چین، مقدس آم اور پاکستان

کامران امین  ہفتہ 17 جولائی 2021
جلد ہی چین میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ آم مزدوروں سے ماؤ کی محبت کی علامت ہے۔ (فوٹو: فائل)

جلد ہی چین میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ آم مزدوروں سے ماؤ کی محبت کی علامت ہے۔ (فوٹو: فائل)

یہ اگست 1968 کی بات ہے، پاکستانی وزیر خارجہ میاں ارشد محمود چین کے دورے پر روانہ ہونے لگے تو ساتھ آموں کے کریٹ بھی لیتے گئے، جو چیئرمین ماؤ کو تحفتاً پیش کیے گئے۔

اس وقت چین میں ثقافتی انقلاب جاری تھا۔ لوگوں کی معاشی صورت حال بہت خراب تھی۔ اور مزدوروں نے بہت سارے اداروں پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ ماؤ اتنے آموں کا بھلا کیا کرتے، انہوں نے وہ آم چھنگ خواہ یونیورسٹی کا قبضہ چھڑانے کےلیے بھیجے گئے ریڈ گارڈز اور مزدوروں کو دے دیے۔

بتایا جاتا ہے کہ چینیوں نے اس سے پہلے کبھی آم نہیں دیکھے تھے، لہٰذا آم ملنے پر ان کے رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ چونکہ یہ کامریڈ ماؤ کا ایک قیمتی تحفہ ہے، لہٰذا ان میں سے ایک ایک بیجنگ کی تمام فیکٹریوں میں بھیجا جانا چاہیے۔ آم کا تحفہ ملنے کے بعد مزدوروں کی ان فیکٹریوں میں زوردار بحث چھڑ گئی۔ فوجی نمائندے اپنے دونوں ہاتھوں میں آم اٹھائے فیکٹری میں داخل ہوئے۔ اور رہنما بڑی دیر تک سوچتے رہے کہ اس پھل کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔ بحث و مباحثے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے محفوظ کرلیا جائے۔

یہ محفوظ شدہ آم جب باقی فیکٹریوں میں بھیجے گئے تو انہیں انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ وصول کیا گیا۔ بیجنگ کی ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں آم کے استقبال کےلیے بہت بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ شیشے کے بکسے میں بند آم کی جھلک دیکھنے کےلیے مزدور ایک قطار میں اس کے سامنے سے جھکتے ہوئے گزرتے جاتے۔ جب یہ آم خراب ہونا شروع ہوئے تو فیکٹری میں ایک اور شاندار تقریب منعقد کی گئی۔ انقلابی کمیٹی نے آم کا چھلکا اتار کر اسے ایک بڑے برتن میں ابالا۔ فیکٹری میں کام کرنے والے سارے مزدوروں کو اس مقدس پانی کا ایک چمچ پینے کو دیا گیا۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اس کے بعد آم کے مومی مجسمے بنائے گئے جنہیں ہر مزدور کو تحفتاً دیا گیا۔ آم کا ذائقہ تو سب کے نصیب میں نہیں تھا لیکن جلد ہی چین میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ آم مزدوروں سے ماؤ کی محبت کی علامت ہے۔ جلد ہی آم کے برانڈ کے سگریٹ مارکیٹ میں آگئے اور آم کے ڈیزائن کے ساتھ پلیٹیں اور کپ فروخت ہونے لگے۔ یوں چینی آم سے متعارف ہوئے اور آج چین دنیا میں آم پیدا کرنے والا سب سے بڑا دوسرا ملک ہے۔

یہ کہانی اس لیے مجھے یاد آگئی کہ آج پانچ سال بعد ہمارے دوست کی مہربانی سے چین میں پاکستانی آم کھانا نصیب ہوئے۔ میں دفتر میں تھا جب آم موصول ہوئے، کچھ 5 کلو کے قریب۔ اس وقت دفتر میں میرے علاوہ 5 چینی دوست بھی تھے، ہمارے پروفیسر صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ میرا خیال ہے 15 منٹ سے بھی کم وقت میں 5 کلو آم ختم ہوچکے تھے اور ہمارے پروفیسر جو شوگر کی وجہ سے میٹھا کم کھاتے ہیں، وہ بھی جی بھر کر کھا گئے۔ پھر حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ یہ آم کہاں سے آئے؟

تعجب یہ ہے کہ بیجنگ کی مارکیٹوں میں دنیا جہان کا سامان ملتا ہے، لیکن اگر کچھ نہیں ملتا تو وہ پاکستانی سامان ہے۔ باقی چیزوں کا تو پھر بھی گزارا کرلیا جائے لیکن آم کی کمی کیسے پوری ہوسکتی ہے؟ مرزا غالب سے معذرت کہ ساتھ کہ آم میں تین خصوصیات ہونی چاہئیں، میٹھے ہوں، بہت ہوں اور پاکستانی ہوں۔ لیکن مرزا صاحب کی غلطی اس لیے نہیں کہ ان کی زندگی میں پاکستان تھا ہی نہیں۔ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بیجنگ میں پاکستانی آم دستیاب نہیں ہیں؟ ایک مرتبہ یہ انکشاف ہوا کہ بہت ساری یورپی مارکیٹوں میں پاکستانی کھانے پینے کے سامان پر محض اس لیے پابندی ہے کہ وہ حفظان صحت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔ اگر ایسا کچھ یہاں بھی ہے تو کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ مقامی کسانوں کو ان قوانین سے آشنائی اور تربیت دی جائے اور ضروری کارخانے بنا کر دیے جائیں جہاں سے ایسی پیکنگ اور سرٹیفکیشن ہوسکے کہ وہ بھی اپنا مال بین الاقوامی منڈیوں میں پہنچا سکیں۔

اس کے بعد دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیجنگ میں آخر پاکستانی سفارت خانہ کس مرض کی دوا ہے؟ مجھے پانچ سال چین میں ہوگئے ہیں۔ اپنی یونیورسٹی میں، جس کا شمار دنیا بھر میں سائنسی تحقیقی اداروں میں اول نمبر پر ہوتا ہے، بین الاقوامی طلبا کی نمائندگی کا اعزاز بھی رہا۔ مجھے کچھ دوسرے ممالک کے سفارت خانوں سے دوستوں کے طفیل ان کی سرگرمیوں کی دعوتیں ملتی رہیں لیکن آج تک مجھے ایسی کسی ثقافتی سرگرمی کا پتہ نہیں چلا جو پاکستانی سفارت خانے نے پاکستانی مصنوعات کو متعارف کروانے یا پاکستانی ثقافت کو متعارف کروانے کےلیے یہاں بیجنگ میں منعقد کروائی ہو۔ (شنگھائی قونصلیٹ کی البتہ کچھ سرگرمیوں کا علم رہا)۔

بیجنگ کی تقریباً ساری یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی ثقافتی میلے ہوا کرتے تھے، جس میں طالب علم اپنے اپنے ملک کی ثقافت کو متعارف کرواتے ہیں۔ میں نے اپنی یونیورسٹی کی حد تک یہ دیکھا کہ غریب ملکوں کے سفارت خانے بھی اپنے طالب علموں کی مدد کےلیے حاضر ہوتے تھے لیکن ہمارے سفارت خانے کا عملہ یہاں حاضر ہونا تو دور ایک مرتبہ ہم ایسے ہی ایک ثقافتی میلے کےلیے پاکستانی سفارت خانے گئے کہ شاید ہمیں وہاں سے پاکستانی ثقافت کی نمائندہ کچھ اشیا مل سکیں جن کی ہم نمائش کرسکیں۔ سفارت خانے والوں نے تین گھنٹے بٹھا کر دو ہاتھ سے بنے ہوئے بیگ لاکر دیے کہ ہمارے پاس تو بس یہی اشیا ہیں۔ باقی باتیں تو چھوڑیے، لیکن کیا ایسا ممکن نہیں ہوسکتا کہ ہمارے سفارت خانے والے یہاں بیجنگ میں پاکستانی آموں کی نمائش کا اہتمام ہی کردیں۔ پاکستانی چاول یہاں کی مقامی کمیونٹی میں بھی بہت مشہور ہیں اور کم از کم میں نے جس کو بھی پلاؤ یا بریانی کھلائی وہ واپس پلٹ کر لازمی پوچھتا ہے کہ یار تم یہ چاول کہاں سے لاتے ہو۔ اپنے استاد کو ایک مرتبہ خصوصی طور پر پاکستان سے منگوا کر دیے تھے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ مقامی مارکیٹوں میں رنگ برنگے چاول دستیاب ہیں لیکن پاکستانی چاول صرف چند مخصوص جگہوں کے علاوہ عام مارکیٹ سے ملتا ہی نہیں؟ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے سفارت خانے کسی روز بریانی اور پلاؤ کا میلہ لگائیں۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

کامران امین

کامران امین

بلاگر کا تعلق باغ آزاد کشمیر سے ہے اور چین سے میٹیریلز سائنسز میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بیجنگ میں نیشنل سینٹر فار نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، چائنیز اکیڈمی آ ف سائنسز سے بطور اسپیشل ریسرچ ایسوسی ایٹ وابستہ ہیں۔ چین میں تعلیمی زندگی اور تعلیم سے متعلقہ موضوعات پر لکھنے سے دلچسپی ہے۔ ان سے فیس بک آئی ڈی kamin.93اور ٹوئٹر ہینڈل @kamraniat پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔