موسمی تغیرات سنگین خطرات
دنیا کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ ہے، آبی وسائل سکڑتے جا رہے ہیں۔
گلوبل ولیج کو موسمیاتی، وبائی، اقتصادی اور کورونا کی مختلف اقسام کی وباؤں کے ابھرنے سے احتیاط برتنے کی ہدایات مبارک ہوں۔
ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ ہے، آبی وسائل سکڑتے جا رہے ہیں، لیکن دوسری طرف ہولناک بارشوں نے مغربی یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں غیر معمولی تباہیاں پھیلائی ہیں۔
ایک ملک کے بارے میں میڈیا نے بتایا کہ وہاں ایک ماہ کی بارشیں ایک ہی گھنٹے میں برس گئیں، حقیقت یہ ہے کہ موسمیاتی، غذائی، صحت اور سیاسی و اقتصادی تبدیلیاں بھی نوع انسانی کے لیے خطرات اور تنازعات کا ایک دہشت ناک منظر نامہ ابھارتی ہیں۔
پاکستان کے اطراف سیاسی تناؤ ، جنگ کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پڑوسی ملک مکالمے، مذاکرات، تنازعات، مفاہمانہ کوششوں، اسلحہ کی دوڑ کی تحدید اور خطے میں خانہ جنگی اور دہشتگردی کو روکنے کے لیے کثیر سطحی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں، ایک طرف افغانستان کی کثیر جہتی صورتحال نے عالمی امن کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے، امریکا نے انخلا کا جو اچانک فیصلہ کیا ہے ، دنیا اس کے اثرات و ممکنہ نتائج سے بوکھلا گئی ہے۔
ماہرین سیاست نے اسے بین الاقوامی طور پر چین امریکا، روس، پاکستان، بھارت اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے لیے لمحہ فکریہ قرار دیا ہے، بعض سیاسی مفکرین نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے یہ استدلال پیش کیا ہے کہ عالمی قیادت انسانیت کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں اپنی سیاسی بصیرت سے کام لینے میں ناکام ہوئی ہے، قیام امن کے مقاصد کے حصول میں کوششیں بروئے کار نہیں لائی جاسکیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے عالمی مفکرین اور معاصر سیاسی رہنماؤں کی اجتماعی ناکامی، قوم پرستانہ سوچ، نسلی منافرت پر اظہار افسوس بھی کیا اور ادارہ صحت کے حکام اپنے اس استدلال پر قائم ہیں کہ کورونا کی ابتدا جب کہ وبا سے نمٹنے میں تحقیقی شفافیت کے مطلوبہ معیار کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا، ادارہ نے کورونا کی تفتیش وتحقیق پر مزید زور دیا ہے۔
چنانچہ صحت حکام کا یہ اصرار اس امر کی طرف ایک بلیغ اشارہ ہے کہ ماہرین کورونا کی مختلف اقسام کے ابھارے جانے پر جس تشویش میں مبتلا ہیں ، وہ انسانی صحت کے لیے سنگین خطرہ ہوسکتا ہے، کورونا نے جن خطرات سے عالمی معاشرہ کو ساختیاتی بحران کے ساتھ ساتھ معاشی، ٹیکنالوجیکل ، سائنسی اور پیداواری انحطاط اور بڑے پیمانہ پر بے روزگاری کے مسائل سے صنعت اور انڈسٹریز کی ترقی، پھیلاؤ ، اسٹاک مارکیٹس میں کاروباری سرگرمیوں پر بریک لگا دیے، لاکھوں ہنر مند اپنے روزگار سے محروم ہوگئے۔
ترقی یافتہ ممالک تیسری دنیا کے غریب اور کمزور ملکوں کی مالی امداد سے گریزاں ہیں جب کہ کورونا، خطے کے مخدوش حالات اور جنگ کے شعلوں کے بھڑکنے سے عالمگیر سیاسی سسٹم کو ایک خطرناک کولیٹرل ڈیمیج کا بھی سامنا ہے، دنیا ایک دانشورانہ ، سیاسی اور سفارتی قحط الرجال سے پریشان ہے، کوئی ایسی عالم گیر صلح جو قیادت موجود نہیں جو مختلف متحارب ملکوں میں تنازعات، جھگڑوں اور تصادم اور امن کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں ''ریفری'' کا کردار ادا کرے۔ عالمی فیئر پلے پر اپنا اصولی حکم نافذ کرسکے۔
وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر 3 بنیادی اشیا آٹا، چینی اور گھی مہنگا کرنے کی منظوری دیدی، اجلاس میں آٹے کا تھیلا 150 روپے، چینی 17 روپے اور گھی کی فی کلو قیمتوں میں 90 روپے اضافے کی منظوری دیدی ہے، کمیٹی نے رعایتی نرخ پر گھی کی سہولت ختم کر دی، یوٹیلیٹی اسٹورز پر گھی 170 کے بجائے 260 روپے کلو ملے گا، چینی کی فی کلو قیمت میں17 روپے کا اضافہ کر دیا گیا، چینی 68 روپے کے بجائے 85 روپے کلو دستیاب ہوگی جب کہ 20 کلو آٹے کا تھیلا مزید 150 روپے مہنگا کر دیا گیا،20 کلو آٹا کا تھیلا 800 روپے سے بڑھا کر 950 روپے ملے گا، اجلاس میں ای سی سی نے کامیاب پاکستان پروگرام کی منظوری دے دی ہے۔
ادھر عالمی درجہ حرارت میں گزشتہ ایک دو عشرے سے جو اضافہ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے بارش کے امکانات بھی کم ہوتے جا رہے تھے اور ماہرین موسمیات بیحد پریشان تھے کہ گرمی میں اضافے کے ساتھ بارش کی کمی دنیا کے لیے نت نئے مسائل پیدا کر سکتی ہے مگر اب ناسا نے اپنی اس تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کر کے لوگوں کو بیحد سہارا دیا ہے کہ دنیا میں جلد ہی بہت زیادہ بارشیں ہونگی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ استوائی علاقوں میں بارشیں یقینی طور پر بہت زیادہ ہونگی اور یہ مقدار اتنی زیادہ ہوگی کہ موسمی تغیرات کے جتنے کلیے اب تک سامنے آئے ہیں ان میں سے کسی میں بھی اس کا تجزیہ شامل نہیں ہوگا۔ ان موسمی تغیرات میں استوائی علاقوں کے اوپر گھنے بادلوں کے منڈلانے کا ذکر ضرور ہے مگر ان کے نتیجے میں زور دار بارشیں بھی ہونگی۔ اس کے امکانات پر بہت کم لوگوں نے توجہ دی ہے۔
ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر اس کے اندازے کے مطابق بارشیں ہوئیں تو استوائی علاقوں کا موسم نسبتاً ٹھنڈا ہوجائے گا اور اس کے نتیجے میں استوائی علاقوں میں بارشیں بھی بڑھ جائیں گی۔ کورونا سے متعلق رپورٹ کے مطابق ان کیسز نے صحت کے حکام کو خوفزدہ کر دیا ہے جنھیں یہ پتا چلا ہے کہ لاہور میں پائے جانے والے انفیکشن میں 70 فیصد سے زیادہ ڈیلٹا کے ہیں۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا قسم زیادہ تیزی سے منتقل ہوتی ہے جو اب تک 77 ممالک میں پہنچ چکی ہے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ ویکسین نہ لگوانے والے یا اس کی ایک خوراک حاصل کرنے والے افراد کے لیے یہ سنگین خطرہ ہے۔ محکمہ صحت کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ وائرس، پنجاب میں کووڈ 19 کی آخری تین لہروں کے دوران رپورٹ ہونے والے وائرس سے 100 گنا زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ماہرین صحت نے پنجاب کے محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کی ریفرنس لیب میں چند روز قبل 26 نمونوں کی تشخیص کی۔ انھوں نے کہا کہ ان میں سے 13 ڈیلٹا قسم کے لیے مثبت سامنے آئے جو کووڈ نمونوں کا 50 فیصد ہے، اس کے بعد انھوں نے مزید 22 نمونوں کا بھی ٹیسٹ کیا جن میں سے 14 ڈیلٹا قسم کے نکلے تھے۔
عہدیدار نے بتایا کہ جمعے کو 25 مزید نمونوں میں سے 23 میں ڈیلٹا وائرس کا مثبت نتیجہ آیا جو خطرناک حد تک زیادہ مثبت شرح ظاہر کرتا ہے۔ انھوں نے لاہور میں فوری لاک ڈاؤن کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ماہرین کا خیال ہے کہ انفیکشن کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے آیندہ چند روز میں صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تجارتی مارکیٹوں، تھیٹرز، مزارات اور اس طرح کے دیگر مقامات کے اوقات میں بھی ترمیم کی جانی چاہیے تاکہ عوام کی نقل و حرکت کو محدود رکھا جاسکے۔
عہدیدار نے بتایا کہ زیادہ تر کورونا نمونے لاہور، سیالکوٹ اور چنیوٹ کے سرکاری اسپتالوں میں جانے والے مریضوں سے حاصل کیے گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ 'ہمیں صوبے کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنی چاہیے تاکہ ڈیلٹا قسم کے نئے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے۔
مملکت خدا داد میں صورتحال کا خطے کے تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اطراف تناؤ، کے عجیب وغریب الاؤ اور اقتصادی، جنگی اور تصادم و تشدد اور تباہ کاریوں کے بگولے رقصاں ہیں، ہجرتیں ہونگی، ایسا لگتا ہے کہ دنیا فیصلوں کی متاع ، بصیرت، فکر ، فلسفہ کی نظریاتی سچائیوں اور حق کی تلاش کے سفر میں کہیں بھٹک گئی ہے، ہر ملک ایک دوسرے سے دست وگریباں ہے۔
فکری و سیاسی یکجہتی اور روشن خیالی ، خرد افروزی اور عملیت پسندی کی کوئی آبشار بھی معاشی نظام کے درمیان گرتی نظر نہیں آتی، اسلاموفوبیا، فرقہ وارانہ جتھہ بندیوں، انتہاپسندی اور دہشت و وحشت نے انسانوں کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے، وہ طمانیت، معصومیت، مروت، رحم دلی، انسانی وجمہوری رویوں کی سیاسی نظام میں خون کی طرح گردش کرنے کا جمہوری نظاموں میں کوئی رواج نہیں ملتا، مہنگائی کا موضوع ہماری حکومتوں کے لیے قابل ذکر انسانی واقعہ نہیں۔
سبزیوں، پھلوں، دواؤں اور دیگر پیداواری اشیا کی ناگزیریت ، عوام تک اشیائے ضروریہ کی رسائی معیار حکمرانی کی سند سمجھی جاتی تھی لیکن آج مہنگائی نے عوام سے ان کی ذہنی صلاحیتیں چھین لی ہیں، غربت نے انھیں فکری افلاس میں مبتلا کر دیا ہے ، کوئی بھوکا اور مفلس انسان جمہوری نظام کے لیے دو میٹھے بول بولنے کو تیار نہیں، آزاد کشمیر کے الیکشن میں غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور بے خانمائی کی درد انگیز صورتحال پر سب لب بستہ ہیں، دیومالائی قصے سنائے جاتے ہیں، وہاں معیشت کے استحکام اور ''سب اچھا ہے'' کی گردان سے باہر کوئی نہیں نکلتا۔
ماضی میں ایک انگریزی سیریز yes minister کی یاد آتی ہے ، ہو بہو وہی منظر نامہ ہے، کوئی تبدیلی نہیں آئی، چنانچہ ملک کے سنجیدہ و فہمیدہ عناصر غریب الوطن پاکستانیوں کے حالات پر یہ شگفتہ تبصرہ کرتے ہیں کہ جب کسی شے پر ارباب اختیار کو کوئی کنٹرول ہی نہیں، ہر چیز بس مہنگی ہوتی جاتی ہے، چیزوں کے دام بھی ہر ادارے ، محکمہ نے طے کر رکھے ہیں ، تو پھر اس سالانہ بجٹ کی کیا ضرورت ہے، یہ گناہ بے لذت کس لیے؟
یہ میزانیہ تو حکومت ایک سرکاری اعلامیے کے ذریعہ سے عوام تک پہنچا سکتی ہے، بس حکومت چیزوں کے ریٹ اور دام بتا دے جیساکہ اشیائے خورونوش شماریاتی رپورٹ جاری ہوتی ہے، اللہ اللہ خیر صلا۔ عوام اور حکمراں دونوں کو درد سر سے نجات مل جائے گی۔
غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں
ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ ہے، آبی وسائل سکڑتے جا رہے ہیں، لیکن دوسری طرف ہولناک بارشوں نے مغربی یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں غیر معمولی تباہیاں پھیلائی ہیں۔
ایک ملک کے بارے میں میڈیا نے بتایا کہ وہاں ایک ماہ کی بارشیں ایک ہی گھنٹے میں برس گئیں، حقیقت یہ ہے کہ موسمیاتی، غذائی، صحت اور سیاسی و اقتصادی تبدیلیاں بھی نوع انسانی کے لیے خطرات اور تنازعات کا ایک دہشت ناک منظر نامہ ابھارتی ہیں۔
پاکستان کے اطراف سیاسی تناؤ ، جنگ کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پڑوسی ملک مکالمے، مذاکرات، تنازعات، مفاہمانہ کوششوں، اسلحہ کی دوڑ کی تحدید اور خطے میں خانہ جنگی اور دہشتگردی کو روکنے کے لیے کثیر سطحی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں، ایک طرف افغانستان کی کثیر جہتی صورتحال نے عالمی امن کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے، امریکا نے انخلا کا جو اچانک فیصلہ کیا ہے ، دنیا اس کے اثرات و ممکنہ نتائج سے بوکھلا گئی ہے۔
ماہرین سیاست نے اسے بین الاقوامی طور پر چین امریکا، روس، پاکستان، بھارت اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے لیے لمحہ فکریہ قرار دیا ہے، بعض سیاسی مفکرین نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے یہ استدلال پیش کیا ہے کہ عالمی قیادت انسانیت کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں اپنی سیاسی بصیرت سے کام لینے میں ناکام ہوئی ہے، قیام امن کے مقاصد کے حصول میں کوششیں بروئے کار نہیں لائی جاسکیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے عالمی مفکرین اور معاصر سیاسی رہنماؤں کی اجتماعی ناکامی، قوم پرستانہ سوچ، نسلی منافرت پر اظہار افسوس بھی کیا اور ادارہ صحت کے حکام اپنے اس استدلال پر قائم ہیں کہ کورونا کی ابتدا جب کہ وبا سے نمٹنے میں تحقیقی شفافیت کے مطلوبہ معیار کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا، ادارہ نے کورونا کی تفتیش وتحقیق پر مزید زور دیا ہے۔
چنانچہ صحت حکام کا یہ اصرار اس امر کی طرف ایک بلیغ اشارہ ہے کہ ماہرین کورونا کی مختلف اقسام کے ابھارے جانے پر جس تشویش میں مبتلا ہیں ، وہ انسانی صحت کے لیے سنگین خطرہ ہوسکتا ہے، کورونا نے جن خطرات سے عالمی معاشرہ کو ساختیاتی بحران کے ساتھ ساتھ معاشی، ٹیکنالوجیکل ، سائنسی اور پیداواری انحطاط اور بڑے پیمانہ پر بے روزگاری کے مسائل سے صنعت اور انڈسٹریز کی ترقی، پھیلاؤ ، اسٹاک مارکیٹس میں کاروباری سرگرمیوں پر بریک لگا دیے، لاکھوں ہنر مند اپنے روزگار سے محروم ہوگئے۔
ترقی یافتہ ممالک تیسری دنیا کے غریب اور کمزور ملکوں کی مالی امداد سے گریزاں ہیں جب کہ کورونا، خطے کے مخدوش حالات اور جنگ کے شعلوں کے بھڑکنے سے عالمگیر سیاسی سسٹم کو ایک خطرناک کولیٹرل ڈیمیج کا بھی سامنا ہے، دنیا ایک دانشورانہ ، سیاسی اور سفارتی قحط الرجال سے پریشان ہے، کوئی ایسی عالم گیر صلح جو قیادت موجود نہیں جو مختلف متحارب ملکوں میں تنازعات، جھگڑوں اور تصادم اور امن کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں ''ریفری'' کا کردار ادا کرے۔ عالمی فیئر پلے پر اپنا اصولی حکم نافذ کرسکے۔
وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر 3 بنیادی اشیا آٹا، چینی اور گھی مہنگا کرنے کی منظوری دیدی، اجلاس میں آٹے کا تھیلا 150 روپے، چینی 17 روپے اور گھی کی فی کلو قیمتوں میں 90 روپے اضافے کی منظوری دیدی ہے، کمیٹی نے رعایتی نرخ پر گھی کی سہولت ختم کر دی، یوٹیلیٹی اسٹورز پر گھی 170 کے بجائے 260 روپے کلو ملے گا، چینی کی فی کلو قیمت میں17 روپے کا اضافہ کر دیا گیا، چینی 68 روپے کے بجائے 85 روپے کلو دستیاب ہوگی جب کہ 20 کلو آٹے کا تھیلا مزید 150 روپے مہنگا کر دیا گیا،20 کلو آٹا کا تھیلا 800 روپے سے بڑھا کر 950 روپے ملے گا، اجلاس میں ای سی سی نے کامیاب پاکستان پروگرام کی منظوری دے دی ہے۔
ادھر عالمی درجہ حرارت میں گزشتہ ایک دو عشرے سے جو اضافہ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے بارش کے امکانات بھی کم ہوتے جا رہے تھے اور ماہرین موسمیات بیحد پریشان تھے کہ گرمی میں اضافے کے ساتھ بارش کی کمی دنیا کے لیے نت نئے مسائل پیدا کر سکتی ہے مگر اب ناسا نے اپنی اس تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کر کے لوگوں کو بیحد سہارا دیا ہے کہ دنیا میں جلد ہی بہت زیادہ بارشیں ہونگی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ استوائی علاقوں میں بارشیں یقینی طور پر بہت زیادہ ہونگی اور یہ مقدار اتنی زیادہ ہوگی کہ موسمی تغیرات کے جتنے کلیے اب تک سامنے آئے ہیں ان میں سے کسی میں بھی اس کا تجزیہ شامل نہیں ہوگا۔ ان موسمی تغیرات میں استوائی علاقوں کے اوپر گھنے بادلوں کے منڈلانے کا ذکر ضرور ہے مگر ان کے نتیجے میں زور دار بارشیں بھی ہونگی۔ اس کے امکانات پر بہت کم لوگوں نے توجہ دی ہے۔
ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر اس کے اندازے کے مطابق بارشیں ہوئیں تو استوائی علاقوں کا موسم نسبتاً ٹھنڈا ہوجائے گا اور اس کے نتیجے میں استوائی علاقوں میں بارشیں بھی بڑھ جائیں گی۔ کورونا سے متعلق رپورٹ کے مطابق ان کیسز نے صحت کے حکام کو خوفزدہ کر دیا ہے جنھیں یہ پتا چلا ہے کہ لاہور میں پائے جانے والے انفیکشن میں 70 فیصد سے زیادہ ڈیلٹا کے ہیں۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا قسم زیادہ تیزی سے منتقل ہوتی ہے جو اب تک 77 ممالک میں پہنچ چکی ہے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ ویکسین نہ لگوانے والے یا اس کی ایک خوراک حاصل کرنے والے افراد کے لیے یہ سنگین خطرہ ہے۔ محکمہ صحت کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ وائرس، پنجاب میں کووڈ 19 کی آخری تین لہروں کے دوران رپورٹ ہونے والے وائرس سے 100 گنا زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ماہرین صحت نے پنجاب کے محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کی ریفرنس لیب میں چند روز قبل 26 نمونوں کی تشخیص کی۔ انھوں نے کہا کہ ان میں سے 13 ڈیلٹا قسم کے لیے مثبت سامنے آئے جو کووڈ نمونوں کا 50 فیصد ہے، اس کے بعد انھوں نے مزید 22 نمونوں کا بھی ٹیسٹ کیا جن میں سے 14 ڈیلٹا قسم کے نکلے تھے۔
عہدیدار نے بتایا کہ جمعے کو 25 مزید نمونوں میں سے 23 میں ڈیلٹا وائرس کا مثبت نتیجہ آیا جو خطرناک حد تک زیادہ مثبت شرح ظاہر کرتا ہے۔ انھوں نے لاہور میں فوری لاک ڈاؤن کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ماہرین کا خیال ہے کہ انفیکشن کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے آیندہ چند روز میں صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تجارتی مارکیٹوں، تھیٹرز، مزارات اور اس طرح کے دیگر مقامات کے اوقات میں بھی ترمیم کی جانی چاہیے تاکہ عوام کی نقل و حرکت کو محدود رکھا جاسکے۔
عہدیدار نے بتایا کہ زیادہ تر کورونا نمونے لاہور، سیالکوٹ اور چنیوٹ کے سرکاری اسپتالوں میں جانے والے مریضوں سے حاصل کیے گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ 'ہمیں صوبے کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنی چاہیے تاکہ ڈیلٹا قسم کے نئے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے۔
مملکت خدا داد میں صورتحال کا خطے کے تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اطراف تناؤ، کے عجیب وغریب الاؤ اور اقتصادی، جنگی اور تصادم و تشدد اور تباہ کاریوں کے بگولے رقصاں ہیں، ہجرتیں ہونگی، ایسا لگتا ہے کہ دنیا فیصلوں کی متاع ، بصیرت، فکر ، فلسفہ کی نظریاتی سچائیوں اور حق کی تلاش کے سفر میں کہیں بھٹک گئی ہے، ہر ملک ایک دوسرے سے دست وگریباں ہے۔
فکری و سیاسی یکجہتی اور روشن خیالی ، خرد افروزی اور عملیت پسندی کی کوئی آبشار بھی معاشی نظام کے درمیان گرتی نظر نہیں آتی، اسلاموفوبیا، فرقہ وارانہ جتھہ بندیوں، انتہاپسندی اور دہشت و وحشت نے انسانوں کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے، وہ طمانیت، معصومیت، مروت، رحم دلی، انسانی وجمہوری رویوں کی سیاسی نظام میں خون کی طرح گردش کرنے کا جمہوری نظاموں میں کوئی رواج نہیں ملتا، مہنگائی کا موضوع ہماری حکومتوں کے لیے قابل ذکر انسانی واقعہ نہیں۔
سبزیوں، پھلوں، دواؤں اور دیگر پیداواری اشیا کی ناگزیریت ، عوام تک اشیائے ضروریہ کی رسائی معیار حکمرانی کی سند سمجھی جاتی تھی لیکن آج مہنگائی نے عوام سے ان کی ذہنی صلاحیتیں چھین لی ہیں، غربت نے انھیں فکری افلاس میں مبتلا کر دیا ہے ، کوئی بھوکا اور مفلس انسان جمہوری نظام کے لیے دو میٹھے بول بولنے کو تیار نہیں، آزاد کشمیر کے الیکشن میں غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور بے خانمائی کی درد انگیز صورتحال پر سب لب بستہ ہیں، دیومالائی قصے سنائے جاتے ہیں، وہاں معیشت کے استحکام اور ''سب اچھا ہے'' کی گردان سے باہر کوئی نہیں نکلتا۔
ماضی میں ایک انگریزی سیریز yes minister کی یاد آتی ہے ، ہو بہو وہی منظر نامہ ہے، کوئی تبدیلی نہیں آئی، چنانچہ ملک کے سنجیدہ و فہمیدہ عناصر غریب الوطن پاکستانیوں کے حالات پر یہ شگفتہ تبصرہ کرتے ہیں کہ جب کسی شے پر ارباب اختیار کو کوئی کنٹرول ہی نہیں، ہر چیز بس مہنگی ہوتی جاتی ہے، چیزوں کے دام بھی ہر ادارے ، محکمہ نے طے کر رکھے ہیں ، تو پھر اس سالانہ بجٹ کی کیا ضرورت ہے، یہ گناہ بے لذت کس لیے؟
یہ میزانیہ تو حکومت ایک سرکاری اعلامیے کے ذریعہ سے عوام تک پہنچا سکتی ہے، بس حکومت چیزوں کے ریٹ اور دام بتا دے جیساکہ اشیائے خورونوش شماریاتی رپورٹ جاری ہوتی ہے، اللہ اللہ خیر صلا۔ عوام اور حکمراں دونوں کو درد سر سے نجات مل جائے گی۔
غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں