افغانستان کس کو فتح ملی
امریکا اورنیٹو فورسزنے بھی یہ تصورکیا کہ وہ ماضی کی سپرپاورز کی نسبت بہترپالیسیوں کے ساتھ افغانستان پرحملہ آورہوں گے۔
'' کیا افغانستان میں طالبان کی تاریخی فتح ٹیکنالوجی پر ایمان کی فتح ہے؟آئیے ، اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
جی ہاں ! بلاشبہ طالبان نے ٹیکنالوجی کے مقابلے میں وحدت، یکجہتی، آزادی کے لیے ایک لگن اور ایمان کی طاقت کے ذریعے مقابل کی تمام قوتوں کو شکست دی ہے ، افغانستان میں جو گاڑی نیٹو فورس رعونت کے طور پر استعمال کرتے تھے، آج اس گاڑی کو طالبان رکشے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ، اس سے زیادہ ان کی ٹیکنالوجی کی تذلیل اورکیا ہوگی۔
افغانستان 21 ویں صدی کی سب سے بڑی مثال ہے جہاں جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی اور پڑوسی ملکوں کی لاجسٹک سہولتوں سے لیس ملک نے خرقہ پوشوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں ، جدید ٹیکنالوجی کے دعویدار رات کی تاریکی میں بگرام ایئر بیس چھوڑ کر بھاگے ہیں۔
افغانستان میں عوام نے بار بار عالمی استعماری قوتوں کو شکست دی ہے، برطانیہ بھی اسی تکبر اور غرور میں آیا تھا کہ افغانستان کے عوام کو فتح کرلے گا لیکن وہ ایسا نہ کرسکا ، سوویت یونین بھی اسی غرور اور تکبر کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا لیکن افغان عوام کو فتح نہ کرسکا۔
امریکا اور نیٹو فورسز نے بھی یہ تصورکیا کہ وہ ماضی کی سپر پاورز کی نسبت بہتر پالیسیوں کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوں گے ، اس پر قابض ہو جائیں گے، افغان عوام کو شکست دیں گے لیکن انھوں نے ہمیشہ کی طرح اپنی آزادی، اپنی ایمان اور اسلام کی بنیادوں کو مضبوط رکھا ہے اور استقامت کے ساتھ اکٹھے رہے ، یہی کہا جاسکتا ہے کہ وحدت، یکجہتی، آزادی کے لیے ایک لگن اور ایمان کی طاقت کے ذریعے مقابل کی تمام قوتوں کو شکست دی جو جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس تھیں۔
افغان عوام نے ثابت کیا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جری قوم ہے جنھوں نے کبھی کسی کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیا ، انھوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ طاقت سے آپ علاقے فتح کر سکتے ہیں، غلام بنا سکتے ہیں لیکن جب تک کوئی قوم ذہنی طور پر اپنے آپ کو غلام نہ بنا لے ، اس وقت تک کسی کو غلام نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ جب سے افغانستان میں جنگ شروع ہوئی ہے اس وقت سے ایک تصور تھا۔
لوگ کہتے تھے کیونکہ امریکا اور نیٹو کی ٹیکنالوجی ہے یہ بہت مضبوط ہے اور اسی ٹیکنالوجی ہی نے افغانستان میں روس کے خلاف جنگ جیتی تھی کیونکہ روس کی ٹیکنالوجی کمزور تھی ، ڈرون طیاروں کے ذریعے حملہ کیا جاتا ہے اور سیٹلائٹ کے ذریعے سب کچھ کنٹرول کیا جاتا ہے اور سورج غروب ہوجائے تو نائٹ ویجن ڈیوائسز موجود ہیں۔ اس سب کے باوجود طالبان نے شکست دی ہے ، میری نظر میں توٹیکنالوجی کا ایمان سے تقابل بنتا ہی نہیں ہے کیونکہ جب اللہ کا وعدہ فتح کا ہے تو پھر مخلوق کا تقابل کیسے کیا جا سکتا ہے۔
فتح یاب ہونے کے لیے صرف ایمان ہی کافی نہیں بلکہ ایمان کامل، اعمال صالحہ اور توکل خداوندی بھی ضروری ہے پھر اللہ تعالیٰ مظلوموں کو فتح یاب کرتا ہے ، اس پر فخر یا اترانا نہیں چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل وکرم پراس رب کے حضور سجدہ شکر بجا لانا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے ایمانی جذبہ اور جذبہ حریت کی وجہ سے طالبان کی نصرت فرمائی ہے ، ان 20 برس میں بڑی آزمائشیں اس قوم نے جھیلی ہیں ، بالخصوص میدان جنگ میں طالبان بڑے مصائب اور بڑی مشکلات سے دوچار رہے ہیں' ہزاروں شہادتیں ہوئیں اور املاک تباہ ہوئی ہیں' اگرچہ دنیا کی بڑی طاقتیں افغانستان پر حملہ آور تھیں جو ناکام رہیں۔
پرویز مشرف کی قیادت میں فوج واشنگٹن کی ایک ہی دھمکی پر ڈھیر ہوگئی تھی ، اس کے نتیجے میں پاکستان کی تمام سیکولر اور قوم پرست حلقوں نے امریکی حملے اور اس کی افغانستان کی آمد کی حمایت کی تھی لیکن اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر مسلح تنظیمیں بن گئیں خود ہماری فوج اور ہمارے ادارے کہتے ہیں کہ 80 ہزار پاکستانی اس دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔
امریکا کی اس سے پہلے اتنی ذلت ویت نام میں بھی نہیں ہوئی تھی جتنی اب افغانستان میں ہوئی ہے' رات کی تاریکی میں وہ بگرام ایئر بیس چھوڑ کر بھاگے ہیں' جو گاڑی نیٹو فورس کے لوگ رعونت کے طور پر استعمال کرتے تھے' آج اس گاڑی کو طالبان رکشے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں' اس سے زیادہ ان کی ٹیکنالوجی کی تذلیل اور کیا ہوگی کہ امریکا جو پوری دنیا میں گارڈ آف ٹیکنالوجی سمجھا جاتا ہے' ٹیکنالوجی اور سائنس کو اس نے پوری دنیا میں دیوتا بناکر پیش کیا ہے، اس کی ٹیکنالوجی اور خدائی جس طرح افغانستان میں زمین بوس ہوئی ہے ،وہ دنیا نے دیکھا ہے ، امریکا کا سپر پاور ہونے کا غرور جس طرح افغانستان میں خاک میں ملا ہے اس کا ازالہ امریکا کئی برسوں تک نہیں کرسکتا۔
بھارت نے افغانستان میں اپنی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، اس نے سرمایہ کاری امریکا اور نیٹو کے سہارے پرکی تھی' جو غرق ہو رہی ہے۔ یادش بخیر ! طالبان سے پہلے مجاہدین تھے جنھوں نے 25سال تک امریکی جنگ لڑی اس وقت اسامہ بن لادن امریکا کا ہیرو تھا اس جنگ کو مسلم ممالک کا مکمل تعاون حاصل تھا جس میں پاکستان اور عرب ممالک بھی پیش پیش تھے، پھر سوویت یونین ریزہ ریزہ ہوگیا۔ امریکا نے پاکستان اور افغانستان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔
راولپنڈی میں اوجڑی کیمپ پر دھماکا ہوا ۔ اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم محمد خان جونیجو جو افغان وار کے خاتمے پر جینوا کانفرنس میں شریک تھے وہاں سے انھوں نے بیان دیا کہ میں جانتا ہوں یہ دھماکا کس نے کروایا ہے پاکستان آکر بتادوں گا۔ لیکن جب وہ ایئر پورٹ پہنچے تو اس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے ان کی حکومت برطرف کردی ۔ اس کے بعد جنرل ضیاء اپنے رفقاء اور ایک امریکی سفیر کے ہمراہ فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ پھر طالبان آئے جنھوں نے مجاہدین کو شکست دیکر افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی۔
پاکستان نے سب سے پہلے طالبان کی حکومت تسلیم کی ۔ نائن الیون کے واقعہ نے امریکا کو افغانستان کی یاد دلادی اور الزام افغانستان پر ڈالتے ہوئے اقوام متحدہ کے منع کرنے کے باوجود امریکا اور اس کے 36 اتحادی ممالک نے مل کر افغانستان پر حملہ کردیا اور پاکستان سے کہا گیا کہ تم امریکا کے دوست ہو یا کہ دشمن ؟جواب مثبت ملا اور پاکستان امریکی کولیشن کا حصہ بن گیا۔ اس کے بعد ان بیس سالوں میں جوکچھ ہوتا رہا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔
حالات بدلتے رہے ایک ایک کرکے امریکی اتحادی امریکی کولیشن سے نکلنے لگے اور امریکا تنہا ہونے لگا اب اس کے پاس افغانستان سے نکلنے کے سوا دوسرا کوئی چارہ نہ بچا تھا۔ امریکا نے شوشہ چھوڑ دیا کہ اعتدال پسند طالبان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں اس کے لیے بھی پاکستان سہولت کار بنا اور وہ دن آگیا جب دوحہ قطر میں طالبان کا دفتر قائم کردیا گیا جہاں امریکا پہلے ہی سے موجود تھا اور بالاخر دوحہ قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات ہوئے جس کے تحت امریکا کو افغانستان چھوڑنا پڑ رہا ہے۔