نوآموز انگلش ٹیم کے ہاتھوں کلین سوئپ
ون ڈے کرکٹ میں بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنا ضروری ہوگیا؟
پاکستان نے جنوبی افریقہ کیخلاف ون ڈے سیریز میں کامیابی حاصل کی مگر اس دوران سامنے آنے والے مسائل نے خطرے کی گھنٹی بھی بجائی،خوش قسمتی سے ان میچز میں ٹاپ آرڈر میں سے ایک یا دو بیٹسمینوں کی پرفارمنس ایسی ہوتی کی خامیوں پر پردہ پڑ جاتا۔
مڈل آرڈر کو استحکام دینے کیلئے منتخب کئے جانے والے افتخار احمد اور پاور ہٹر کا خلا پر کرنے کے امیدوار آصف علی نے مایوس کیا تو فہیم اشرف بھی آل راؤنڈر کا کردار نبھاتے نظر نہیں آئے، مسلسل انجریز کا شکار رہنے والے شاداب خان پروٹیز کیخلاف دوسرے ون ڈے میں پاؤں کے انگوٹھے پر چوٹ لگنے کی وجہ سے باہر ہوئے مگر ان کی کارکردگی میں بھی تسلسل کا فقدان تھا۔
اگر بابر اعظم، محمد رضوان، فخرزمان اور امام الحق کی چند اچھی اننگز نکال دیں تو باقی ٹیم کی پرفارمنس کلب سطح کی رہی،پیس بیٹری کا رعب و دبدبہ بھی ختم ہوتا دکھائی دیا، رہی سہی کسر ناقص فیلڈنگ نے نکال دی، ٹیم کی سیریز فتح کو غیر ملکی کنڈیشنز میں بڑا کارنامہ قرار دیتے ہوئے تعریفوں کے پل باندھے گئے مگر مسائل جوں کے توں رہے،ابوظبی کی سخت گرمی میں خون، پسینہ ایک کرنے والے کھلاڑیوں کی ٹی ٹوئنٹی میں کارکردگی کو انگلینڈ میں سیریز کی تیاریوں کا حصہ قرار دینے کی غلطی کی گئی۔
7کورونا کیسز سامنے آنے پر پورا انگلش اسکواڈ ہی قرنطینہ میں چلا گیا، نوآموز میزبان کرکٹرز کا بطور متبادل انتخاب ہوا تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر بابر اعظم کو خوش قسمت کپتان قرار دیا گیا کہ جنوبی افریقہ میں میزبان ٹیم آئی پی ایل کی وجہ سے اسٹار پلیئرز سے محروم رہ گئی تھی تو اس بار پورا اسکواڈ ہی تبدیل ہوگیا،مبصرین اور شائقین کو امید تھی کہ انگلش بچوں کو باآسانی زیر کرتے ہوئے پاکستان 1974کے بعد پہلی بار کوئی ون سیریز جیت لے گا۔
پہلا میچ شروع ہوا تو کہانی مختلف نظر آئی،حادثاتی طور پر کپتان بنائے جانے والے بین اسٹوکس نے پہلے بولنگ کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان کو امتحان میں ڈال دیا، ثاقب محمود مہمان ٹیم کیلئے گلین میگرا بن گئے،لیوس گریگوری اور کریگ اوورٹن نے بھی سخت پریشان کیا، میٹ پارکنسن دنیا کے مشکل ترین اسپنر دکھائی دیئے، فخرزمان کے سوا کسی بیٹسمین کو کریز پر قیام طویل کرنے کا موقع نہیں ملا،پوری ٹیم نے ڈیڑھ سو رنز نہ بنائے تو بولرز بھی لائن و لینتھ بھول گئے۔
ہدف معمولی ہونے کے باوجود حسن علی، حارث رؤف،فہیم اشرف اور شاداب خان کی کسی ٹی ٹوئنٹی میچ کی طرح پٹائی ہوئی،خود 35اوورز کھیل پانے والے گرین شرٹس کیخلاف فتح کیلئے انگلینڈ نے صرف 22اوورز صرف کئے، 9وکٹوں سے ناکامی کو انہونی سمجھتے ہوئے شائقین نے آس لگائی کہ نوآموز انگلش پلیئرز کا درست اندازہ نہیں ہوسکا، پاکستان ٹیم کیلئے ایک برا دن تھا،اگلے مقابلوں میں نتیجہ مختلف ہوگا۔
دوسرے ون ڈے میں بولرز نے ابتدائی 2وکٹیں جلد حاصل کرنے کے بعد میزبان بیٹسمینوں کو شراکتیں قائم کرنے کا موقع دیدیا، فل سالٹ، جیمز ونس اور لیوس گریگوری اچھے اسٹرائیک ریٹ سے رنز بناتے ہوئے ٹیم کو مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے،کفایتی بولنگ ہوسکی، نہ ہی تسلسل کے ساتھ وکٹون کا حصول ممکن ہوا،فہیم اشرف اور حارث رؤف زیادہ ہی مہنگے ثابت ہوئے،بہر حال 248رنز کا ہدف بھی ایسا نہ تھا کہ ہاتھ پاؤں پھول جاتے،اس بار بھی ٹاپ اور مڈل آرڈر میں صرف سعود شکیل ہی مزاحمت کرتے نظر آئے،لوئیس گریگوری، ثاقب محمود، کریگ اوورٹن اور میٹ پارکنسن نے انگلش کنڈیشنز میں بیٹسمینوں کی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک آسان فتح کا راستہ بنادیا۔
تیسرے ون ڈے میں بالآخر پاکستانی بیٹنگ لائن خواب غفلت سے جاگی، کپتان بابر اعظم فارم میں واپس آئے،امام الحق اور محمد رضوان نے بھی ساتھ دیا،دیگر بیٹسمین بھی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے تو پاکستان 350سے زائد رنز بناسکتا تھا، بہرحال میچ میں فتح کی ذمہ داری بولرز کے کندھوں پر پڑی تو جیمز ونس اور لوئیس گریگوری پر قابو پانے میں ناکام رہے،حارث رؤف نے 4وکٹیں ضرور حاصل کیں مگر شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی کی طرح پٹائی ان کی بھی خوب ہوئی، شاداب خان ایک بار پھر رنز کا بہاؤ روکنے میں ناکام رہے،فیلڈرز نے بھی بولرز کی پریشانیوں میں خوب اضافہ کیا۔
پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان کی فتح خوش آئند ہے کہ ٹاپ آرڈر میں بابر اعظم اور محمد رضوان نے اچھی بنیاد فراہم کی تو مڈل آرڈر نے بھی رن ریٹ نیچے نہیں آنے دیا، آخری 10اوورز میں 152رنز اس لئے بنے کہ صہیب مقصود، فخرزمان اور محمد حفیظ نے دستیاب گیندوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے رن ریٹ میں مسلسل اضافہ کیا،اس جارحیت اور مثبت سوچ کی ون ڈے سیریز میں کمی نظر آئی۔
اگرچہ انگلینڈ کی جانب سے لیام لیونگ اسٹون نے اپنے ملک کیلئے تیز ترین ففٹی سمیت یادگار اننگز کھیلی مگر دوسرے اینڈ سے انہیں اس طرح کی اسپورٹ حاصل نہیں رہی کہ ٹیم فتح کی منزل تک پہنچ جاتی،شاداب خان مہنگے ترین بولر ثابت ہوئے مگر انہوں نے 3شکار بھی کئے، حارث رؤف کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان رہا،آخری ون ڈے میں ناکام رہنے والے شاہین شاہ آفریدی کی فارم میں واپسی پاکستان کیلئے نیک شگون ہے۔
انگلینڈ کیخلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں گرین شرٹس کا کمبی نیشن کچھ عجیب سا دکھائی دیتا تھا مگر کارآمد ثابت ہوا، شاید ون ڈے کرکٹ میں بھی بابر اعظم اور محمد رضوان سے ہی اننگز کا آغاز کروانا مناسب ہوگا یا کم ازکم ان میں سے کسی کو ایک کو فخرزمان کے ساتھ میدان میں اتارنے کا فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے،بہرحال ایک روزہ کرکٹ میں مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے بڑی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
مڈل آرڈر کو استحکام دینے کیلئے منتخب کئے جانے والے افتخار احمد اور پاور ہٹر کا خلا پر کرنے کے امیدوار آصف علی نے مایوس کیا تو فہیم اشرف بھی آل راؤنڈر کا کردار نبھاتے نظر نہیں آئے، مسلسل انجریز کا شکار رہنے والے شاداب خان پروٹیز کیخلاف دوسرے ون ڈے میں پاؤں کے انگوٹھے پر چوٹ لگنے کی وجہ سے باہر ہوئے مگر ان کی کارکردگی میں بھی تسلسل کا فقدان تھا۔
اگر بابر اعظم، محمد رضوان، فخرزمان اور امام الحق کی چند اچھی اننگز نکال دیں تو باقی ٹیم کی پرفارمنس کلب سطح کی رہی،پیس بیٹری کا رعب و دبدبہ بھی ختم ہوتا دکھائی دیا، رہی سہی کسر ناقص فیلڈنگ نے نکال دی، ٹیم کی سیریز فتح کو غیر ملکی کنڈیشنز میں بڑا کارنامہ قرار دیتے ہوئے تعریفوں کے پل باندھے گئے مگر مسائل جوں کے توں رہے،ابوظبی کی سخت گرمی میں خون، پسینہ ایک کرنے والے کھلاڑیوں کی ٹی ٹوئنٹی میں کارکردگی کو انگلینڈ میں سیریز کی تیاریوں کا حصہ قرار دینے کی غلطی کی گئی۔
7کورونا کیسز سامنے آنے پر پورا انگلش اسکواڈ ہی قرنطینہ میں چلا گیا، نوآموز میزبان کرکٹرز کا بطور متبادل انتخاب ہوا تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر بابر اعظم کو خوش قسمت کپتان قرار دیا گیا کہ جنوبی افریقہ میں میزبان ٹیم آئی پی ایل کی وجہ سے اسٹار پلیئرز سے محروم رہ گئی تھی تو اس بار پورا اسکواڈ ہی تبدیل ہوگیا،مبصرین اور شائقین کو امید تھی کہ انگلش بچوں کو باآسانی زیر کرتے ہوئے پاکستان 1974کے بعد پہلی بار کوئی ون سیریز جیت لے گا۔
پہلا میچ شروع ہوا تو کہانی مختلف نظر آئی،حادثاتی طور پر کپتان بنائے جانے والے بین اسٹوکس نے پہلے بولنگ کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان کو امتحان میں ڈال دیا، ثاقب محمود مہمان ٹیم کیلئے گلین میگرا بن گئے،لیوس گریگوری اور کریگ اوورٹن نے بھی سخت پریشان کیا، میٹ پارکنسن دنیا کے مشکل ترین اسپنر دکھائی دیئے، فخرزمان کے سوا کسی بیٹسمین کو کریز پر قیام طویل کرنے کا موقع نہیں ملا،پوری ٹیم نے ڈیڑھ سو رنز نہ بنائے تو بولرز بھی لائن و لینتھ بھول گئے۔
ہدف معمولی ہونے کے باوجود حسن علی، حارث رؤف،فہیم اشرف اور شاداب خان کی کسی ٹی ٹوئنٹی میچ کی طرح پٹائی ہوئی،خود 35اوورز کھیل پانے والے گرین شرٹس کیخلاف فتح کیلئے انگلینڈ نے صرف 22اوورز صرف کئے، 9وکٹوں سے ناکامی کو انہونی سمجھتے ہوئے شائقین نے آس لگائی کہ نوآموز انگلش پلیئرز کا درست اندازہ نہیں ہوسکا، پاکستان ٹیم کیلئے ایک برا دن تھا،اگلے مقابلوں میں نتیجہ مختلف ہوگا۔
دوسرے ون ڈے میں بولرز نے ابتدائی 2وکٹیں جلد حاصل کرنے کے بعد میزبان بیٹسمینوں کو شراکتیں قائم کرنے کا موقع دیدیا، فل سالٹ، جیمز ونس اور لیوس گریگوری اچھے اسٹرائیک ریٹ سے رنز بناتے ہوئے ٹیم کو مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے،کفایتی بولنگ ہوسکی، نہ ہی تسلسل کے ساتھ وکٹون کا حصول ممکن ہوا،فہیم اشرف اور حارث رؤف زیادہ ہی مہنگے ثابت ہوئے،بہر حال 248رنز کا ہدف بھی ایسا نہ تھا کہ ہاتھ پاؤں پھول جاتے،اس بار بھی ٹاپ اور مڈل آرڈر میں صرف سعود شکیل ہی مزاحمت کرتے نظر آئے،لوئیس گریگوری، ثاقب محمود، کریگ اوورٹن اور میٹ پارکنسن نے انگلش کنڈیشنز میں بیٹسمینوں کی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک آسان فتح کا راستہ بنادیا۔
تیسرے ون ڈے میں بالآخر پاکستانی بیٹنگ لائن خواب غفلت سے جاگی، کپتان بابر اعظم فارم میں واپس آئے،امام الحق اور محمد رضوان نے بھی ساتھ دیا،دیگر بیٹسمین بھی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے تو پاکستان 350سے زائد رنز بناسکتا تھا، بہرحال میچ میں فتح کی ذمہ داری بولرز کے کندھوں پر پڑی تو جیمز ونس اور لوئیس گریگوری پر قابو پانے میں ناکام رہے،حارث رؤف نے 4وکٹیں ضرور حاصل کیں مگر شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی کی طرح پٹائی ان کی بھی خوب ہوئی، شاداب خان ایک بار پھر رنز کا بہاؤ روکنے میں ناکام رہے،فیلڈرز نے بھی بولرز کی پریشانیوں میں خوب اضافہ کیا۔
پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان کی فتح خوش آئند ہے کہ ٹاپ آرڈر میں بابر اعظم اور محمد رضوان نے اچھی بنیاد فراہم کی تو مڈل آرڈر نے بھی رن ریٹ نیچے نہیں آنے دیا، آخری 10اوورز میں 152رنز اس لئے بنے کہ صہیب مقصود، فخرزمان اور محمد حفیظ نے دستیاب گیندوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے رن ریٹ میں مسلسل اضافہ کیا،اس جارحیت اور مثبت سوچ کی ون ڈے سیریز میں کمی نظر آئی۔
اگرچہ انگلینڈ کی جانب سے لیام لیونگ اسٹون نے اپنے ملک کیلئے تیز ترین ففٹی سمیت یادگار اننگز کھیلی مگر دوسرے اینڈ سے انہیں اس طرح کی اسپورٹ حاصل نہیں رہی کہ ٹیم فتح کی منزل تک پہنچ جاتی،شاداب خان مہنگے ترین بولر ثابت ہوئے مگر انہوں نے 3شکار بھی کئے، حارث رؤف کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان رہا،آخری ون ڈے میں ناکام رہنے والے شاہین شاہ آفریدی کی فارم میں واپسی پاکستان کیلئے نیک شگون ہے۔
انگلینڈ کیخلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں گرین شرٹس کا کمبی نیشن کچھ عجیب سا دکھائی دیتا تھا مگر کارآمد ثابت ہوا، شاید ون ڈے کرکٹ میں بھی بابر اعظم اور محمد رضوان سے ہی اننگز کا آغاز کروانا مناسب ہوگا یا کم ازکم ان میں سے کسی کو ایک کو فخرزمان کے ساتھ میدان میں اتارنے کا فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے،بہرحال ایک روزہ کرکٹ میں مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے بڑی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔