کورونا کی چوتھی لہر مضمرات
وقفے وقفے سے کورونا وائرس کی ایک نئی لہر اٹھتی ہے اور ایک نئی قسم دریافت ہوتی ہے اور پوری دنیا میں ہلچل مچ جاتی ہے۔
گزشتہ دو سال سے کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سیاسی ، سماجی ، معاشرتی اور معاشی غرض ہر طرح کی سرگرمیاں معطل ہوکر رہ گئی ہیں۔ عالمی معیشت کو کروڑوں ڈالرکا نقصان ہو چکا ہے۔
وقفے وقفے سے کورونا وائرس کی ایک نئی لہر اٹھتی ہے اور ایک نئی قسم دریافت ہوتی ہے اور پوری دنیا میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ کووڈ 19 کا پہلا کیس دسمبر 2019 میں چین میں سامنے آیا جب کہ پاکستان میں پہلا کیس مارچ 2020 میں رپورٹ ہوا۔ کورونا وائرس کی پہلی لہر اگست 20 تک غالب رہی۔ دوسری لہرکا آغاز اکتوبر میں ہوا جو فروری 2021 تک اپنی شدت دکھاتا رہا پھر تیسری لہر مارچ 21 میں شروع ہوکر جون تک جاری رہی اور اب چوتھی لہر جولائی 21 سے شروع ہونے کے خطرات ظاہرکیے جا رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کی اب تک جو چار اقسام دنیا کے مختلف ملکوں میں دریافت ہو چکی ہیں انھیں یونانی حروف تہجی کے نام سے پکارا جائے گا تاکہ وہ ممالک تحقیر سے محفوظ رہیں جہاں کورونا کی اقسام دریافت ہوئی ہیں۔ برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم کو "B.I.I.7"'الفا' کہا جائے گا۔ اسی طرح برازیلی قسم کو"P.I"'گاما' کہا جائے گا جب کہ بھارت میں دریافت ہونے والی سب سے خطرناک کورونا قسم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یعنی B.I.617.2 کو 'ڈیلٹا' اور B.I.617.1کو 'کیپا' کہا جائے گا۔
کورونا وائرس کی اب تک دریافت ہونے والی چاروں اقسام میں سب سے خطرناک ، خوفناک اور جان لیوا قسم 'ڈیلٹا' بھارت میں پائی گئی جہاں اس قسم نے قیامت صغریٰ برپا کر رکھی ہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ کورونا وائرس کی ''ڈیلٹا'' قسم کا شکار ہو کر موت کی وادی میں جا رہے ہیں، ہندوستان کے اسپتالوں ، قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں میں جگہ کم پڑگئی ہے، لوگ اپنے مردوں کی تدفین کے لیے پریشان گھوم رہے ہیں۔
پوری دنیا میں تباہی پھیلانے والے کورونا وائرس نے ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک تیس لاکھ سے زائد انسانوں کو نگل لیا ہے جب کہ وطن عزیز میں اس ملک وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس سے وفات پانے والوں کی تعداد 22 ہزار سے تجاوزکرچکی ہے جب کہ ملک بھر میں کورونا مریضوں کی تعداد 9 لاکھ سے زائد بتائی جا رہی ہے۔
اسپتالوں، قرنطینہ سینٹروں اور گھروں میں کورونا وائرس کے کل تقریباً 37 ہزار سے زائد مریض زیر علاج ہیں جن میں سے 2 ہزار سے زائد مریضوں کی حالت نہایت تشویش ناک ہے۔ جب کہ 9 لاکھ کے لگ بھگ مریض کورونا وائرس کو شکست دے کر صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کورونا مریضوں کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہے جب کہ ہلاکتوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔
سندھ میں اس وائرس میں مبتلا مریضوں کی تعداد بھی تین لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور اموات 5 ہزار سے زائد ہو چکی ہیں۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں کورونا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے یہاں چار ہزار سے زائد مریض لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ بلوچستان میں کورونا کے 27 ہزار مریض رپورٹ ہوئے ہیں اور 317 افراد اس مرض کے ہاتھوں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 83 ہزار سے زائد مریض کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور 7 سو سے زائد اموات رپورٹ ہوئیں۔ گلگت بلتستان میں 6 ہزار مریض کورونا میں مبتلا ہوئے اور 100 سے زائد جاں بحق ہوئے۔ اسی طرح آزاد جموں کشمیر میں اب تک 21 ہزار سے زائد مریض رپورٹ ہوئے اور 5 سو سے زائد وفات پاچکے ہیں۔
کورونا وائرس سے بچاؤ کا واحد علاج ویکسین کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اب تک چین ، امریکا ، برطانیہ اور روس وغیرہ نے اپنی اپنی ویکسین متعارف کرائی ہیں۔ جن میں اسٹرازینکا، سائنو فام، سائنو ویک، فائزر، موڈیرنا، اسپوٹنک اورکنسینو وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگوں کو بار بار یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس سے زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے 18 سال سے زائد عمر کا ہر فرد لازمی ویکسین لگوائے ، بجا کہ پاکستان کورونا وائرس جیسے موذی مرض سے احسن طریقے سے نمٹنے والے ممالک میں ہانگ کانگ اور نیوزی لینڈ کے بعد تیسرے نمبر پر قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی چوتھی قسم ڈیلٹا وائرس نہایت خطرناک ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان میں کورونا کی چاروں اقسام کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے جس کی شدت میں تیزی سے اضافے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ خطرناک امکانی صورتحال کے پیش نظر این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے خبردار کیا ہے کہ عوام نے اگر احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد نہ کیا اور ویکسین لگوانے سے گریز کیا تو کورونا وائرس کی چوتھی لہر سابقہ تین لہروں سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھی چوتھی لہر کے ممکنہ خطرات کے تناظر میں کہا ہے کہ عوام نے اگر احتیاط نہ کی تو کورونا وائرس کی شدت کو دیکھتے ہوئے حکومت کو دوبارہ لاک ڈاؤن اور سخت فیصلوں کی طرف جانا پڑے گا۔ انھوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر گزشتہ برس کی طرح ایس او پیز کی سختی سے پابندی کریں اور ماسک لازمی پہنیں۔ ان کا موقف ہے کہ کورونا وائرس کی چوتھی لہر سے کامیابی سے نکل گئے تو ملک کو تباہی سے بچا لیں گے۔
این سی او سی نے وائرس کی تازہ لہر کی شدت سے نمٹنے کے لیے نئے احکامات جاری کیے ہیں جن کے مطابق عید پر تفریحی مقامات، سینما گھر، شادی ہال اور جمنازیم جانے والے افراد اور گلگت، آزاد کشمیر اور کے پی کے میں ہوٹل بکنگ کے لیے ویکسی نیشن لازمی قرار دے دی گئی ہے۔ مساجد اور بازاروں میں پہلے سے جاری ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسی طرح ویکسین نہ لگوانے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کورونا وائرس کی چوتھی لہر کی شدت میں اضافہ روکنے اور ڈیلٹا جیسے خطرناک ترین بھارتی وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے تمام افراد جلد ازجلد ویکسین لگوائیں، ماسک پہنیں، سماجی فاصلہ برقرار رکھیں، سینی ٹائزر کے استعمال کو یقینی بنائیں اور مویشی منڈی جاتے وقت ایس او پیز پر سختی سے عمل کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ویکسین کی ہر فرد تک آسان فراہمی کو یقینی بنائے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک کے مختلف سینٹروں پر ویکسین کی کمیابی کا سامنا ہے۔ خاص طور سے بیرون ملک جانے والے حضرات ویکسین کی عدم دستیابی کی شکایت کر رہے ہیں۔ چوتھی لہر کی شدت سے بچنے کے لیے لازمی ہے کہ حکومت ہدایات جاری کرنے کے پہلو بہ پہلو اول ایس او پیز پر عمل درآمد کے ٹھوس اقدامات کرے دوم ویکسین کی فراہمی کو یقین بنائے۔