بجلی کے بقایاجات کی وصولی مہم کامیاب ہوسکے گی۔۔۔۔

سرکاری اسپتال میں ادویات کی نایابی

سرکاری اسپتال میں ادویات کی نایابی۔ فوٹو: فائل

FAISALABAD:
گزشتہ ماہ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے سندھ کا دورہ کیا اور حیدرآباد میں کے ای ایس سی، حیسکو اور سیپکو کے اعلیٰ حکام کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ہدایات جاری کی کہ تینوں کمپنیوں کے خسارے کو کم کرنے کے لیے ریکوری مہم کو تیز کیا جائے، بالخصوص واپڈا کے وفاقی اور صوبائی سرکاری محکموں کی طرف 35 ارب سے زائد بقایاجات وصول کیے جائیں اور عدم ادائی پر ان سرکاری محکموں کی بجلی منقطع کر دی جائے۔

وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی کے ان احکامات کے بعد سکھر الیکٹرک پاور کمپنی ( سیپکو) آپریشن سرکل لاڑکانہ میں ریکوری مہم شروع کر دی گئی، سپرنٹنڈنٹ انجینئر سیپکو سرکل لاڑکانہ نذیرسومروکے مطابق لاڑکانہ ڈویژن کے پانچ اضلاع میں لاڑکانہ، قمبر شہدادکوٹ، شکارپور، جیکب آباد اور کندھکوٹ کشمور میں وفاقی اور صوبائی سرکاری محکموں کی جانب 18 ارب 38 کروڑروپے بقایاجات ہیں، جن کی ادائی نہیں ہو رہی، انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے اداروں میں پاک رینجرزکی جانب گیارہ کروڑ 81 لاکھ، پاکستان ریلویزکی جانب 1 کروڑ 17 لاکھ، پاکستان پوسٹ 47 لاکھ، انکم ٹیکس 7 لاکھ، محکمہ اوقاف 26 لاکھ، آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ 47 لاکھ، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن 41 لاکھ، سوئی ناردرن گیس 65 لاکھ، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن 1 کروڑ45 لاکھ، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن 4 کروڑ 12 لاکھ، جینکو 4 کروڑ 89 لاکھ سمیت دیگر محکموںکی طرف 36 کروڑ سے زائد رقم بجلی کے بلوں کے بقایاجات ہیں جو ادا نہیں کیے جا رہے۔

اسی طرح صوبائی سرکاری محکموں جوڈیشل 1 کروڑ 22 لاکھ، بیورو آف اسٹیٹسٹکس 1 کروڑ 44 لاکھ، سندھ پولیس 93 کروڑ 23 لاکھ، محکمہ تعلیم 1 کروڑ 28 لاکھ، ڈپٹی کمشنر دفاتر 2 کروڑ 68 لاکھ، جیل خانہ جات 2 کروڑ، اسکارپ 59 کروڑ 76 لاکھ، محکمہ آب پاسی 42 کروڑ 90 لاکھ، سندھ ہیلتھ اینڈ ویلفیئر 11 کروڑ 21 لاکھ اور سندھ پبلک ہیلتھ کی جانب 81 کروڑ 28 زلاکھ کے علاوہ لوکل باڈیزکے محکموں میونسپل کارپوریشن لاڑکانہ، میونسپل کمیٹی جیکب آباد، ڈسٹرکٹ کونسل جیکب آباد اور مارکیٹ کمیٹیز اور سندھ یونین کونسلز کی جانب 9 کروڑ 67 لاکھ، ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے محکموں کی جانب 7 ارب 33 کروڑ 76 لاکھ کے واجبات ہیں اس کے علاوہ پانچوں اضلاع کے اکیس ٹی ایم ایز کی جانب بھی 7 ارب 67 کروڑ 76 لاکھ بقایاجات ہیں، جن کی وصولی کے لیے سیپکو حکام نے چار سو سے زائد سرکاری دفاترکی بجلی منقطع کر دی ہے، جن میں محکمہ ایکسائز بھی شامل ہے۔

محکمہ ایکسائز لاڑکانہ کے ذمے تقریباَ دو لاکھ روپے بقایا ہیں، ان کی بجلی بھی منقطع کی گئی لیکن دوسرے روز بجلی منقطع کرنے کے رد عمل میں محکمہ ایکسائز کے انسپکٹر قربان شیخ نے سیپکو چانڈکا سب ڈویژن کی بجلی کے سامان سے لدی ہوئی سرکاری گاڑی نمبر QAG.9913 کو لائن سپرنٹنڈنٹ سائیں بخش بجارانی سمیت عملے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور دفتر لے جا کر کئی گھنٹوں تک حبس بے جا میں رکھا، جس کے بعد کمشنر لاڑکانہ ڈاکٹر سعید احمد اور ڈپٹی کمشنر مرزا ناصر علی کو تحریری طور پر ایکسائز عملے کی زیادتی کے بارے میں آگاہ کیا اس کے بعد کمشنر کی مداخلت پر عملے اور گاڑی کو چھوڑ دیا گیا، لیکن عملے کو غیرقانونی حبس بے جا میں رکھنے والے ایکسائز انسپکٹر کے خلاف کو ئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔


سیپکو کے سرکاری محکموں کی جانب اربوں روپے کی وصولی مہم میں یقینی طور پر کامیابی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن سیپکو کے بڑھتے ہوئے خسارے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ بجلی منقطع کرنے سے سیپکو کو 18ارب کی رقم تو نہیں ملی اور سرکاری محکموں کے افسران بالا نے منقطع کی گئی بجلی دوباری بحال کرالی، اگر وفاقی اور صوبائی حکومت سیپکوکو بحران سے نکالنے کے لیے سنجیدہ نظر آئے تو اس خطیر رقم کی وصولی سے خسارے کو کم کیا جا سکتا ہے، جس کی کوئی امید نظر نہیں آتی، واپڈا کے لائن لاسز کو کم کرنے اور سرکاری ونجی اداروں کی طرف بڑے پیمانے پر موجود نادہندہ صارفین سے وصولی کے لیے تعینات کی جانے والی ایف آئی اے کی ٹیم کی کارروائیاں بھی تیز دکھائی دے رہی ہیں، ایف آئی اے کے انسپکٹر ذیشان کی سربراہی میں سپرنٹنڈنٹ انجینئر نذیر سومرو، ایگزیکٹو انجینئر احمد خان شیخ سمیت دیگر سیپکو عملے نے شہر کے کئی علاقوں نوڈیرو بائے پاس، لوہرکالونی، او پی کالونی، پھل روڈ، باقرانی روڈ اور دیگر قمبر شہداد کوٹ کے مختلف علاقوں میں بھی چھاپہ مار کارروائیاں کیں، جن میں بجلی چوری کرنے کے واقعات میں ملوث بااثر 25 سے زاید افراد کو گرفتار کر کے سکھر لے جایا گیا ہے، جہاں ان کے خلاف مقدمات درج کر کے عدالت میں پیش کیا جائے گا، سیپکو کی ریکوری مہم تیزی سے تو جاری ہے اور ایف آئی اے بھی متحرک نظر آتی ہے، لیکن شاید بجلی کے نا دہندگان یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ بلوں کی ادائی نہیں کرنی، ان حالات میں دیکھنا یہ ہے کہ سیپکو، ایف آئی اے کے ساتھ مل کر بقاجات کی وصولی میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔

دوسری جانب محکمے ہیلتھ کے افسران لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں اور شہریوںکی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ ماجراکچھ یوں ہے کہ اندرون سندھ کی سب سے بڑی سرکاری علاج گاہ، چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ادویات کا سنگین بحران پیدا ہو گیا ہے، جس کے شدت اختیار کرنے کا خدشہ ہے، شعبہ حادثات میں انتہائی نازک حالت میں لائے جانے والے مریضوں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگ گئی ہیں اور وارڈ میں بخار کے انجیکشن پروواز، انجیکشن ایماکسل، انجیکشن ٹیگزولک اینٹی بائیو ٹک، جراثیم کش محلول، پایوڈین، درد کش ادویات اور ہائیڈروجن پچھلے کئی روز سے ختم ہو چکے ہیں، اور فراہم نہیں کی جا رہیں، جس کے باعث روزانہ کی بنیاد پر انتہائی نازک حالت میں لائے جانے والے سینکڑوں مریضوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں، جب کہ سندھ اور بلوچستان کے دور دروز علاقوں سے لائے جانے والے مریضوں کے ورثاء اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے ادویات خرید کر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

اس سلسلے میں شعبہ حادثات کے عملے نے بتایا کہ یہاں صبح، شام اور رات کی تینوں شفٹوں میں روزانہ کی بنیاد پر سات سو مریض ایمرجنسی میں لائے جاتے ہیں، جنہیں فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن پچھلے کئی روز سے شعبہ حادثات میں بنیادی اور جان بچانے والی ادویات کی شدید قلت ہے، جس کے باعث نہ صرف ڈاکٹرز اور عملہ شدید مشکلات کا شکار ہے بلکہ مریض اور ان کے ورثاء بھی اذیت میں مبتلا ہیں، عملہ کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ صبح اور شام کے اوقات میں تو مریض اپنے پیسوں سے شعبہ حادثات کے قریب میڈیکل اسٹورز سے مطلوبہ ادویات لے آتے ہیں، لیکن کئی مریضوں اور ان کے ورثاء کو بیس روپے والا انجیکشن بھی رات گیارہ بجے کے بعد جب قریبی ادویات کے اسٹور بند ہوجاتے ہیں، اسپتال سے دوردراز علاقوں سے جا کر لانا پڑتا ہے، انہوں نے بتایا کہ ادویات کی قلت کے ساتھ ساتھ پیرا میڈیکل اسٹاف کو دستانے بھی میسر نہیں جس کے باعث علاج کے دوران مختلف مریضوں کے جراثیم بھی دیگر مریضوں میں منتقل ہورہے ہیں جن سے کئی جانوں کو بھی خطرات ہیں۔

اس صورت حال کے پیش نظر جب چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر صفی اﷲ عباسی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی ادویات کے بحران کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ادویات کے ٹینڈر میں دیر ہونے کے باعث سپلائی آرڈر تیار نہیں ہوا اور اس کے مکمل ہوتے ہی مذکورہ ادویات لاڑکانہ پہنچ جائیں گی، دوسری جانب ڈویژنل کمشنر لاڑکانہ ڈاکٹر سعید احمد نے چند روز پہلے انہوں نے دورہ کیا تھا لیکن کسی نے انہیں کوئی شکایت نہیں کی، انہوں نے کہا کہ چانڈ کا میڈیکل کالج اسپتال کے ایم ایس کو سالانہ کروڑوں روپے بجٹ ملتا ہے اگر ٹینڈر پاس ہونے میں دیر ہوئی اور سپلائی آرڈر تیار نہیں ہوا تو وہ بنیادی ضروری ادویات کی مقامی سطح پر خریداری کر سکتے تھے، تاہم انہوں نے بھی اسپتال انتظامیہ کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور یہاں تک کہا کہ انہیں سرکاری اسپتالوں میں جعلی ادویات کے استعمال کی شکایات بھی موصول ہوئی ہیں، جس پر انہوں نے ایکشن بھی لیا ہے کمشنر نے مزید کہا کہ وہ شعبہ حادثات میں ادویات کی قلت کا نوٹس لے کر تحقیقات کے احکامات دے رہے ہیں اور جس کی بھی کوتاہی سامنے آئی، اس کے خلاف محکمانہ کارروائی ضرور کی جائے گی،کیوں کہ یہ انسانی زندگی کا مسئلہ ہے ۔
Load Next Story