانی کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ کی ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ قربانی کے جانوروں کے بدن پر جس قدر بال ہوتے ہیں ہر ہر بال کے بدلے ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔
مسلمان ثواب کے حصول اور اللہ کی رضا ء خوشنودی کی خاطر اچھے اچھے جانوروں کو اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔دین ودنیا میں کامیابی و کامرانی سے سرفراز ہوتے ہیں۔ قربانی کاتصور آتے ہی گوشت کے مزیدار پکوان اور چٹ پٹی ڈشزکا سوچ کر منہ سے رالیں بہنے لگتی ہیں۔عید قرباں کو بکرا عید بھی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس پہ بکرے کا گوشت کھانے کو عام ملتا ہے۔جب گوشت عام ہوگا تو کھانے کو بھی خوب دل چاہے گا۔
ایسے افراد جو اپنے کم وسائل کی وجہ سے عمومی طور پر گوشت کھانے کی گنجائش نہیں رکھتے عید قرباں پہ انہیں بھی گوشت کی فراوانی میسر آتی ہے۔ عام طور پہ دیکھا جاتا ہے کہ قربانی کے موقع پر بڑا گوشت بکثرت ہوتا ہے، جبکہ بڑا گوشت بہت سے بدنی مسائل کا سبب بھی بنتا ہے۔ اگرچہ گوشت ہماری خوراک کا ایک لازمی اور ضروری حصہ ہے ۔
طبی ماہرین کے مطابق ایک صحت مند آدمی کو روزانہ 100 گرام تک گوشت لازمی کھانا چاہیے ۔گوشت پروٹین ، چربی ، نمکیات اور پانی کا مجموعہ ہوتا ہے۔اس میں پروٹینی اجزا قدرے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ چونکہ انسانی بدن کے رگ و ریشے بھی پروٹین سے بنے ہوتے ہیں اور دورانِ حرکات و سکنات یہ پروٹینی مادے تحلیل بھی ہوتے رہتے ہیں، یوں ہمارے جسم کو پروٹینی اجزا کی ضرورت لازمی ہوتی ہے۔ ہماری صحت مندی کا ایک لازمی جزو پروٹینز ہیں جو ہم اپنی خوراک میں شامل گوشت اور دیگر پروٹینی غذاؤں سے حاصل کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق حیوانی پروٹینز نباتاتی پروٹینز سے بہتر طور پہ ہماری جسمانی ضروریات کو پورا کر سکتی ہیں لیکن فی زمانہ سہل پسندی اور پر تعیش طرزِ زندگی کی وجہ سے یہی پروٹینی مادے ہمارے بدن میں کئی مہلک اور موذی امراض کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں۔ طبی نقطہ نظر کے مطابق گوشت موجودہ دور کی خطر ناک اور مہلک بیماریوں جیسے امراض قلب ،امراض گردہ،جگر ،مثانہ،یورک ایسڈ،کو لیسڑول ،جوڑوں کا درد اور ذہنی و دماغی مسائل کا سبب بن رہاہے۔دانا کہتے ہیںکہ گوشت انسان کے اندرحیوانی خصوصیات پیدا کرتا ہے۔
ذہن کو کند کرکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ماندکرتا ہے۔ہوش کی نسبت جوش اور اشتعال انگیزی کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ دانتوں میں گوشت کے ریشے پھنس کر امراض دندان کے مسائل بھی اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔دھیان رہے کہ وہ لوگ جو امراض قلب،گردہ،جگر، ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول قبض،جوڑوں کا درد،یورک ایسڈ ، ذیابیطس اور خرابی خون جیسے امراض کا شکار ہوں ان کے لیے بڑا گوشت انتہائی مضر ثابت ہو سکتا ہے۔
ہم یہاں گوشت کے فوائد، نقصانات اور استعمال کے مفید طریقے تحریر کیے دیتے ہیں تاکہ گوشت کا مناسب استعمال کر کے اثرات بد سے محفوظ رہا جا سکے۔ خصوصیات کے لحاظ سے اونٹ کا گوشت پٹھوں کو طاقت دینے والا، ہیپاٹائیٹس کو ختم کرنے، پیشاب کی جلن دورکرنے اور ضدی بخاروں کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔ اس کی چربی کا لیپ بواسیری موہکوں کا خاتمہ کرتاہے۔ دھیان رہے اونٹ کا گوشت دیر ہضم،کم غذائیت کا حامل، فاسد مادے پیداکرتا ہے اور اس کا ذائقہ نمکین ہوتا ہے۔ مزاج کے لحاظ سے اونٹ کا گوشت گرم خشک ہوتا ہے ۔ یہ سرد تر مزاج والے افراد کے لیے منافع بخش ہوتا ہے ۔
گائے کے بارے میں کہا جاتا ہے '' گائے کا گوشت بیماری ہے اور اس کا دودھ شفاء ہے۔'' گائے کا گوشت خراب خون پیدا کرتاہے، دیر سے ہضم ہوتا ہے اور سوداوی امراض ، اداسی، چڑچڑاپن ، جنون ، ارتھرائیٹس، شاٹیکا پین اور زہریلے بخار وں کا سبب بنتا ہے۔ مسوڑھوں پر ورمی کیفیت پیدا کرتا ہے۔گائے کے گوشت کا مزاج دوسرے درجے میںگرم خشک ہوتا ہے۔ اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے انسانی صحت کے لیے مضر ثابت ہوتا ہے۔
بھینس کا گوشت پہلے درجے میں گرم خشک ہوتا ہے اور تمام اخلاط کے فاسد مادے کثیر تعداد میں پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔اس کے غیر ضروری استعمال سے سوداوی مادوں کو بڑھاوا ملتا ہے ۔کم عمر اور جوان بچھڑے کا گوشت کم مضرت کا حامل ہوتا ہے۔یہ پہلے درجے میں گرم خشک ہوتا ہے۔
بکرے کا گوشت ہر عمر کے افراد کے لیے مفید ، عمدہ خون پیدا کرتا ہے ، جلد ہضم ہوتا ہے اور اس کا مغز تازگی مہیا کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ جوان بکرے کا گوشت بڑی عمر کے جانور کی نسبت زیادہ خصوصیات کا حا مل سمجھا جاتا ہے۔کمزور اور نحیف مریضوںکے لیے بکرے کے گوشت کی یخنی اور پتلا شوربہ مفید مانا جاتا ہے۔ اس کا مزاج گرم تر ہوتا ہے اور یہ سرد خشک مزاج کے حامل افراد کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
بھیڑ کا گوشت گاڑھا خون پیدا کرتا ہے چونکہ اس میں چربی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے اس لیے کمزور معدہ والے افراد کو ہضم نہیں ہو پاتا ۔ مقوی اعضائے رئیسہ اور بدن کو موٹا کرتا ہے۔ مزاج کے لحاظ سے بھیڑ کا گوشت گرم تر ہوتا ہے۔ دنبے کا گوشت گرم خشک خصوصیات کا مالک ہوتا ہے۔ اس میں غذائیت کی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔ جسامت کو خوبصورت بناتا ہے۔اعضائے رئیسہ اور اعصاب کو طاقت ور بناتا ہے۔ اس کی چربی پٹھوں کی سختی دور کر کے انہیں نرم بناتی اور ورم کو تحلیل کرتی ہے۔ جوڑوں کے درد میں مبتلا افراد قربانی کے اس موقع سے خاطر خواہ فوائد اٹھا سکتے ہیں۔
ایسے افراد جو کولیسٹرول کی زیادتی میں مبتلا ہوں اور وہ عیدِ قربان کا گوشت کھانا چاہیں تو درج ذیل طریقے سے گوشت بنا کر استعما ل کر سکتے ہیں:
بکرے کا گوشت حسبِ ضرورت لے کر اچھی طرح چربی صاف کر لیں۔ایک کلو گرام گوشت میںلہسن100 گرام، پیاز 100 گرام کالی مرچ10 گرام ، زیرہ سیاہ20 گرام اور الائچی کلاں دو عدد شامل کر کے حسبِ ذائقہ نمک سیاہ ڈال کر ہلکی آنچ پر پکائیں۔جب گوشت کے ریشے اچھی طرح نرم ہو جائیں تو بند گوبھی، ٹماٹر اور کچی پیاز کی سلاد اور بالائی اترے دہی کے ساتھ جی بھر کے کھائیں۔کولڈ ڈرنکس کے قریب بھی نہ جائیں بلکہ لیمن گراس قہوے کا ایک نیم گرم کپ ضرور پئیں۔
ایسے افراد جو یورک ایسڈ کی زیادتی اور اس سے جڑے عوارض میںگرفتار ہوں وہ نیچے دیے گئے طرز پہ گوشت بنا کر کھا سکتے ہیں:
چربی سے صاف ایک کلو گرام گوشت میں ادرک100 گرام ، پیاز100 گرام ، لہسن100 گرام ، لونگ5 عدد ، تیز پات 3 عدد اور اجوائن، ہلدی و نمک سیاہ حسبِ ضرورت ڈال کر ہلکی آنچ پر پکائیں۔ ریشے نرم ہونے پر مولی،پیاز ،سبز مرچ اور ادرک کی سلاد کے ساتھ استعمال میں لائیں۔ یخ ٹھنڈے پانی اور کولا مشروبات پینے سے گریز کریں اور درج ذیل نیچرل قہوہ استعمال کریں:
ادرک ایک گرام ، میتھرے 15 دانے ، پودینہ سبز 10 پتے، سبز چائے 10 پتے ایک کپ پانی میں اچھی طرح پکا کر لیمن کے چند قطرے شامل کر کے نوش فرما ئیں۔ دھیان رہے کہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ ایک پاؤ گوشت ہی کھایا جا سکتا ہے۔ زیادتی کی صورت میں نقصان کا اندیشہ ہو گا ۔ واضح رہے کہ اوپر دی گئی مقداریں حسبِ ذائقہ اور حسب گنجائش کم یا زیادہ کی جا سکتی ہیں۔
ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ عیدِ قربان کے گوشت کے استعمال کے حوالے سے ہم اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو کئی ایک معاشرتی ، بدنی اور اخلاقی مسائل سے بچ سکتے ہیں۔ جیسا کہ شرعی حوالے سے تو قربانی کے گوشت کو تین برابر حصوں میں بانٹ کر ایک حصہ مساکین ، فقراء اور دیگر مستحقین میں تقسیم کر دیا جاتا ہے، دوسرا حصہ عزیز و اقرباء اور ہمسایوں کو دے دیا جاتا ہے جبکہ تیسرا حصہ خود گھر میں رکھ کر استعمال کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں بد قسمتی سے عید آ نے سے قبل گو شت جمع اور محفوظ کرنے کی تراکیب بنائی جاتی ہیں۔
اضافی فریزر اور فریج وغیرہ کا بند وبست کیا جاتا ہے۔ رانیں روسٹ کرنے والوں کی طرف سے جابجا بینر ز اور اشتہارات عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لوگ گوشت کو گھر میں ہی رکھنے کے بند وبست کرنے میں مصروف پائے جاتے ہیں۔ قربانی کا تاثر ایک مذہبی تہوار کے کم اور گوشت کھا نے کا موقع زیادہ دکھائی دیتا ہے۔
صاحب ِ ثروت اور مالدار حضرات تو عام دنوں میں بھی پورا سال گوشت ہی کھاتے ہیں جبکہ غریب وغرباء کو سال میں چند دن گوشت کھانے کا موقع ملتا ہے۔لہٰذا ہم قربا نی کر نے کی سعادت حاصل کرنے والوں سے التماس کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے فرمان اقدس کے مطابق ہی گوشت کی تقسیم کریں تاکہ قربانی کے مکمل اور صحیح ثمرات سے فیض یاب ہو نے والے بن سکیں۔
بڑے گوشت کی نسبت چھوٹا گوشت کم مضرات کا حامل ہوتا ہے لہٰذا کوشش کریں کہ بڑے کی بجائے چھوٹے کو ترجیح دی جائے ۔ طبی ماہرین کے مطابق اگر گوشت میں سبزیاں ملا کر پکایا اور کھایا جائے تو اس کے مضر اثرات کافی حد تک بے اثر ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا گوشت پکاتے وقت اس میں شلجم ، مولی ، پالک ،گھیا ، ٹینڈے اور کریلے شامل کر کے ہم اس کے نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ سبز پتوںوالی کچی سبزیوں کی سلاد ، سلاد کے پتے، ٹماٹر ، پیاز اور بند گوبھی کو بھی بطور سلاد استعمال کرکے بھی ہم اس روزِ سعید کو اپنے اور اپنی صحت کے لئے پیغامِ شفاء بناسکتے ہیں۔ عام صحت مند افراد جب بھی گوشت کھائیں تو سونف1/4 گرام ، زیرہ1/4 گرام ، ادرک1 گرام ، الائچی دانہ5 دانے اور شکر سرخ نصف چمچ کو ڈیڑھ کپ پانی میں پکا کر بطورِقہوہ استعمال کریں ، معدے سے جڑے کئی ایک مسائل سے محفوظ رہیںگے۔ یخ ٹھنڈے کولا مشروبات پینے سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کریں۔
مکرر عرض ہے کہ گوشت خود ضرور کھایئے مگر حقیقی مستحقین تک ان کا حصہ بھی ضرور پہنچائیے۔ قربانی کا دن ہمیں ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے۔ہم اپنے مذہب، ملک و قوم،عزیز و اقرباء، دوست و احباب اور اپنے گرد و نواح کے لوگوں کے لئے قربانی دینے والے بن جائیں ۔ اپنی خواہشات ، تعیشات اور ضروریات کو دوسروں کی خواہشوں اور ضرورتوں پر قربان کرنے والے بن جائیں۔ حضرت ابراھیمؑ کی تقلید کرتے ہوئے اللہ کی رضاء و خوشنودی کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کریں۔
قربانی کرتے وقت ہمیں چاہئیے کہ ہم حسد ، تکبر، نفرت ، انتقام ،کینہ ، ریا کاری ، ہوس ، لالچ ، طمع ، خود غرضی ، مطلب پرستی اور خود پسندی کو بھی ذبح کریں تاکہ معاشرے میں پھیلی ہر سو بد امنی ، انتشار، خلفشار اور منافرت کا خاتمہ ہو ۔آئیے ! اس عیدِ قرباں کے موقع پر عہد کریں کہ ہم ابراھیمی نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے قول و فعل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا و خوشنودی کو ملحوظ رکھیں گے۔
نوٹ فرمالیں! پرہیز کا تعلق صرف بیماری سے ہوتا ہے جب تک بیماری ہے تب تک پرہیز ہے ۔جونہی مرض ختم ہوا آپ تمام غذائیں حدِ اعتدال میں رہ کرکھا سکتے ہیں۔ ہمارا اختلاف کھانے سے نہیں ہے بلکہ نان سٹاپ کھانے سے ہے۔ قارئین سے بس اتنی گزارش ہے کہ زندہ رہنے کے لیے کھایا جائے نہ کہ کھانے کے لیے زندہ رہا جائے۔