حضرت لال شہباز قلندرؒ

ایک روایت کے مطابق حضرت لال شہباز قلندر نے 103 یا 113 سال عمر پائی۔

لال شہباز قلندر کے والد نے ان کا نام سید عثمان رکھا لیکن بعد میں انھوں نے لال شہباز قلندر کے نام سے دنیا میں شہرت پائی، آپ کی ولادت آذربائیجان کے گاؤں مروند میں ہوئی ، آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام جعفر صادقؓ سے جا ملتا ہے۔

اس طرح ہندوستان میں خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز اجمیری کی وجہ سے اجمیر کی شناخت حاصل ہوئی۔ اسی طرح سندھ میں سیہون شریف کو حضرت لال شہباز قلندر کی وجہ سے غیر معمولی عظمت حاصل ہوئی۔ اس سرزمین کی بھی بڑی خوش نصیبی ہے کہ عالم اسلام کے مختلف علاقوں سے اللہ تعالیٰ کے مقرب اور برگزیدہ بندے یہاں تشریف لائے اور رشد و ہدایت کے دریا جاری کیے۔

ان بزرگان دین نے اپنے علم و عمل کی روشنی سے نہ صرف سرزمین سندھ کو بلکہ گرد و نواح کو بھی منور کیا۔ سندھ میں ہزاروں بزرگان دین، اولیا اللہ اور صوفیائے کرام کا سلسلہ رشد و ہدایت، فیوض و برکات جاری رہا۔ آذر بائیجان کے چھوٹے سے قصبے مروند میں حضرت کبیرالدین احمد تقویٰ و پرہیزگاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ، حضرت سید محمد کبیر الدین احمد شاہ کی کوئی اولاد نہ تھی آپ کی اہلیہ اس وجہ سے اداس رہتی تھیں۔

73ھ بمطابق 1177 میں سید محمد اکبر الدین احمد کے گھر ایک فرزند کی ولادت ہوئی۔ جس کا نام محمد عثمان رکھا۔ ابتدائی تعلیم ان کی والدہ ماجدہ کی نگرانی میں ہوئی سات برس کی عمر میں کلام پاک حفظ کرلیا۔ شیخ منصور کی نگرانی میں علوم ظاہری کی تکمیل کی فارسی زبان میں کم ہی عرصے میں اپنی مہارت حاصل کرلی۔ ان کی والدہ صاحبہ نے اول عمری میں وفات پائی اور والد کا سایہ بھی والدہ کی وفات کے کچھ عرصے بعد ان کے سر سے اٹھ گیا۔

ظاہری علوم کی تحصیل کے بعد ان کا میلان طریقت و معرفت یعنی روحانی علوم کی طرف ہوا۔ اس ضمن میں آپ نے مروند سے سبزوار کا سفر کیا حضرت لال شہباز قلندر ، حضرت ابراہیم ولی کی خدمت میں رہ کر تحصیل علم میں مشغول ہوگئے۔ حضرت ابراہیم ولی نے حضرت لال شہباز قلندر کی صلاحیتوں کو پرکھ کر چند مشائق و علما کی محفل میں حضرت لال شہباز قلندر کو خلافت کی دستار سے نواز دیا۔

غیبی اشارہ ملنے پر اپنے وطن مروند سے عراق تشریف لے گئے اور وہاں سے فارس (ایران) تشریف لائے۔ حضرت امام رضا سے روحانی و قلبی وابستگی کی وجہ سے آپ کے مزار پر انوار حاضر ہوئے۔ آپ کو باقاعدہ گوشہ نشینی کا حکم ہوا ، آپ خانقاہ رضویہ میں مصروف عبادت رہے اور یہ تسلسل چالیس روز تک جاری رہا۔ آخری ایام میں آپ کو حکم ہوا کہ حج بیت اللہ اور زیارت روضہ رسول کا شرف حاصل کریں۔ روحانی اجازت ملنے کے بعد حجاز مقدس روانہ ہوئے سفر میں عراق پہنچے حضرت عبدالقادر جیلانی کے مزار پر حاضری دی۔

حضرت لال شہباز قلندر نے حجاز تک راستہ میں کئی مقامات مقدسہ کی زیارت کی۔ حج کی ادائیگی کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے گئے آپ گیارہ ماہ مدینہ منورہ میں مقیم رہے۔ غیبی اشارہ ملنے پر آپ سندھ کی طرف روانہ ہوگئے۔ دوران سفر مکران کے ساحل پر پہنچے جب آپ کو وادی پنجگور میں داخل ہوئے تو ایک سرسبز میدان نے آپ کے قدم پکڑ لیے۔ آپ نے یہاں چلہ کشی کی اور اس میدان کو یادگار بنا دیا۔


مقامی لوگوں نے اس مقام پر ایک فقیر کو چلہ کشی کرتے دیکھا تو لوگ امنڈ کر آنے لگے آپ کی عبادت و ریاضت سے متاثر ہو کر ہزاروں مقامی مکرانی و بلوچوں نے اسلام قبول کرلیا اور ان کے مرید ہوگئے، آپ اس دشت کو دشت شہباز بنا کر آگے بڑھ گئے۔ پسنی سے گزر رہے تھے ایک گڈریا آپ کے پیروں میں پڑ گیا۔ پسنی بندرگاہ کے ٹیلے کی دوسری جانب گڈریا لال کا مزار آج تک اس گڈریا کی یاد ہے۔ سندھ میں داخل ہوئے بغیر ملتان پہنچے۔

حضرت بہاؤالدین ذکریا کی روحانی ولایت سے ملتان جلوہ افروز ہوا ہر روز مجالس کا انعقاد ہوتا۔ حضرت لال شہباز قلندر کی حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانی سے پہلی ہی ملاقات میں دنیا تبدیل ہوگئی۔ خانقاہ میں بیٹھتے تو اٹھنا بھول گئے دن و رات صحبتیں رہنے لگیں۔ اسی خانقاہ میں حضرت فرید الدین گنج شکر اور حضرت سرخ بخاری سے ملاقات ہوئی۔ حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانی رشد و ہدایت اسلام کی تبلیغ میں سرگرم تھے۔

حضرت لال شہباز قلندر ، حضرت فرید الدین گنج شکر، سید جلال الدین سرخ بخاری کے ہمراہ تبلیغی دوروں پر روانہ ہوئے یہ چاروں بزرگ کافی عرصہ ایک ساتھ رہے۔ لال شہباز قلندر کی بے پناہ کرامات بھی ظاہر ہوئیں ان سے عوام الناس میں آپ کی بے حد مقبولیت حاصل ہوئی ان ولی اللہ کی تبلیغی کاوشوں نے لوگوں کو بے حد سکون اور اعتماد عطا کیا اور وہ لوگ کثرت سے اسلام قبول کرنے لگے۔

ہندوستان کے مختلف شہروں کی حضرت لال شہباز قلندر سیاحت کرتے ہوئے جوناگڑھ تشریف لائے یہاں بھی آپ کی کرامت پر لوگ بے حد متاثر ہوئے جن میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ دوران سیاحت آپ گرنار اور گجرات بھی تشریف لے گئے اور لوگوں کو توحید اور حقانیت کا درس دیا۔ سیاحت کے دوران آپ نے بو علی شاہ قلندر سے بھی ملاقات کی۔ ان کی ملاقات کے بعد حضرت لال شہباز قلندر نے سوستان (سیہون) جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور سندھ کا رخ کیا۔ 649 ھ میں سندھ تشریف لائے۔

سیہون میں اس وقت ہندو راجہ جینسرجی عرف عام میں راجہ چوپٹ کہلاتا تھا۔ ظلم و تشدد ہر طرف عام تھا، اس راجہ نے ایک مجذوب سکندر بودلہ کو قید خانہ میں ڈلوا دیا۔ راجہ چوپٹ کو سکندر بودلہ کا نعرہ ''میرا مرشد آئے گا'' بہت ناگوار لگتا تھا اس کی کڑک آواز سے خوفزدہ تھے۔شہباز قلندر یہاں کی زبان و ثقافت سے قطعی واقف نہ تھے حالات کا مشاہدہ کرکے کسی ایک جگہ مستقل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ترک کرکے پہلے ارد گرد کے علاقوں میں تبلیغی دوروں کا آغاز کیا۔

آپ نے ٹھٹھہ کے قریب آرائی کے مقام پر ایک مجذوب پیر سے ملاقات کی اور کامرانی کی دعائیں لے کر رخصت ہوئے آپ نے سندھ کے مختلف دیہاتوں میں قیام بھی کیا رکن گاؤں جو حضرت رکن الدین ملتانی کی نسبت سے رکن کہلایا اس گاؤں میں بھی گئے۔ آپ کی چلہ گاہ حیدرآباد کے نزدیک ٹنڈو غلام حسین میں بھی موجود ہے۔ آپ کی ایک کرامت مجذوب سکندر بودلہ کی رہائی کی ہے جو خود بخود رہا ہوگیا لوگ حیران ہوگئے۔

حضرت لال شہباز قلندر چونکہ اکثر لال لباس میں رہتے تھے کیونکہ یہ اہل مروند کا مخصوص لباس ہے ان کی زندگی کے حالات و واقعات کرامات کئی کتب پر محیط ہیں۔ دریا کو کوزے میں سمونے کی کاوش کی ہے۔ آپ ایک معروف شاعر بھی تھے آپ کے کلام میں معرفت، سرکار مدینہ کی مدح سرائی، تصووف عشق حقیقی کے والہانہ اشعار ہیں۔

ایک روایت کے مطابق حضرت لال شہباز قلندر نے 103 یا 113 سال عمر پائی۔ آسمان ولایت کا یہ شہباز سیہون، سندھ کے ایک تاریک علاقے کو نورالسلام سے منور کرنے والا یہ آفتاب 18 شعبان 673ھ بمطابق 1275 میں غروب ہو گیا ۔
Load Next Story