یہاں سے ملک کو دیکھیں
پاکستان کاالمیہ ہم 22کروڑلوگوں کی اجتماعی بے حسی ہے جنھوں نے کبھی اپنی طرف توجہ نہیں کی ساری دنیا کا دردسینے میں رکھا۔
اپنے اپنے دعوئوں کے ساتھ ملک ترقی اور تنزلی پر ایک ہی وقت میں گامزن ہے۔ حکومت کہتی ہے سب ٹھیک ہوگیا ، اپوزیشن کا کہنا ہے سب ٹوٹ پھوٹ گیا۔ اب مانیں کس کی، ماہرِ معاشیات بھی اپنے اپنے ہیں کچھ ادھر ، کچھ اُ دھرکی بات کرتے ہیں۔
ٹی وی چینلز پر روزانہ ایک گھمسان کی جنگ ہورہی ہوتی ہے عوام سنتے ہیں ، سر دھنتے ہیں کیونکہ ان کی حالت نہ اس حکومت میں تبدیل ہوئی نہ اس سے پیشتر کبھی اس کی بیمار حالت میں کوئی افاقہ ہوا۔ قارئین کرام ! ملک کو مختلف سمتوں سے دیکھنے کی اور آپ کو دکھانے کی اپنی سی ایک کوشش کروں گا یہ کچھ ایسے پہلو ہیں جن کا کسی ملک کی بنیاد اور اساس سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ان میں سماجی ، سیاسی ، معاشی ، تعلیمی ، شعوری ، تحقیقی ، صحت ، کھیل ، ادب اور کئی مقام ایسے ہیں جہاں سے ملک کا جائزہ لینا اور لیتے رہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارا ملک اس حوالے سے بہت پیچھے ہے کیونکہ آزادی کے بعد سے ہی کچھ ایسے حالات و واقعات پیش آ ئے جن کے بعد ملک پٹری پر نہ چڑھ سکا اور لاکھ اصلاح کی کوشش پر بھی جو خرابی جڑ پکڑ چکی تھی وہ مزید پھیلتی گئی اور سُکڑ کر نہ دی ۔ ایک بڑی غلطی کسی ایک نظام کا تسلسل سے نہ ہونا ہے ، یعنی جسے بھی اقتدار ملا اسے ایک خواہش نے ڈسا کہ ایک تو میرا اقتدار جس قدر طویل ہو سکتا ہے کِیا جائے ، دوسرا میں کچھ ایسا نیا کر جائوں کہ میرے بعد تاریخ عالم میں میرا نام لال، پیلی سیاہی سے ضرور لکھا جائے اور ہوا بھی ایسا ہی جو مقتدر حکومت سے گیا۔
اس کا نام تاریخ کا حصہ تو بنا لیکن منفیت کے اعتبار سے بے وقوفی کے لحاظ سے ، عاقبت نہ اندیشی کی سیاہی سے تحریر ہوا۔ کوئی دورِ حکومت ایسا نہیں جسے مثالی کہا جاسکے یا مان لیا جائے کہ فلاں وزیرِاعظم کا زمانہ فقیدالمثال رہا عوام سکھ میں تھے بالخصوص ملک کا غریب اور مڈل کلاس طبقہ۔ فنونِ لطیفہ قوموں کی حیات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کا وجود ہی وطنِ عزیز میں ناپید سا ہے ، صحت کا یہ حال ہے کہ پورے ملک میں ایک طبقے کو چھوڑ کر اگر کوئی صحت مند ہے یا زندہ ہے تو قدرت کی جانب سے ورنہ اپنے اسپتالوں کا ، ڈاکٹر ز کا ، صحت کے قومی ، صوبائی وزراء کا یا مرکزی حکومت کا اس میں مطلقا کوئی کردار نہیں اسی طرح سے دیگر محکموں کا حال ہے یعنی آپ قدرت کی حفاظت میں ہیں تو محفوظ ہیں ورنہ آپ جانیں آپ کا کام (یہاں سے ملک کو دیکھیں) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں آپ کو مریخ یا عطارد سے ملک دکھائوں گا بلکہ ترقی کے طویل دعوئوں کے بر عکس میں پچھلے 73برسوں کے دوران پاکستان میں ہوا کیا وہ دکھانے کی کوشش ضرور کر رہا ہوں ۔
ہماراliteracy rate کیا ہے 12 سے 14 فیصد اور ہم نے اس میں اضافے کی کیا کوششیں کیں؟ اب تک تو انقلابی کوششوں کا آغاز ہوجانا چاہیے تھا لیکن کون ہے جو چاہتا ہے کہ یہ قوم جاہل رہے اور اس کے اقتدار کو دوام ملتا رہے! امنِ عامہ کو کنٹرول کرنیوالے ادارے ہوں یا انصاف فراہم کرنے والی عدالتیں ، آپ کو سانحہ ساہیوال یاد ہے جس کے مجرم بری ہوچکے حالانکہ ان کی videos ثبوت کے طور پر ساری دنیا نے دیکھی لیکن نہیں دیکھی تو انھیں بری کرنیوالے ججز نے۔ کوئٹہ کی ایک طاقتور شخصیت نے سرِ عام ایک ٹریفک کانسٹیبل کو اپنی گاڑی سے کچل دیا۔
ساری دنیا نے وہ گاڑی بھی دیکھی ، گاڑی چلانے والے کو بھی دیکھا اور یہ وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیوز میں شاید سب زیادہ عام تھی۔ اب اگر ازروئے قرآن اللہ پاک کے حکم کو دیکھیں تو حکم یہ ہے کہ کسی جرم کے چار گواہ ہونے چاہییں جو صاحب کردار بھی ہوں اگر ایسا ہو تو اس ملزم کو مجرم قرار دیا جائے اور سزا دی جائے جب کہ یہاں تو سارا ملک اُس جرم کا گواہ تھا کہ کیسے ایک طاقتور شخص نے اپنی گاڑی سے ایک ڈیوٹی کرتے ہوئے ٹریفک کانسٹیبل کو کچل کر ہلاک کر دیا تھا لیکن وہ صاحب بھی عدم ثبوت اور گواہوں کے نہ ہونے کے سبب شک کے فائدے میں عدالت سے بری ہوگئے ، جب کہ گواہی کے طور پر وہ وڈیو موجود تھی۔ تب یہ ملک آخرکیونکر اور کیسے چلے گا ؟۔
اہلِ یورپ کو برا بھلا کہتے ہیں ہر مسئلے میں ہنود و یہود کی سازشیں تلاش کرتے ہیں ، اپنی بربادی کا ذمے دار ان کے لباس اور ثقافت کو قرار دیتے ہیں لیکن زندگی میں استعمال ہونے والی ہر شے ان کی ایجاد کردہ ہوتی ہے medicine ہو یا کار ، اے سی ہو یا فرج ، ہتھیار ، موبائل فونز غرض کہ ہر شے جو ہم استعمال کرتے ہیں وہ ان ہی اقوام کی بنائی ہوئی یا ایجاد کی ہوئی ہے حتیٰ کہ ملک چلانے کے لیے پیسے نہیں ادھار بھی ان کے اداروں سے لیتے ہیں بس آخر میں گالی اور سازش کا ذمے دار بھی ان ہی اقوام اور ممالک کو قرار دیتے ہیں۔
ہمارے معیارِ زندگی بھی دہرے نہیں تہرے ہیں خود آپسی زندگی میں ہم ہر طاقتور سے دبتے ہیں بلکہ جوتے کھاتے ہیں اور ہر غریب کو جوتے مارتے ہیں۔ کوئی امیر آدمی مسجد میں نماز پڑھنے آجائے تو کہتے ہیں کہ کیا انکساری ہے ، عاجزی ہے اللہ نے اتنا دیا پھر بھی دین دار ہے اور کوئی غریب آجائے تو دہائی دیتے ہیں کہ ضرور جوتی چرانے آیا ہوگا۔ لہٰذا عذاب کی یہ بھی ایک صوت نازل ہوچکی کہ بڑی تعداد میں ہر مجمع کی زینت بنتے ہیں ، کوئی سیاسی ریلی ، جلسہ نعرے لگوانے ہوں ہر مقام پر ہم عوام موجود ہوتے ہیں بس نہیں نکلتے تو خود اپنے لیے کبھی نہیں نکلتے ، مجال ہے جو کسی حکومت سے مہنگائی کا جواب مانگا ہو ؟ بجلی کی قیمتیں کیوں بڑھ جاتی ہیں ، پیٹرول پر کونسے اضافی ٹیکسز عائد ہیں؟ کچھ خبر نہیں۔
1000لوگ آج تک جمع نہیں ہوسکے! اپنے لیے اپنی آنیوالی نسلوں کے لیے ایک اچھے مستقبل کے لیے کبھی تو کسی وابستگی کے بغیر ، قوم قبیلے کی پہچان کے بغیر اس لیے احتجاج کرتے ایک قوم بن کر جمع ہوتے کہ ہم ہیں جن سے ملک چلتا ہے ہم ہی پاکستان ہیں ہماری پہچان ہمارا یہ اجتماع ہے لیکن ایسا آج تک تو ہو نہیں پایا ممکن ہے کئی دہائیوں گزرنے پر کبھی یہ معجزہ رونماء ہوجائے اور ہم سندھی، پنجابی ، پختون ، بلوچ کے بجائے خود کو ایک قوم مانیں اور صرف اپنے لیے اپنے جائز حقوق کے لیے گھر سے باہر نکلیں ایسا کیوں نہیں ہو پارہا سمجھ سے بالاتر ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کا المیہ ہم 22کروڑ لوگوں کی اجتماعی بے حسی ہے جنھوں نے کبھی اپنی طرف توجہ نہیں کی ساری دنیا کا درد سینے میں رکھا ، بس نہیں یاد رہے تو اپنے بچے ، اپنا گھر اور جب تک ہم بیدار نہیں ہوں گے اس ملک کے اس قوم کے حالات نہیں سدھرنے والے میں پاکستان کو یہیں سے دکھانا چاہتا ہوں، کیونکہ موجودہ پاکستان یہی ہے۔