غم سے کیسے نکلیں
معروف عرب شاعر متنبیّ کہتا ہے: ’’ غم جسم کو توڑ پھوڑ کر لاغر کردیتا ہے اورانسان کو وقت سے پہلے عمر رسیدہ بنا دیتا ہے‘‘
دنیا میں آئے ہر انسان کو بلا تخصیص جنس، طبقہ، نیک و بد قانونِ قدرت کے تحت کسی نہ کسی صورت میں دکھوں، غموں اور پریشانیوں سے ضرور سابقہ پڑتا ہے۔
یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ امتحان میں مشکل اور آسان ہر دو طرح کے سوالات ہوتے ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک کوئی انسان ایسا نہیں گزرا، جو کسی نہ کسی غم میں مبتلا نہ ہوا ہو ۔ عام انسان تو درکنار، کیونکہ ان کی زندگی میں غم کا آ جانا کوئی عجیب بات نہیں ۔
کائنات کے افضل ترین انسان یعنی حضرات انبیائے کرام بھی غموں کے روبرو ہوئے ہیں ۔ غم دراصل انسان کی آزمائش ہے، اس کے ایمان کا امتحان ہے کہ وہ کٹھن وقت میں کس رویے کا مظاہرہ کرتا ہے، غمگین ہو کر ناشکری اور بے صبری دکھاتا ہے یا تکلیف کو صبر اور حوصلے کے ساتھ برداشت کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
غم کا تعلق انسانی جذبات سے ہے۔ آپ اس وقت غمگین اور افسردہ ہوتے ہیں، جب آپ کی زندگی میں کچھ غیر متوقع ہو جاتا ہے، آپ کا کوئی پیارا ایک دم آپ سے جدا ہو جاتا ہے، جدائی کے اس جان لیوا غم سے نکلنے کے لئے بہت ہمت، بہادری اور مضبوط ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔
موت کے ہاتھوں کسی پیارے کو کھو دینے کے بعد آگے بڑھنے کا مطلب دل میں ایک مستقل خسارے کے احساس، گہری رگوں کو چیرتی اداسی اور اندرونی توڑ پھوڑ پر قابو پانا ہے۔ کسی اہم فرد سے محرومی پر، گویا ہم میں سے ہماری ذات کا بڑا حصہ، اس کے ساتھ ہی دفن ہو جاتا ہے۔ پیاروں کو کھونے کے بعد زندگی ویسی نہیں رہتی، جیسی ان کی موجودگی میں ہوا کرتی تھی ۔
اللہ رب العزت کی شان ہے کہ اس نے دنیا کے ہر رشتے یا تعلق کا انجام بالآخر غم رکھا ہے، جو تعلق یا رشتہ جس کے لیے جتنی بڑی خوشی کا سبب ہے، فراق کی صورت میں وہ تعلق اتنا ہی بڑا صدمہ بن جاتا ہے۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں '' اللہ کی مرضی اور ہماری مرضی کے درمیان فرق کا نام' غم ' ہے۔''
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر دنیاوی نعمت ختم ہو جانے والی ہے۔ موت دنیاوی لذتوں اور رشتوں کو ختم کرنے والی ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا ادراک تب تک نہیں ہوتا، جب تک ہم اس کے ہاتھوں اپنا کوئی عزیز رشتہ کھو نہیں بیٹھتے۔ یہ اچانک ادراک ہی ہمیں غم کی اتھاہ وادیوں میں گرا دیتا ہے، جہاں سے باہر آنے کے لئے ہمت اور صبر کی سیڑھیاں چڑھنا لازم ہے۔
اگر آپ غم کی کیفیت سے نکلنے اور راضی برضا ہونے کی کوشش نہیں کرتے تو غم کی قوت آپ کو پاش پاش کر کے، جسم کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہے ۔ طب میں نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر الیکسس کیرل کہتے ہیں : '' وہ لوگ جو غم و اضطراب کا مقابلہ نہیں کر پاتے، ان کی عمر کم ہوتی جاتی ہے۔''
زندگی موت تو اللہ تعالیٰ کی معین و مقرر ہے لیکن جسم کو تلف کرنے اور وجود کو توڑ دینے والے اسباب میں غم بہت اہم ہے۔ عربی زبان کی مشہور کہاوت ہے '' غم میں سے زخم بھی ہرے ہو جاتے ہیں۔'' اعصابی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر جوزف ایف مونٹگیو لکھتے ہیں :'' زخم اس لیے نہیں ہوتا کہ آپ کیا کھا رہے ہیں، بلکہ اس سبب سے ہوتا ہے جو آپ کو کھا رہا ہوتا ہے۔'' معروف عرب شاعر متنبیّ کہتا ہے:'' غم جسم کو توڑ پھوڑ کر لاغر کر دیتا ہے اور انسان کو وقت سے پہلے عمر رسیدہ بنا دیتا ہے۔'' معروف ہیلتھ میگزین '' لائف '' میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق قاتل امراض میں غم کا درجہ بیسواں ہے۔
ڈاکٹر ایڈورڈ بودوسکی کے مطابق :'' غم دل کو متاثر کرتا ہے، بلڈ پریشر میں اضافہ کرتا ہے اور اس سے روماٹیزم ( اعصاب، ہڈیوں اور جوڑوں کے درد کے لیے مستعمل طبی اصطلاح) کے امراض ہو سکتے ہیں۔''
غم ایک حقیقت ہے اور ہم سب کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اس کا سامنا بھی کرنا ہے اور اس کیفیت سے گزرنا بھی ہے۔ غم کے ساتھ کیسے بہادرانہ انداز میں زندگی گزاری جائے اور روح کو چھلنی کرتی اس کیفیت سے کیسے نکلا جائے، معروف عرب مصنف ڈاکٹر عائض القرنی نے اپنی کتاب '' غم نہ کریں'' میں اس حوالے سے بہت عمدہ رہنمائی فراہم کی ہے:
٭ تقدیر کو مانے بغیر چارہ نہیں
تمہیں زمین میں یا تمہارے نفسوں میں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، وہ تمہاری پیدائش سے پہلے ہی ایک ریکارڈ میں درج ہے جو ہمارے ساتھ ہوا، وہ ٹلنے والا نہ تھا، اور جس سے ہم بچ گئے، وہ ہمیں لاحق ہونے والا نہ تھا۔ جب یہ عقیدہ آپ کے دل میں راسخ ہو جائے تو تکلیف عطیہ اور مصیبت انعام بن جائے۔
جو گزرے اسے اچھا سمجھیں، اللہ جس کے ساتھ خیر چاہتا ہے اسے اس میں سے حصہ ملتا ہے، جو بھی آپ کو تکلیف پہنچے، بیماری لاحق ہو، کوئی عزیز رخصت ہو جائے، مالی نقصان ہو جائے تو سمجھ لیں کہ اللہ نے یہی مقدر میں لکھا تھا کیونکہ اختیار سارا اللہ کا ہے، ہاں صبر کرنے پر اجر ملے گا۔ تقدیر پر جب تک ایمان نہیں ہوگا ، آپ کے اعصاب کو سکون نہیں ملے گا ، نفسیاتی الجھن نہ جائے گی اور نہ دل کے وسوسے دور ہوں گے۔ آپ کو اور مجھے اچھا لگے یا برا، جو لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا، فیصلہ الٰہی نافذ ہو گا۔ جو چاہے مان لے جو چاہے نہ مانے۔ ناراضگی، افسردگی اور غم کرنے کی بجائے قضائے الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیجئے۔ اگر آپ نے اسباب سے کام لیا ہو، تدبیریں اپنائی ہوں، پھر بھی وہ کچھ ہو جائے، جس کا اندیشہ تھا تو سمجھ لیں کہ یہی مقدر تھا۔ اللہ کے فیصلے کے سامنے سر جھکانے اور مان لینے میں ہی عافیت اور بھلائی ہے۔
٭ مصیبت زدوں سے حوصلہ پائیے
اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں، آپ کو ہر طرف لوگ غموں اور آزمائشوں میں گِھرے نظر آئیں گے۔ آپ جانیں گے کہ صرف آپ ہی غم زدہ نہیں ہیں، بلکہ دوسروں کے مصائب کے مقابلے میں آپ کی مصیبت اور غم بہت تھوڑا ہے۔
کتنے ہی مریض ہیں، جو سالہا سال سے درد سے بے حال ہیں، بستر پر کروٹ تک بدلنے پر قادر نہیں ہیں، کتنے لوگ جیلوں میں قید ہیں، سالوں سے انہوں نے سورج کی روشنی تک نہیں دیکھی، کتنی مائیں ہیں جن کے جگر کے ٹکڑے نوخیزی اور عنفوانِ شباب میں رخصت ہوئے، کتنے لوگ ہیں جو مقروض ہیں، مصیبت میں ہیں، ان کے ذریعہ تسلی حاصل کریں اور جان لیں کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے، غموں اور آفتوں کی جگہ ہے، یہاں صبح میں بھرے پْرے محل شام ہوتے ہوتے اوندھے منہ گر جاتے ہیں۔ زندگی کے سفر میں توازن برقرار رکھیں، اپنے اردگرد اور پہلے کے لوگوں کے نمونے سامنے رکھیں اور ان کے ساتھ اپنا موازنہ کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ آپ ان کی بہ نسبت بہتر حال میں ہیں جو اللہ نے لے لیا ، اْس پر صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں اور اپنے ماحول کے لوگوں کو دیکھ کر تسلی حاصل کریں۔
٭ نماز سے مدد لیں
جب آپ کو غم گھیرے، تفکرات آپ کا محاصرہ کر لیں تو فوراً نماز کی طرف لپکیے، روح سرشار ہو جائے گی، دل کو اطمینان نصیب ہو گا، نماز فکر و غم اور حزن و ملال کے بادل چھانٹ دے گی۔ نبی کریم ﷺ کو جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو فرماتے :'' اے بلال! ہمیں نماز کے ذریعے راحت پہنچاؤ۔''
بہت سے لوگوں نے اس حوالے سے ذاتی تجربات بیان کئے ہیں کہ جب بھی کوئی غم، پریشانی ہوتی تو وہ نماز کی طرف متوجہ ہوتے، نماز سے ان کے قویٰ لوٹ آتے اور ارادہ و ہمت میں تازگی آ جاتی ( والد محترم کی وفات پر میرا یہ خود آزمودہ ہے، بیرونِ شہر اچانک وفات پر سنت کے مطابق نماز ادا کر کے اللہ رب العزت سے صبر کی دعا کی اور اللہ نے اپنی رحمت خاص سے اتنا حوصلہ عطا فرمایا کہ ان کی تدفین تک کے سارے مراحل میں اعصاب مضبوط کر دئیے)۔ الجھنوں سے نجات اور غموں سے باہر آنے کے لیے نماز کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ آنسو آنکھیں جلا دیں گے، رنج و غم اعصاب کو توڑ دیں گے۔ نماز کے علاوہ کوئی چیز نہیں جو آپ کو فوری سہارا فراہم کر سکے۔
٭ اللہ پر بھروسہ رکھیں
اللہ تعالیٰ نے آپ سے کچھ واپس لے لیا، کچھ ایسا عزیز از جان کہ دل غم سے ریزہ ریزہ ہے، یہ ریزہ ریزہ دل جوڑ بھی وہی سکتا ہے، جس نے آپ کو اس غم سے ہمکنار کیا ہے، خود کو اس رب سے قریب کریں، بالکل اْسی طرح جیسے چھوٹا بچہ تکلیف کے عالم میں ماں سے چمٹ جاتا ہے۔ غم کی حالت میں گلے شکوے اور شکایت پر اْتر آنا آپ کو اللہ سے دور کر دیتا ہے، جو شخص غم میں شکایت زبان پر لے آتا ہے، وہ ایمان کی لذت سے محروم ہو جاتا ہے۔
اللہ پر بھروسہ کرنا، اس کی رحمت پر اعتماد رکھنا، اس کے وعدوں پر یقین رکھنا، اس کے ساتھ حْسنِ ظن رکھنا، اس کے فیصلوں کو مان لینا اور یہ یقین کرنا کہ وہ آسانی پیدا کرے گا، ایمان کے بڑے ثمرات اور مومنین کی بہترین صفات میں سے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے فرمایا :'' ہمیں اللہ کافی ہے جو بہترین کارساز ہے۔'' اور آگ ان کے لیے گلزار بنا دی گئی۔
٭ صبرِ جمیل اختیار کریں
صبر اولوالعزم لوگوں کی صفت ہے اور ایسے لوگ ہی اللہ کے ہاں مقبول ٹھہرتے ہیں۔ یہ لوگ کشادہ ظرفی اور غیرت و خودداری کے ذریعے سے آفات و مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ اگر ہم یا آپ صبر نہ کریں تو کیا کر سکتے ہیں؟ کیا صبر کے علاوہ اور کچھ چارہ ہے؟ کیا اس کے علاوہ اور کوئی زادِ راہ ہے؟ صبر اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا چاہیے، ایسا صبر کہ خلاصی کا یقین ہو، حسن انجام کی توقع ہو اور اجر کی طلب ہو۔
صبر کریں خواہ کیسی ہی شدید مشقتیں لاحق ہوں، چاہے سب راستے تاریک ہو جائیں، چاہے غم کمر توڑ کر رکھ دے ۔ فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ نصف ایمان صبر میں ہے، دل ناقابلِ برداشت صدمے سے چْور ہو، لیکن آپ اللہ کے فیصلے پر راضی ہوں، زبان سے شکوہ شکایت اور واویلا نہ مچائیں، یہی عمدہ صبر ہے۔
٭ غم سے سیکھیں
رنج و الم ہمیشہ ہی برا نہیں ہوتا، بلکہ یہ انسان کو زندگی کے بہت سے ان دیکھے اسباق پڑھا جاتا ہے، والہانہ دعا اور سچی تسبیح دکھ میں گِھر کر ہی دل سے نکلتی ہے۔ جو تکلیف سے گزرتا ہے، وہی نکھرتا ہے۔ جو ٹوٹ کے بکھرتا ہے، وہی موتیوں کی مالا میں پرویا جاتا ہے۔
غم وہ روشنی ہے جو آپ کے تاریک دل کو منور کر دیتی ہے، اسے مالک کے قریب کر دیتی ہے لہٰذا اپنے غم پر گھبرائیں نہیں، یہ آپ کے لیے قوت بن جائے گا اور متاعِ حیات کا کام دے گا ۔ غم دل کو نرمی اور روح کو تڑپ دیتا ہے اور یہ دونوں کیفیات ہی انسان کو کامیابی کی معراج تک پہنچاتی ہیں ۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں:'' غم چھوٹے آدمی کو توڑ دیتا ہے، کیونکہ ایسا انسان غم کے بوجھ سے ٹوٹ جاتا ہے، لیکن اگر غم میںغم دینے والے کا خیال رہے تو پھر انسان بہت بلند ہو جاتا ہے۔''
غم اور خوشی انسانی زندگی کا حصہ ہیں اور ہماری آزمائش کے لیے ہمیں ان سے گزارا جاتا ہے کہ معلوم ہو سکے، ان دو مختلف کیفیات میں ہمارا طرزِ عمل کیا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی غم ہمیں ایمان سے دور نہیں لے کر جا سکتا اور کوئی خوشی ہمارے ایمان میں اضافے کی سند نہیں بن سکتی۔ کسی دانا کا قول ہے '' بیدار کر دینے والا غم، غافل کر دینے والی خوشی سے بہتر ہے۔''
بیداری سے مراد روح کی بیداری ہے اور غفلت سے مراد دل کا اندھیرا ہے۔ روح کی بیداری دانائی اور بینائی ہے اور غفلت کا نتیجہ جہالت اور ظلمت ...... ۔ فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ہے وہ روشنی کا سفر اختیار کرتا ہے یا اندھیرے میں بیٹھ رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ روشنی کے سفر کی قیمت صبر و استقامت اور تسلیم و رضا.... اور اندھیرے میں '' شاد باد'' رہنے کے لئے صرف اپنی مرضی کی زندگی اور خواہشات کی اندھا دھند تکمیل کافی ہے۔
یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ امتحان میں مشکل اور آسان ہر دو طرح کے سوالات ہوتے ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک کوئی انسان ایسا نہیں گزرا، جو کسی نہ کسی غم میں مبتلا نہ ہوا ہو ۔ عام انسان تو درکنار، کیونکہ ان کی زندگی میں غم کا آ جانا کوئی عجیب بات نہیں ۔
کائنات کے افضل ترین انسان یعنی حضرات انبیائے کرام بھی غموں کے روبرو ہوئے ہیں ۔ غم دراصل انسان کی آزمائش ہے، اس کے ایمان کا امتحان ہے کہ وہ کٹھن وقت میں کس رویے کا مظاہرہ کرتا ہے، غمگین ہو کر ناشکری اور بے صبری دکھاتا ہے یا تکلیف کو صبر اور حوصلے کے ساتھ برداشت کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
غم کا تعلق انسانی جذبات سے ہے۔ آپ اس وقت غمگین اور افسردہ ہوتے ہیں، جب آپ کی زندگی میں کچھ غیر متوقع ہو جاتا ہے، آپ کا کوئی پیارا ایک دم آپ سے جدا ہو جاتا ہے، جدائی کے اس جان لیوا غم سے نکلنے کے لئے بہت ہمت، بہادری اور مضبوط ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔
موت کے ہاتھوں کسی پیارے کو کھو دینے کے بعد آگے بڑھنے کا مطلب دل میں ایک مستقل خسارے کے احساس، گہری رگوں کو چیرتی اداسی اور اندرونی توڑ پھوڑ پر قابو پانا ہے۔ کسی اہم فرد سے محرومی پر، گویا ہم میں سے ہماری ذات کا بڑا حصہ، اس کے ساتھ ہی دفن ہو جاتا ہے۔ پیاروں کو کھونے کے بعد زندگی ویسی نہیں رہتی، جیسی ان کی موجودگی میں ہوا کرتی تھی ۔
اللہ رب العزت کی شان ہے کہ اس نے دنیا کے ہر رشتے یا تعلق کا انجام بالآخر غم رکھا ہے، جو تعلق یا رشتہ جس کے لیے جتنی بڑی خوشی کا سبب ہے، فراق کی صورت میں وہ تعلق اتنا ہی بڑا صدمہ بن جاتا ہے۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں '' اللہ کی مرضی اور ہماری مرضی کے درمیان فرق کا نام' غم ' ہے۔''
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر دنیاوی نعمت ختم ہو جانے والی ہے۔ موت دنیاوی لذتوں اور رشتوں کو ختم کرنے والی ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا ادراک تب تک نہیں ہوتا، جب تک ہم اس کے ہاتھوں اپنا کوئی عزیز رشتہ کھو نہیں بیٹھتے۔ یہ اچانک ادراک ہی ہمیں غم کی اتھاہ وادیوں میں گرا دیتا ہے، جہاں سے باہر آنے کے لئے ہمت اور صبر کی سیڑھیاں چڑھنا لازم ہے۔
اگر آپ غم کی کیفیت سے نکلنے اور راضی برضا ہونے کی کوشش نہیں کرتے تو غم کی قوت آپ کو پاش پاش کر کے، جسم کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہے ۔ طب میں نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر الیکسس کیرل کہتے ہیں : '' وہ لوگ جو غم و اضطراب کا مقابلہ نہیں کر پاتے، ان کی عمر کم ہوتی جاتی ہے۔''
زندگی موت تو اللہ تعالیٰ کی معین و مقرر ہے لیکن جسم کو تلف کرنے اور وجود کو توڑ دینے والے اسباب میں غم بہت اہم ہے۔ عربی زبان کی مشہور کہاوت ہے '' غم میں سے زخم بھی ہرے ہو جاتے ہیں۔'' اعصابی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر جوزف ایف مونٹگیو لکھتے ہیں :'' زخم اس لیے نہیں ہوتا کہ آپ کیا کھا رہے ہیں، بلکہ اس سبب سے ہوتا ہے جو آپ کو کھا رہا ہوتا ہے۔'' معروف عرب شاعر متنبیّ کہتا ہے:'' غم جسم کو توڑ پھوڑ کر لاغر کر دیتا ہے اور انسان کو وقت سے پہلے عمر رسیدہ بنا دیتا ہے۔'' معروف ہیلتھ میگزین '' لائف '' میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق قاتل امراض میں غم کا درجہ بیسواں ہے۔
ڈاکٹر ایڈورڈ بودوسکی کے مطابق :'' غم دل کو متاثر کرتا ہے، بلڈ پریشر میں اضافہ کرتا ہے اور اس سے روماٹیزم ( اعصاب، ہڈیوں اور جوڑوں کے درد کے لیے مستعمل طبی اصطلاح) کے امراض ہو سکتے ہیں۔''
غم ایک حقیقت ہے اور ہم سب کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اس کا سامنا بھی کرنا ہے اور اس کیفیت سے گزرنا بھی ہے۔ غم کے ساتھ کیسے بہادرانہ انداز میں زندگی گزاری جائے اور روح کو چھلنی کرتی اس کیفیت سے کیسے نکلا جائے، معروف عرب مصنف ڈاکٹر عائض القرنی نے اپنی کتاب '' غم نہ کریں'' میں اس حوالے سے بہت عمدہ رہنمائی فراہم کی ہے:
٭ تقدیر کو مانے بغیر چارہ نہیں
تمہیں زمین میں یا تمہارے نفسوں میں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، وہ تمہاری پیدائش سے پہلے ہی ایک ریکارڈ میں درج ہے جو ہمارے ساتھ ہوا، وہ ٹلنے والا نہ تھا، اور جس سے ہم بچ گئے، وہ ہمیں لاحق ہونے والا نہ تھا۔ جب یہ عقیدہ آپ کے دل میں راسخ ہو جائے تو تکلیف عطیہ اور مصیبت انعام بن جائے۔
جو گزرے اسے اچھا سمجھیں، اللہ جس کے ساتھ خیر چاہتا ہے اسے اس میں سے حصہ ملتا ہے، جو بھی آپ کو تکلیف پہنچے، بیماری لاحق ہو، کوئی عزیز رخصت ہو جائے، مالی نقصان ہو جائے تو سمجھ لیں کہ اللہ نے یہی مقدر میں لکھا تھا کیونکہ اختیار سارا اللہ کا ہے، ہاں صبر کرنے پر اجر ملے گا۔ تقدیر پر جب تک ایمان نہیں ہوگا ، آپ کے اعصاب کو سکون نہیں ملے گا ، نفسیاتی الجھن نہ جائے گی اور نہ دل کے وسوسے دور ہوں گے۔ آپ کو اور مجھے اچھا لگے یا برا، جو لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا، فیصلہ الٰہی نافذ ہو گا۔ جو چاہے مان لے جو چاہے نہ مانے۔ ناراضگی، افسردگی اور غم کرنے کی بجائے قضائے الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیجئے۔ اگر آپ نے اسباب سے کام لیا ہو، تدبیریں اپنائی ہوں، پھر بھی وہ کچھ ہو جائے، جس کا اندیشہ تھا تو سمجھ لیں کہ یہی مقدر تھا۔ اللہ کے فیصلے کے سامنے سر جھکانے اور مان لینے میں ہی عافیت اور بھلائی ہے۔
٭ مصیبت زدوں سے حوصلہ پائیے
اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں، آپ کو ہر طرف لوگ غموں اور آزمائشوں میں گِھرے نظر آئیں گے۔ آپ جانیں گے کہ صرف آپ ہی غم زدہ نہیں ہیں، بلکہ دوسروں کے مصائب کے مقابلے میں آپ کی مصیبت اور غم بہت تھوڑا ہے۔
کتنے ہی مریض ہیں، جو سالہا سال سے درد سے بے حال ہیں، بستر پر کروٹ تک بدلنے پر قادر نہیں ہیں، کتنے لوگ جیلوں میں قید ہیں، سالوں سے انہوں نے سورج کی روشنی تک نہیں دیکھی، کتنی مائیں ہیں جن کے جگر کے ٹکڑے نوخیزی اور عنفوانِ شباب میں رخصت ہوئے، کتنے لوگ ہیں جو مقروض ہیں، مصیبت میں ہیں، ان کے ذریعہ تسلی حاصل کریں اور جان لیں کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے، غموں اور آفتوں کی جگہ ہے، یہاں صبح میں بھرے پْرے محل شام ہوتے ہوتے اوندھے منہ گر جاتے ہیں۔ زندگی کے سفر میں توازن برقرار رکھیں، اپنے اردگرد اور پہلے کے لوگوں کے نمونے سامنے رکھیں اور ان کے ساتھ اپنا موازنہ کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ آپ ان کی بہ نسبت بہتر حال میں ہیں جو اللہ نے لے لیا ، اْس پر صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں اور اپنے ماحول کے لوگوں کو دیکھ کر تسلی حاصل کریں۔
٭ نماز سے مدد لیں
جب آپ کو غم گھیرے، تفکرات آپ کا محاصرہ کر لیں تو فوراً نماز کی طرف لپکیے، روح سرشار ہو جائے گی، دل کو اطمینان نصیب ہو گا، نماز فکر و غم اور حزن و ملال کے بادل چھانٹ دے گی۔ نبی کریم ﷺ کو جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو فرماتے :'' اے بلال! ہمیں نماز کے ذریعے راحت پہنچاؤ۔''
بہت سے لوگوں نے اس حوالے سے ذاتی تجربات بیان کئے ہیں کہ جب بھی کوئی غم، پریشانی ہوتی تو وہ نماز کی طرف متوجہ ہوتے، نماز سے ان کے قویٰ لوٹ آتے اور ارادہ و ہمت میں تازگی آ جاتی ( والد محترم کی وفات پر میرا یہ خود آزمودہ ہے، بیرونِ شہر اچانک وفات پر سنت کے مطابق نماز ادا کر کے اللہ رب العزت سے صبر کی دعا کی اور اللہ نے اپنی رحمت خاص سے اتنا حوصلہ عطا فرمایا کہ ان کی تدفین تک کے سارے مراحل میں اعصاب مضبوط کر دئیے)۔ الجھنوں سے نجات اور غموں سے باہر آنے کے لیے نماز کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ آنسو آنکھیں جلا دیں گے، رنج و غم اعصاب کو توڑ دیں گے۔ نماز کے علاوہ کوئی چیز نہیں جو آپ کو فوری سہارا فراہم کر سکے۔
٭ اللہ پر بھروسہ رکھیں
اللہ تعالیٰ نے آپ سے کچھ واپس لے لیا، کچھ ایسا عزیز از جان کہ دل غم سے ریزہ ریزہ ہے، یہ ریزہ ریزہ دل جوڑ بھی وہی سکتا ہے، جس نے آپ کو اس غم سے ہمکنار کیا ہے، خود کو اس رب سے قریب کریں، بالکل اْسی طرح جیسے چھوٹا بچہ تکلیف کے عالم میں ماں سے چمٹ جاتا ہے۔ غم کی حالت میں گلے شکوے اور شکایت پر اْتر آنا آپ کو اللہ سے دور کر دیتا ہے، جو شخص غم میں شکایت زبان پر لے آتا ہے، وہ ایمان کی لذت سے محروم ہو جاتا ہے۔
اللہ پر بھروسہ کرنا، اس کی رحمت پر اعتماد رکھنا، اس کے وعدوں پر یقین رکھنا، اس کے ساتھ حْسنِ ظن رکھنا، اس کے فیصلوں کو مان لینا اور یہ یقین کرنا کہ وہ آسانی پیدا کرے گا، ایمان کے بڑے ثمرات اور مومنین کی بہترین صفات میں سے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے فرمایا :'' ہمیں اللہ کافی ہے جو بہترین کارساز ہے۔'' اور آگ ان کے لیے گلزار بنا دی گئی۔
٭ صبرِ جمیل اختیار کریں
صبر اولوالعزم لوگوں کی صفت ہے اور ایسے لوگ ہی اللہ کے ہاں مقبول ٹھہرتے ہیں۔ یہ لوگ کشادہ ظرفی اور غیرت و خودداری کے ذریعے سے آفات و مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ اگر ہم یا آپ صبر نہ کریں تو کیا کر سکتے ہیں؟ کیا صبر کے علاوہ اور کچھ چارہ ہے؟ کیا اس کے علاوہ اور کوئی زادِ راہ ہے؟ صبر اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا چاہیے، ایسا صبر کہ خلاصی کا یقین ہو، حسن انجام کی توقع ہو اور اجر کی طلب ہو۔
صبر کریں خواہ کیسی ہی شدید مشقتیں لاحق ہوں، چاہے سب راستے تاریک ہو جائیں، چاہے غم کمر توڑ کر رکھ دے ۔ فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ نصف ایمان صبر میں ہے، دل ناقابلِ برداشت صدمے سے چْور ہو، لیکن آپ اللہ کے فیصلے پر راضی ہوں، زبان سے شکوہ شکایت اور واویلا نہ مچائیں، یہی عمدہ صبر ہے۔
٭ غم سے سیکھیں
رنج و الم ہمیشہ ہی برا نہیں ہوتا، بلکہ یہ انسان کو زندگی کے بہت سے ان دیکھے اسباق پڑھا جاتا ہے، والہانہ دعا اور سچی تسبیح دکھ میں گِھر کر ہی دل سے نکلتی ہے۔ جو تکلیف سے گزرتا ہے، وہی نکھرتا ہے۔ جو ٹوٹ کے بکھرتا ہے، وہی موتیوں کی مالا میں پرویا جاتا ہے۔
غم وہ روشنی ہے جو آپ کے تاریک دل کو منور کر دیتی ہے، اسے مالک کے قریب کر دیتی ہے لہٰذا اپنے غم پر گھبرائیں نہیں، یہ آپ کے لیے قوت بن جائے گا اور متاعِ حیات کا کام دے گا ۔ غم دل کو نرمی اور روح کو تڑپ دیتا ہے اور یہ دونوں کیفیات ہی انسان کو کامیابی کی معراج تک پہنچاتی ہیں ۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں:'' غم چھوٹے آدمی کو توڑ دیتا ہے، کیونکہ ایسا انسان غم کے بوجھ سے ٹوٹ جاتا ہے، لیکن اگر غم میںغم دینے والے کا خیال رہے تو پھر انسان بہت بلند ہو جاتا ہے۔''
غم اور خوشی انسانی زندگی کا حصہ ہیں اور ہماری آزمائش کے لیے ہمیں ان سے گزارا جاتا ہے کہ معلوم ہو سکے، ان دو مختلف کیفیات میں ہمارا طرزِ عمل کیا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی غم ہمیں ایمان سے دور نہیں لے کر جا سکتا اور کوئی خوشی ہمارے ایمان میں اضافے کی سند نہیں بن سکتی۔ کسی دانا کا قول ہے '' بیدار کر دینے والا غم، غافل کر دینے والی خوشی سے بہتر ہے۔''
بیداری سے مراد روح کی بیداری ہے اور غفلت سے مراد دل کا اندھیرا ہے۔ روح کی بیداری دانائی اور بینائی ہے اور غفلت کا نتیجہ جہالت اور ظلمت ...... ۔ فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ہے وہ روشنی کا سفر اختیار کرتا ہے یا اندھیرے میں بیٹھ رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ روشنی کے سفر کی قیمت صبر و استقامت اور تسلیم و رضا.... اور اندھیرے میں '' شاد باد'' رہنے کے لئے صرف اپنی مرضی کی زندگی اور خواہشات کی اندھا دھند تکمیل کافی ہے۔