وہ دیکھو شہر بھاگ رہے ہیں
اصل میں ہم اپنے مسائل کے خود ہی ماں باپ ہوتے ہیں اور مسائل ہمارے اپنے بچے ہوتے ہیں جنھیں ہم نے خود جنم دیا ہوتا ہے۔
آج سے پہلے،آپ نے بھاگتے ہوئے چور دیکھے ہونگے ،بھاگتے مظلوم دیکھے ہونگے، بھاگتے بے بس دیکھے ہونگے، اب آپ بھاگتے شہر دیکھ رہے ہیں۔
چوروں ، لٹیروں ، بھتہ خوروں ، کمیشن ایجنٹوں،منافع خوروں، انتہا پسندوں اور جاہلوں سے بھاگتے شہر، بد امنی ، نفسا نفسی ، شور شرابے ، مہنگائی ، بے روزگاری سے بھاگتے شہر ، امن ، سکون ، چین ، خوشحالی کی تلاش میں بھاگتے شہر اور ان کے پیچھے لاکھوں ہانپتے کانپتے بھاگتے شہری اور ان کا تعاقب اور پیچھا کرتے ،چوروں، لٹیروں ، انتہاپسندوں ، جاہلوں کے غول کے غول اور ان سب کے پیچھے بالکل آخر میں رینگتی لڑکھراتی شرافت ، دیانت داری ، ایمانداری ، روشن خیالی ، و فا، خلوص ، تہذیب وتمدن جس سے صحیح طریقے سے چلا بھی نہیں جارہا ہے۔
باہر بیٹھے کوئی صاحب اگر پاکستان میں جھانکیں تو انھیں یہ منظر دیکھنے کو نصیب ہوگا معاف کیجیے گا ایک بات تو بتانا ہی بھول گیا تھا کہ بھاگتے شہریوں کے ہاتھوں اور کاندھوں پر ماضی کی شان و شوکت ، آن و بان کے قصے اور ماضی کی جھوٹی سچی کہانیوں کے گٹھرکے گٹھر بھی ہیں ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آیا یہ منظر ہمارے نصیب میں لکھا ہوا تھا کیا یہ منظر ہماری کہانی کے اسکرپٹ میں پہلے ہی سے شامل تھا یا پھر ہم نے اسے زورو زبردستی سے شامل کروایا ہے اور ہم اس منظر کو اپنی کہانی میں شامل کر نے کے لیے گزشتہ 73سالوں سے انتھک محنت اور جدو جہد کررہے تھے کیا ہماری یہ ہی منزل تھی یا پھر ہم بھٹک کر راستہ بھول کر یہاں تک آگئے ہیں ۔کیا یہ ہمارا پسندیدہ ترین سین ہے یا پھر ڈوارنا ترین ۔
اسی کے ساتھ ہی ساتھ ایک اورسوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ظاہر ہے ان تمام خرابیوں ، برائیوں اور بدیوں نے ایک روز میں تو جنم لیا نہیں ہوگا اور نہ ہی ملک دشمنوں نے یہ سب ایک ہی رات میں ملک میں پھیلا دی ہیں اور نہ ہی برائیاں ، خرابیاں اور بدیاں زمین پھاڑ کر نکل آئی ہیں اور نہ ہی یہ آسمان سے آگری ہیں ۔
ظاہر ہے ان خرابیوں ، برائیوں اور بدیوں کا کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی روز ہمارے سامنے آغاز ہواہوگا اور جب آغاز ہواتھا تو ہم نے اسی روز انھیں کیوں نہ روکا کیوں نہ سوال کیا ۔ کیوں گونگے اور بہرے بنے رہے کیوں خاموشی کے ساتھ دیکھتے رہے۔ سقراط کہتا ہے '' زندگی کے بارے میں سوال اٹھائے بغیر زندگی گذارنا آدمی کے شایان شان نہیں ،کیونکہ آدمی سوال کرنے والی مخلوق ہے ''ہم یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ہم دنیا کی وہ واحد قوم ہیں جو گونگے اور اپاہج پیدا ہوئے ہیں ورنہ جب قرار دادمقاصد منظور ہوئی تھی جس کی وجہ سے ملک میں انتہا پسندی نے زور پکڑا تو ہم نہ بولتے ،ہم نہ چلاتے ،ہم نہ احتجاج کرتے ۔
جب ذہنی اور جسمانی طورپر مفلوج غلام محمد ہم پر حکمرانی کررہا تھا ہم نہ چیختے ،ہم نہ چلاتے ،ہم نہ سوال کرتے ۔ جب ملک کو زہر آلود کیا جا رہا تھا سماج میں تیزاب کا چھڑکائو کررہا تھا جب مذہبی انتہا پسندی کے بیج گلی گلی میں پھینکے جارہے تھے، ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کو جب پھانسی پر چڑھا یا جارہا تھا لوگوں کو ذلیل و رسوا کیا جارہا تھا لوگوں کو کوڑے مارے جارہے تھے ،سولیوں پر چڑھایا جارہا تھا تو ہم نہ چلاتے ،ہم نہ چیختے، ہم نہ سوال کرتے ۔ جب لوگوں کی عزتوں کے بیج اتارے جارہے تھے جب لوگوں کے حقوق تار تار کیے جارہے تھے ۔
جب روشن خیالی کو ننگا کیا جارہا تھا جب قوموں کے حقوق غصب کیے جارہے تھے جب روزبروز مہنگائی کی جارہی تھی جب علم اور تعلیم کو ذلیل و خوار کیا جارہاتھا، ان کی سر عام تذلیل کی جارہی تھی جب عام لوگوں کے حقوق چھینے جارہے تھے لوگوں کو بے بس کیا جارہا تھا تو ہم نہ چیختے ہم نہ چلاتے ہم نہ سوال کرتے ۔ جب گلی گلی فتو ے بک رہے تھے جب اقلیتوں اور خواتین کو رسوا کیاجارہا تھا جب زہر اگلا جارہا تھا تو ہم نے چیختے ہم نہ چلاتے ہم نہ سوال کرتے ۔ ہمارا کردار بنیادی طورپر ہماری عادات کا مر کب ہے۔
ایک کہاوت ہے کہ '' ایک سو چ بوئو اور ایک عمل کاٹو، ایک عمل بو ئو اور ایک عادت کاٹو اور ایک عادت بو ئو اور کردار کاٹو، کردار بوئو اور قسمت کاٹو''۔ جیسے کہ عظیم ماہر تعلیم ہو ریس مان نے ایک مرتبہ کہاتھا '' عادات رسی کی طرح ہوتی ہے روزانہ ہم اس رسی کی ایک لڑی بنتے ہیں اور جلد ہی اسے توڑنا ناممکن ہو جاتاہے '' ۔
سماجی زاویہ نظر پر مبنی سوچ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم محض اپنی تربیت اور ماحول کی پیداوار ہیں اگرہم اپنی زندگیوں پر اپنے حالات کے قوی اثر کو مان لیں اور اس بات کا اقرار کرلیں تو ہم جو کچھ بھی ہیں محض اپنے حالات اور ماحول کا نتیجہ ہیں تو اسی نقطہ نظر سے ایک بہت مختلف قسم کا نقشہ تخلیق پاتا ہے انسان کی فطرت کو دراصل تین قسم کے معاشرتی نقشے تشکیل کرتے ہیں یہ نقشے یا مفروضے اکیلے اکیلے یا پھر مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں پہلا نقشہ یا مفروضہ موروثیت کا ہے جس کیمطابق یہ سب کچھ تمہارے بزرگوں کا کیا دھرا ہے ۔
یہ سب کچھ تمہارے DNAمیں ہے ،یہ نسل در نسل چلتا ہے اورتمہیں ورثے میں ملا ہے چونکہ تم پاکستانی ہو اور چپ اور خاموش رہنا پاکستانیوں کی فطرت کا حصہ ہے ۔دوسرا نقشہ یا مفروضہ نفسیاتی ہے جو بنیادی طورپر ما ں باپ کو قصوروار ٹہراتا ہے، تمہارے میلانات اور کردار کا ڈھانچہ تمہاری پرورش اور بچپن کے تجربات کے عین مطابق ڈھلتا ہے۔تمہارے ماں باپ نے تمہاری تربیت ہی اسی طرح کی ہے، اس لیے کہ تم جب چھوٹے تھے ،کمزور تھے اور ہر طرح تمہارا انحصار اپنے ماں باپ پر تھا تو انھوں نے تمہارے ذہن اور جذبات میں یہ بات گہرے طریقے سے اتاردی اور اب تمہاری یاد داشت میں یہ پتھر کی لکیر کی طرح نقش ہوچکی ہے۔
تیسرا نقشہ یا مفروضہ ماحول کا ہے جو بنیادی طورپر یہ کہتا ہے کہ تمہارے ساتھ جو بھی ہورہاہے اس کے قصور وار تمہاری معاشی صورتحال ہے یا پھر قومی پالیسیاں ہیں اگر ہم اپنی تلاش میں نکلیں اور ان تینوں نقشوں کو سامنے رکھیں تو ہم اپنی توقعات سے زیادہ جلدی اپنے آپ کو تلاش کرلیں گے کیونکہ ہم ان ہی تینوں نقشوں میں کہیں نہ کہیں چھپے ہوئے ہیں ۔
ٹی ۔ ایس۔ ایلیٹ کہتا ہے '' ہمیں کہیں بھی اپنی کھوج روکنی نہیں چاہیے اور اپنی تمام کھوج کے اختتام پر ہم خود کو وہیں پائیں گے جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا اور ہمیں یوں احساس ہو گا جیسے ہم اس جگہ کو پہلی دفعہ جان رہے ہوں '' جب کہ البرٹ آئن اسٹائن کا کہنا ہے کہ '' ہم درپیش اہم مسائل کا حل سو چ کی اسی سطح پر رہ کر نہیں کرسکتے جس پر ہم اس وقت تھے جب ہم نے اپنے ان مسائل کو پیدا کیا تھا ''۔
اصل میں ہم اپنے مسائل کے خود ہی ماں باپ ہوتے ہیں اور مسائل ہمارے اپنے بچے ہوتے ہیں جنھیں ہم نے خود جنم دیا ہوتا ہے اور ہم انھیں پال پوس کر بڑا کرتے ہیں ۔ آج جو مسائل دیو بن کر ہمارے چاروں طرف کھڑے قہقہے لگارہے ہیں ان کے خالق ہم ہی ہیں بس اتنی سی بات اگر ہماری سمجھ میں آجائے کہ خالق جب چاہے اپنی تخلیق کو ختم کرسکتا ہے تو ہمیں اسی روز ان دیوئوں سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
آئیں، بھاگنا بند کریں اسی جگہ پر کھڑے ہوجائیں اور واپس پلٹیں اور جو چور، لٹیرے ، قبضہ خور ، بھتہ خور ، کمیشن ایجنٹ ، انتہاپسند ،جاہل آپ کا تعاقب کررہے ہیں، انھیں للکاریں اور ان کی طرف غصے سے بڑھیں ،پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ سب کس طرح اپنی اپنی جوتیاں چھوڑ کر بھاگتے ہیں۔