حق تلفی سے اجتناب کیجیے ۔۔۔۔

ہماری شامت اعمال کہ ہم غیبت، ملاوٹ، دھوکا، فریب، عیب داراور کم معیار کی اشیاء فروخت کرنے جیسے عظیم گناہ میں مبتلا ہیں۔

ہم نے اپنے اور دوسروں کے لیے الگ پیمانے بنا رکھے ہیں۔ فوٹو: فائل

سورۃ المطفّفین کی ابتدائی چھے آیتوں میں اﷲ تعالی نے ایک بہت بڑے گناہ کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ گناہ ہے، دُہرے پیمانے۔

ان آیات کا مفہوم ہے: ''بربادی اور ہلاکت ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے، جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ لوگوں سے خود کوئی چیز ناپ کر لیتے ہیں تو پوری لیتے ہیں، اور جب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کردیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں سوچتے کہ انہیں ایک بڑے زبردست دن میں زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔ جس دن سب اﷲ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔''

مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ ''ویل'' جہنّم کی ایک وادی کا نام ہے جو اتنی گہری ہے کہ اگر جہنّم کے اوپر سے کوئی پتھر پھینکا جائے تو وہ پتھر اس کہ تہہ میں چالیس سال کے بعد پہنچے گا۔ چناں چہ اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوجائے گا کہ دُہرے پیمانے مقرر کرنے والوں کے لیے جہنّم کہ وہ وادی مقرر ہے جس کی گہرائی اتنی ہے کہ پھینکا جانے والا پتھر اس کی تہہ میں چالیس سال کے بعد پہنچے گا۔

اﷲ تعالی نے اس عظیم گناہ اور جرم کو ناپنے اور تولنے سے تعبیر کیا ہے جس سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تطفیف کا تعلق صرف لین دین سے ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ تطفیف کے مفہوم میں بہت وسعت ہے اور اس میں وہ تمام صورتیں داخل ہیں جس میں ایک شخص اپنا حق تو پورا وصول کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہے لیکن اپنے ذمے جو دوسروں کے حقوق ہیں تو اس کو ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔

لہٰذا ناپ تول کے سلسلے میں قرآن کریم کے جتنے ارشادات ہیں ان کا مخاطب ہر وہ شخص ہے جس کے ذمے دوسرے کا کوئی حق ہو، مثال کے طور پر شوہر کے لیے حکم ہے کہ بیوی کے حقوق پورے ادا کرو، بیوی کے لیے حکم ہے کہ شوہر کے حقوق میں کوتاہی و غفلت نہ برتے۔ اب اگر کوئی شوہر بیوی سے تو اپنے حقوق پورے مانگے اور وصول کرے، لیکن بیوی کے حقوق میں کمی اور کوتاہی کا مرتکب ہو رہا ہے تو وہ اس آیت کی روشنی میں مطفف شمار ہوکر سخت وعید کا مستحق ہے اور ناپ تول میں کمی کرنے والا کہلائے گا۔

اسی طرح ملازم کے لیے ان آیا ت میں یہ ہدایات ہیں کہ حکومت یا انتظامیہ کی طرف سے جو فرائض تمہارے سپرد کیے گئے ہیں اور جن کے بدلے تمہیں تن خواہ دی جا رہی ہے وہ دیانت داری اور تن دہی سے سرانجام دو اور انتظامیہ کے لیے یہ ہدایت ہے کہ ملازم کے وہ تمام جائز حقوق اسے پورے پہنچا دو، جن کے بدلے تم اس کی محنت سے استفادہ کر رہے ہو۔

ال غرض دنیا میں کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں ہے جس کے لیے ان آیات میں جامع راہ نمائی موجود نہ ہو۔ ناپ تول میں کمی کی بدترین شکل یہ ہے کہ انسان اپنے اور دوسروں کے لیے الگ پیمانے بنالے۔ آیت اور وعید کا تعلق صرف تاجروں کے ساتھ نہیں بل کہ جتنا تعلق اس کا تاجروں کے ساتھ ہے اتنا ہی غیر تاجر کے ساتھ بھی ہے اگر کوئی تاجر کم ناپ اور تول کر دوسرے کا حق مارکر حرام کماتا ہے تو بالکل اسی طرح یہی حکم اس ملازم اور مزدور کا بھی ہے جو تن خواہ اور اجرت تو پوری لیتا ہے لیکن ڈیوٹی میں کمی کرلیتا ہے۔


مثال کے طور پر دیر سے آنا اور جلدی واپس جانا، ڈیوٹی کے اوقات میں ذاتی کام کرنا وغیرہ (جس طرح آج کل شعار بن چکا ہے) ظاہر بات ہے کہ اس صور ت میں تن خواہ کا وہ حصہ حرام ہوگا جو اس وقت کے بدلے میں ہو جس میں ڈیوٹی سرانجام نہیں دی ہو۔ کیوں کہ اپنے ذمے جو فرائض ہیں وہ پوری طریقے سے ادا نہیں کیے اور تن خواہ پوری وصول کررہے ہیں۔

حرام خوری کا تعلق صرف چوری اور ڈاکے کے ساتھ نہیں بل کہ اس میں یہ سب چیزیں داخل ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس طرف توجہ اور دھیان بھی نہیں کہ حرام خوری میں مبتلا ہیں۔ بلکہ ڈیوٹی میں غفلت برتنے میں ایک اور خرابی بھی ہے کہ اس سے مخلوق خدا بھی پریشان ہوتی ہے، وہ دفتر کے باہر دھوپ میں کھڑے ہوتے ہیں جب کہ متعلقہ افسران یا تو موجود ہی نہیں ہوتے یا پھر گپ شپ اور ذاتی کاموں میں مصروف ہوتے ہیں تو اس طرز عمل سے ایک طرف تن خواہ حرام ہورہی ہے اور دوسری طرف خلق خدا کو پریشان کرنے کا گناہ سے الگ ہو رہا ہے۔

کرپشن، جو آج ہمارے ملک کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے، اسی بددیانتی اور خیانت کا نام ہے۔ بہ ہر حال آیت مذکورہ میں درحقیقت ان لوگوں کی مذمّت کی گئی ہے جنہوں نے زندگی کے معاملات میں دُہرے پیمانے بنا رکھے ہیں، جو اپنے مفاد کے حصول میں تو بہت تیز اور دوسرے کے حق دینے میں بخیل ہیں۔ ہم نے تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں ان خود ساختہ دُہرے پیمانوں کو اختیار کیا ہوا ہے اور اپنے آپ کو قرآن کریم کی اس سنگین وعید کا مستحق بنا رکھا ہے۔

حدیث شریف میں بھی دہرے پیمانے سے صراحتاً منع کیا گیا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔'' یعنی یہ نہ ہو کہ اپنے لیے تو کچھ اور پیمانہ اور دوسروں کے لیے کچھ اور ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اپنی ذات سے تبدیلی کا آغاز کرکے اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنی زندگی کا جائزہ لے کہ کہیں ہم دُہرے پیمانوں جیسے غیبت، ملاوٹ، دھوکا، فریب اور عیب دار یا ملاوٹ شدہ یا کم معیار کی اشیاء فروخت کرنے جیسے عظیم گناہ میں مبتلا تو نہیں۔

کہیں ہم نے اپنے اور دوسروں کے لیے الگ پیمانے تو نہیں بنا رکھے ہیں؟ جب تک یہ فکر اور احساس ہمارے دلوں کے اندر پیدا نہیں ہوگا اور ہمیں قرآن کریم کے اس وعید سے ڈر نہ لگے تب تک حق تلفی اور بدعنوانی اور غبن میں کمی اور خاتمے کا سوچنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارا معاشرہ یوں ہی بے چینی اور پریشانیوں کا شکار رہے گا، کیوں کہ جس معاشرے میں حق تلفی کا بازار گرم ہو تو اس کا نتیجہ پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں۔ ہم بدامنی اور پریشانیوں اور بے چینی کا رونا اس لیے رو رہے ہیں کہ ہم اس خوئے بد میں مبتلا ہیں اور یہ عذاب ہمارے اپنے اعمال بد کا نتیجہ ہے۔

اﷲ تعالی ہم سب کو تطفیف کے عذاب سے محفوظ فرمائے۔ آمین

 
Load Next Story