یہ ’’داغ‘‘ کہاں پر دھلتے ہیں

عزیر بلوچ کے سر سے جس طرح الزامات دھل رہے ہیں، لگتا ہے بہت جلد ان کے نام کے ساتھ محترم بھی لکھنا پڑے گا

عزیر بلوچ پر لگنے والے الزامات کی فہرست بہت طویل ہے۔ (فوٹو: فائل)

''کچھ سنا آپ نے؟''
جی، جی! سنا تو بہت کچھ ہوگا، ہمارے ملک میں روز درجنوں چٹ پٹے واقعات جو ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ہم تو بات کررہے ہیں لیاری کے بدنام زمانہ کردار ''عزیر بلوچ'' کی، جن کے بارے میں اطلاع ہے کہ انھیں مزید دو مقدمات سے ''باعزت بری'' کردیا گیا ہے۔

پیر کو کراچی جوڈیشل کمپلیکس میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی کی عدالت نے 2 مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ کو ''عدم ثبوت'' کی بنیاد پر بری کردیا ہے۔ عذیر بلوچ اب تک خود پر عائد 17 الزامات میں بری ہوچکے ہیں۔

عذیر بلوچ جس طرح اپنے جرائم سے ''عدم ثبوت'' کی بنا پر بری ہورہے ہیں اور سندھ حکومت کی نااہلی یا دانستہ کیسز کو ''کمزور'' پیش کرنے پر جس طرح عزیر بلوچ کے سر سے الزامات ''دھل'' رہے ہیں، لگتا ہے بہت جلد وہ بھی محترمین کی لسٹ میں شامل ہوکر ہمیں ایوان میں نظر آئیں گے اور جمہوریت کے فوائد پر تقریر کررہے ہوں گے۔

عجب غضب کہانی ہے ناں! لیاری میں دہشت کی علامت سمجھے جانے والا کردار، جو خود اپنے جرائم کا اعتراف کرچکا ہے، ایک کے بعد ایک الزام سے ''بری'' ہوتا جارہا ہے۔ آخر یہ کون سی واشنگ مشین ہے جو اس طرح بے داغ صفائی دے رہی ہے؟

ابھی گزشتہ ماہ ہی تو عزیر بلوچ نے مفاہمتی سیاست کے بادشاہ آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کو کروڑوں روپے ماہانہ بھتہ پہنچانے کا انکشاف کیا تھا۔

یہ خبر بھی پڑھیے: فریال تالپور کو کروڑوں روپے بھتے کی مد میں دیئے، عزیر بلوچ کا اقبالی بیان

عقل حیران ہے کہ مجرم کے اعترافی بیان کے باوجود بھی یہ ''عدم ثبوت'' کہاں سے آجاتے ہیں؟ خیر اس مذکورہ اعتراف تک پہنچنے میں ابھی شاید وقت لگے، فی الحال تو پرانے اور بوسیدہ کیسز کی ہی سنوائی ہورہی ہے، جس میں عذیر بلوچ ''بابا جی کی کرامت'' کے طفیل ''باعزت بری'' ہوتے جارہے ہیں۔

عزیر بلوچ پر لگنے والے الزامات کی فہرست جس قدر طویل ہے اور ماضی میں محترم سیاسی شخصیات خاص کر سندھ کی کرتا دھرتا حکومت پیپلز پارٹی کی سیاسی قیادت کے ساتھ عزیر بلوچ کے تعلقات کے جو مناظر عوام کے سامنے آئے اس پر لب کشائی وقت کا ضیاع ہوگی۔




چلیے دل کے مزید پھپھولے پھوڑنے سے پہلے عزیر بلوچ کے بیک گراؤنڈ اور اس سے وابستہ جرائم کی جے آئی ٹی رپورٹ قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

عزیر بلوچ سے تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی جو رپورٹ سندھ حکومت نے پبلک کی، اس میں عزیر بلوچ سے وابستہ جرائم، بھتہ خوری، دہشت گری اور سیاسی شخصیات سمیت اہم معلومات رپورٹ کی گئیں۔

10 اکتوبر 1977 کو لیاری کے علاقے سنگولین میں پیدا ہونے والے عذیر بلوچ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 2003 میں اپنے والد فیض محمد کے قتل کا بدلہ لینے کی غرض سے جرائم کی دنیا میں داخل ہوا تھا۔ عذیر کے والد فیض محمد کا قتل لیاری کے ہی گینگ لیڈر ارشد پپو نے خاندانی دشمنی کی بنا پر کیا تھا۔ عزیر بلوچ کے کزن رحمٰن ڈکیت کو ارشد پپو کا حریف سجھا جاتا تھا۔ عزیر بلوچ کو حاصل پیپلز پارٹی کی سیاسی سرپرستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ 2008 میں رحمٰن ڈکیت کی موت کے بعد عزیر بلوچ گینگ میں مرکزی کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ 2012 تک پیپلز پارٹی لیاری میں امن کمیٹی کی حمایت کررہی تھی اس لیے امن کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے عزیر بلوچ کو بھی پارٹی کی حمایت حاصل رہی۔ لیکن بعد ازاں پیپلز پارٹی اور امن کمیٹی کے مابین تعلقات خراب ہونے پر سندھ حکومت نے اپریل 2012 میں لیاری میں آپریشن شروع کیا۔ لیکن صرف ایک ہفتے کے آپریشن کے بعد عزیر بلوچ کے تمام مطالبات مانتے ہوئے سندھ حکومت نے آپریشن ختم کردیا تھا۔

عزیر بلوچ دہشت گردی، قتل اور بھتہ خوری سمیت 20 سے زیادہ مقدمات میں مطلوب تھا۔ اس نے انکوائری کے دوران قتل کے 198 واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا تھا۔

یہ خبر بھی پڑھیے: عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی منظر عام پر؛ 198 افراد کو قتل کرنے کا اعتراف

اگر ماضی میں پیش کردہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مندرجات پر نظر ڈالی جائے تو عزیر بلوچ کے کئی اعترافی جرائم دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے عزیر بلوچ نے 2010 میں بھتے کے معاملے پر چاکیواڑہ اور کلاکوٹ کے تھانوں اور پولیس کوارٹرز پر حملوں کا اعتراف کیا۔ 19 اکتوبر 2010 کو کراچی کے علاقے کباڑی مارکیٹ میں فائرنگ کرکے 12 افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ 6 نومبر 2012 کو عزیر بلوچ نے بلوچ مخالف بیانات دینے پر اپنے دوست کے ذریعے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے لیاری ٹاؤن کے نائب ناظم ملک محمد خان کو قتل کروایا۔ اس واقعے کے بعد لیاری میں اپریشن شروع ہوا۔ عزیر بلوچ نے مارچ 2013 میں رینجرز کے دو اہلکاروں کو اغوا کے بعد قتل کرنے کا بھی اعتراف کیا تھا۔

عزیر بلوچ کا یہ اعتراف بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس نے 17 مارچ 2013 کو تین پولیس انسپکٹروں، دیگر اہلکاروں اور اپنے کارندوں کے ساتھ ارشد پپو اور اس کے ساتھی یاسر عرفات اور شیرا پٹھان کو اغوا کرکے قتل کیا۔ یہ واردات پولیس موبائلوں کے ذریعے کی گئی تھی۔

عزیر بلوچ نے جے آئی ٹی کو اپنی ایرانی شہریت کے بارے میں بھی بتایا تھا۔ اس نے 2014 میں ایرانی شہر چاہ بہار میں ایرانی انٹیلی جنس حکام سے ملاقات کا بھی انکشاف کیا جس میں ایرانیوں نے پاکستانی حکام اور تنصیبات کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کو کہا تھا۔ اسی واقعے کے بعد عزیر بلوچ کو گرفتار کرکے اس پر فوجی عدالت میں مقدمات چلائے گئے جن میں اسے 12 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

لیکن جس طرح اب ایک کے بعد ایک عذیر بلوچ تمام مقدمات سے ''باعزت بری'' ہوتا جارہا ہے، اس سے عوام ہمارے انصاف کے سسٹم سے مایوس ہورہے ہیں۔ لوگوں کی رائے میں اگر سانحہ بلدیہ ٹاؤن اور گینگ وار میں ملوث ''مجرم'' اسی طرح بری ہوتے رہے تو پھر شیطان بھی ''کنفرم جنتی'' ہونے کا دعوے دار ہوسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story